تاریخ شائع کریں2016 25 July گھنٹہ 16:32
خبر کا کوڈ : 239488

اگلا سال دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم سال ثابت ہو سکتا ہے

کرۂ ارض پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے
اگلا سال دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم سال ثابت ہو سکتا ہے
موسمیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ایم او کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایک سو تیس سال پہلے جب سے موسمیات کے اعدادوشمار مرتب ہونا شروع ہوئے ہیں تب سے لیکر اب تک یہ سال گرم ترین سال تھا جبکہ اگلا سال دنیا کی تاریخ کا سب سے گرم سال ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈبلیو ایم او کے مطابق حدت میں اس اضافے کا بڑا سبب انسانی حرکات ہیں۔ ادارے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پریشان کن امر یہ کہ گرمی کے ریکاڑد صرف ٹوٹ نہیں رہے بلکہ پاش پاش ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی نصف کرہ ء میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار بھی قابل برداشت حد سے بڑھ گئی ہے۔ شمالی نصف کرہ ء میں یہ حد سال دو ہزار چودہ میں ہی پار ہو گئی تھی۔دوسری جانب سائنسدانوں نے کہا ہے کہ آسٹریلیا کے سمندروں میں مونگے اور مرجانی سلسلوں کی پلیچنگ بھی نوٹ کی گئی ہے جب کہ بعض افریقی ممالک اس وقت شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس کے علاوہ سولومن جزائر میں موجود 5 اہم جزیرے سمندر میں غائب ہوچکے ہیں۔ اس ادارے نے اعداد و شمار کی روشنی میں جو رپورٹ شایع کی ہے اس کے مطابق حالیہ گزرنے والا جون کا مہینہ مسلسل 14 واں مہینہ تھا جو زمین اور سمندروں کے لیے گرم ترین رہا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دسمبر میں اہم عالمی ممالک کا اجلاس ہوا تھا جس میں گلوبل وارمنگ میں کمی کے اقدامات کا فیصلہ کیا گیا تھا لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اقدامات کو سنجیدگی کے ساتھ نافذ العمل کرنے کی کوشش کی جائے بصورت دیگر دنیا ایسے خطرناک سیلابوں اور طوفانوں کا شکار ہو سکتی ہے جس سے بہت کچھ تلپٹ ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تلافی بھی ممکن نہ رہے گی۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی ذمے داری ان ترقی یافتہ صنعتی ممالک پر عاید ہوتی ہے جن کے کار خانے، ملیں اور فیکٹریاں دن رات زہریلی گیسیں خارج کرتی رہتی ہیں جب کہ زہریلا مواد پانی میں بھی بہا دیا جاتا ہے جس سے آبی آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے جو آبی حیات کے لیے ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ عالمی سطح کے اجلاسوں میں یہ فیصلے بھی کیے جاتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی صنعتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند تو نہیں کی جا سکتیں البتہ یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ زہریلا مواد پانی میں گرانے سے پہلے اس کی ٹریٹمنٹ کر لی جائے تا کہ اس کے زہریلے پن میں تھوڑی کمی واقع ہو جائے اسی طرح فضا میں چھوڑے جانے والے زہریلے دھوئیں کی بھی ٹریٹمنٹ کر لی جائے اس طرح بھی گلوبل وارمنگ کے خطرہ کو وقتی طور پر ٹالا جا سکتا ہے مگر شاید اس میں بھی وہ امیر ترین ممالک اپنا خسارہ سمجھتے ہیں۔

ڈبلیو ایم او کے موسمیاتی تبدیلی کے تحقیقاتی پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ کارلسن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ 2016کے ابتدائی چھ ماہ میں جو اعداد و شمار اس حوالے سے اکٹھے کیے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کرنے والے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کرۂ ارض پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیاں کسی ایک ملک نہیں بلکہ پورے کرۂ ارض اور اس پر بسنے والے انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
https://taghribnews.com/vdcdjn0xjyt0so6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ