تاریخ شائع کریں2017 20 July گھنٹہ 12:26
خبر کا کوڈ : 275947

پاک چین اقتصادی راہداری میں ایران کو بھی شامل کیا جائے

سی پیک کے مختلف منصوبوں کی تکمیل کے لئے سیکورٹی انتظامات مزید سخت کئے جائیں
سی پیک منصوبے سے پاکستان اور ایران کی دوستی میں تو مزید مضبوطی آئے گی، لیکن ساتھ ان ممالک سے بھی تعلقات میں بہتری آئے گی، جو کسی نہ کسی بلاواسطہ یا بلواسطہ طرح اس منصوبے سے منسلک ہیں
پاک چین اقتصادی راہداری میں ایران کو بھی شامل کیا جائے
پاک چین اقتصادی راہداری میں ایران کو بھی شامل کیا جائے، ایران سی پیک منصوبے میں اہم کردار ادا کرسکے گا، یہ بات کراچی میں کسٹم ہاوس میں منعقدہ "بزنس اینڈ رسرچ سیمینار آن سی پیک" سے خطاب میں ماہرین نے کہی۔ انھوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ پورے خطے کے لئے ایک گیم چینجر ہے، جس سے نہ صرف پورے جنوبی ایشیا کو فائدہ ہوگا، بلکہ دوسرے خطے کے عوام بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے۔



کسٹم کراچی کی ڈائریکٹر جنرل روبینہ واسطی نے کہا کہ "بلاشبہ یہ منصوبہ پاکستان اور چین کی قسمت بدل دے گا، یہ منصوبہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان نہیں، بلکہ دنیا کے درجنوں ملک اس سے جڑے ہوئے ہیں، ایسے میں ایران جو ہمارا نہ صرف پڑؤسی ہے، بلکہ برادر اسلامی بھی ہے، اسے بھی اس منصوبے میں شامل کرنا چاہیئے، ایران بھاری مشینری اور تیل و گیس کی بدولت اس منصوبے میں اہم پیش رفت دکھا سکے گا، اور ایران کی شمولیت سے منصوبے کی لاگت میں بھی کمی ہوگی۔" روبینہ واسطی نے کہا کہ "ایران کے انجئیرز اور دیگر ماہرین یہاں آکر ہمارے لوگوں کو تربیت فراہم کرسکتے ہیں، جبکہ گوادر اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہیں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، گویا اقتصادی ترقی کا سفر پاکستان اپنے دونون پڑوسیوں یعنی چین اور ایران کے ساتھ شروع کرسکتا ہے۔"



کراچی میں تعینات چین کے ڈپٹی قونصل جنرل چین ژیاڈونگ نے کہا کہ "سی پیک منصوبے سے پاکستان اور ایران کی دوستی میں تو مزید مضبوطی آئے گی، لیکن ساتھ ان ممالک سے بھی تعلقات میں بہتری آئے گی، جو کسی نہ کسی بلاواسطہ یا بلواسطہ طرح اس منصوبے سے منسلک ہیں۔" انھوں نے کہا کہ "اگرچہ یہ منصوبہ پورے خطے کے لئے بہت اہم ہے، اس کے باوجود چین کو اس منصوبے کی سیکورٹی کے حوالے سے بعض تحفظات درپیش ہیں۔"

انھوں نے کہا کہ "سی پیک کے مختلف منصوبوں کی تکمیل کے لئے سیکورٹی انتظامات مزید سخت کئے جائیں۔" بلوچستان میں چینی انجینئر جوڑے کے اغوا اور پھر ہلاکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ "جہاں جہاں یا جس علاقے سے بھی سی پیک کا کوئی منصوبہ گزرے وہاں سیکورٹی کے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے، کیونکہ چینیوں کے ساتھ پاکستانیوں کی جانب و مال بھی ہمیں عزیز ہے۔"



چین کے ڈپٹی قونصل جنرل نے مزید کہا کہ "صرف سیکورٹی کے مسائل ہی نہیں بلکہ ٹیکس سے متعلق کسٹم قوانین، ٹیرف کے مسائل اور لینڈ پالیسی بھی اس منصوبے کی راہ میں حائل ہے، جسے جلد دور کیا جائے، اس کے ساتھ ہی اسے آسان، سادہ اور سہل بنایا جائے، جبکہ منصوبے کے لئے سب سے اہم ترین بات بروقت اس کی تکمیل ہے۔"

انھوں نے سی پیک کی اہمیت کے حوالے سے مزید کہا کہ "اربوں ڈالر کے اس منصوبے میں ایران سمیت جو بھی ملک شمولیت کی خواہش ظاہر کرے گا، اسے خوش آمدید کہا جائے گا، البتہ ایران کی شمولیت سے منصوبے کی اہمت میں مزید اضافہ ہوگا، پاکستان میں سال دوہزار تیرہ سے یہ منصوبہ زیر غور ہے، جس کے تحت اب مختلف منصوبوں  پر کام کا آغاز کیا گیاہے، سی پیک کے نتیجے میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار چار فیصد سے بڑھ کر پانچ اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ گئی، جس میں آنے والے سالوں میں مزید اضافہ ہوگا۔"

سیمینار کے دوران مختلف ماہرین کی جانب سے پاکس چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے تیار کردہ معلومات پر مبنی پریزنٹیشنز بھی دی گئیں۔

ساوتھ ایشیا پاکستان ٹرمینلز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کیپٹن سید راشد جمیل نے کہا کہ "پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی مجموعی مالیت کا حجم اسی ارب پچاس کروڑ ڈالر ہے، جس سے پاکستان کی قسمت تبدیل ہوجائے گی۔"



انھوں نے کہا کہ "بعض پاکستانیوں اور یہاں کی صنعتوں کو خدشات ہیں کہ سی پیک کے بعد ان کا کاروبار یا روزگار سب چینی کمپنیاں لے جائیں گی، ایسا بالکل نہیں ہوگا، بلکہ چینی کمپنیوں کی یہاں آمد سے مقابلے کا رجحان بڑھے گا، جس سے سب کو فائدہ ہوگا۔" انھوں نے مزید کہا کہ "امریکا، برطانیہ اور سنگاپور ہر جگہ پاکستانی ورکرز کام کررہے ہیں، اگر چینی یہاں آتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیئے، پاکستان کو تو قومی سطح پر اس کا فائدہ اٹھانا چاہیئے، البتہ جو غیرقانونی کام ہوتے تھے، وہ نہیں ہوسکیں گے، تمام کاروبار باقاعدہ قانون کے مطابق کرنا ہوں گے۔"

کیپٹن راشد جمیل نے مزید کہا کہ "چینی حکام نے سیکورٹی کے حوالے سے بعض تحفظات کا اظہار کیا ہے، جس کے لئے پاکستان کی فوج، حکومت اور تمام ادارے سرگرم ہیں، جلد ہی یہ مسئلہ دور ہوجائے گا، البتہ کسٹم ٹیرف دنیا کے کئی ملکوں کے مقابلے میں دو تین گنا زیادہ ہے، جسے یقینا نیچے لانا ہوگا۔" ان کا کہنا تھا کہ " حکومت کے وسائل بڑھنے کے ساتھ کسٹم ٹیرف اور ٹیکسوں کی بلند شرح میں کمی ہوگی۔"



سائنوٹرانس لاجسٹک پاکستان کے چیئرمین بابر بادت نے کہا کہ "اس تمام معاملے میں منصوبے کی بروقت تکمیل سب سے اہم ہے، ہم ستر سال سے ہم مختلف منصوبوں کے انتظار میں ہیں، اگر سی پیک دو تین سال تاخیر کا شکار ہوتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، حکومت کے پاس پیسہ نہیں چینی یہاں پیسہ لگا رہے ہیں، رعایتیں تو اھیں دی جائیں گی، لیکن ایسا نہیں کہ وہ یہان پیسہ لگا کر تمام منافع سمیت وسائل بھی لے جائیں، لہذا جو مقامی کمپنیاں اور سرمایہ کار سی پیک سے خوف زدہ ہیں، وہ اپنے خدشات دور کرلیں، کیونکہ یہ منصوبہ سب کے لئے فائدہ مند ہے۔"

سیمینار سے خطاب میں پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے چیئرمین عارف الٰہی نے کہا کہ "پاکستان کی گوادر بندرگاہ اور چین کے علاقے کاشغر کے درمیان تین ہزار کلومیٹر کا یہ منصوبہ ہے، جس کے لئے ڈیٹا شیئرنگ، مانیٹرنگ، انٹیلی جنس شیئرنگ اور اسمگلنگ کی روک تھام کسٹم کی اہم ذمہ داریاں ہیں، قومی سطح پر اس منصوبے کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کے لئے لاہور میں بھی سیمینار کیا گیا تھا، اسی سلسلے میں کراچی میں یہ سیمینار منعقد کیا گیا ہے، جبکہ آئندہ اسلام آباد میں سیمینار منعقد کیا جائے گا۔" 
https://taghribnews.com/vdcdok0x5yt05n6.432y.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ