تاریخ شائع کریں2017 5 September گھنٹہ 18:42
خبر کا کوڈ : 282496

آج دنیائے اسلام بدامنی کا شکار ہے،: رہبر معظم

صیہونی دشمن جہان اسلام کے قلب میں فتنے برپا کر رہا ہے،
رہبر معظم معولی الامر المسلمین آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حج کے موقع پر اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ آج دنیائے اسلام بدامنی کا شکار ہے، اخلاقی ومعنوی بدامنی اور سیاسی بد امنی، اس کی بنیادی وجہ ہماری غفلت اور دشمنوں کے بے رحمانہ حملے ہیں، ہم نے نابکار دشمن کے حملوں کے مقابل اپنے دینی و عقلی فریضے پر عمل نہیں کیا، ہم "اَشِّدآءُ عَلَی الکُفّار" کو بھی بھول گئے اور "رُحَمآءُ بَینَهُم" کو بھی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صیہونی دشمن جہان اسلام کے قلب میں فتنے برپا کر رہا ہے، اور ہم فلسطین کی یقینی نجات سے غافل ہوکر، شام ، عراق ، یمن ، لیبیا اور بحرین کی خانہ جنگیوں میں الجھے ہوئے اور افغانستان و پاکستان میں دہشت گردی وغیرہ میں سرگرم ہیں۔


اسلامی ملکوں کے سربراہوں اور اسلامی دنیا کے سیاسی، دینی و ثقافتی ماہرین کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں اور فرائض ہیں، اتحاد پیدا کرنے، لوگوں کو قومی و مذہبی جھگڑوں سے دور رکھنے، ملّتوں کو سامراج اور صیہونیوں کی دشمنی اور خیانت کے طریقوں سے آگاہ کرنے کا فریضہ، نرم اور سخت جنگ کے میدانوں میں دشمن سے مقابلے کے لیۓ تمام لوگوں کو مسلّح کرنے کا فریضہ، اسلامی ملکوں کے درمیان جاری اندوہناک حادثات کی فوری روک تھام کا فریضہ، آج جس کے تلخ نمونوں میں سے ایک یمن میں رونما ہونے والے حادثات ہیں، جو پوری دنیا میں افسوس اور اعتراض کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔  


ظلم و ستم سے دوچار مسلم اقلیتوں کےسنجیدہ اور بھرپور دفاع کا فریضہ جیسے میانمار کے مظلوم مسلمان۔ یہ سب وہ اہم فرائض ہیں جو ہمارے کاندھوں پر ہیں، قوموں کو چاہیۓ کہ وہ اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں اور دانشوروں کو چاہیۓ کہ وہ عزم محکم اور نیّت خالص کے ساتھ اس کو جامۂ عمل پنہانے کی بھر پور کوشش کریں، یہ سارے کام دین خدا کی نصرت و مدد کا حقیقی نمونہ ہیں اور وعدۂ الہی کے مطابق خدا کی مدد شامل حال رہے گی۔


میانمار کے مسلمان تاریخ کے بدترین تشدد اور اذیت کا شکار ہیں، انسانی حقوق کی تنظیم فورٹی فائیو رائٹس نے بھی عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ میانمار کے فوجیوں نے بڑی تعداد میں روہنگیا عورتوں کو گرفتار کرکے بانس کے بنے جھوپڑے میں بند کردیا اور پھرجھوپڑے کو قیدیوں سمیت جلا دیا۔ عینی شاہدین کی جانب سے میانمار میں بچوں کے سر قلم کئے جانے اور عام لوگوں کو زندہ نذرآتش کئے جانے کے واقعات بیان کئے جانے کے بعد میانمار میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے وحشیانہ جرائم پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے، میانمار کے فوجی، بچوں کے سرکاٹ رہے ہیں اور بےگناہ لوگوں کو زندہ ہی جلا رہے ہیں۔ 


میانمار کے فوجیوں نے صوبہ راخین کے ایک دیہات میں تقریبا 200 مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا ہے۔ پریس ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں کمبوڈیا کے سیاسی مبصر مانگ زارنی نے میانمار کے اقلیتی مسلمانوں کے خلاف فوج کے مسلسل وحشیانہ کریک ڈاؤن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی میانمار حکومت کی پالیسی رہی ہے، کیونکہ وہ روہنگیائیوں کو اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتی ہے، 60ء کی دہائی سے اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد مسلمانوں کا قتل عام اس ملک کی فوجی پالیسی رہی ہے، تقریباً مسلمانوں کی 16 کیمونٹیز میانمار بھر میں آباد ہیں لیکن واحد روہنگیائی کیمونٹی ایک ہی جغرافیائی علاقے میں آباد ہیں۔


انہوں نے کہاکہ میانمار کی جنتا روہنگیائیوں کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیکر دہائیوں سے ان کی نسل کشی کررہی ہے، میانمار کے اداروں کہ جنہیں اس ملک کے معاشرے کا ستون مانا جاتا ہے، اسلام فوبیا کیوجہ سے مسلمانوں کو نابود کردینا چاہتے ہیں، میانمار کی لیڈرآہنگ سانگ سوچی خود مسلمانوں سے تعصب رکھتی ہے اور اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا کر ملک کو درپیش سیاسی، اقتصادی و سیاسی مسائل کا جواز پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاکستانی نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور جبراً نقل مکانی کی مذمت کرتے ہوئے جبر و تشدد کے اس سلسلے کو ختم کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔


سماجی روابط کی مشہور ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی منتظر ہیں کہ نوبیل امن انعام حاصل کرنے والی ساتھی اور جمہوریت نواز لیڈر آنگ سان سوچی روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے شرمناک برتاؤ کی مذمت کریں، دنیا اور روہنگیا مسلمان اس بات کے منتظر ہیں کہ آنگ سان سو چی ان مظالم کی مذمت کریں، اگر میانمار جہاں روہنگیا مسلمان کئی نسلوں سے آباد ہیں، ان کا گھر نہیں تو ان کا گھر کہاں ہے؟۔


انہوں نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کو بنگلادیش کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جان بچا کر بھاگ نکلنے والے روہنگیا افراد کو پناہ دینے پر بھی زور دیا۔ یہ میانمار کی رہنما آنگ سان سو چی کے لیے میانمار کے 11 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا تشدد ایک بڑا چیلنج ہے، جس کی مذمت نہ کرنے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جمہوریت کے لیے اپنی طویل ترین کوششوں کی وجہ سے دنیا میں پہچانی جانے والی سو چی نے 1991ء میں نوبیل امن انعام حاصل کیا تھا۔


آج سے ایک سال قبل دنیا بھر کے کئی نوبیل انعام یافتہ افراد اور ممتازشخصیات نے ایک کھلے خط کے تحت اقوامِ متحدہ اور دیگر اداروں سے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کی اپیل کی تھی۔ ان واقعات کے آغاز پر برطانوی وزیرِخارجہ بورس جانسن نے آنگ سان سوچی سے کہا ہے کہ وہ اس المیے کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ 


ظالمانہ کاروائیوں کی سرپرستی کرنیوالی میانمار کی فوج کا موقف ہے کہ وہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے کیونکہ عوام کا تحفظ ان کا فرض ہے، گذشتہ ماہ کے آخر میں میانمار کے مسلم اکثریتی علاقے ارکان کے قریب کچھ چوکیوں پر حملے کیے گئے تھے، جس میں اہلکاروں سمیت 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، فوج اس مسلح تحریک کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کو حل قرار دے رہی ہے، جبکہ کئی حلقے اس مسلح تحریک کو متواتر حق تلفی اور ناانصافی کا رد عمل قرار دے رہے ہیں۔ 


میانمار کی حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا اکثریتی علاقوں میں گزشتہ ہفتے ڈھائی ہزار سے زائد گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ حکومت کا الزام ہے کہ گھروں کو آگ لگانے کے ان واقعات میں روہنگیا ہی ملوث ہیں۔ 2 ستمبر ہفتے کے روز میانمار کی حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ شمال مغربی ریاست راکھین میں کئی دہائیوں کے دوران پیش آنے والے ان بدترین واقعات میں 2600 مکانات نذر آتش کیے جا چکے ہیں۔ میانمار کی حکومت اراکان روہنگیا سالویشن آرمی نامی مسلم شدت پسند گروپ کو ان گھروں کو نذر آتش کرنے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ کیونکہ اس گروپ نے گزشتہ ہفتے پولیس اور فوج پر کیے جانے والے منظم حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ انہی حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے راکھین میں دوبارہ آپریشن کا آغاز کیا تھا۔


اس آپریشن کے جواب میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی یمنی شاخ کے ایک سینیئر رہنماء نے اپنی ایک آن لائن اپیل میں کہا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے جواب میں سکیورٹی فورسز پر حملے کیے جائیں۔ شدت پسندوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی امریکی تنظیم سائٹ کے مطابق القاعدہ کے یمنی رہنما خالد باطرفی نے بنگلہ دیش، ملائشیا، انڈونیشیا اور بھارت میں شدت پسند مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ میانمار کی سکیورٹی فورسز پر حملے کریں۔


دوسری جانب میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بودھ دہشت گردی کی علامت قرار دیا گیا، سخت گیر بھکشو رہنما ویراتُھو ہے، جسکی تقریروں نے یہ آگ بھڑکائی ہے، امریکی ہفت روزہ جریدے ٹائم کے سرورق پر چھپنے والی ویراتھو کی وہ تصویر جس میں اسے بودھ دہشت گردی کا چہرہ قرار دیا گیا تھا۔ جسکی مثال ماؤنگ ڈا میانمار کی ریاست راکھین کا شمالی قصبہ ہے، جو روہنگیا مسلمانوں کے خلاف گزشتہ خونریزی کا مرکز بن گیا تھا۔ 


ویراتُھو کی ابھی تک اس خطے میں موجودگی بدھ مت کی پیروکار آبادی کے نہ صرف راکھین میں انتہائی غربت اور محرومی کی شکار روہنگیا اقلیت، بلکہ پورے میانمار کی مسلم آبادی کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے۔ میانمار میں خانہ جنگی کا یہ نیا سلسلہ جمعہ 25 اگست سے شروع ہوا ہے جس کے بارے میں میانمار حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے مغربی حصے میں بنگلا دیشی سرحد کے قریب فوجی چوکیوں پر روہنگیا عسکریت پسندوں نے دھاوا بول دیا تھا لیکن میانمار کی فوج نے ان میں سے بیشتر حملہ آوروں کو ہلاک کردیا تھا۔


اس کے برعکس میانمار میں روہنگیا حقوق کے علمبرداروں نے الزام لگایا ہے کہ میانمار کی حکومت نے شہریوں کو قتل کیا ہے اور ان کے گھر بھی نذرِ آتش کیے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی روہنگیا کے خلاف میانمار کی فوجی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی تحقیقات کے مطابق روہنگیا آبادی کے خلاف سرکاری فوج کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا جاسکتا ہے۔


میانمار میں پولیس چیک پوسٹ پر حملے میں 11 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کلیئرنس کا آغاز کیا گیا تھا، لیکن ساتھ ہی انتہاپسندوں کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور چیک پوسٹ حملے کے واقعے کے بعد درجنوں دیہاتوں کو آگ لگا دی گئی اور متعدد مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ دوسری جانب روہنگیا مسلمانوں نے ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت بھی شروع کردی ہے اور برمی افواج نے ایسے 400 مزاحمت کار ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن درحقیقت مرنے والوں میں عام شہریوں اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ میانمار کی روہنگیا مسلم اقلیت کے لیڈر نے مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔


روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی فوج کے کریک ڈاؤن کا بھی سامنا ہے، روہنگیا مسلمانوں کے ایک لیڈر عطا اللہ نے کہا ہے کہ وہ اُس وقت تک میانمار کی سکیورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے جب تک خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی روہنگیا کے تحفظ کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھاتیں۔ عطا اللہ نے مزید کہا کہ وہ روہنگیا کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں مرنے سے نہیں گبھرائیں گے۔ میانمار کے بعض مقامی حلقے اور روہنگیا افراد کی ایک محدود تعداد عطا اللہ کو لیڈر کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ عطا اللہ نے اُن الزامات کی نفی کی کہ انہیں غیرملکی حکومتوں یا دوسرے کئی ملکوں میں متحرک جہادی تنظیموں کا تعاون حاصل ہے۔


عطا اللہ کا واضح طور پر کہنا تھا کہ اُن کی مزاحمت اور کوششیں صرف بنیادی حقوق کے حصول پر مرتکز ہیں کیونکہ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی بدھ مت کی پیروکار اکثریتی آبادی کے جبر کا سامنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار روہنگیا مسلمانوں کے لیڈر نے اپنے اولین آزادانہ طور پر دیے گئے انٹرویو میں کیا۔ یہ انٹرویو بذریعہ ویڈیو کال ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اِس میں روہنگیا لیڈر نے کہا کہ دس لاکھ مریں یا اِس سے زیادہ روہنگیا مسلمان اب اپنا حق حاصل کر کے رہیں گے اور ایک ظالم فوجی حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھی جائے گی۔


دوسری جانب میانمار کی خاتون لیڈر آنگ سان سوچی کے ترجمان نے اس انٹرویو کے حوالے سے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں اور روہنگیا مسلمانوں کے حملے کا فوری اور زور دار جواب دیا جائے گا، کیونکہ دنیا بھر میں پرتشدد کارروائیوں کو کوئی حکومت برداشت نہیں کرتی۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے ایک گروپ نے حرکۃ الیقین کے نام سے ایک مزاحمتی تنظیم سن 2012ء میں قائم کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس مزاحمتی تحریک کو قائم کرنے والے زیادہ تر روہنگیا مسلمان سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ واضح رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی مزاحمت کی تائید میں کسی مسلمان ملک یا رہنماء نے آواز نہیں اٹھائی۔


ترک صدر رجب طیب ایردوان نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کونسل کشی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت کے نقاب میں اس نسل کشی پر خاموش رہنے والا ہر شخص اس قتل عام میں برابر کا شریک ہے۔ ترکی نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کی مذمت کرتے ہوئے بنگلا دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے اپنی سرحد کھولے جو بھی اخراجات ہوں گے وہ ترکی ادا کرے گا۔


ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اوغلو نے ترکی کے صوبے انطالیہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر حکمراں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب میں کہا کہ میانمار کی ریاست راکھین میں پرتشدد فسادات سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کے لیے بنگلا دیشی حکومت اپنے دروازے کھولے اور اخراجات کی فکر نہ کرے، مہاجرین پر جتنے بھی پیسے خرچ ہوں گے وہ ترکی برداشت کرے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی نے روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس طلب کرنے کی بھی درخواست کی ہے اور رواں برس اس سلسلے میں اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ چاوش اوغلو نے کہا کہ ہمیں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کا فیصلہ کن اور مستقل حل ڈھونڈنا ہو گا۔


انہوں نے عالم اسلام سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کے علاوہ کوئی بھی اسلامی ملک میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کے معاملے پر رد عمل ظاہر نہیں کر رہا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ترکی دکھی انسانیت کی مدد کرنے میں امریکا کے بعد سب سے آگے ہے اور امداد کی مد میں ترکی اب تک 6 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا نے 6.3 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ خیال رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان بھی روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر عالم اسلام کے اہم رہنماؤں سے رابطے میں ہیں اور ان سے اس مسئلے کے حل کی کوششیں تیز کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔


ترک صدر عید الاضحیٰ کے موقع پر 13 سربراہان مملکت سے گفتگو کر چکے ہیں اور انہیں راکھین کی صورتحال سے آگاہ کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ترک وزیر خارجہ چاوش اوغلو خود بھی اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل اور ریاست راکھین ایڈوائزری کمیشن کے سربراہ کوفی عنان سے ٹیلی فون پر رابطہ کر چکے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بدھ مت انتہاپسندوں کے ظلم و ستم اور حالیہ پرتشدد کارروائیوں سے تنگ 50 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان میانمار سے ہجرت کر کے بنگلا دیش چلے گئے ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کلئیرنس کے بہانے 400 سے زائد مسلمانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔


پاکستان نے کہا ہے کہ میانمار حکومت روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے لئے اقدامات کرے وار ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی ہلاکتوں اور پرتشدد کارروائیوں کی خبروں پر پاکستان نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار حکومت مسلمانوں کے حقوق کے لئے اقدامات کرے اور بے گناہ افراد کے قتل اور نقل مکانی کے معاملے کی تحقیقات کرائے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔


ترجمان نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری اور بالخصوص او آئی کے ساتھ مل کر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے گا۔ اسی طرح انڈونیشیا میں ہزاروں مسلمانوں نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور پرتشدد کارروائیوں کے خلاف میانمار کے سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے اقلیتی برادری کے خلاف جاری تشدد پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔


اقوام متحدہ کی گزشتہ ماہ جاری ہونے والی رپورٹ میں بھی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ہلاکتوں، اجتماعی زیادتیوں اور تشدد کو انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار کرنے کا بھی اشارہ دیا گیا تھا۔ میانمار کے موجودہ بحران کے باعث کم عمر بچیوں کی شادی کر دیے جانے کے واقعات میں بھی اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ظلم وستم اور بحران کی شکار لڑکیوں کو انہی کی کمیونٹی کے مردوں کے ساتھ شادی کی غرض سے فروخت کرنے کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ صرف ملائیشیا میں ہی ایسی ایک سو بیس کم سن لڑکیوں کی شناخت کی جا چکی ہے، جن کی زبردستی شادی کی گئی ہے۔


تاہم ایسے واقعات کی درست تعداد ابھی تک واضح نہیں ہے۔ انہوں مظلومں کا کوئی ملک نہیں رہا، یہ غیرب الوطن ہیں، روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کا کوئی ملک نہیں ہے یعنی ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ رہتے یہ ميانمار میں ہیں لیکن انہیں صرف غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔ اسی طرح میانمار بالخصوص راکھین میں روہنگیا مسلمان کمیونٹی کو سن دو ہزار بارہ سے نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ میانمار کی سکیورٹی فورسز نے گزشتہ برس اکتوبر سے اس ریاست میں ایک آپریشن بھی شروع کر رکھا ہے۔ بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا افراد نے بتایا ہے کہ ملکی فوجی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ مردوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔


میڈیا رپورٹوں کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق میانمار کی سکیورٹی فورسز روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام، آبرو ریزی اور ان کے دیہات کو جلانے جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔ عالمی ادارے کے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملائیشیا میں اس کمیونٹی کے افراد کی تعداد چھپن ہزار بنتی ہے تاہم انسانی حقوق کے دیگر اداروں کے مطابق ملائیشیا میں روہنگیا مسلمانوں کی حقیقی تعداد ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔


اقوام متحدہ کے تفتیشی اہلکاروں کے مطابق راکھین میں اس فوجی کریک ڈاؤن کے دوران، جو بظاہر وہاں روہنگیا مسلمانوں کے نام نہاد عسکریت پسند گروہوں کے خلاف شروع کیا گیا تھا، انسانی قتل اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی ایک ایسی پوری مہم دیکھنے میں آئی، جسے ممکنہ طور پر نسلی تطہیر کا عمل بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ 5 برسوں میں میانمار سے قریب پونے دو لاکھ روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو چکے ہیں۔ میانمار میں روہنگیا مسلم اقلیت کی آبادی ایک ملین سے زائد ہے اور وہاں کی حکومت ان مسلمانوں کے خلاف خونریز فوجی کریک ڈاؤن کے دوران گینگ ریپ، خوفناک زیادتیوں اور نسلی تطہیر کی طرح کے اقدامات کے اقوام متحدہ کی طرف سے لگائے جانے والے تمام الزامات کو سرے سے مسترد کرتی ہے۔ میانمار کے اکثریتی بدھ مت افراد اور اس ملک کی سکیورٹی فورسز پر روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ روہنگیا لوگوں کو کوئی بھی حقوق یا اختیار حاصل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کی وہ اقلیت ہے، جسے اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔


یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کام کر سکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ رہتے ہیں، انہیں کبھی بھی اور کسی بھی وقت خالی کرنے کو کہہ دیا جاتا ہے۔ میانمار میں ان لوگوں کی کہیں بھی سُنوائی نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کئی دہائیوں سے راكھین صوبے میں رہ رہے ہیں لیکن وہاں کے بدھ مت لوگ انہیں بنگالی کہہ کر دھتكارتے ہیں۔ یہ لوگ جو بولی بولتے ہیں، ویسی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔ روہنگیا لوگ سنی مسلمان ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2012ء میں مذہبی تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباﹰ ایک لاکھ بیس ہزار روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے ہلاک بھی ہوئے۔


ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا افرادکی متعدد اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ 2015ء میں جب غیرقانونی تارکین کے خلاف کچھ سختی کی گئی تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔ روہنگیا اقلیت کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ مجبور لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے روہنگیا کم ہی ہیں، جنہیں بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔


یہ کشتیوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز انہیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں۔ بنگلادیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں۔ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔ انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے اپیل کر چکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔ میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اس کی ایک وجہ 1982ء کا وہ قانون بھی ہے، جس کے مطابق شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھا۔


اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر سے تعلق رکھنے والے امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ راکھین میں جاری حکومتی کریک ڈاؤن اور پرتشدد واقعات کے تناظر میں حالیہ چند دنوں میں 58 ہزار سے زائد روہنگیا باشندے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش میں داخل ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا باشندوں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کا یہ آپریشن اصل میں روہنگیا افراد کو راکھین سے مکمل طور پر بے دخل کرنے کے لیے ہے اور اسی لیے وہاں قتل عام اور جنسی تشدد جیسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ تشدد کے واقعات میں اسی تیزی کے نتیجے میں عالمی خوراک پروگرام نے بھی راکھین میں اپنے امدادی منصوبوں کی بندش کا اعلان کر دیا ہے۔ 


امدادی اداروں پر میانمار کی سکیورٹی فورسز یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ وہ خوراک جان بوجھ کر روہنگیا عسکریت پسندوں تک پہنچا رہی ہیں اور یہی عسکریت پسند پولیس اور فوج پر حملوں میں ملوث ہیں۔ اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے تشدد کے ان واقعات پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے، تویہ ایک بہت بڑے انسانی المیے کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔



اقوام متحدہ کے مطابق میانمار کی روہنگیا اقلیت کو وہاں نسل کشی جیسے حالات کا سامنا ہے اور اس روہنگیا اقلیت کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے۔ ایک غیرسرکاری تنظیم فورٹیفائی رائٹس نے بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ سیٹلائٹ تصاویر سے عیاں ہے کہ ایک علاقے میں کم ازکم 700 گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا ہے، جس کے بعد لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے سربراہ فِل رابرٹسن نے کہا کہ سیٹلائٹ تصاویر سے مسلم آبادی کی تباہی ظاہر ہے، جو خود ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر ہے۔ اب تک ہم نے 17 ایسے مقامات دریافت کئے ہیں جہاں آگ لگائی گئی ہے، لیکن ضرورت ہے کہ فوری طور پر وہاں لوگوں کو بھیج کر صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔
https://taghribnews.com/vdcaounui49nay1.zlk4.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ