تاریخ شائع کریں2015 28 November گھنٹہ 16:14
خبر کا کوڈ : 213250

امام خامنہ ای کےخصوصی سپاہی "سردار قاسم سلیمانی "

روس کے پائلٹ کی نجات سردار قاسم سلیمانی کی نگرانی میں انجام دی گئی،
امام خامنہ ای کےخصوصی سپاہی "سردار قاسم سلیمانی "
شام کے ایک اعلی افسر کا کہنا ہے کہ شام کے شمال میں روس کے پائلٹ کی نجات کی کاروائی حزب اللہ کے چھ کمانڈو اور شامی فوج کے ۱۸ کمانڈوز کے ساتھ ایرانی سردار قاسم سلیمانی کی نگرانی میں انجام دی گئی ۔
رپورٹ کے مطابق  گذشتہ ہفتے امام خامنہ ای کے خصوصی سپاہی جنرل سردار قاسم سلیمانی کے زخمی ہونے اور اس کے بعد شہید ہو جانے کی خبر منتشر ہوئی تھی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے اس خبرکی تکذیب کی تھی لیکن عربی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے پوری کوشش کی تھی کہ ان افواہوں کو ہوا دی جائے ۔
روسی نیوز ایجینسی" اسپوٹنیک" نے اس رپورٹ کے لکھنے والے "عماد آبشناس" کے حوالے سے کہ جو "اسپوٹنیک "کے فارسی کے شمارے میں شایع ہوئی ہے لکھا ہے ؛ میں نے کل ایک میٹینگ میں اس چیز کے بارے میں جنرل قاسم رمضانی کے ایک انتہائی قریبی دوست سے پوچھا تو اس نے بھی ان خبروں کی سرے سے تکذیب کی اور اظہار کیا کہ سردار سلیمانی نہ صرف بالکل ٹھیک ہیں بلکہ محاذ پر سب سے آگے ان دہشت گردوں کے خلاف کہ جو ایران کی سرحد کے نزدیک آ کر ایرانیوں کے چین و سکون کو برباد کرنا چاہتے ہیں نبرد آزما ہیں ۔
سردار سلیمانی کی سلامتی کے بارے میں دشمن کی افواہ ان کی پوزیشن کے بارے میں جاننے کے لیے تھی ،
اس رپورٹ میں آیا ہے کہ : سیکیوریٹی کے وجوہات کی بنا پر سردار سلیمانی کے دشمن ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ اس طرح کی افواہیں پھیلائیں اور پھر ان کے رد عمل کا انتظار کرتے ہیں تا کہ ان کی پوزیشن کے بارے میں معلوم کر سکیں اور اسی دوران ان کا اگر کوئی سراغ مل جائے تو ان پر حملہ کر سکیں ۔بہر حال جنرل سلیمانی ان افراد میں سے ہیں کہ شام عراق اور دیگر ملکوں کے دہشت گرد بھی ان کی تلاش میں ہیں اور اسرائیل بھی ۔

روسی پائلٹ کو آزاد کروانے کی تیز ترین کاروائی کا قصہ:
گذشتہ روز روسی پائلٹ کی نجات کی خبر ذرائع ابلاغ میں نشر ہوئی ۔ پائلٹ کی نجات کی خبر اور ترکی کی طرف سے روس کے ہوائی جہاز کو نشانہ بنانے کی خبر کے بعد کے ہلکے جھٹکے اس قدر زیادہ تھے کہ بہت سارے لوگوں نے اس چیز کو چھیڑا ہی نہیں کہ دشمن کے گھر کے اندر  جا کر اتنی کامیاب کاروائی آخر کیسے ممکن ہوئی ۔

ترکی کی پائلٹ کو پکڑ کر روس سے خراج وصولنے کی کوشش:
روسی ہوائی جہاز کے گرنے کے فورا بعد روس کے ہیلی کاپٹر پائلٹ کو ڈھونڈھنے کے لیے نکل پڑے ،لیکن ان کو شام کی آزاد فوج (یعنی مغرب کے حمایت یافتہ شام کے میانہ رو مخالفین ) اور ترکی سے وابستہ ترکمانوں کا اور ان کے میزائلوں اور جدید ترین ہتھیاروں کا کہ جو حال ہی میں ان کو ملے ہیں سامنا کرنا پڑا اور اس واقعے میں روس کا ایک امداد گر مارا بھی گیا ۔
باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ ترکی کی خصوصی بٹالین کے کچھ فوجی روس کے پائلٹ کو پکڑنے کے لیے گئے ہیں تاکہ اس کو پکڑ کر روس سے خراج لے سکیں ۔
سردار کا فون کرنا ؛ ۶ کمانڈو حزب اللہ کے اور ۱۸ شام کی فوج کے ،
روس کے پائلٹ کو فوری طور پر نجات دلانے کی کاروائی کے لیے منصوبندی کی افراتفری میں سردار سلیمانی نے روسیوں سے فون پر بات کی اور انہیں بتایا کہ انہوں نے روس کے پائلٹ کو نجات دلانے کے لیے ایک خصوصی بٹالین تیار کی ہے اور تجویز پیش کی کہ چونکہ یہ خصوصی بٹالین کہ جس میں لبنان کی حزب اللہ  کے افراد  اور شام کے وہ کمانڈو شامل ہیں جن کو ایران نے ٹرینینگ دی ہے اور علاقے کی جغرافیائی حالت سے اچھی طرح واقف ہیں ،وہ زمینی کاروائی کی ذمہ داری سنبھالیں گے اور روس کی ہوائی فوج ان کی پشت پناہی کرے گی اور ہوائی گولہ باری  کرے گی اور سیٹیلائٹ کے ذریعے انہیں اطلاعات فراہم کی جائے گی ،اور میں اطمئنان دلاتا ہوں کہ روس کے پائلٹ کو صحیح و سالم واپس لے آوں گا ،اور آخر کار یہی ہوا ،۔
سیٹیلائٹ سے پائلٹ کی موجودگی کا پتہ چلنے کے بعد پتہ چلا کہ پائلٹ جہاں پر ہے وہ جگہ شام کی فوج اور مخالفین کے درمیان جہاں جنگ چل رہی تھی اس سے ۶ کیلو میٹر پیچھے تھی ۔
حزب اللہ کے ۶ اور شام کی فوج کے ۱۸ کمانڈر کاروائی انجام دینے کے لیے محاذ جنگ کے بالکل نزدیک چلے گئے ،اس کے ساتھ ہی ہوائی فورس اور روسی ہیلی کاپٹروں نے علاقے کے اطراف میں گولیوں کی بارش شروع کر دی اور تمام مضبوط رکاوٹوں کو خاک میں ملا دیا چنانچہ دشمن کے جتنے فوجی بھی علاقے میں تھے انہوں نے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی اور خصوصی بٹالین کے لیے نفوذ کا راستہ ہموار ہو گیا ۔
کمانڈو کاروائی الیکٹرانک جنگ کی حفاظت میں ،
اس شامی افسر نے بتایا ؛ جس راستے پر بٹالین آگے بڑھ رہی تھی اس کی ایک ایک بالشت پر روسی سیٹیلائٹ کی نظر تھی اور وہ چند سو میٹر کے فاصلے سے چیونٹی کی حرکت کی خبر بھی دے رہے تھے اور اوپر سے ڈھکے ہوئے سوراخوں کی بھی انہیں خبر مل رہی تھی اور کاروائی کے ایک ایک لمحے کی رپورٹ کرملین کے ایک اعلی رتبہ شخص کو دی جا رہی تھی کہ جو شاید خود پوٹین صاحب تھے اور وہ سیٹیلائٹ کی آنکھ سے کاروائی پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔
اس افسر کے بقول کہ جو اپنا نام نہیں بتانا چاہتا تھا یہ کاروائی اس علاقے میں چاہے روس کی ہوائی فوج کے ذریعے یا سردار سلیمانی کی بٹالین کے افراد کے ذریعے ایک ایک کر کے دہشت گردوں کے شکار میں تبدیل ہو گئی تھی ۔
اس شامی افسر کے کہنے کے مطابق روسیوں نے اس کاروائی کے ساتھ ہی الیکٹرانک جنگ شروع کر دی تھی کہ جس کے تحت دشمن کے تمام سیٹیلائٹ اور ارتباطات کے وسایل علاقے میں چند کیلو میٹر کے اندر اور اس کے اطراف میں اندھے ہو گئے تھے ،چنانچہ جب تک دشمن کو پتہ چلتا اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ۔اس بات کا خطرہ تھا کہ مغربی ملکوں کے سیٹیلائٹ دہشت گردوں کو کاروائی کے بارے میں نہ بتا دیں ۔
آخر کار اس خصوصی بٹالین نے اس چھ کیلو میٹر کے علاقے میں داخل ہو کر اور باقیماندہ تمام افراد کو ان کے ماڈرن ہتھیاروں سمیت تباہ کرنے کے بعد پائلٹ کو نجات دلانے میں کامیاب ہو گئے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انتہائی خطر ناک کاروائی میں تمام ۲۴ افراد پائلٹ سمیت بغیر کسی کے زخمی ہوئے اپنے ٹھکانے پر واپس چلے گئے ۔
شام کے اس بلند پایہ افسر کے بقول اس کاروائی کی کامیابی کی ایک وجہ وہ اختلاف تھا کہ جو ترکوں اور ان سے وابستہ دہشت گردوں کے درمیان پیدا ہو گیا تھا ۔اس لیے کہ ترک یہ چاہتے تھے کہ پائلٹ کو وہ پکڑ کر لے جائیں اور روس سے اس کے بدلے میں خراج وصول کریں جب کہ وہاں موجود دہشت گرد یہ چاہتے تھے کہ اردن کے پائلٹ کو آگ سے جلا دینے کے منظر کو یہاں بھی دوہرائیں تا کہ روس کے دوسرے پائلٹوں کے دلوں میں خوف اور دہشت پیدا کر سکیں ۔
اسی اختلاف نے موقعہ فراہم کر دیا اور نجات کی کاروائی چند سنہری گھڑیوں میں انجام پا گئی چونکہ مخالفین نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی تیزی کے ساتھ نجات کی کاروائی انجام دی جائے گی ۔
شامی افسر نے بتایا ؛ جنرل سلیمانی کا اصرار تھا کہ وہ خود اس کاروائی کی کمان اپنے ہاتھ میں لیں گے ۔
بہر حال اس روایت سے چند نکتے مشخص ہو جاتے ہیں ؛

۱ ۔ جنرل سلیمانی بالکل ٹھیک ہیں اور دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کے اگلے محاذ پر انتہائی مستعدی کے ساتھ کاروائی کی ہدایت کر رہے ہیں اور افواہوں کا جواب اپنے عمل سے دے رہے ہیں۔

۲ ۔ شام میں انتہا پسند اور اعتدال پسند نام کے مخالفین کا کوئی وجو د نہیں ہے  وہ سب کے سب دہشت گرد ہیں جو مختلف وردیاں اور ماسک پہن کر آ جاتے ہیں ۔

۳ ۔ چار جمع ایک کے گروہ کے ملک کسی بھی چیز میں دوسرے ملکوں پر اطمئنان نہیں کر سکتے بلکہ ان کو پہلے منصوبے کے مطابق علاقے سے دہشت گردوں کا کام تمام کرنا پڑے گا ۔

۴ ۔ شام میں ایران اور روس کی جنگی ہمآہنگی بہت ہی متحد ہے اور دشمنوں کی تمام رکاوٹوں کو توڑ سکتی ہے ۔

۵ ۔ کاروائی والے علاقے میں روس کی گولہ باری کے بعد شام کی آزاد فوج کے اکثر شامی نسل کے فوجی علاقے سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور کمانڈوز کا سامنا ایسے افراد سے ہوا کہ جو شامی بھی نہیں تھے اور چھاپا مار ٹیکنیک کے بجائے کلاسیک فوجی تیکنیک استعمال کر رہے تھے ،اسی لیے یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ وہ یا تو ترک فوجی تھے یا دوسرے ملکوں کی فوج سے وابستہ تھے ۔کمانڈوز کی کاروائی میں تیزی کی وجہ سے وہ مجبور تھے کہ ان کی لاشوں کے اوپر سے گذر کر مقصد تک پہنچیں لہذا ان کے پاس ان کی شناخت کرنے یا انہیں قیدی بنانے کا موقعہ نہیں تھا ۔

۶ ۔ اس جگہ جو دہشت گرد تھے ان کے پاس زمین سے زمین اور زمین سے ہوا میں مار کرنے والے جدید ترین ہتھیار تھے جو نیٹو میں امریکہ کی حلیف فوجوں کے پاس بھی نہیں ہیں ۔

۷ ۔ وائرلیس سے ہونے والی بات چیت میں جن زبانوں کا انکشاف ہوا ہے ان میں  بالترتیب عربی ،ترکی ، روسی اور فرانسیسی زیادہ تر زبانیں ہیں کہ دہشت گرد جن میں باتیں کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آج کے یہ ملک دہشت گردوں کی واپسی سے زیادہ خطرے کی زد پر ہیں اور روس اپنی قومی سلامتی کی حفاظت کی خاطر شام میں موجود  تمام دہشت گردوں کو ختم کرنے تک جنگ کو جاری رکھنے پر مجبور ہے۔
 
https://taghribnews.com/vdccp1qix2bqsi8.c7a2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ