تاریخ شائع کریں2017 28 May گھنٹہ 12:10
خبر کا کوڈ : 269473

پاکستان میں رواں سال کا مالی بجٹ پیش کردیا گیا

5 ہزار 310 ارب روپے کے بجٹ میں آمدنی کا تخمینہ 4 ہزار 681 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے 5 ہزار 310 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، جس میں آمدنی کا تخمینہ 4 ہزار 681 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
پاکستان میں رواں سال کا مالی بجٹ پیش کردیا گیا
پاکستان کی وفاقی حکومت نے 5 ہزار 310 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا، جس میں آمدنی کا تخمینہ 4 ہزار 681 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ سالانہ ترقیاتی فنڈ کے لیے 1001 ارب، دفاع 920 ارب، تعلیم 133 ارب اور صحت کی مد میں 49 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں وفاقی بجٹ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بجٹ پیش کیا، یہ مسلم لیگ ن حکومت کا پانچواں اور آخری بجٹ ہے۔

اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولﷺ سے ہوا،نعت ختم ہوتے ہی چند ارکان نے بات کرنے کی کوشش کی تاہم اسپیکر نے منع کردیا اور کہا کہ یہ روایت بن جائے گی آج تک ایسا نہ ہوا، درخواست ہے سب بیٹھ جائیں، بجٹ کے بعد بات کریں۔
اپوزیشن ارکان اجلاس میں بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شریک ہوئے، وزیر خزانہ اسحق ڈار کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن ارکان شور مچاتے رہے بعض ارکان نے جوتے اٹھا کر بھی احتجاج کیا۔

اسحق ڈار نے اسپیکر سے درخواست کی کہ محض اپوزیشن لیڈر کو بات کرنے دی جائے وہ چند منٹ بات کریں گے بقیہ دیگر نہیں، ان کے بصد اصرار پر اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو مختصر خطاب کی اجازت دی۔

اسحاق ڈار کا بجٹ خطاب

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب حکومت مسلسل اپنا پانچواں بجٹ پیش کررہی ہے‘ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرنا مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جون 2013 میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، تونائی کا بحران شدید ترین تھا ‘ 18 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی، اسحاق ڈار کا کہناتھا کہ آئندہ سال ملک سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی معاشی اعشارئیے مثبت جارہے ہیں اور 2030 تک پاکستان تیز ترین ترقی کرتے ہوئے جی 20 ممالک میں شامل ہو جائے گا۔

ٹیکس وصولیاں

وزیر خزانہ نے بتایا کہ بجٹ کا کل حجم 5104 ارب روپے جس میں آمدنی کا تخمینہ 4ہزار 681 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4013 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، براہ راست ٹیکس کی مد میں 1595 ارب روپے اور ان ڈائریکٹ بلاواسطہ ٹیکسوں کا ہدف 2418 ارب روپے کرنے کی تجویزپیش کی گئی ہے۔

معاشی کارکردگی کا جائزہ

بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ معاشی ترقی کی رفتار گزشتہ 10 سال میں تیز ترین ہے‘ گزشتہ 4 سال کےدوران ٹیکس محصولات میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔ مالی خسارہ 8فیصد سے کم ہو کر 4.2 فیصد رہ گیا ہے اور فی کس آمدنی 22 فیصد اضافے کے ساتھ 1629 ڈالر ہو گئی ہے۔ مشنیری کی درآمدات میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ زرعی پیداوارمیں3 اعشاریہ 46 فیصد اضافہ ہواہے جبکہ نجی شعبےکوقرضے کی فراہمی میں 5 گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر سے زائد ہوگیا ہے جو کہ تاریخ ساز کامیابی ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر 21ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ اسحاق ڈار نے اعتراف کیا کہ برآمدات میں7.8 فیصد کمی ہوئی برآمد کنندگا ن کے لیے مراعات دی گئی ہیں۔ گزشتہ 4سال میں ٹیکس وصولوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا، اس سال ٹیکس وصولوں کا ہدف 3521 ارب روپے ہے‘ پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہے۔

تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا حکومت نے 10 فیصد ایڈ ہاک ریلیف الاؤنس تنخواہ میں ضم کر دیا ہے جس سے بنیادی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ ہو گا۔ اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا جب کہ گریڈ پانچ تک کے ملازمین کو ہاؤس رینٹ کی کٹوتی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ اسحق ڈار نے کہا کہ تنخواہوں میں اضافے سے مجموعی طور پر 125 ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے، ڈیلی الاؤنس میں اضافے کی شرح 60 فیصد ہے جب کہ پاکستان بحریہ کے الاؤنسز میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ دریں اثنا ایف سی کے جوانوں کو 8 ہزار روپے کا اضافی فکس الاؤنس دیا جائے گا۔

کم از کم اجرت

مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 14 ہزار روپے فکس تھی جس میں حکومت نے صرف ایک ہزار روپے کا اضافہ کیا ہے، کم از کم تنخواہ اب 15 ہزار روپے کردی گئی۔

زراعت

حکومت نے 507 ارب روپے کے نئے زرعی قرضے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ان قرضوں کا ہدف 700 ارب روپے تک رکھا گیا ہے۔ ڈی اے پی کھاد پر فکس سیلز ٹیکس 400 سے کم کرکے 100 روپے کیا جارہا ہے،امونیا کھاد کی بوری 300 روپے سستی کردی گئی، زرعی مشنیری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔

بجلی

بجلی پر حکومت نے 118 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا، 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو دی گئی سبسڈی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پولٹری

پولٹری مشنیری پر ٹیکس 17 سے گھٹا کر 7 فیصد کردیا گیا جب کہ مرغی کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

سگریٹ

حکومت نے ایک بار پھر سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جس میں الیکٹرک سگریٹ بھی شامل ہیں، الیکٹرک سگریٹ کی درآمد پر بیس فیصد ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔

سی پیک

سی پیک منصوبے کے لیے 180 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

سمندر پار پاکستانی

سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے لیےعلیحدہ سیکٹربنانےکااعلان کیا گیا۔

شہدا کے لیے اسکیم

شہداکے خاندانوں کےلئے فلاحی اسکیم متعارف کرانےفیصلہ کیاگیا ہے اورپاکستان بیت المال کےبجٹ کو4ارب سےبڑھاکر6ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 121ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے ذریعے 55 لاکھ خاندانوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔

فاٹا

فاٹا کی ترقی کے لیے 26.9ارب روپے مختص کیے گئے۔

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے 54 ارب روپے رکھے گئے ہیں

گاڑیاں

گاڑیوں کے لیے اعلان کیا گیا کہ 1300 سی سی گاڑیوں پر ٹیکس 30 ہزار سے کم کرکے 25 ہزار روپے کیا جارہا ہے، گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کا اطلاق ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہو گا۔ ٹیکس گزاروں کے لیے گاڑیوں کی رجسٹریشن پرود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی تجویز دی گئی اس مد میں 850 سی سی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس 10 ہزار سے کم کرکے 7500 ارب روپے ، ہزار سی سی گاڑیوں پر ٹیکس کم کر کے 15 ہزار روپے کر دیا گیا۔ الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے 3 ماہ میں پیکج کا اعلان کیا جائے گا جب کہ ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکسوں کی رعایتی شرح برقراررکھی گئی ہے۔

کپڑا

حکومت نے بیرون ملک سے کپڑا منگانے پر 6 فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔

الیکٹرونک اشیا

الیکٹرنک اشیا پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر 1 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

آئی ٹی

ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر میں یکساں شرح سے 9 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ ہوگی جب کہ آئی ٹی سروسز کی ایکسپورٹ پر سیلز ٹیکس معاف کیا جا رہا ہے۔ نئی قائم ہونے والی آئی ٹی کمپنیز کو پہلے 3سال انکم ٹیکس سے چھوٹ دی جائےگی، اسلام آباد اور دیگر وفاقی علاقہ جات سے آئی ٹی سروسز کی برآمد پرسیلز ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔

اسمارٹ فونز اور موبائل فون کالز پر ٹیکس میں کمی

وزیر خزانہ نے موبائل کالز پرود ہولڈنگ ٹیکس 14 سے کم کرکے 12.5 فیصد کرنے کا اعلان کیا، موبائل کالز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 18 اعشاریہ 5 فیصد سے کم کرکے 17 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی۔ اسمارٹ فونز پر کسٹم ڈیوٹی 1ہزار سے کم کر کے 650 کی جا رہی ہے۔

ریلوے

اسحق ڈار نے بتایا کہ پشاور کراچی ریلوے لائن کے لیے چین کے ساتھ ایم او یو پر دستخط ہوگئے ہیں، محکمہ ریلوے کے لیے 42.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔

سیمنٹ

سیمنٹ پر ڈیوٹی ایک روپیہ فی کلو گرام سے بڑھا کر 1.25 روپے فی کلو کردی گئی۔

بے بی ڈائپرز

حکومت نے بچوں کے ڈائپرز کی مانگ میں اضافے کے پیش نظر انہیں سستا کرنے کا اعلان کیا۔

فش فیڈ

مچھلیوں کی فیڈ پر عائد 20 فیس درآمد ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی۔

پان اور چھالیہ

پان اور چھالیہ پر عائد ٹیکس دس فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا اعلان کردیا گیا

دفاع

بجٹ2017-2018 میں دفاع کے لیے کل920 ارب روپےمختص کیے گئے ہیں جب کہ افواج پاکستان کا ایڈ ہاک الاونس تنخواہ میں ضم کردیا گیا ہے۔

دفاع کےشعبے میں گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

بجٹ2016-2017 میں دفاع کے لیے کل860 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2015-2016 میں دفاع کے لیے کل780 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2014-2015 میں دفاع کے لیےکل700 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2013-2014 میں دفاع کے لیے کل627 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

توانائی

اس بجٹ میں توانائی کے منصوبوں کی مد میں 404 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں

توانائی کےشعبے میں گزشتہ چار برس میں مختص کی جانے والی رقم

بجٹ2016-2017 میں توانائی کے لیے کل130 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2015-2016 میں توانائی کے لیے کل248 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2014-2015 میں توانائی کے لیےکل205 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

بجٹ2013-2014 میں توانائی کے لیے کل225 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

صحت

بجٹ2017-2018 میں صحت کے مد میں 49 ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں جس میں نیشنل ہیلتھ پروگرام کے لیے 10ارب روپے مختص ہوں گے۔

صحت کےشعبے میں گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

بجٹ2016-2017 میں صحت کے لیے کل22.4 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2015-2016 میں صحت کے لیے کل20 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2014-2015 میں صحت کے لیے26.8 ارب کروڑ روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2013-2014 میں صحت کے لیے کل21 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

اعلیٰ تعلیم

رواں بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 35.7 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان کیا گیا

اعلیٰ تعلیم کےشعبے میں گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

بجٹ2016-2017 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کل79.5 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2015-2016 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کل71.5 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2014-2015 میں اعلیٰ تعلیم کے لیےکل63 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2013-2014 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے کل57 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

ترقیاتی منصوبے

بجٹ 2017-2018 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل 1001 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین ترقیاتی بجٹ ہے۔

ترقیاتی منصوبوں کے لیے گزشتہ چارسالوں میں مختص کی جانے والی رقم

بجٹ2016-2017 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل800 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2015-2016 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل700ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔
بجٹ2014-2015 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیےکل525ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

بجٹ2013-2014 میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کل540 ارب روپےمختص کیے گئے تھے۔

اقتصادی جائزہ برائے معاشی سال 2016-2017

وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار گزشتہ روز مالی سال 17-2016 کا اقتصادی جائزہ پیش کیاتھا۔ان کے مطابق رواں مالی سال کی شرح نمو 5.28 فیصد رہی۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ عالمی بینک پاکستان کی غیر جانب دار اسٹڈی کرے گا۔ پاکستان کی شرح نمو 20 فیصد انڈر اسٹیٹ ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار شرح نمو 5.28 فیصد کی سطح پر آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بار پاکستان کی معیشت کا حجم 300 ارب ڈالر رہا۔ جی ڈی پی میں اضافے کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق ملک میں گنے کی پیداوار 73.61 ملین ٹن رہی۔ کاٹن جیننگ کی ترقی 5.59 فیصد رہی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں کا 700 ارب کا ہدف جلد حاصل کر لیا جائے گا۔ زرعی قرضوں کی مد میں 473 ارب روپے جاری کیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ گزشتہ سال 2.5 ارب ڈالر تھا۔ اس سال جاری کھاتوں کا خسارہ 7.25 ارب ڈالر رہا۔ رواں سال کے اختتام تک جاری کھاتوں کا خسارہ 8.15 ارب ڈالر ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 59.3 فیصد ہوگیا ہے۔ زیادہ تر قرضوں کی ادائیگیاں طویل مدت میں کرنی ہے۔ رواں سال ٹیکس ریونیو 13.1 فیصد رہا۔ اس سال مارچ تک بیرونی قرضوں کا حجم 41.9 ارب ڈالر ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوا۔ نقصانات کا حجم تین سال میں 100 ارب روپے سالانہ رہا ہے
https://taghribnews.com/vdca0onue49niy1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ