تاریخ شائع کریں2017 17 June گھنٹہ 14:44
خبر کا کوڈ : 271887

قطر کی مخالفت اور سعودیہ کے سیاسی اہداف

قطر سعودی کشیدگی میں یہ بات کافی اہمیت رکھتی ہے کہ دونوں کے تعلقات میں تلخی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کے بعد پیدا ہوئی یا منظر عام پر
قطر سعودی عرب کشیدگی ایسا موضوع ہے جس پر میڈیا میں خوب خبریں شائع ہورہی ہے اور تقریباً سبھی کا یہ ماننا ہے کہ سعودی عرب نے قطر پابندی اس لیے لگائی کیونکہ وہ ایران سے تعلقات بڑھا رہا تھا اور اخوان المسلمین کی حمایت کررہا ہے تھا۔ جب کہ حکومت ریاض ان دونوں کو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
قطر کی مخالفت اور سعودیہ کے سیاسی اہداف
قطر سعودی عرب کشیدگی ایسا موضوع ہے جس پر میڈیا میں خوب خبریں شائع ہورہی ہے اور تقریباً سبھی کا یہ ماننا ہے کہ سعودی عرب نے قطر پابندی اس لیے لگائی کیونکہ وہ ایران سے تعلقات بڑھا رہا تھا اور اخوان المسلمین کی حمایت کررہا ہے تھا۔ جب کہ حکومت ریاض ان دونوں کو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

قطر سعودی کشیدگی میں یہ بات کافی اہمیت رکھتی ہے کہ دونوں کے تعلقات میں تلخی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کے بعد پیدا ہوئی یا منظر عام پر آئی ہے۔ گرچہ خلیجی ممالک کے صفوں میں موجودہ انتشار مکمل طور پر امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے مگر موجودہ حالات کو امریکی سیاست کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکی صدر نے سعودی عرب میں جو لہجہ استعمال کیا تھا اس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے۔ انہوں نے ایران کو خطے کی تمام مشکلات کا مرکز قرار دیا تھا۔

امریکی انتخابات کے دوران ٹرمپ کی سعودی مخالف بیان بازیوں سے سہمے ہوئے سعودی حکام میں ٹرمپ کے سفر نے ایک نئی روح پھونک دی اور ان میں اتنی جرات پیدا ہوگئی کہ وہ خطے کے مسائل میں چودھراہٹ کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اسی چودھراہٹ کی بنیاد پر نہ صرف قطر کی مخالفت کی بلکہ خطےکے بعض دیگر ممالک کو بھی اپنے منصوبے میں شریک بنالیا۔ جس طرح سعودی عرب نے قطر کے خلاف اقدامات انجام دیئے ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے ہمنوا ممالک ایک عرصے سے قطر کا ناطقہ بند کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔

بہرحال اس بات کی جانب توجہ ضروری ہے کہ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ ذیل میں کچھ اسباب بیان کئے جارہے ہیں ملاحظہ کریں:

1۔ قطر، عمان اور کویت نے ایران کے تعلق سے سعودی عرب کی پالیسی پر تنقید کی تھی۔ بلکہ قطر اور عمان نے تو باقاعدہ طور پر ایران سے معاشی تعلقات کو مزید بہتر بنانے اعلان کردیا تھا۔

2۔ دوسرا ایک اہم مسئلہ جس کی طرف کم توجہ کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قطری حکام نے قبیلہ تمیم کے سنیوں اور شیعوں کو متحد کرنے میں کافی کام کیا تھا۔ یہ قبیبلہ نہایت اہم قبیلہ ہے جس کے بعض افراد سعودی عرب، یمن اور اردن میں بھی موجود ہیں۔ اسی یکجہتی کے تحت قطری فرمانروا کے والد نے اپنے بیٹے کا نام تمیم بھی رکھا تھا اور اسے قبیلہ تمیم کا ایک رکن قرار دیا تھا۔ اس اقدام کی وجہ سے اہل تشیع اور اہل تشنن کے درمیان کافی قربت بڑھی جب کہ دوسری طرف آل سعود شیعوں کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں مغربی ایشیا کی تمام مشکلات کا مرکز و منبع قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اس قبیلے کے افراد سعودی عرب میں بھی بستے ہیں جو ضرورت پڑنے پر قطر کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

3۔ قطر سے سعودی عرب کی دشمنی کی تیسری وجہ اخوان المسلمون ہے۔ کیونکہ ناصر کے زمانے میں جب مصر میں اخوانی اراکین پر ظلم ڈھائے جارہے تھے تو وہ مصر چھوڑ کر مختلف خلیجی ممالک منتقل ہوگئے تھے۔ اس دوران اخوان المسلمون کے بعض اراکین نے حرمین شریفین کے انتظامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ حرمین شریفین کے انتظامات امت مسلمہ کو سونپتے ہوئے آل سعود کی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہئے۔ اس بیان کے بعد سعودی شہزادوں نے اخوان المسلمون کو اپنے لیے خطرہ قرار دیا۔ جب کہ دوسری طرف قطر اخوان المسلمون کی مسلسل حمایت کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے سعودی حکام ہمیشہ نالاں رہے۔

یہ وہ اہم اسباب ہیں ن کی وجہ سے سعودی عرب قطر کے خلاف تمام اسلامی ممالک کو متحد کرنے کی کوشش کررہا ہے جب کہ قطر خلیج فارس تعاون کونسل کے اہم ممالک میں سے ہے اسی لیے سعودی عرب کو یکے بعد دیگرے تمام مراحل میں منھ کی کھانی پڑرہی ہے۔ اور بعید نہیں ہے کہ جس ٹرمپ پر وہ اعتماد کرکے قطر کے خلاف سنگین پابندیاں عائد کررہا ہے اسی ٹرمپ کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑجائے کیونکہ خطے میں امریکہ کا اصلی مرکز دوحہ ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے اس کھیل میں سعودی عرب زیادہ دیر تک قطر کے سامنے نہیں ٹک پائےگا۔ لہٰذا اسے قطر سے تعلقات کی بحالی پر نظر ثانی کرنا ہی پڑےگا۔ اس بیچ سعودی عرب جتنا زیادہ قطر کے خلاف پابندیاں عائد کرتا جائےگا اتنا ہی زیادہ اسے نقصان اٹھانا پڑےگا۔

بشکریہ: سچ ٹی وی
https://taghribnews.com/vdcc4sqim2bqm48.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ