تاریخ شائع کریں2017 30 April گھنٹہ 08:35
خبر کا کوڈ : 266793

گولی میرے بیٹے کے سینے کو چیرتے ہوئے پار ہوگئی

گولی میرے بیٹے کے سینے کو چیرتے ہوئے پار ہوگئی
کئی ماہ سے مسلسل نظربندی، جبر، تشدد اور مسلسل ظلم و ستم سے شہر کا شہر اُجڑ گیا، مظالم کی ایسی داستانیں جو زبان پر نہیں لائی جا سکتیں، مسلسل کرفیو جیسی صورتحال کے دوران اچانک ریاستی فورسز نے شہر کی طرف پیش قدمی کی تو ہمیں بھی اُمید ہو چلی کہ اب جلد داعش کے جبر سے آزاد ہو جائیں گے، لیکن مسئلہ یہی تھا کہ داعش کے لوگ سوِل آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔

جو بھی داعش کے چُنگل سے نکلنا چاہتا تھا وہ یا تو مار دیا جاتا یا پھر اس پر اتنا تشدد کیا جاتا کہ اس کے ہاتھ پاوں سلامت نہ رہتے اور وہ دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بن جاتا۔ اس وجہ سے کتنے ہی لوگ زخمی ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ مار دیئے گئے، آخر میں میرے دو بیٹے ہی بچے تھے، جنہیں اس امید سے رات کی تاریکی میں کندھوں پر اٹھا کر نکلا کہ شائد باقی بچی اپنی کل متاع محفوظ کرنے میں کامیاب ہو سکوں۔ گھر برباد ہوگیا، کاروبار ختم ہوگیا، کچھ بھی تو نہیں رہا تھا۔

میں نے عزم راسخ کر لیا کہ آج رات ہر حالت میں داعش کی گرفت سے نکلوں گا، بس رات کے اس پہر کا اتنظار تھا، جس میں عموماً داعش کے لوگ سو جاتے ہیں، رات کے آخری پہر میں سوتے بچوں کو کندھوں پر اٹھا کر شہر سے بھاگ ہی نکلا تھا کہ اسنایپر کی ایک گولی میرے ایک لخت جگر کے سینے کو چیرتے ہوئے پار ہوگئی۔ یوں اپنی آنکھوں کے سامنے لخت جگر کا جگر پارہ پارہ ہوتے دیکھ کر میرا ذہن مکمل طور پر مفلوج ہوچکا تھا، وقت کم تھا، اس لئے جلدی میں اپنے ہاتھوں سے قبر بنائی اور اپنے بیٹے کو دفنا کر دوسرے بیٹے کو اٹھا کر آگے بڑھا۔

ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ احساس ہوا کہ جو بچہ میرے کندھے پر سو رہا تھا، اسے دفنا دیا اور جو داعش کے ہاتھوں شہید ہوا تھا، اسے اٹھایا ہوا ہے۔ یہ احساس اس وقت ہوا جب شہید بیٹے کا خون میرے جسم سے چپکنا شروع ہوا۔ اس وقت میری کُل کائنات لٹ چکی تھی، اپنے اللہ سے فریاد کی کہ اے میرے رب اب مجھے بھی اٹھا لے۔؟

یہ واقعہ عراق سے پاکستان میں آئے ہوئے حرم حضرت عباس علیہ السلام کے متولی جناب آیت اللہ ابو زین العابدین نے ایک ملاقات میں اس وقت سنایا، جب ہم نے اُن سے اسرار کیا کہ آپ موصل کے حالات بتائیں۔

آیت اللہ زین العابدین کا کہنا تھا کہ جس کے دونوں بچے شہید ہوئے، اُن کا تعلق اہل سنت سے تھا۔ اس کے دوسرے بچے کی شہادت کی ذمہ داری بھی یقیناً داعش پر عائد ہوتی ہے، جس نے ایسا ماحول بنا دیا کہ اس بےچارے غریب الوطن کو سمجھ ہی نہ آسکی اور وہ اپنے حواس کھو بیٹھا۔

یہ صرف ایک باپ کی کہانی ہے، باقی جہاں جہاں داعش نے قبضے کئے، وہاں ظلم و ستم کی داستانیں رقم کی ہوئی ہیں، داعش نے کیا سنی، کیا شیعہ اور کیا عیسائی سب کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے۔ عراق میں ہزاروں گھر اجڑ چکے ہیں، سہاگ لٹ چکے ہیں، باہر سے عراق میں لائی گئی جنگ میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdccoeqi12bqem8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ