تاریخ شائع کریں2017 17 August گھنٹہ 14:27
خبر کا کوڈ : 279879
اتحاد صرف مسلمانوں کا خاصہ نہیں ہے،تمام بشریت متحد ہو جائے

احسان و عدالت بشریت کے اتحاد کے عامل ہیں

دہشت گردی صرف مشرق وسطیٰ کے لئے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے جس کے لئے تمام بشریت کو اس کے خلاف قیام کے لئے متحد ہونا ہوگا
عالمی مجلس تقریب مذاہب اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے “مسلمان اور دہشت گرد اور شدت پسندی سے مقابلہ” کے عنوان کے تحت ہونے والی کانفرنس سے خطاب کیا اور اسلامی ممالک جیسے ،غزہ، بحرین، عراق اور شام میں پیش آنے والی مشکلات کی جانب اشارہ کیا اور کہا ہے کہ“دہشت گردی صرف مشرق وسطیٰ کے لئے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے جس کے لئے تمام بشریت کو اس کے خلاف قیام کے لئے متحد ہونا ہوگا”
احسان و عدالت بشریت کے اتحاد کے عامل  ہیں
عالمی مجلس تقریب مذاہب اسلامی کے سیکرٹری جنرل نے “مسلمان اور دہشت گرد اور شدت پسندی سے مقابلہ” کے عنوان کے تحت ہونے والی کانفرنس سے خطاب کیا اور اسلامی ممالک جیسے ،غزہ، بحرین، عراق اور شام میں پیش آنے والی مشکلات کی جانب اشارہ کیا اور کہا ہے کہ“دہشت گردی صرف مشرق وسطیٰ کے لئے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے جس کے لئے تمام بشریت کو اس کے خلاف قیام کے لئے متحد ہونا  ہوگا”
 
تقریب، خبر رساں ایجنسی ﴿تنا﴾ کے مطابق،آیت اللہ محسن  اراکی نے“مسلمان اور دہشت گردی اور شدت پسندی سے مقابلہ”کے عنوان کے تحت ہونے والی کانفرنس سے خطاب کیا اور آیہ شریفہ  «إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسانِ وَ إِيتاءِ ذِي الْقُرْبى وَ يَنْهى عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ». کو سرنامہ سخن بناتے ہوئے کہا کہ یہ آیت کریمہ، پیام اسلام اور شریعت حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ  ہے، اسلام بشریت کو متحد کرنے آیا ہے اور جو چیز بشریت کو متحد کرتی ہے وہ عدالت و احسان ہے اور یہ وہ اصول ہیں کہ جس کو ہر دین قبول کرتا ہے ناصرف دین بلکہ فکر انسانی اس کی جانب مائل ہے انسان کی فطرت اور وجدان اس کا سرچشمہ ہے، یہی اسلام و توحید و وحدت کا پیغام ہے، مسلمان زیادہ تر اپنے دین، ملک، دولت، غذائوں، ثقافت،۔۔کو مورد ہدف اتحاد قرار دیتے ہیں، اتحاد صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت کے لئے ہے اور اس اتحاد کا ہدف عدالت کاقیام ہونا چاہیے اور ظلم سے مقابلہ ہونا چاہیے یہ اصول تمام بشریت کو اپنے دامن میں لے لے گا۔

ہم خود کو ایک عالمی خطرے میں محسوس کررہے ہیں دنیا میں صلح و آرام ختم ہو رہا ہے اور عالمی معاشرے کو یہ خطرہ لاحق ہے اور یہ خطرہ ظالم استکبار کا خطرہ ہے کہ جو کسی بھی ملت اور فکر پر رحم نہیں کرتا بلکہ نفس انسان کی حرمت کا قائل نہیں ہے، جو کچھ اب ہمارے سامنے آرہا ہے وہ تاریخ بشر میں بے سابقہ ہے اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا، ایک خطرناک طاقت کہ جو نامحدود قتل و غارت گری پر اپنی دسترس رکھتی ہے  یہ طاقت انسانوں کی اہمیت کی قائل نہیں ہے اس کے لئے کسی کی بھی کوئی حرمت نہیں ہے۔
 
ایک چھوٹے سے گروہ نے دنیا بھر کی دولت کو اپنے نام کر رکھا ہے اور یہ ایک خطرناک طاقت ہے وہ اس اقتصاد سے دنیا کی سیاست کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی تہذیب و ثقافت باقی نا رہے مگر یہ کہ انکی مرضی اور معیار کے مطابق ہو۔

یہ ایک بڑا خطرہ ہے ہر خطے کے مسلمانوں کو متوجہ رہنا چاہیے، صرف مشرق وسطیٰ کو ہی خطرہ لاحق نہیں بلکہ یہ خطرہ پوری دنیا کو لاحق ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ دولت مند خطہ ہے اس لئے ہوس پرستوں کی توجہ اس سمت ہے اور از لحاظ سیاست اس کی بہت اہمیت ہے جبکہ آئندہ انسان کے تمام معاشروں کو ان سے خطرہ ہے۔
 
انھوں نے کہاکہ” آج پوری دنیا کو اس سے خطرہ ہے اور اس کی دلیل یمن، عراق، شام، فلسطین، لیبیااور دوسرے علاقے ہیں، آج میں آپکے وجدان سے سوال کرتا ہوں کہ ان یمنی چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا قصور ہے کہ جو مر رہے ہیں؟ حقوق بشر کی تنظیمیں کہاں ہیں؟جہاں ہر روز دسیوں یمنی بچے مر چکے ہیں اور کہیں سےکو ئی آواز نہیں آتی؟ یمن کے محاصرے کی کیا وجہ ہے؟ جو ان تک  خورد و نوش اور دوائیں پہنچانے کی پابند ہے ان کی زندگی خطرے میں ہے، یہی نہیں بلکہ برسائے جانے والے بم چھوٹے بڑوں کو نہیں پہنچانتے جو ان کے سروں پر برس رہے ہیں، اس ملت کا قصور کیا ہے؟ ۔

ہم نے محمد الدرہ کو دیکھا کہ جو باپ کی گود میں شہید ہوگیا،

لیکن کن کے ہاتھوں مارا گیا ؟

کون ہے کہ جو فلسطینیوں کے بچوں کو روزانہ قتل کر رہا ہے؟۔

جو جوانوں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین پر رحم نہیں کر رہا ہے

فلسطینیوں کی زمین کہا ں ہے؟

کیا فلسطینیوں کے کچھ حقوق نہیں ہیں؟

کیا وہ دفاع کا حق نہیں رکھتے ہیں؟

میں شام کے بارے میں پوچھتا ہوں، شام کی ملت کا کیا قصور ہے؟ کہ اس میں خودکش بم بار بھر جائیں کہ جو کسی کو نہیں پہنچانتے ؟

یہ دہشت گرد کہاں سے آئیں ہیں؟

وہ دہشتگرد ناصرف انسانوں کومارتے ہیں بلکہ ان کے جگر بھی چبا جاتے ہیں، یہ جو لوگ دراصل شام کی ملت سے لڑ رہے ہیں یہ  ایک ایسے قانونی نظام سے لڑ رہے ہیں جس کی وہاں کی عوام نے حمایت کی ہے۔

ہم بھی شام کے حکومتی سسٹم سے اختلاف نظر رکھتے ہیں مگر وہاں کی ملت کو اس نظام کی ضرورت ہے تب ہی تو انھوں نے اس سسٹم کی حمایت کی ہے تاکہ وہ سسٹم ان کے حقوق اور امن کی پاسداری کرے ،اس سے پہلے شام کی ملت صلح اور آرام سے زندگی گذار رہے تھے”۔

انھوں نے مزید کہا کہ "وہ لوگ جو آرام کرنا چاہتے تھے وہ اپنے فراغت کے اوقات میں شام جایا کرتے تھےخلیج فارس کے ممالک شام کے رعب اور دبدبے کی وجہ سے شام کی حمایت کیا کرتے تھےاور یہ لوگ وہ تھے جواپنی چھٹیاں منانے وہاں جاتے کیونکہ وہاں امن تھا، کس نے اس ملک کے امن کو تباہ کیا ہے، کیوں اسکا محاصرہ ہواہے؟۔

کیوں غزہ کا محاصرہ ہوا ہے ؟

کیا غزہ میں انسان نہیں رہتے؟

غزہ کس کی سرزمین ہے؟

کیوں ان کو ہر چیزسے محروم کر رکھاہے؟

کیوں امریکہ اوراس کے حکام آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے داعش کی بنیاد رکھی ہے ؟

امریکہ کے اعلیٰ عہدے دار یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور اعترافات کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنے اعلٰی عہدے داروں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ سب ان کا کیا دھرا ہے ۔

امریکہ خود کو ایک سپر پاور سمجھتا ہے، کیا واشنگٹن کے لئے یہ امکان موجود نہیں ہے کہ بجائے دنیا میں ویرانی لانے کہ  دنیا میں صلح و امن قائم کرے ؟۔

امریکہ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟

امریکہ اپنی جگہ بیٹھا رہے، اپنی بحری بیڑوں کو اپنی سرحدوں میں رکھے، اس وقت امریکہ کے بحری بیڑے خلج فارس،کوریا کے نزدیک ، جاپان، چین، کے سمندروں میں کیا کررہے ہیں؟

یہ بحری بیڑے دنیا کے لئے خطرہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ "جس ملک نے آزاد سیاست کرنا چاہی وہ پابندیوں کو شکار ہوگیا اس پر جنگیں مسلط کی جارہی ہیں لیکن جو اس کے استکباری نظام کے تحت آگیا وہ اس کو بھی تباہ وبرباد کر رہا ہے۔

  کیا ہم سب نے نہیں دیکھا اور نہیں سنا کہ امریکی صدر نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور460بیلین ڈالر ہڑپ کر گیا ؟

یہ اتنی رقم ہے کہ جو مشرق سے مغرب تک  مشرق وسطیٰ کی ترقی کے لئےکافی تھی، یہ مال لیتا ہے اور اس کی جگہ اپنا اسلحہ دیتا ہے تا کہ اس اسلحہ کے ذریعے سے علاقے میں جنگ کی جائے، کیا اس سے بڑا کوئی ظالم ہوگا کہ جو آپکا مال لے جائے اور اسکی جگہ اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے کا سامان دے جا ئے”۔

کیا اس ظلم پر ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے؟

کیا اسلحے کی ریل پیل دنیاوالوں کے لئے خطرہ نہیں ہے؟

آج اسلامی جمہوریہ ایران ایک ڈالر بھی باہر سے نہیں لاسکتا، حتی اپنے تیل کی قمیت بھی، کیوں؟ یہی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے، امریکہ کی مرضی کے خلاف دنیا کا کوئی بھی بینک کام نہیں کر سکتا، کیا یہ دنیاوالوں کے لئے خطرہ نہیں ہے، کہ ان کا اقتصاد امریکہ کے کنٹرول میں ہے”۔

امریکہ کی تاریخ یہ ہے کہ جب سے معرض وجود میں آیا ہے تب سے دنیا کی ہر جنگ میں اس کا حصہ ہے، کوئی یہ بتائے ان جنگوں میں کون ہے کہ جس نے امریکہ پر جارحیت کی ہو؟  اس پر کسی نے بھی جارحیت نہیں کی بلکہ یہ امریکہ ہے کہ جو ہرجنگ میں جارحانہ انداز اپناتا نظر آتا ہے، ہمیں تاریخ میں نہیں ملتا کہ کسی نے امریکہ کی سر زمین پر حملہ کیا ہو، مگر یہ بڑے ڈھڑلے سے قتل و غارتگری میں شامل ہوتا ہے ، خون بہاتا ہے مداخلت کرتا ہے، اگر اس کا نام درمیان سے ہٹا دیا جائے تو ہمیں دنیا امن کا گہوارہ نظر آئے گی، اگر امریکہ کی مداخلت نا ہو تو جنوبی کوریا و شمالی کوریا کی مشکلات قابل حل ہیں، دنیا کے سارے مسائل قابل حل ہیں، کیا یہ شائستہ نہیں کہ اس ملک کی دراندازی کو روکا جا ئے؟۔

عراق کی ملت کے درمیان فتنہ پھیلایا گیا ،ہم جب سے عراق کو جانتے ہیں ایک ملت کے عنوان سے پہچنانتے تھے، آپ سب عراق کو پہنچانتے ہیں، اس میں مختلف اقوام و مذاہب رہتے ہیں، کرد، عرب، سنی، شیعہ، عیسائی، ایزدی، ایک عراقی نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک ہی قوم تھے ہم شیعہ سنی نہیں پہنچانتے تھے ہم ملکر رہتے تھے نہیں جانتے تھے کہ یہ سنی ہے اور یہ شیعہ لیکن امریکہ آیا اور ہمیں ہر طرح سے جدا کر دیا۔

شام ایک ملت تھی،اس ملت واحدہ میں کب سے جنگ کاآغاز ہوا؟ جب سے امریکہ آیا، اس نے اپنے مزدورں کے ذریعے اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہا، لبنان میں، حزب اللہ کا کیاقصور ہے؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنی زمین کی آزادی کے لئے لڑے اور اپنی زمین کی حفاظت کی؟ کیا حزب اللہ نے اسرائیل کی زمین پر تسلط جمایا تھا؟ یہ اسرائیل تھا کہ جس نے لبنان کی سرزمین پر حملہ کیا تھا۔ حزب اللہ کا جرم یہی ہے کہ اس  نےاپنی زمین پر آزادنہ زندگی گذارنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے باجود حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم کہا جاتا ہے۔

وہ کہ جس نے محمد الدرہ اور دسیوں بچوں اور ان جیسے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا ہے وہ دہشت گرد نہیں، لیکن حماس دہشت گرد تنظیم ہے؟ کیونکہ وہ اپنی زمین کا دفاع کرنا چاہتے ہیں، میں دنیا کے عقلمند افراد سے سوال کرتا ہوں کہ کہا ں ہے فسطینیوں کی زمین ؟ وہ کہاں رہیں؟ ان کے آباواجداد کہا ں رہا کرتے تھے؟

مسجد اقصیٰ پر یہ ظلم کیوں؟ کس نے وہاں نمازیوں پر پابندی لگائی؟ مسجد اقصیٰ ایک مقدس مقام ہے، حقوق بشر کی تنظیمیں کہاں ہیں ؟حقوق بشر کی تنظیمیں اعلان کرتی ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب مقدس ہیں، مساجد و عبادت گاہیں محترم ہیں مقدس ہیں، ان کی حرمت پائمال نہیں ہونی چاہیے۔

آیانماز پڑھنے والے دہشت گرد ہیں؟

کیا مسجداقصیٰ دہشت گرد ہیں؟

کہاں ہیں ضمیر ؟

ہم اپنے عقائد  کسی پر تھوپنا نہیں چاہتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے، بلکہ یہ صرف ہماری ہی فریاد نہیں بلکہ یہ تمام مظلموں کی فریاد ہے  ان کے لئے جو اپنے معمولی سے حقوق سے بھی محروم ہیں۔

بحرین کی ملت کا کیاقصور ہے؟صرف یہ کہ وہ اپنی مشارکت چاہتے ہیں جس طرح دنیا کے دیگر افراد چاہتے ہیں، بحرین کے یہ انقلابی کیا چاہتے ہیں؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ حاکم ملک کے آئین کی تیاری میں ہمیں بھی دعوت دے ،ہمارے ملک کے فیصلوں میں ہمارا بھی کردار ہو، وہ یہ نہیں کہتے کہ حاکم کو ہٹا دو بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم پر ایک قانون حکومت کرے۔

آج سیکڑوں بحرینی جیل میں ہیں، ان کے ملک میں انتخابات کے مطالبے کے جواب میں گولیاں برسائی گئیں، جیلوں میں اذیتیں دی جارہی ہیں۔

میرا ایک دوست بحرین میں رہتا ہے اسکی کتابوں کی دکان ہے۔ جب میں بحرین گیاتو چاہا کہ اس کے گھرجاوں، پتا چلا کہ وہ جیل میں ہے، ایک کتاب فروش کہ جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ،وہ بھی جیل جائے۔

ہم ان افراد سے کہ جو اس بات کا احساس رکھتے ہیں، جن پر اس علاقے میں ظلم ہوا ہے، سب کو ایک جماعت سمجھتے ہیں حتیٰ وہ افرادکہ جوفرانس، برطانیہ، بلجیم  میں رہتے ہیں اور دہشت گردی کا شکارہوئے ہیں، دنیا پر ظلم حاکم ہو گیا ہے۔

آیت اللہ اراکی نے اپنے پیغام کے اختتام میں کہا کہ آخر میں بیدار ضمیروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں، ظلم مخالف اور عدالت طلب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ وہ  بشریت کے امن کے لئے استقامت کا مظاہرہ کریں۔
https://taghribnews.com/vdcbz9b59rhbzwp.kvur.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ