تاریخ شائع کریں2017 20 July گھنٹہ 12:18
خبر کا کوڈ : 275945

قطر کے وزیرخارجہ کی اچانک پاکستان آمد، کیا لائے کیا لے کر جائیں گے؟

قطر کے وزیرخارجہ کی اچانک پاکستان آمد، کیا لائے کیا لے کر جائیں گے؟
بالاخر قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی گیارہ رکنی وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ گئے، قطری وزیر خارجہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ وہ نور خان ایئر بیس پر خصوصی طیارے سے پہنچے ہیں۔ قطری وزیر خارجہ نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی، جس کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں امن کوششوں اور تنازع کے حل کی مخلصانہ کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے موجودہ خلیجی تنازع کے حل کیلیے مل کر کوششیں کرنے پر زور دیا، وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ خلیجی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات پاکستان کی ترجیح ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور قطر کے درمیان برادرانہ تعلقات ہیں اور پاکستان کی خواہش ہے برادر اسلامی ممالک میں مسائل کا سفارتی حل تلاش کیا جائے۔ اس موقع پر قطر کے وزیر خارجہ نے وزیراعظم کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔

قطر کی جانب سے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا پاکستان آنا اس حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ان دنوں ایک طرف تو پاکستان کے وزیراعظم پانامہ کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے حوالے سے سخت مشکلات سے دوچار ہیں، جے آئی ٹی کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں بارہا قطر میں وزیراعظم نواز شریف کی جائیدادوں سے متعلق استفسار کیا گیا، اور معاملے کی شفافیت کے لئے قطر سے ثبوت اور شواہد بھی طلب کئے گئے، بلکہ نوبت یہاں تک آگئی کہ جے آئی ٹی کی ٹیم نے قطر جاکر ثبوت اکٹھا کئے، وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو نااہلی سے بچانے کے لئے قطر کی حکومت نے خط بھی ارسال کیا، لیکن اس خط کی تصدیق کے لئے خود پاکستان آنے سے انکار کردیا، اور یوں عدالت عالیہ نے قطری خط کو مشکوک قرار دیا، جو کسی بھی طرح اہم ثبوت ثابت نہ ہوسکا۔

 اس تمام کہانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پانامہ کیس کے حوالے سے معاملہ اختتام کے کافی قریب ہے، ایسے میں اچانک قطر کے وزیر خارجہ کی اسلام  آباد آمد بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے، تجزیہ کار اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ قطری وزیر خارجہ نواز حکومت کے لئے ترپ کا پتا ثابت ہوسکتا ہے۔

 خیال ہے کہ قطری وزیر خارجہ وہاں سے کوئی بہت ہی اہم ثبوت لے کر آئے ہوں، جو تمام معاملے سے وزیراعظم کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال لے جائیں گے۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ تمام بلاووں اور وعدوں کے باوجود قطر نے اس قدر تعاون نہیں کیا، جس کی حکمراں جماعت امید کررہی تھی، لیکن اب وزیر خارجہ کی یہاں آمد یقینا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، بعض آزاد ذرائع یہ قیاس بھی کررہے ہیں کہ قطری وزیر خارجہ یقینا کسی ڈیل کے تحت ہی یہاں آئے ہیں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قطر اور سعودی عرب کے سنگین بلکہ تشویش ناک حالات یا سرد جنگ سے دوحہ جس تنہائی کا شکار ہے، اسے دور کرنے کے لئے اسلام آباد آمد ہوئی ہے، جس کا مقصد سعودی عرب اور قطر کے معاملے میں پاکستان کی حمایت حاصل کرنا اور بدلے میں پانامہ کی پیشیوں میں آسانی فراہم کرنا بھی ہوسکتا ہے۔

 کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو یہ ضرور کہیں گے کہ ایٹمی طاقت پاکستان خطے میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، بھارت ہو یا چین، ایران کا معاملہ ہو یا افغانستان، سب ہی ہمسائے اسے ملحوظ خاطر ضرور رکھتے ہیں، بلکہ صرف ہمسایوں پر ہی کیا موقوف، امریکا خود کئی دہائیوں تک پاکستانی خدمات کا معترف رہا ہے، روس نے بھی کبھی پاکستان کی خارجہ پالسیی پر تنقید نہیں کی، سعودی عرب کا تو زکر ہی کیا، جو پاکستانی قیادت کا اس قدر متوالا ہے کہ حکمرانوں کو کئی کئی برس تک معہ قیام و طعام میزبانی کی سہولتیں فراہم کرتا ہے، گویا پاکستان پر تمام دنیا کی نظریں ہیں، پاکستان بھی تو کسی کو مایوس نہیں کرتا، سب کی حمایت اور خیرخواہی میں جتا رہتا ہے، اس بات سے صرف نظر کہ اندرونی معاملات کیا تقاضہ کر رہے ہیں۔

بہرحال وزیراعظم نواز شریف کی پریشانی بھی اپنی جگہ درست ہے، ڈیڑھ ارب ڈالر کے سعودی تحفے کا بوجھ اتاریں یا قطر سے دوستی نبھاتے ہوئے اس کی خوشی مقدم رکھیں، پہلے جو کبھی حکومت ختم ہوئی تو سعودی عرب نے ہی ساتھ دیا، لیکن اس وقت حکومت بچانے کے لئے قطر کی مدد کے سوا کوئی چارہ نہیں، کریں تو کیا کریں۔ قطر کی مدد سے مائع پیٹرولیم گیس سمیت اربوں ڈالر کے منصوبے جاری ہیں، ان کی بندش کے لئے بھی سعودی دباو ہے، اگر منصوبے بند کرتے ہیں تو پہلے ہی حزب اختلاف کی جماعتیں جن کا کہنا ہے کہ حکومت ملکی ترقی کے بجائے اپنے مسائل پر توجہ دے رہی ہے، اس کی بات سچ ثابت ہوجائے گی، اگر منصوبے منسوخ کئے جاتے ہیں تو قطر ناراض ہوجائے گا، گویا معاملہ اس قدر آسان نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے، پانامہ کیس وزیراعظم کے گلے کی ایسی ہڈی بن چکا ہے، جو نہ نگلے چین آئے نہ اگلے، ایسے میں مشرق وسطیٰ کا بحران، مشکل تو بس یہی ہے کہ آسان بھی نہیں۔ 
https://taghribnews.com/vdcbasb5srhbz9p.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ