تاریخ شائع کریں2016 22 August گھنٹہ 16:15
خبر کا کوڈ : 242562

کشمیر کی صورتحال،

ایڈووکیٹ سید بابر جان قادری
کشمیر کی صورتحال،
لائرز کلب کشمیر کے سربراہ ایڈووکیٹ سید بابر جان قادری کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ کیساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ کشمیر کی بات پہلے بھی عالمی ایوانوں میں گونج رہی تھی، لیکن اس بار کی عوامی تحریک نے پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد حق پر مبنی ہے اور وہ حق خودارادیت کیلئے کوشاں ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب بھی بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی نہیں چھوڑی تو نتائج کافی بھیانک ہونگے، یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان نے اس بار کافی مضبوط اسٹینڈ لیا ہوا ہے اور وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں میں اٹھانے کی باتیں کر رہا ہے، اسکے علاوہ عالمی سطح پر بھی کشمیر اور کشمیر کی تحریک کے بارے میں ایک مثبت رجحان سامنے آرہا ہے، جسکی وجہ سے ہندوستان بھی بات چیت کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے زور دے رہا ہے، اگر ہم بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو مسئلہ کشمیر کی حیثیت و اہمیت تقریباً ختم ہوگئی تھی، ان حالیہ دنوں کی عوامی تحریک اور اس دوران ہوئی ہلاکتوں سے یہ فائدہ ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا اور دونوں ممالک پر اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
 
ایڈووکیٹ سید بابر جان قادری کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، وہ وادی کشمیر کے معروف قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ لائرز کلب کشمیر کے سربراہ بھی ہیں، اسکے علاوہ وہ Kashmir Thinkers Guild نامی اسٹوڈنٹس یونین کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، لایئرس کلب کشمیر جس میں جموں، لداخ، کشمیر، پیر پنچال، آزاد کشمیر کے نمائندے شامل ہیں، کا بنیادی مقصد اقوام عالم کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہ کرنا اور سرکاری مظالم سے متاثرہ لوگوں کو Free Legal Aid مہیا کرنا ہے، سید بابر قادری چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے پڑھے لکھے نوجوان آگے آئیں اور مسئلہ کشمیر حل کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔

سوال: مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چالیس روز سے جو مسلسل ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور حالات بہت کشیدہ بنے ہوئے ہیں اور فورسز کی جانب سے پیلٹ گن کا استعمال ہو رہا ہے، ان حالات پر آپکا تجزیہ کیا ہے۔؟
ایڈووکیٹ سید بابر جان قادری: دیکھئے کشمیر کے متعلق حکومت ہند کی پالیسی 1947ء سے آج تک منافقانہ رہی ہے اور جب بھی بھارتی حکمرانوں کو لگتا ہے کہ یہاں پر حالات سازگار نہیں ہیں، تب وہ بات چیت، مذاکرات و ڈپلومیسی کی باتیں کرتے ہیں اور جب حالات میں کچھ سدھار آتا ہے تو وہ پھر سے اٹوٹ انگ کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں، حالات اس وقت اور زیادہ خراب ہو جاتے ہیں، جب یہ لوگ کسی گروپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں اور اس بات چیت کو بیچ میں چھوڑ دیتے ہیں، کشمیری عوام اور دہلی کے بیچ بھروسہ اور اعتماد کی کمی ہے، کشمیر میں ابھی جو حالات بنے ہوئے ہیں، میرا ماننا ہے کہ یہ ہندوستان کی ان وعدہ خلافیوں کا نتیجہ ہے، جو جواہر لال نہرو سے لیکر واجپائی کے دور حکومت تک کئے گئے، ہندوستان نے کشمیریوں کو ہمیشہ سبز باغ دکھائے اور مذاکرات، ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی کے نام پر کشمیریوں کا استحصال کیا، اس کے علاوہ کسی نہ کسی بہانے سے مذاکرات کو بیچ میں چھوڑ کر یہاں کی سیاسی قیادت کو ذلیل و خوار کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ہندوستان اپنی اجارہ داری کی پالیسی سے باہر نہیں آئے گا اور کشمیر کے مسئلہ کو تسلیم نہیں کرے گا، تب تک کشمیر کے حالات میں سدھار نہیں آئے گا، ہاں وقتی طور پر لوگوں کو طاقت کے بل بوتے پر دبایا جاسکتا ہے۔

​سوال: کیا آپکو لگتا ہے کہ کشمیر کی اس صورتحال کی ایک وجہ موجودہ مخلوط حکومت کی کشمیر مخالف پالیسیاں بھی ہوسکتی ہیں۔؟
سید بابر جان قادری: دیکھئے کشمیر ایک حساس خطہ ہے اور یہاں کے موجودہ حالات کی ایک اور وجہ موجودہ مخلوط سرکار کا آر ایس ایس ایجنڈہ اور پالیسیاں بھی ہوسکتی ہیں، جب سے پی ڈی پی اور بی جے پی جماعتوں نے مل کر سرکار بنائی ہے، تب سے بی جے پی اور اس کی ذیلی جماعت آر ایس ایس نے یہاں کے مذہبی اصولوں اور بنیادوں کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی، پہلے اسرائیلی طرز پر کشمیری پنڈتوں کے لئے الگ بستیاں بسانے کا منصوبہ بنایا، پھر سینک کالونیاں بنانے کا پلان۔ یہ ساری چیزیں بھی وجہ ہوسکتی ہیں، یہاں کے حالات اتنے خراب ہوتے گئے۔

​سوال: ابھی چالیس دن سے زیادہ ہوئے اور بھارت کے وزیراعظم نے کشمیر میں جاری تشدد اور ہلاکتوں پر ابھی تک کچھ نہیں کہا اور اسے صرف امن و سلامتی کا مسئلہ قرار دیا، بھارت کی اس ہٹ دھرمی اور مجرمانہ خاموشی کو آپ کس نظریہ سے دیکھتے ہیں۔؟
سید بابر جان قادری: میرا ماننا ہے کہ بھارت نے 1947ء سے لے کر اب تک کبھی بھی مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے نہیں لیا، نریندر مودی کی یہ مجرمانہ خاموشی بھارتی حکمرانوں کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ کشمیری عوام کے ہمدرد نہیں ہیں، ان کے نزدیک یہاں کے لوگ چوپائیوں سے بھی بدتر ہیں، انھیں صرف کشمیر کی زمین اور قدرتی وسائل سے واسطہ ہے، یہاں کے لوگوں کی وہ ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ اگر اس قسم کے حالات بھارت کی کسی اور ریاست میں پیش آئے ہوتے تو سارا ہندوستان شور اور واویلا مچاتا لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ 70 سے زیادہ ہلاکتیں اور ہزاروں لوگوں کے زخمی ہونے کے باوجود بھی نہ تو ہندوستانی میڈیا ان ہلاکتوں کا ذکر کر رہا ہے، نہ بھارت کے لوگ اس ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، جو قابل افسوس بات ہے۔

​سوال: کیا کشمیر کی موجودہ صورتحال کہ جہاں ہر طرف آزادی کے نعرے لگ رہے ہیں اور عوام بندشیں و کرفیو توڑ کر سڑکوں پر آرہے ہیں، سے کچھ حاصل ہوگا اور کیا ہندوستان اسکو نوشتہ دیوار سمجھ کر اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے پر مجبور ہوگا اور مذاکرات کے ذریعے اس دیرینہ تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔؟
سید بابر جان قادری: میرے خیال سے 2008ء اور 2010ء کے مقابلے میں آج کی عوامی تحریک زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے، پچھلے ستائیں برسوں میں کشمیر کے حالات پر دہلی میں پہلی بار پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور اس کے بعد کُل جماعتی میٹنگ منعقد کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی موقع ہے کہ اگر ہندوستانی سرکار اس حساس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرتی ہے تو اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے، دوسری بات یہ کہ اگر ہندوستان اور پاکستان سنجیدگی سے کشمیر کے حوالے سے با معنی مذاکرات شروع کرتے ہیں تو کشمیر کی موجودہ صورتحال میں بھی نمایاں بہتری آئے گی، مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ جب بھی مذاکرات کرنے کی بات کی گئی تو ہندوستان کی جانب سے ہمیشہ یہ کہا گیا کہ اگر مذاکرات ہونگے تو مذاکرات کے لسٹ میں مسئلہ کشمیر آخری پوئنٹ رہے گا، میرا یہ ماننا ہے کہ ہندوستان اگر چاہتا ہے کہ کشمیر سمیت پورے برصغیر میں امن ہو، شانتی ہو، تو دونوں ممالک کو چاہئے کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں اور باہمی طور مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لئے حل کریں۔

​سوال: کیا آپکو لگتا ہے کہ ابھی جو عوامی تحریک چل رہی ہے، اسکا حشر بھی 2008ء اور 2010ء ایجیٹیشن جیسا ہوگا یا اس ایجیٹیشن سے کچھ مقاصد حاصل ہونگے کیونکہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح 2008ء اور 2010ء میں لوگوں نے نا امید ہو کر احتجاجوں کا سلسلہ جاری نہیں رکھا۔؟
سید بابر جان قادری: دیکھئے تحریک آزادی کشمیر میں بہت سی دقتیں ہیں، ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ 1989ء میں جب مسلح تحریک شروع ہوئی، نہ اس وقت ہمارے پاس کوئی پلانگ اور حکمت عملی تھی اور نہ اب ہے، دوسرا یہ کہ پاکستان میں جو ہمارے دوست بیٹھے ہیں، شاید ان کو بھی کشمیر کی زمینی صورتحال کا صحیح تجزیہ نہیں ہے۔ 1989ء میں جب یہاں عسکری تحریک شروع ہوئی تو اس عسکری جدوجہد کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی پلیٹ فارم کی بھی ضرورت محسوس ہوئی، جس کے نتیجے میں حریت کانفرنس وجود میں آئی۔ 2008ء میں جب عوامی تحریک شروع ہوئی تو حریت کانفرنس بٹتی دکھائی دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایجیٹیشن ناکام ہوا، 2010ء کے ایجیٹیشن میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا، ابھی جو عوامی تحریک برپا ہے، اس کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے جو 2008ء اور 2010ء کی ایجیٹیشن کا ہوا، اگر حریت کانفرنس ایک موثر لائحہ عمل مرتب کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے، کیونکہ بنا لیڈر شپ کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ 2016ء کی جو انتفاضۃ کی تحریک ہے یہ آخری موقعہ ہے دونوں ممالک کے لئے کہ وہ اس حساس اور دیرینہ مسئلہ کو باہمی طور مذاکرات کے ذریعےحل کریں۔ اگر اس بار یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو مجھے لگتا ہے کہ کشمیری قوم کا مذاکرات اور پُرامن طریقے سے مسئلہ کشمیر حل کرنے پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا اور وہ مایوس ہو جائیں گے، جس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بامعنی مذاکرات ہوں اور سنجیدہ طریقے سے سوچا جائے کہ کس طرح اس مسئلہ کو حل کیا جائے، اگر دونوں ممالک چاہیں تو مرحلہ وار طریقے سے بھی اس مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک تو نیت ٹھیک ہو اور دوسرا جلد از جلد بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے۔

​سوال: کیا آپکا ماننا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے حریت قائدین کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے۔؟
سید بابر جان قادری: میرا یہ ماننا ہے کہ ابھی تک ہماری قیادت کے پاس کوئی معنی خیز لائحہ عمل موجود نہیں ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر کشمیریوں کو سیاسی طور کچھ حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ جو یہاں کا پڑھا لکھا طبقہ جو ہے، وہ سامنے آئے اور انہیں مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔

​سوال: پُرامن مظاہرین پر فورسز کیجانب سے پیلٹ گن کا استعمال ہو رہا ہے اور پیلٹ گن کے بے تحاشہ استعمال سے 200 کے قریب عام شہری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں، اس حوالے سے آپکی تشویش کیا ہے۔؟
سید بابر جان قادری: مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا باشعور طبقہ پیلٹ گن پر پابندی کی بات کر رہا ہے، ہمیں پیلٹ گن پابندی کی بات نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ہمیں چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے حل حوالے سے ہم مختلف اور پُرامن طریقوں سے ہندوستانی حکومت پر دباؤ بنائیں، اگر آج ہم پیلٹ گن پر پابندی کی بات کریں گے تو ہندوستانی فوج کل کوئی دوسرا مہلک ہتھیار استعمال کرے گی اور ہم پھر پابندی کی بات کریں گے، اس طرح ہماری توجہ تحریک سے ہٹ کر ہتھیاروں پر پابندی لگانے کی طرف ہوجائے گی اور ہم اپنے مقررہ ہدف کو نہیں پاسکیں گے، ہندوستان ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ یہاں کے حالات قابو میں آجائیں اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، جب تک مسئلہ کشمیر پر با معنی مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہوتا اور ہندوستان اس حساس مسئلہ پر سنجیدگی نہیں دکھائے گا، تب تک پیلٹ بھی چلیں گے اور بلیٹ بھی چلیں گی اور ہلاکتوں کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔ میری یہی گزارش ہے کہ ہندوستان مخلصانہ طور سامنے آئے اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ بات کرے، کیونکہ آخر بات چیت سے ہی یہ مسئلہ حل ہوگا، لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ہندوستان نے ابھی تک کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی، نریندر مودی اور راج ناتھ سنگھ کو آر ایس ایس کی سوچ سے باہر آکر سوچنا ہوگا اور تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لے کر ایسا فیصلہ لینا ہوگا جو دیرپا ثابت ہو۔

​سوال: کیا آپکو لگتا ہے کہ یہاں کی جو مین اسٹریم یا ہند نواز سیاسی جماعتیں ہیں، انھوں نے ہمیشہ ایک منفی رول ادا کیا ہے اور ہمیشہ کشمیر کاز کو زک پہنچائی ہے۔؟ اس حوالے سے آپکی تشویش کیا ہے۔؟
سید بابر جان قادری: بھارت نواز سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ کشمیر کی عوامی تحریک کا استحصال کیا ہے اور انھوں نے ہمیشہ بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرا ہے، لیکن عالمی سطح پر جو سیاسی حالات بدل رہے ہیں اور دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ ساتھ برصغیر میں بھی کشمیر کے تئیں ایک مثبت سوچ سامنے آرہی ہے، ان حالات میں ہند نواز سیاسی جماعتوں کو بھی اب سمجھ آرہا ہے کہ مسئلہ کشمیر جوں کی توں پوزیشن میں نہیں رہ سکتا، ان سیاسی جماعتوں کے لئے اب مختلف مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کی سوچ اور پالیسیوں میں بھی اب تبدیلی آرہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔

​سوال: پچھلے چالیس دنوں سے کشمیر میں کرفیو، ہڑتال اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے، عالمی ایوانوں میں بھی اب کشمیر کی گونج سنائی دے رہی ہے اور بھارتی مظالم کی شدید مذمت کی جا رہی ہے، کیا یہ خوش آئند بات نہیں ہے کہ ایک ماہ کے اندر کشمیری عوام کو ایک بہت بڑی کامیابی ملی ہے کہ عالمی ایوانوں تک ہماری آواز پہنچی ہے، اس بارے میں آپکے تاثرات کیا ہیں۔؟
سید بابر جان قادری: کشمیر کی بات پہلے بھی عالمی ایوانوں میں گونج رہی تھی، لیکن اس بار کی عوامی تحریک نے پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد حق پر مبنی ہے اور وہ حق خودارادیت کے لئے کوشاں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب بھی بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی نہیں چھوڑی تو نتائج کافی بھیانک ہونگے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان نے اس بار کافی مضبوط اسٹینڈ لیا ہوا ہے اور وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں میں اٹھانے کی باتیں کر رہا ہے، اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی کشمیر اور کشمیر کی تحریک کے بارے میں ایک مثبت رجحان سامنے آرہا ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان بھی بات چیت کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے زور دے رہا ہے، اگر ہم بین الاقوامی سطح پر دیکھیں تو مسئلہ کشمیر کی حیثیت و اہمیت تقریباً ختم ہوگئی تھی، ان حالیہ دنوں کی عوامی تحریک اور اس دوران ہوئی ہلاکتوں سے یہ فائدہ ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کے مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا اور دونوں ممالک پر اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔

​سوال: ابھی جو اتحاد حریت کانفرنس کی مختلف اکائیوں میں دیکھنے کو مل رہا ہے، اس اتحاد کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟ کیا یہ اتحاد دیرپا ثابت ہوگا۔؟
سید بابر جان قادری: میرا ماننا ہے کہ اگر یہ اتحاد خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ہوا ہے تو یہ ایک امید کی کرن ثابت ہوسکتی ہے، اگر یہ اتحاد کسی کے دباؤ یا مجبوری کے تحت ہوا ہے تو یہ دیرپا ثابت نہیں ہوگا، میں اس اتحاد کی بھرپور حمایت کرتا ہوں، کیوںکہ اتحاد کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور کشمیری عوام اور تحریک کشمیر کے لئے حریت کی تمام اکائیوں میں اتحاد ناگزیر ہے۔

​سوال: کیا آپ مانتے ہیں کہ اس اتحاد کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے اور جو باقی تنظیمیں ہیں انکو بھی اس اتحاد میں شامل کیا جانا چاہئے۔؟
سید بابر جان قادری: دیکھئے کون نہیں چاہے گا کہ تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے جتنی بھی علیحدگی پسند جماعتیں ہیں، ان میں اتحاد و اتفاق ہو، مگر اتحاد اصولوں اور نیک نیتی کی بنیادوں پر ہونا چاہئے نہ کہ حالات کی وجہ سے یا لوگوں کے دباؤ میں آکر، اگر وقتی طور اتحاد کیا جائے تو ایسا اتحاد موثر ثابت نہیں ہوگا۔

​سوال: تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شاید ہندوستان احتجاجیوں پر قابو پانے اور لوگوں کی آواز دبانے کیلئے کشمیر کو فوج کے حوالے کریگا، اس حوالے سے آپکا کیا تجزیہ ہے۔؟
سید بابر جان قادری: مجھے نہیں لگتا کہ ہندوستان اس وقت اتنی بڑی بے وقوفی کرے گا، جب عالمی سطح پر یندوستان ایکسپوز ہوگیا ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اس پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے، عالمی سطح پر کشمیری عوام کی مزاحمت کو قبول کیا جا رہا ہے تو موجودہ حالات میں ہندوستان کے پالیسی ساز ایسا قدم اٹھانے کی اجازت دیں گے۔

​سوال: ابھی جو عوامی مظاہروں اور احتجاجوں کا سلسلہ یہاں چل رہا ہے، کیا یہ احتجاجی مظاہرے جاری رہیں گے یا لوگ ناامید ہو کر سرنڈر کر دیں گے۔؟ اس بارے میں آپکا تجزیہ کیا ہے۔؟
سید بابر جان قادری: پہلی بات یہ کہ خالی پیٹ لوگ کتنے عرصے تک ہندوستان جیسے ملک سے لڑ سکتے ہیں، دوسری بات ہمیں دیکھنا ہوگا کہ لوگوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے، پچھلے چالیس دنوں سے تمام کاروباری ادارے بند ہیں، لوگ گھر سے باہر نکلنے سے ڈر رہے ہیں، اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عوام کی ایک قوت برداشت ہوتی ہے، اگر لوگوں کے قوت برداشت نے جواب دے دیا تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں، ان تمام چیزوں کی جانب مزاحمتی قیادت کو دھیان دینا ہوگا۔

​سوال: اگر ان احتجاجوں اور مظاہروں کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو اسکا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے اور کشمیریوں کے ہاتھ کیا آسکتا ہے۔؟
سید بابر جان قادری: دیکھئے حالیہ دنوں کی عوامی مزاحمت سے کشمیر کی تحریک میں ایک نئی جان آگئی اور عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو سنگین مسئلہ قرار دیا گیا، ہمیں یہ بات قبول کرنی چاہئے کہ ہماری لیڈر شپ میں بہت سی کمیاں ہیں، آج ہمارے حریت قائدین کو ان کمیوں کو دور کرنے کا ایک سنہرا موقعہ ملا ہے، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہماری لیڈر شپ لوگوں کے پیچھے چل رہی ہے، ان کے پاس اپنا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ حریت کی تمام اکائیاں اگر ایک ساتھ مل بیٹھیں اور ایک با اثر لائحہ عمل مرتب کریں تو بھارت پر مزید دباؤ بنایا جاسکتا ہے۔ میں اس بات میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی بھی مسئلہ ایک دم سے حل نہیں ہوسکتا، مسئلے مرحلہ وار طریقے سے حل ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ مرحلہ وار طریقے سے کشمیر جیسے حساس اور دیرینہ مسئلہ کو بھی حل کیا جا سکتا ہے، لیکن جو احتجاجی پروگرام مزاحمتی قیادت نے بنائے ہیں، اس سے لوگوں کی روزی روٹی پر اثر پڑنے لگا ہے، جس سے مشکلات اور بڑھیں گے اور لوگوں کا سپورٹ تحریک کی جانب کم ہوگا، ہندوستان کبھی بھی اس بات کے لئے تیار نہیں ہوگا کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دے گا، ہندوستان ایک تیسری دینا کا ملک ہے، جس میں انسانی حقوق کا تصور ہی نہیں ہے اور وہ انسانیت کے فلسفے سے کوسوں دور ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ کشمیری لیڈر شپ کو اب سوچنا پڑے گا کہ اپنے بنیادی حدف کو اس غیر مہذب اور وحشی قوم سے کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کے لئے ہماری لیڈر شپ کو نئی پالیسی اپنانی پڑے گی۔
https://taghribnews.com/vdcaiunuu49nym1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ