تاریخ شائع کریں2017 10 May گھنٹہ 11:06
خبر کا کوڈ : 267747

پارا چنار کے امن کے دشمن کون ہیں ؟

اگر حکومت اور فورسز پاراچنار میں مستقل امن و امان کے قیام کی حامی اور خواہش مند ہیں تو انہیں ان اعلانیہ اور واضح دہشتگردوں کے سرغنوں کو اپنی گ
اگر حکومت اور فورسز پاراچنار میں مستقل امن و امان کے قیام کی حامی اور خواہش مند ہیں تو انہیں ان اعلانیہ اور واضح دہشتگردوں کے سرغنوں کو اپنی گرفت میں لانا ہوگا۔
پارا چنار کے امن کے دشمن کون ہیں ؟
پارا چنار عرصہ دراز سے دہشتگردی کا شکار ہے اور اس دہشتگردی میں ہمیشہ مکتب اہلبیت (ع) کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ 2 ماہ کے دوران پارا چنار کے عوام کو 3 دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی اس دہشتگردی کی ذمہ داری شام کا حوالہ دیتے ہوئے داعش نے قبول کی تو کبھی شیعوں کو اپنا دشمن نمبر ایک گردانتے ہوئے تحریک طالبان نے۔ کہیں مقتدر حلقوں کی جانب سے کہا گیا کہ دہشتگرد افغانستان سے آئے تھے تو کبھی کچھ کبھی کچھ۔ مذکورہ بالا تمام دعووں کو درست سمجھنا ان بے گناہ شہریوں کے قاتلوں کو گرفت سے باہر نکالنے کی مترادف ہوگا۔ کیونکہ نہ داعش کے کارندے یہاں مشخص ہیں اور نہ تحریک طالبان، نہ اس قسم کی ذمہ داری کوئی پہلی مرتبہ قبول کی ہے۔ افغانستان سے دہشتگردوں کے آنے کی باتیں بھی اس سے قبل کئی بار ہوتی رہی ہیں۔ یعنی یہ سب باتیں فائل بند کرنے کیلئے کافی ہیں۔ یقیناً داعش بھی پارا چنار کے عوام کی دشمن ہے اور طالبان بھی۔ لیکن یہ دونوں دہشتگرد تنظیمیں اگر یہاں اہل تشیع کا قتل کرواتی ہیں تو ان کے سہولت کار، قاتل اور دیگر معاونین کون ہوتے ہیں۔؟

دسمبر 2015ء کو پارا چنار میں عید گاہ مارکیٹ کے سامنے دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں 27 غریب افراد شہید جبکہ 60 سے زائد مجروح ہوئے۔ اس دھماکے کے تانے بانے پارا چنار کے علاقہ بوشہرہ سے ملے، بوشہرہ پارا چنار میں واقع وہ علاقہ ہے، جہاں تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے نمائندگان موجود ہیں۔ تحریک حسینی پارا چنار کے رہنماوں کے مطابق 2007ء سے لیکر آج تک ہمارے خلاف کئی دھماکے کئے گئے۔ جن میں کوئی باہر کا آدمی نہیں بلکہ بیشتر یہیں کے مقامی افراد ہی ملوث رہے ہیں، کیونکہ خودکش حملہ آور کے لئے جب تک کوئی مقامی سہولت کار نہ ہو تو وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ ہر دفعہ ہونے والے دھماکے میں ملوث افراد نے اپنے پیچھے نشانات چھوڑ کر خود کو آشکار کیا۔ اس کا علم نہ صرف حکومت بلکہ ہر کس و ناکس کو ہوا ہے۔ 2007ء کا پہلا دھماکہ یہاں کے مقامی فرد غیور خان چمکنی نے کیا۔ اس کے گھر کے افراد محرر محمد افضل اور سور ملا سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی، کرمی بازار دھماکے کی ذمہ داری فضل سعید نے قبول کی۔ وہ کرم ہی کا باشندہ تھا، لیکن اسکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کشمیر چوک میں سرکاری گاڑی میں دھماکہ ہوا، اسکی آج تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔ دسمبر 2015ء کو کباڑ میں جو دھماکہ ہوا، اس سے دو دن قبل ہی بخت جمال کے بیٹے محمد جمال نے انکو برے نتائج کی دھمکی دی تھی۔ ان سب کے باوجود حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔

کچھ عرصہ قبل پارا چنار میں ہونیوالے دھماکے میں استعمال بارود سے بھری گاڑی کے حوالے سے اطلاعات ملی تھیں کہ یہ گاڑی مقبل علاقے سے داخل ہوئی، جس کے تانے بانے مقبل علاقے کے غوزگڑی میں مدرسہ تعلیم القرآن سے ملنے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔ اس مدرسہ کو 15-2014ء میں پولیٹیکل انتظامیہ اور فاٹا سیکرٹریٹ کی طرف سے ایک میلن روپے فراہم کئے گئے اور تری مینگل میں موجود مدرسہ حنفیہ کو بھی ایک میلن روپے فراہم کئے گئے۔ اس سے قبل مقبل سے ایک بارود سے بھری گاڑی پارا چنار منتقل کرتے ہوئے راستے میں ہی پھٹ گئی تھی، اس علاقہ میں طالبان کا ایک ٹریننگ کیمپ بھی عرصہ دراز سے قائم ہے، جو القاعدہ، طالبان اور داعش کیلئے مقامی جوان بھرتی کرکے افغانستان، یمن، شام اور عراق بھیجنے میں بھی ملوث ہے۔ دہشتگردوں کا یہ مقامی گروپ دراصل بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں سے منسلک ہے اور اس کے سرغنہ کالعدم اہل سنت والجماعت المعروف کالعدم سپاہ صحابہ کے بدنام زمانہ عید نظر مینگل اور بخت جمال بنگش ہیں۔

پارا چنار میں گذشتہ جنگیں عید نظر جو طالبان کا حامی اور اہلسنت انجمن کا سیکرٹری جنرل تھا، کے دور میں لڑی گئیں اور اسی کی زیر نگرانی حضرت امام حسینؑ کی شان میں گستاخی ہوئی۔ جس پر لڑی جانے والی جنگوں کے دوران اہل تشیع کے 3000 افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ پارا چنار کے خواص و عوام نے عید نظر اور بخت جمال کو اپنے شہداء کا سب سے بڑا قاتل قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قاتل عید نظر اور بخت جمال کو فوری گرفتار کیا جائے۔ اگر ان دہشتگردوں کو نظر انداز کیا گیا تو یہ پارا چنار کے امن کیلئے مزید بڑا خطرہ ہوگا۔ اگر حکومت اور فورسز پاراچنار میں مستقل امن و امان کے قیام کی حامی اور خواہش مند ہیں تو انہیں ان اعلانیہ اور واضح دہشتگردوں کے سرغنوں کو اپنی گرفت میں لانا ہوگا۔ عید نظر اور بخت جمال کو اگر قانون کے دائرے میں نہیں لایا جاتا تو پارا چنار کے عوام اس بات کو سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حکومت جان بوجھ کر اس علاقہ میں امن قائم کرنے سے گریزاں ہے۔
https://taghribnews.com/vdcc0mqim2bqem8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ