تاریخ شائع کریں2017 22 July گھنٹہ 13:48
خبر کا کوڈ : 276231
مولانا مفتی محمد اشفاق

نماز تہجد، بےسکونی و بے چینی کا علاج ہے

نمازجمعہ کھارادر جامع مسجد معصوم شاہ بخاری کراچی میں مولانا مفتی محمد اشفاق کا بیان
کراچی کے علاقے کھادار کی جامع مسجد معمصوم شاہ بخاری میں مولانا مفتی محمد اشفاق نے خطبہ جمعہ میں " نماز تہجد کی اہمیت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات" کے حوالے سے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں، جہاں روحیں پاک صاف ہونے آتی ہیں
کراچی کے علاقے کھادار کی جامع مسجد معمصوم شاہ بخاری میں مولانا مفتی محمد اشفاق نے خطبہ جمعہ میں " نماز تہجد کی اہمیت اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات" کے حوالے سے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں، جہاں روحیں پاک صاف ہونے آتی ہیں، آج کے موضوع کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ جس دور میں ہم رہ رہے ہیں، بے چینی اور بے سکونی بڑھتی جارہی ہے، حالانکہ راحت کا سازوسامان بازاروں میں بہت بڑھ گیا ہے، لیکن ہمیں قرار نہیں مل پا رہا، ہم جدید ٹیکنالوجی سے متعارف ہوچکے ہیں، مال و دولت کے ذرائع ہمارے پہاں بہت بڑھ گئے ہیں، لیکن سکون و قرار نہیں، گھروں میں سکون نہیں، لہذا اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ آپ صرف دو رکعت تہجد پڑھیں اور قرار و سکون کے دریا میں غوطہ زن ہوجائیں۔

ہمارے معاشرے کے اکثر افراد ایسے ہیں، جو بے چین زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں قرار و اطمینان نہیں، اس لئے ہماری بے چین روح کو منزل نہیں مل رہی، اسے جو سکون چاہیئے، وہ کہیں نہیں۔ ہماری روح ہمارا جسم حیران و پریشان ہے کہ اب کہاں جاوں، سب کچھ تو خرید لیا، اب کیا کروں، بے قرار و بے چین جوم و جاں کو نور کی کرنیں صرف تہجد سے ملتی ہیں، اسے پڑھنے والا کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوتا، آج کل لوگ ایکسرسائز کرتے ہیں، یوگا کرتے ہیں تاکہ سکون ملے، لیکن خدا کی قسم جو قرار تہجد میں ہے، دنیا میں کہیں نہیں۔ اس وقت رب کعبہ سکون کے دریچوں کو کھولتا ہے، ایسا سکون جو کہیں نہیں ملتا۔

تہجد کا مطلب رات کو نیند کرنے کے بعد بیدار ہونا اور بارگاہ الٰہی میں سربسجود ہونا ہے۔ اسے تہجد کہتے ہیں، اور جو بیدار ہوتے ہیں اللہ کی رضا کے لئے انھیں متہجد کہتے ہیں، یعنی تہجد گزار۔ قران کریم اور احایدت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ تہجد کوئی عام چیز نہیں، تہجد میں ایسی روحانیت اور قرار ہے کہ جو دنیا میں کہیں نہیں، جو تہجد پڑھتے ہیں خود پر ناز کریں، اور جو نہیں پڑھتے اللہ سے تقفیق مانگیں۔

پارہ نمبر پندرہ میں اللہ اپنے محبوب ص سے فرماتا ہے "اور رات کا کچھ حصہ بیدار رہ کر گزارئیے" نبی کریم ص پہلے ساری ساری رات عبادت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ کے پاوں سوجھ جاتے، آپ فرماتے تھے کہ "کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔" آپ تو تھے ہی شاکر، لیکن یہ اصل تعلیم ہمیں دی جارہی تھی، کہ تم جو بھی ہو، تمہیں راتوں کو اٹھ کر قیام کرنا چاہیئے، راتوں کو اٹھ کر قیام کرنا شکر گزار بندوں کی عادت ہے۔

حضور ص فرماتے ہیں کہ " اگر میری امت پر مشقت گراں نہ گزرتی تو تہجد فرض کردی جاتی۔" حضور پاک ص پر تہجد فرض تھی، لیکن امت کے لئے نفل رکھی گئی کہ اگر پڑھو گے تو ثواب عظیم پاو گے۔
اللہ فرماتا ہے کہ "میرے محبوب راتوں کو قیام کرو، تمہیں مقام محمود عطا کروں گا۔"

اللہ تعالٰی نے جب اہنے بندوں کی خصوصیات بیان کرنا چاہیں  تو اللہ نے فرمایا کہ " رحمٰن کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں، عاجزی سے چلتے ہیں۔ جب ان سے جاہل لوگ بات کرتے ہیں تو سلام کرتے ہیں، راتوں کو سجدے کرتے ہیں، سجدوں اور قیام میں راتیں گزار دیتے ہیں۔"

لیکن آج کسی کے پاس چار پیسے آجائیں تو اس میں کیسی اکڑ آجاتی ہے، ہر بندہ اپنی اکڑ  میں ہے، تکبر اور غرور میں مبتلا ہے، سب خاک میں مل جانا ہے، اللہ کے بندوں کی خوبی ہے کہ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں، لیکن آج کے حکمراں ایسے ہیں جنھیں بات کرنے کی تمیز نہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں، بچوں اور نوجوانوں کے اخلاق تباہ ہورہے ہیں، لیکن انھیں کوئی پروا نہیں
 
تہجد کوئی عام چیز نہیں، رات کو وضو کرکے اللہ کے حضور کھڑا ہونا، ہر ایک کے بس کی بات نہیں کہ وہ شیطان کو شکست دے اور نرم بستر چھوڑ کر اللہ سے رازونیاز کرے، یہ توفیق سب کو میسر نہیں۔

پارہ اکیس میں اللہ فرماتا ہے " وہ لوگ جو بستر سے جدا ہوکر کر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہییں، وہ لوگ جن کی کروٹیں بستروں سے الگ ہوجاتی ہیں، پھر وہ اللہ کو صدا دیتے ہیں، اندھیرا چھایا ہوا ہے، لوگ سو رہے ہیں، لیکن یہ لوگ وضو کرکے پاک صاف ہوکر اپنے رب کو صدا دے رہے ہیں، کہ اے اللہ ، اے ہمیں رزق دینے والے، اے اللہ ہمیں عزت و شان عطا کرنے والے، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں، امید ہوتی ہے کہ رات کے پچھلے پہر جھولی پھیلا دی ہے کہ اللہ تیری بارگاہ سے خالی نہیں جاوں گا، یہ لوگ اللہ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ بھی کرتے ہیں۔" اللہ فرماتا ہے کہ ایک چیز ایسی ہے کہ جو چیز آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، ہم لوگ کسی بہت عزیز چیز یا اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک کہتے ہیں، لیکن اللہ کہہ رہا ہے، جو لوگ راتوں کو اٹھ کر سجدے کرتے ہیں، میں نے ان کے لئے ایک چیز ایسی تیار کر کھی ہے، کہ جتنے انسان ہم نے پیدا کئے، جتنے نفس ہیں، وہ اس چیز کو ابھی تک نہیں جان پائے، جب تہجد گزار جنت میں آئیں گے تو انھیں وہ چیز دکھائی جائے گی، کہا جائے گا یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے، اللہ کا کرم بے مثال ہے، اس کی رحمت لازاول ہے، اس کے لئے جو محنت کرے گا، اس کی بارگاہ میں عبادت بجالائے گا، اس نے ایسی نعمت تیار کررکھی ہے جو کوئی نہیں جانتا۔

اللہ پاک قران کریم میں مزید فرماتا ہے، ایسے لوگ جو راتوں میں قیام کرتے ہیں، یہ پرہیزگار جنت کے باغات اور چشموں میں ہیں، اللہ سے نعمتیں وصول کررہے ہیں، انھوں نے جو اچھائی کی تھی وہ ضائع جانے والی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ اس سے پہلے یعنی یہاں آنے سے پہلے دنیا کی زندگی میں محسنین تھے، احسان کرنے والے اور بھلائی کرنے والے تھے، اس لئے یہ لوگ اللہ سے ملسلسل نعمتیں حاصل کرتے جارہے ہیں۔"

یہ لوگ رات کے وقت تھوڑی دیر سویا کرتے تھے، اور جب تہجد کا وقت ہوتا تو یہ اللہ سے بخشش مانگا کرتے تھے، اللہ کو منایا کرتےتھے، اللہ کے حضور التجائیں کرتے تھے، ان کے لئے اللہ نے فرمایا " یہ لوگ جنت میں ہیں اور جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔"

ححرت جبرئیل ع حضور ص کی بارگاہ میں آئے اور کہا کوئی ادمی جتنا بھی زندہ رہ لے، بلاخر اسے مرنا ہے  بندہ جو چاہے عمل کرلے، بلاخر اس کو جزا ملنا ہے، جہاں مرضی جھوٹ بول لو، سچ چھپا لو، لوگوں کا حق کھاجاو، قتل کرکے چھوٹ جاو، جو بھی عمل کرلو، بلاخر جزا ملنا ہے، بندہ جس سے جتنی مرضی محبت کر لے لیکن جدا ہونا ہے، موت حائل ہونا ہے، جبرائیل کہتے ہیں کمال ہے مومن کا اس بات میں کہ وہ رات کو کھڑے ہوکر اللہ کی عبادت کرے، انسان کی عزت اس میں ہے کہ وہ لوگوں سے بے نیاز ہوجائے، بے نیاز ہوجاو گے تو اللہ دلوں میں عزت خودبخود ڈال دے گا، اگر ہم  لوگوں کی پروا کرتے ہوئے باطل کا ساتھ دیں گے تو ہمیں کبھی عزت نہیں ملے گی۔

ہر بندہ چاہتا ہے کہ میری زندگی اچھی گزر جائے قیامت میں اللہ کی بارگاہ میں مقرب کہلاوں۔ ترمزی شریف میں حدیث ہے کہ عبداللہ سلام کہتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا نبی کریم ص مکے سے جب مدینے آئے، تو میں نے دیکھا کہ حضور کو دیکھنے لوگ جوق درجوق جارہے ہیں، میرے اندر بھی شوق پیدا ہوا، میں بھی چل پڑا کہ مسلامنوں کے نبی کو دیکھوں اور جانچوں۔ میں ان کے سامنے آیا، حضور ص کے چہرہ مبارک کو دیکھنے لگا، کبھی آنکھوں کو تو کبھی ہیشانی کو دیکھنے لگا، ساتھ ہی اپنے مذہب کی کتابوں سے روایتیں ذہن میں لاتا جاتا اور چہرہ مبارک دیکھتا جاتا، عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں چہرہ مبارک دیکھ کر بلاخر کہہ اٹھا "خدا کی قسم یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔"

جب لوگ حضور ص کی زیارت کر کے بیٹھ گئے تو نبی کریم ص کے لب مبارک کو جنبش ہوئی، سب سے پہلا کلام جو میں نے حضور ص کی زبان مبارک سے سنا، کہا "اے لوگوں سلام کو عام کرو، یعنی ایک دوسرے کو سلام کرو"۔ آپ ص نے اپنی امت کو یہ تعلیم کیوں دی، اس لئے کہ جب آپ کسی کو سلام کریں گے  تو پھر دھوکہ نہیں دیں گے، نہ اس کے مال کو نہ عزت و آبرو کو دھوکہ دیں گے، اس لئے حضور ص نے فرمایا سلام کو عام کرو، پھر فرمایا، محتاجوں کو کھانا کھلاو، پھر فرمایا صلح رحمی کرو، رشتے منقطع نہ کرو، جو ناراض ہو اس سے رشتہ جوڑو، فرمایا کہ "جب رات کو لوگ سو رہے ہوں تو اس وقت اٹھو نماز پڑھو، اگر تم لوگ یہ چار کام کرلو تو اللہ تمہیں جنت میں داخل کردے گا۔"

لیکن آج ان چار باتوں میں ہم کس قدر کمزور ہیں، سلام کے معاملے میں بھی ہماری زبان پر تالا لگ جاتا ہے کہ اگر کوئی مشہور عالم یا اداکار یا بڑا آدمی ہو، کوئی سیاسی بندہ ہو یا کوئی مشہور شخصیت ہو تو سلام کریں گے، ہم آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں، غریبوں پر رحم نہیں کرتے۔

حضور نے فریا کہ "رات کے پچھلے پہر اللہ نے ایک گھڑی ایسی رکھی ہے کہ اس گھڑی اللہ کا بندہ اللہ سے جب بھلائی مانگتا ہے، چاہے وہ دنیا کی ہو یا آخرت کی، اللہ اس کے دامن میں ضورر ڈال دہتا ہے، یہ مقبولیت کی گھڑی ہر رات میں رکھی گئی ہے، رحمت خداوند آوازیں دیتی ہے لیکن ہم سوئے رہتے ہیں، آسمان سے صدا آتی ہے کہ ہے کوئی جو بخشش مانگے، لیکن ہم غافل رہتے ہیں، بخاری شریف میں ہے کہ "غفلتوں کا علاج چاہتے ہو تو سن لو حضور ص نے فرمایا کہ جب رات کو بندہ بستر پر لیٹنے لگتا ہے تو شیطان آکر تھپکی دیتا ہے کہ لمبی تان کر سوجا ابھی رات بہت باقی ہے۔" کراچی میں تو ویسے بھی شیطان رات کے آخری پہر ہی سلاتا ہے، جب رحمت تقسیم ہو رہی ہوتی ہے، لیکن ہم بستروں پر جارہے ہوتے ہیں۔ اگر سکون و قرار کے طالب ہو تو رات کے پچھلے پہر اٹھ کر اللہ کو یاد کرو۔

حضور ص نے ارشاد فرمایا کہ "اگر چاہتے ہو کہ تمہارے گناہ معاف کردیئے جائیں اور بیماریوں سے شفا دی جائے تو رات کو اٹھ کر نماز پڑھا کرو، اللہ کے حضور کھڑے ہوکر اسے آوازیں دیا کرو، تمہیں لوٹ کر اسی کی بارگاہ میں جانا ہے۔"
  
       
 
https://taghribnews.com/vdcaeinu649n0u1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ