تاریخ شائع کریں2015 20 April گھنٹہ 18:59
خبر کا کوڈ : 189305

یمن کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد

سلامتی کونسل کے 15 مستقل اور غیر مستقل اراکین میں سے 14نے اس قرارداد کے حق میں رای دی جبکہ روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
سلامتی کونسل کے 15 مستقل اور غیر مستقل اراکین میں سے 14نے اس قرارداد کے حق میں رای دی جبکہ روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
یمن کے خلاف سلامتی کونسل کی قرارداد
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کل یمن کی صورتحال کا جائزہ لینے کے اجلاس میں اس ملک کے خلاف قرارداد نمبر 2216 کی منظوری دی۔سلامتی کونسل کے 15 مستقل  اور غیر مستقل اراکین میں سے 14نے اس قرارداد کے حق میں رای دی جبکہ روس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

یمن کے خلاف مذکورہ قرارداد کا مسودہ دو ہفتے قبل اردن کی نمائندگی میں خلیج فارس تعاون کونسل کے ذریعے سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا تھا۔ اس قرارداد میں الحوثی گروہ کے سربراہ عبدالمالک الحوثی اور یمن کے سابق ڈکٹیٹر صدر علی عبداللہ صالح کے بیٹے احمد صالح کا نام بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا ہے اور ان افراد پر بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کئے جانے کے ساتھ ساتھ ان کا سرمایہ منجمد کیا گیا ہے ۔اس قرارداد میں تحریک انصاراللہ کو ہتھیاروں کی فراہمی پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس قرارداد کے ذیل میں تحریک انصاراللہ اور عوامی رضاکار فورسز سے کہا گیا ہے کہ وہ دارالحکومت اور سرکاری اداروں سے نکل جائیں۔ جبکہ ایک عبوری حکومت کی تشکیل بھی اس قرارداد میں شامل ہے۔  

خلیج فارس تعاون کونسل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کا جو مسودہ پیش کیا تھا اس میں کہا گیا ہے کہ یمن کے مستعفی ہونے والے  وزیر اعظم خالد بحاح کو اس ملک کے مستعفی ہونے والے صدر منصور ہادی کے معاون کے طور پر منصوب کیا جائے اور 90 روز کے بعد ان کا انتخاب یمن کے صدر کے طور پر کیا جائے۔موصولہ رپورٹوں کے مطابق یمن کی صرف چند جماعتوں نے اس تجویز کی حمایت کی جبکہ یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ نےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر2216 کی مخالفت کرتے ہوئے خلیج فارس تعاون کونسل کی اس تجویز کو یمن کی اندرونی صورتحال میں واضح مداخلت قراردیا۔ انصاراللہ نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ ایک بار پھر یمن کے  سیاسی مستقبل کے حوالے سے ڈکٹیٹ کرے۔

یمن میں 2011 کے عوامی انقلاب کے بعد سعودی عرب اور خلیج فارس تعاون کونسل نے امریکہ کی ملی بھگت سے سلامتی کونسل کے ذریعے سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کے معاون عبد ربہ منصور ہادی کو یمن کا صدر بنایاتھا اور اس قسم کی صورتحال میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب ایک بار پھراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعےتحریک انصاراللہ پر دباو بڑھا کر یمن کے نئے عوامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہے اس لئے کہ سعودی عرب کو انصاراللہ اور حوثی قبائل پسند نہیں ہے اور اسے یہ خوف اور ڈر لاحق ہے کہ کہیں یمن میں انصاراللہ اور حوثیوں کی حکومت نہ بن جائے۔ اسی لئے سعودی عرب سیاسی اور فوجی طریقے سے اس کوشش میں ہے کہ یمن میں انصاراللہ اور حوثی قبائل کو دیوار سے لگا دیا جائے۔ حالیہ دنوں میں یمن پر فوجی یلغارسے سعودی عرب نے دکھا دیا کہ وہ یمن پر فوجی حملے جاری رکھے گا اور کئی روز کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی لابی سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئےموجودہ صورتحال میں اقوام متحدہ کی شق نمبر سات کے ذریعے یمن میں اپنی فوجی مداخلت کیلئے حالات کو سازگار بنانے اور یمن پر اپنی تسلط قائم رکھنے کی کوشش کی۔ یہ ایسا موضوع ہے جس نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیا کہ یہ عالمی ادارہ کس حد تک بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہے خاص طورسے اس لئے بھی کہ یمن کے خلاف پاس ہونے والی قرارداد نمبر 2216 کے بعد اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل نمائندے نے دعوی کیا کہ یہ قرارداد سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے یمن پر فوجی حملے پر مھر تائید ہے۔ ایسا اقدام کہ اگر عملی ہو جائے تو یمن کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے اور اس سے علاقے کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور قطعی طور پر سعودی عرب کو بھی اس سے نقصان پہنچے گا۔
https://taghribnews.com/vdcfx1dytw6dcma.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ