تاریخ شائع کریں2016 20 December گھنٹہ 10:46
خبر کا کوڈ : 254437

حلب کی آزادی سے مغربی دنیا کے منصوبے خآک میں مل گئے

عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر علامہ ناصر عباس جعفری کی خصوصی گفتگو
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کا تعلق راولپنڈی کے علاقے شکریال سے ہے، وہ تعلیمی لحاظ سے علم کی سرزمین قم المقدس سے فیضیاب ہوئے، وہ اپنے آپکو علامہ عارف حسینی کا روحانی فرزند کہلاتے ہیں، اسوقت مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل ہیں، شجاعت اور بہادری کے حوالے سے عام لوگوں میں جانے جاتے ہیں، مشکل حالات سے لڑنا خوب جانتے ہیں، ایک دفعہ جو ارادہ کرلیں وہ کرکے رہتے ہیں۔ خوف علامہ ناصر عباس کی لغت میں ہی نہیں۔
حلب کی آزادی سے مغربی دنیا کے منصوبے خآک میں مل گئے
مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کا تعلق راولپنڈی کے علاقے شکریال سے ہے، وہ تعلیمی لحاظ سے علم کی سرزمین قم المقدس سے فیضیاب ہوئے، وہ اپنے آپکو علامہ عارف حسینی کا روحانی فرزند کہلاتے ہیں، اسوقت مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل ہیں، شجاعت اور بہادری کے حوالے سے عام لوگوں میں جانے جاتے ہیں، مشکل حالات سے لڑنا خوب جانتے ہیں، ایک دفعہ جو ارادہ کرلیں وہ کرکے رہتے ہیں۔ خوف علامہ ناصر عباس کی لغت میں ہی نہیں۔ 


سوال: حلب کی فتح پر کیا کہتے ہیں؟ اسکی خطے کے حوالے سے کیا اہمیت بنتی ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں دنیا میں باالعموم اور خطے میں بالخصوص شام کی ایک اہمیت ہے، دنیا اس وقت ایک ٹرازنشنیل پیریڈ سے گزر رہی ہے۔  اسے ری شیپ ہونا ہے، امریکہ اور مغربی دنیا اس دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق ری شیپ (ڈھالنا) چاہتے ہیں، پہلی بار گریٹر مڈل ایسٹ کی باتیں ہوئی تھیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب لبنان پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا تو اس وقت امریکی سیکرٹری خارجہ کونڈالیزا رائس نے کہا تھا کہ بچہ پیدا ہونے کے وقت جو درد ہوتا ہے، یہ وہ درد ہے، کیونکہ گریٹر مڈل ایسٹ بننے جا رہا ہے۔ اس نے لبنان پر مسلط جنگ پر اپنا یہ تبصرہ کیا تھا۔ اس جنگ میں جب انہوں نے شکست کھائی تھی تو اس پر سید حسن نصراللہ نے فرمایا تھا کہ وہ بچہ مردہ پیدا ہوا ہے، یعنی انہیں اپنے مقصد میں شکست ہوئی ہے۔ پھر اس کے بعد شام میں جنگ مسلط کی گئی۔ کیونکہ شام مقاومت بلاک کا ایک اہم ستون ہے، 2006ء میں یہ لبنان کو توڑ دیتے تو شام کو توڑنا آسان ہو جاتا، لیکن جب وہ نہیں توڑ سکے تو انہوں نے اب شام کو توڑنے کی کوشش کی ہے۔ اب شام میں یہ نئے انداز سے حملہ آور ہوئے ہیں، انہوں نے براہ راست حملہ نہیں کیا، بلکہ پوری دنیا سے دہشتگردوں کو اکٹھا کیا گیا اور شام میں جمع کرکے جہاد شروع کرا دیا۔ ان کو ٹرینگ دی گئی، امکانات اور وسائل فراہم کئے گئے۔ شام کے نقشے کو دیکھیں تو حلب اس کیلئے بہت ہی اہمیت کا حامل شہر ہے، کیونکہ حلب پر حملہ کرنا ان کیلئے آسان تھا، دوسرا حلب شام کی اقتصادیات کے حوالے سے اہم شہر تھا۔ یوں کہیں کہ ریڑھ کی ہڈی تھا۔

آبادی کے حوالے سے بھی بہت اہم شہر ہے، حلب کی آبادی 3.5 ملین ہے۔ صنعتی لحاظ سے بھی بہت اہم شہر تھا، سیاسی اور اسٹرٹیجک لحاظ سے بھی اہم شہر تھا، کیونکہ ترکی کے قریب لگتا تھا۔ یہ چاہتے تھے کہ اس شہر پر قبضہ کرکے باقاعدہ طور پر ایک حکومت کا اعلان کر دیں۔ القصیر اور قالمون کے علاقے بہت اہم علاقے تھے، اس سے پہلے جب حزب اللہ نے ان سے القصیر کا علاقہ چھینا تھا تو اسی وقت طے ہوگیا تھا کہ اب حلب کی باری ہے۔ اب حلب کی فتح کی طرف آئیں۔ حلب کی فتح عالمی قوتوں کی شکست ہے، اگر حلب ٹوٹ جاتا اور چھن جاتا تو یہ شام توڑتے، شام ٹوٹتا تو لبنان کو اپنی مرضی کے مطابق توڑتے۔ اسی طرح عراق کو توڑنا تھا، داعش کو اسی لئے عراق بھیجا گیا تھا، تاکہ عراق کے تین حصے کئے جا سکیں، اس کے بعد ترکی ٹوٹتا، پھر ایران ٹوٹتا، پاکستان کی باری آتی اور حتٰی چین کا علاقہ سنکیانگ بھی ٹوٹ جاتا۔ یہ اپنی مرضی کی دنیا کو ری شیپ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی مرضی کی عمارت میں شام کی حیثیت اس اینٹ کی تھی، جس کو نکالتے تو باقی ساری عمارت گر جاتی اور اس کے بعد یہ نئی بلڈنگ کھڑی کرتے، جو ان کی اپنی مرضی کے مطابق تعمیر ہوتی۔ یقیناً شام کے ٹوٹنے کے بعد چین اور روس کیلئے مسائل کھڑے ہونے تھے۔ امریکہ مخالف تمام قوتوں کو مسائل درپیش ہونا تھے۔ یہ لوگ قطر، بحرین اور یو اے ای کی طرح کے چھوٹے چھوٹے ملک بنا دیتے، جہاں اپنی مرضی کے حکمران بیٹھاتے۔ اس لحاظ سے حلب ان کیلئے بہت اہمیت کا حامل شہر تھا، جس کیلئے انہوں نے بہت وسائل، امکانات اور جدید اسلحہ سے لیس دہشتگردوں کو لڑایا۔ اب حلب پر امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور عرب ملکوں کا ردعمل چک کریں۔

سوال: عرب دنیا اور بالخصوص پاکستان میں ایک مکتب فکر کیطرف سے ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے کہ حلب سقوط کر گیا ہے۔ اسکا کیا مطلب ہے؟

علامہ ناصر عباس جعفری: آپ درست کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ ایک اصطلاح استعمال کر رہے ہیں کہ حلب سقوط کر گیا ہے، یہ نہیں کہتے کہ حلب آزاد ہوگیا ہے یا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے، یہ کہہ رہے ہیں کہ سقوط کر گیا ہے۔ اس شکست کے ساتھ ہی ان کا اپنی مرضی کی دنیا بنانے کا منصوبہ خاک میں مل گیا ہے۔ اب عراق سے بھی ان کا جانا ٹھہر گیا ہے، موصل میں جنگ جاری ہے۔ بہت سارے علاقے واپس لے لئے گئے ہیں۔ اب یہ طے ہوگیا ہے کہ مقاومت کا بلاک ٹھہر جائے، جس میں روس اور چین شامل ہیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ایشیاء کی موثر فورسز کے درمیان اتحاد پیدا ہوچکا ہے، چند دن پہلے جب اقوام متحدہ میں شام کے حوالے سے قرارداد پیش کی گئی تو چین اور روس نے ملکر اسے ویٹو کیا۔ اوباما جاتے ہوئے رو رہا ہے، حلب کی شکست سے ان کی آروزوں پر پانی پھرنا ہے۔

سوال: کیا اس فتح سے یمن پر بھی کوئی اثر پڑے گا؟

علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں عملی طور پر اب ان کی یمن میں بھی شکست ہوگئی ہے۔ یہ یمن کو دو ماہ میں چھیننا  چاہتے تھے، جو نہیں چھین سکے، یہ علی عبداللہ صالح اور عوام کا جو اتحاد بنا ہوا ہے، اس کو شکست دینا چاہتے تھے لیکن نہیں دے سکے۔ سعودی عرب 20 ماہ سے یہ جنگ نہیں جیت سکا۔ یہ کبھی بھی اپنی مرضی کی حکومت نہیں بنا سکتے۔ جیت آخر مظلوموں کی ہونی ہے۔

سوال: حلب سے ایران اور پاکستان جیسے ملکوں کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟

علامہ ناصر عباس جعفری: جی بالکل، اس فتح سے پاکستان، ایران اور عراق بھی ٹوٹنے سے بچ گئے ہیں۔ حلب میں صرف شام کا ہی نہیں، بلکہ پاکستان، ایران، عراق، چین اور روس کا بھی دفاع ہو رہا تھا۔ اگر یہ لوگ وہاں کامیاب ہو جاتے تو چین میں بھی جہاد شروع ہو جاتا۔ یہ افغانستان کو بھی ڈسٹرب رکھنا چاہتے ہیں۔ حلب کی شکست عالمی استکباری قوتوں کی بڑی شکست ہے۔ پانچ سال شام کے عوام نے مقاومت کی ہے۔ اگر شام کے عوام کی بشار کے ساتھ حمایت نہ ہوتی تو جیسے امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب، قطر، دیگر مغربی ممالک ٹوٹ پڑے تھے، اس کی حکومت کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔

سوال: پاکستان میں حلب کی شکست پر خون کے آنسو بہائے جا رہے ہیں، حتی مظاہرے کئے گئے ہیں، اسکی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

علامہ ناصر عباس جعفری: یہ اہم سوال ہے کہ پاکستان میں تکفیری اور ان کے ہمفکر کیوں رو رہے ہیں؟، یہ داعش اور القاعدہ کی شکست پر کیوں رو رہے ہیں؟، اس لئے کہ یہ پاکستان میں داعش کا پوٹنشل ہیں، یہ سلیپنگ القاعدہ بھی ہے اور سلیپنگ داعش بھی ہے، ان کے لوگ میڈیا میں بھی موجود ہیں اور دیگر اداروں میں بھی موجود ہیں۔ حتی کالم نگاروں میں بھی ان کے لوگ شامل ہیں، ان سے کوئی سوال کرے کہ بھائی آپ کے وزیرستان میں ازبک آئے، دیگر ملکوں کے جہادی آئے تو آپ نے ان کو واش نہیں کیا؟، ان کی بلڈنگز تک ختم کر دیں تو آپ کو حق حاصل ہے کہ انہیں واش کریں، لیکن پوری دنیا سے شام میں دہشت گرد جمع ہو جائیں اور ان کو ختم کریں تو آپ روتے ہیں، یہ کونسی سوچ ہے، یہ دہشتگردوں والی سوچ ہے۔ حکومت اور ریاسی اداروں کو سوچنا چاہیے کہ جو پاکستان میں داعش اور القاعدہ کی شکست پر روئے ہیں، دراصل یہ داعش اور القاعدہ کے یار ہیں، ان کے ہمفکر ہیں، ان کی آئیڈیالوجی ایک ہے۔ وہ چاہیے میڈیا میں موجود صحافی ہوں، اخبارات ہوں یا اینکرز ہوں، یہ ان کے سہولت کار ہیں۔ وہ اخبارات جو تشیع کیخلاف نفرت پیدا کر رہے ہیں، یہ دراصل پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ داعش کی شکست سے پوری دنیا کو سکون ملے گا۔ عوام کی جانیں محفوظ ہو جائیں گے۔ افسوس یہ حلب پر رو رہے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں کہ حلب کا سقوط ہوگیا ہے۔ دراصل حلب قاتلوں، فرعون اور ہلاکوں کے پیکرو کاروں سے آزاد ہوگیا ہے۔ وہاں زندگی آگئی ہے، وہاں نشاط آگئی ہے، جب لوگ وہاں جیت کا جشن منائیں گے تو پتہ چلے گا کہ کتنی بڑی فتح ہوئی ہے۔

سوال: حلب کی فتح خود نظام ولایت کے پیروکاروں کیلئے کتنی اہمیت رکھتی ہے؟

علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں، تھوڑا ماضی میں جائیں، انقلاب آنے سے پہلے امام خمینی نے فلسطین کے بارے میں جو  کہا اور جو باتیں کیں، انقلاب کے آنے کے بعد بھی اس پر قائم رہے۔ آپ دیکھیں کہ انقلاب آنے کے بعد تہران میں اسرائیل کی ایمبیسی کو بند کرکے اسی بلڈنگ میں فلسطین کی ایمبسی کھولی گئی۔ تمام تر عالمی حالات جھیلے، پابندیاں برداشت کیں، جنگ مسلط کی گئی لیکن فلسطین کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یہ سب اصولوں کی بنیاد پر تھا کہ مظلوموں کا ساتھ دینا ہے، ظالم کے مخالف رہنا ہے۔ اسرائیل ایک ظالم ریاست ہے، جو فلسطینوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے ایک ناجائز ریاست وجود میں آئی ہے، اسے ختم ہونا چاہیئے۔ یہ امام خمینی کا نظریہ اور اصول تھا، جس پر وہ آج تک قائم ہیں۔ شام وہ حکومت تھی جو اس نظریہ پر ساتھ رہی، شامی حکومت فلسطین کے ایشو پر جمہوری اسلامی کے ہمقدم رہی۔ اسی طرح جمہوری اسلامی ایران نے بھی شام کا ساتھ نہیں چھوڑا، روس تو اب جاکر ساتھ ملا ہے، لیکن جب شام کے ساتھ کوئی نہیں تھا، حتیٰ لوگ کہہ رہے تھے کہ شام آج گیا کہ کل گیا، اس وقت ایران ہی واحد ملک تھا جو بشارالاسد کے ساتھ کھڑا تھا۔ ایران شام کے مظلوم لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا، اسی طرح لبنان اور فلسطین کے ساتھ کھڑا تھا اور کھڑے ہیں، اسی طرح عراق کے ساتھ آٹھ سال جنگ ہوئی، لیکن عراق کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ یہ بتلاتا ہے کہ نظام ولایت کے پیروکار دہشتگردون کے مقابلے میں اسٹینڈ لیتے ہیں۔ ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ اگر ایران شام کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا تو آج شام کا نام نشان تک مٹ چکا ہوتا، اسی طرح فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی کا نام تک مٹ چکا ہوتا۔ اگر حماس کے پاس میزائل اور اسلحہ ہے تو وہ ایران نے دیا ہے، ترکی نے نہیں دیا۔ ایران کا ریاستوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں کردار نہیں ہے، وہ ریاستوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ حکومتوں کو مضبوط بنانے میں ساتھ دے رہے ہیں۔ وہ دہشتگردی کا شکار ملکوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ امریکہ اس کے حامی ملک ریاستوں کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔ اگر ایران شام کے ساتھ کھڑا ہوا ہے تو چین اور روس بھی آکر ساتھ کھڑے ہوگئے۔ امام خمینی نے جو اصول سٹ کئے تھے، امام خامنہ ای انہی اصولوں کو لیکر آگے چل رہے ہیں۔ یمنیوں نے سعودی عرب پر حملہ نہیں کیا، سعودی عرب ان پر حملہ آور ہے۔

سوال: ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے، کیا دونوں ملکوں کو دہشتگردی کیخلاف ملکر نہیں چلنا چاہیئے؟

علامہ ناصر عباس جعفری: پاکستان کے ساتھ ایران اور چین کا باڈر ملتا ہے، اگر یہ چاہتے ہیں کہ دہشتگردی کو کاونٹر کیا جائے تو ان ممالک کو آپس میں ملنا چاہیئے، تاکہ ساوتھ ایشیا میں دہشتگردوں کو شکست ہو، اس سے امن لوٹے گا تو پاکستان ترقی کرے گا۔ دہشتگردی پورے علاقے کیلئے خطرہ ہے، مرکزی حکومت کو مضبوط ہونا چاہیئے۔ وہ آئیڈیالوجی جو دہشتگردی پر مبنی ہے، سلفی تکفیری جہادی، دیوبندی تکفیری جہادی اور وہابی تکفیری جہادی، اگر پاکستان میں اس کو کاونٹر نہیں کریں گے تو یہ سلیپنگ داعش اور سلیپنگ القاعدہ کے طور پر یہ فکر پاکستان میں موجود رہے گی، جو خطرناک ثابت ہوگی۔ مستقبل کے لئے یہ فکر ایک بڑا تھرٹ ہے۔ یہ فکر پاک چین اقصتادی راہداری اور مستحکم پاکستان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ریجن مضبوط ہو اور یہاں امن لوٹے۔ اس فکر کو کاونٹر کرنے کیلے تینوں ملکوں کو ملکر بیٹھنا ہوگا۔

سوال: آرمی چیف کی تقرری، اسکے بعد دیگر تقرریاں اور تبادلے، کیا حکومت مضبوط ہوگی، اس صورتحال سے اگلے الیکشن پر کیا اثر پڑیگا؟

علامہ ناصر عباس جعفری: دیکھیں ایک کمزور حکومت ڈیلور نہیں کرسکتی۔ ساری دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہو جائے، وہ کامیاب نہیں ہوسکتی، جن کے پاس ویژن موجود نہ ہو، جو یہ سمجھتے ہوں کہ فقط سڑکیں بنانے سے ترقی آتی ہے، جن کے دور حکومت میں تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہو جائیں، اسپتالوں میں بری حالت ہو، کروڑوں بچے اسکول نہ جا رہے ہوں، جن کو پتہ ہی نہیں کہ ملک کی ترقی کیلئے کونسے اقدامات کرنے ہیں، جن کی حکومت میں وزیر خارجہ تک نہ ہو، جن کی حکومت میں ایک وزیر، دفاع کا بھی قلمدان رکھتا ہو اور واپڈا کا بھی تو پھر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ عوام کو کیا ڈیلور کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ جن کا مقصد ہی بزنس کرنا ہو، وہ عوام پاکستان کی خدمت نہیں کرسکتے۔ وہ فقط حکومت میں آکر اچھا بزنس کرتے ہیں، بس یہی ہوگا کہ ان کا کاروبار بڑھ جائیگا، ان کی کرپشن چھپ جائے گی، یہ ملک کے حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ گذشتہ تیس سال سے حکومت کر رہے ہین، جو پہلے ہو رہا تھا وہی مزید خراب تر ہوگا۔ عوام پاکستان کی مشکلات بڑھیں گے۔ لیڈرشپ بہت اہم چیز ہے، حکومت کا ویژنری ہونا اہم ہے۔ قانون پر عمل درآری نہیں ہوگی اور ملک میں جنگل کا قانون ہوگا۔ ویژنری لوگ آگے آئیں، لیکن جو الیکشن خرید کر آگے آئیں گے، وہ ملک کو خراب ہی کرسکتے ہیں، بہتری کیلئے کچھ نہیں کرسکتے۔

سوال: ہفتہ وحدت کے حوالے سے کیا پیغام دیں گے؟
علامہ ناصر عباس جعفری: ہفتہ وحدت کے حوالے سے یہی کہوں گا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت رسول خدا کی ولادت کا دن ہے، جنہوں نے عظیم انقلاب کی بنیاد رکھی، اس کو آگے بڑھایا،  جو جھوٹ، فریب، دھوکے، مکر اور ظلم کے نظام سے لڑتے رہے اور لوگوں کو آزادی اور حریت کا پیغام دیتے رہے۔ ہمیں چایہئے کہ ان سے سیکھیں، ہر حال میں مظلوموں کا ساتھ دینا ہے، حق کا پرچم اٹھانا ہے، ہر حال میں میدان میں حاضر رہنا ہے، ظالموں کا مقابلہ کرنا ہے، اچھائی کیلئے جدوجہد کرنی ہے، معاشرے میں علم کے چراغ جلانے ہیں، جہالت کو ختم کرنا ہے، مایوس نہیں ہونا، یہی ہم نے ان عظیم ہستیوں سیکھنا ہے، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کتنے مشکل دور میں مظالم برداشت کرنے کے باوجود آپ مایوس نہیں ہوئے۔ ایک وقت تھا کہ آئمہ کے پاس دو شاگرد تک نہیں ہوتے تھے، لیکن ایک وقت آیا کہ ہزاروں لوگ درس میں شریک ہوئے۔ امام ابو حنفیہ کہتے ہیں کہ امام صادق کی دو سال تک شاگردی نہ کی ہوتی تو میں ہلاک ہو جاتا۔ علمی مرجعیت وہیں لوٹ آئی، جہاں اسے لوٹنا چاہیئے تھا، اخلاقی مرجعیت، قرآن اور دین کی تفیسر کی مرجعیت وہی لوٹ آئی، جہاں اسے لوٹ کر آنا چاہیئے تھا، بلآخر حق لوٹ کر آئے گا، باطل کو شکست ہوکر رہے گی، باطل کی تقدیر میں شکست لکھ دی گئی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اہل حق میدان میں حاضر رہیں۔ ثابت قدم ہوں، بابصیرت ہوں اور منظم ہوں تو باطل کو شکست ہو کر رہے گی۔
https://taghribnews.com/vdcexe8wfjh8nei.dqbj.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ