تاریخ شائع کریں2016 1 October گھنٹہ 12:03
خبر کا کوڈ : 246577

شجرہ ملعونہ، آل امیہ سے آل سعود تک

شجرہ ملعونہ، آل امیہ سے آل سعود تک
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے اس سال حج کی مناسبت سے اپنے پیغام میں، جو منی کے عظیم حادثے کی سالگرہ کے موقع پر جاری ہوا، آل سعود کو "شجرہ ملعونہ" کے نام سے یاد کیا۔ تحریر حاضر میں قرآن کریم کی روشنی میں شجرہ ملعونہ کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سورہ اسراء کی آیہ 60 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
وَ ما جَعَلنا الرّؤیاء الَّتی اَرَیناکَ اِلّا فِتنَهً لِلناسِ وَ الشَجَرهَ المَلعونَهَ فی القُرآنِ وَ نُخَوِّفُهُم فما یزیدُهُم اِلّا طُغیاناً کبیراً
ترجمہ: "اور جو خواب ہم نے تمہیں دکھایا اسے لوگوں کیلئے فتنہ قرار دیا اور اسی طرح وہ شجرہ جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں و ان کو اس سے بڑی سرکشی پیدا ہوتی ہے"۔ 

"شجرہ" واحد ہے جس کی جمع کے کئے صیغے موجود ہیں جیسے الشجر، الشجرات اور الاشجار۔ "الشجر" نباتات کے ایسے گروہ پر اطلاق ہوتا ہے جس کا تنا ہوتا ہے۔ چونکہ شجرہ ایسے درخت کو کہا جاتا ہے جو جڑوں پر مشتمل ہوتا ہے لہذا یہ لفظ عربی زبان میں ایک انسانی نسل کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے: " فلانٌ من شجرة مبارکة"، یعنی وہ مبارک نسل سے ہے۔ لیکن موجود آیہ شریفہ میں شجرہ کو ملعونہ جیسی صفت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابلیس، یہود، مشرکین، منافقین، ایسے افراد جو کفر کی حالت میں موت کا شکار ہوتے ہیں، ایسے افراد جو خدا کی جانب سے نازل ہونے والی آیات کو چھپاتے ہیں اور ایسے افراد جو خدا اور رسول خدا (ص) کی ایذا رسانی کرتے ہیں، بھی قرآن میں ملعون قرار پائے ہیں۔ شجرہ کا معنی (جڑ، بنیاد اور نسل) سامنے رکھنے سے یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم میں "شجرہ ملعونہ" سے مراد وہ خاندان ہیں جن پر خدا نے لعنت بھیجی ہے۔ یہ خاندان ایک درخت کی مانند مختلف شاخوں پر مشتمل ہیں اور نشوونما کرنے کے علاوہ پھل بھی دیتے ہیں۔ ان خاندانوں کا پھل درحقیقت وہ فتنہ ہے جس کے ذریعے امت مسلمہ کا امتحان لیا جاتا ہے۔ لہذا شجرہ ملعونہ ولی خصوصیات تین گروہوں یعنی اہل کتاب، مشرکین اور منافقین میں پائی جاتی ہیں۔ 

عصر اسلام میں نہ ہجرت سے پہلے اور نہ ہی ہجرت کے بعد، مشرکین اور اہل کتاب میں کوئی ایسی قوم موجود نہ تھی جس میں مندرجہ بالا خصوصیات پائی جاتی ہوں کیونکہ خداوند متعال نے مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ قرار دیا اور مسلمانوں کو خودمختاری عطا کی۔ جیسا کہ خداوند متعال نے رسول خدا (ص) کی عمر مبارک کے آخری حصے میں فرمایا: " الْیَومَ یَئِسَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِن دِینِکُمْ فَلاَ تَخْشَوهُمْ وَاخْشَون" ترجمہ: "آج کے دن کفار آپ کے دین سے مایوس ہو گئے، پس مجھ سے ڈرو اور ان سے نہ ڈرو"۔ لہذا صرف منافقین کا گروہ باقی بچ جاتا ہے جو ظاہری طور پر اسلام کو قبول کر چکے تھے اور مسلمانوں میں شامل ہو کر فتنہ گری کا راستہ اختیار کر چکے تھے۔ پس سورہ اسراء کی مذکورہ آیہ شریفہ میں "شجرہ ملعونہ" سے مراد منافقین ہیں اور وہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان فتنہ انگیزی کرتے رہتے ہیں اور خداوند متعال ان کے ذریعے امت مسلمہ کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ اس آیہ شریفہ کی تفسیر سے مربوط اہلسنت کی حدیثی کتب میں موجود بہت سی روایات اور اہلبیت اطہار علیھم السلام سے منسوب تمام روایات میں بیان ہوا ہے کہ "رویا" سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ خواب ہے جو آپ (ص) نے بنی امیہ کے بارے میں دیکھا اور شجرہ ملعونہ سے مراد یہی نسل ہے۔ 

نہج البلاغہ میں بنی امیہ کی خصوصیات:
نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کا ایک خطبہ ایسا ہے جو آپ نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں خوارج کے بارے میں دیا ہے۔ امام علی علیہ السلام اس خطبے میں فرماتے ہیں: "میں وہ ہوں جس نے فتنے کی آنکھ پھوڑ ڈالی (خوارج کے فتنے کی جانب اشارہ ہے)۔" خطبے کے درمیان اچانک بنی امیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "خبردار کہ اس سے بھی زیادہ خطرناک فتنہ بنی امیہ کا فتنہ ہے۔ یہ فتنہ انتہائی تاریک اور گمراہ کن ہے"۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 93)۔ 

بنی امیہ کے فتنے کے بارے میں امام علی علیہ السلام نے بہت کچھ فرمایا ہے۔ امام علی علیہ السلام بنی امیہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں اسلامی مساوات مکمل طور پر نابود ہو جائے گی۔ اسلام میں بیان ہوا ہے کہ تمام لوگ ایکدوسرے کے برابر ہیں لیکن بنی امیہ کے دور میں اس چیز کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لوگوں کو ماسٹر اور غلام میں تقسیم کر دیا جائے گا اور آپ عوام عملی طور پر ان کے غلام بن جائیں گے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "بنی امیہ کا آپ سے برتاو ایسا ہو گا جیسا کہ حکمران اپنے غلاموں سے کرتا ہے۔ وہ حکمران ہوں گے اور آپ ان کے غلام بن جائیں گے"۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 93)۔

بنی امیہ سے مربوط فتنے سے متعلق امام علی علیہ السلام کی پیشین گوئیوں میں سے ایک روشن خیال طبقے کا اس فتنے سے متاثر ہونا ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ مصیبت سب کو گھیر لے گی لیکن سب سے زیادہ ایک خاص طبقے کو متاثر کرے گی۔ آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص سوچنے سمجھنے والا ہو گا یعنی روشن خیال ہو گا یہ فتنہ اسے زیادہ متاثر کرے گا۔ کیونکہ وہ نہیں چاہیں گے کوئی سوچنے سمجھنے والا شخص موجود ہو۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بنی امیہ کی حکومتیں سیاسی حالات سے آگاہ اور روشن خیال افراد کو ایسے چن چن کر قتل کرواتی تھیں جیسے مرغی دانے کھاتی ہے۔ اس میدان میں وسیع قتل عام انجام پایا ہے۔ تیسرا اہم نکتہ الہی احکام کی پامالی ہے۔ امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ 98 میں بنی امیہ حکمرانوں کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "لا یدعو لله محرما الا استحلوه و لا عقدا الا حلوه"۔ ترجمہ: "وہ کوئی ایسا حرام فعل باقی نہیں چھوڑیں گے جسے حلال میں تبدیل نہ کر دیا گیا ہو اور اسلام کی کوئی ایسی عقود باقی نہیں چھوڑیں گے جسے باطل نہ کر دیا گیا ہو"۔ (نہج البلاغہ فیض الاسلام، خطبہ 98)۔ بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں امام علی علیہ السلام کی چوتھی پیشین گوئی یہ تھی کہ وہ عمل کے میدان میں اسلام کی مخالفت کریں گے اور عوام کو منحرف کرنے کیلئے اسلام میں تحریف شروع کر دیں گے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "وہ لوگوں کو اسلام کا پیراہن پہنائیں گے تو سہی لیکن الٹا پہنائیں گے"۔ (نہج البلاغہ، خطبہ 108)۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ پیراہن کا مقصد بدن کو گرمی اور سردی سے بچانا ہوتا ہے جبکہ دوسرا مقصد خوبصورت نظر آنا ہوتا ہے لیکن اگر اسے الٹا پہن لیا جائے تو انسان خوبصورت نظر آنے کی بجائے تمسخر آمیز صورت اختیار کر لیتا ہے۔ 

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے اس سال حج کی مناسبت سے اپنے پیغام میں آل سعود میں شجرہ ملعونہ والی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا: "ان کی پروپیگنڈہ مشینری، ان کے سیاست دان جنہوں نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے خلاف ایسا رویہ اختیار کر رکھا ہے جو اسلامی دنیا کیلئے شرم کا باعث ہے، ان کے ایسے غیر متقی اور حرام خوار مفتی جو کھلم کھلا کتاب و سنت کے خلاف فتوے جاری کرتے ہیں اور ان کا میڈیا جسے اس کا پیشہ ورانہ اخلاق بھی جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے سے نہیں روک سکتا، اس سال ایرانی حاجیوں کو حج جیسی عبادت سے محروم ہونے میں خود انہی کو قصوروار ظاہر کرنے کی بیہودہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے شرانگیز حکمران جنہوں نے شرپسند تکفیری گروہوں کو تشکیل دے کر اور ان کی مدد کر کے عالم اسلام کو خانہ جنگی کا شکار کر ڈالا ہے اور بڑی تعداد میں بیگناہ افراد کے قتل کا باعث بنے ہیں اور ان کے ہاتھ یمن، عراق، شام، لیبیا اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو چکے ہیں، درحقیقت خدا سے غافل ایسے سیاستدان ہیں جو اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں اور فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور ان کے دکھ درد سے چشم پوشی اختیار کر چکے ہیں اور اپنے ظلم و ستم اور مجرمانہ اقدامات کا دائرہ بحرین تک پھیلا چکے ہیں۔ یہ ایسے بے دین اور بے ضمیر حکمران ہیں جو گذشتہ سال منی کے عظیم حادثے کا باعث بنے ہیں اور خادمین حرمین شریفین کے نام سے حرم الہی کی سلامتی کو پامال کر رہے ہیں۔ ان حکمرانوں نے عید کے دن منی میں اور اس سے پہلے مسجد الحرام میں خدائے رحمان کے مہمانوں کی جان سے کھیلا اور اب یہ شور مچا رہے ہیں کہ حج کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ یہ حکمران دوسروں پر اس عظیم گناہ کا الزام عائد کر رہے ہیں جو انہوں نے خود انجام دیا ہے۔ وہ اس آیہ شریفہ کا مکمل مصداق ہیں: وَ اِذا تَوَلّىٰ سَعىٰ فِی الاَرضِ لِیُفسِدَ فیها وَ یُهلِکَ الحَرثَ وَ النَّسلَ وَ اللّهُ لا یُحِبُّ الفَساد * وَ اِذا قیلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ اَخَذَتهُ العِزَّةُ بِالاِثمِ فَحَسبُه‌ُ جَهَنَّمُ وَ لَبِئسَ المِهاد۔"

امام خامنہ ای کی اس تحریر میں آل سعود رژیم کی مندرجہ ذیل ایسی خصوصیات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو امام علی علیہ السلام کے مطابق شجرہ ملعونہ کی خصوصیات ہیں:
الف)۔ غیرمتقی اور حرام خوار مفتی جو کھلم کھلا کتاب و سنت کے خلاف فتوے جاری کرتے ہیں۔ یہ درحقیقت وہی بات ہے جو امام علی علیہ السلام نے بنی امیہ کے بارے میں کہی اور فرمایا: وہ عوام کو اسلام کا پیراہن پہنائیں گے تو سہی لیکن الٹا پہنائیں گے۔ 

ب)۔ ایسے شرپسند حکمران جنہوں نے تکفیری گروہوں کو تشکیل دے کر اور ان کی مدد کر کے عالم اسلام کو خانہ جنگی کا شکار کر دیا ہے اور بیگناہ افراد کے قتل کا باعث بنے ہیں۔ یہ عبارت امام علی علیہ السلام کی اس تعبیر سے ملتی جلتی ہے جس میں کہا گیا ہے: خوارج کا فتنہ اس قدر بڑا اور خطرناک نہیں اور اس سے بھی بڑا اور خطرناک فتنہ بنی امیہ کا فتنہ ہے"۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج عالم اسلام کو درپیش عظیم فتنوں میں سے ایک آل سعود کی فاسد رژیم ہے اور یہ فتنہ بنی امیہ اور خوارج کے فتنے سے بھی زیادہ عظیم ہے۔

​تحریر: ڈاکٹر فرزاد جہان بین
https://taghribnews.com/vdca0inu049nym1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ