تاریخ شائع کریں2017 17 July گھنٹہ 12:19
خبر کا کوڈ : 275525

پاک ایران تجارت کا روشن مستقبل

بلوچستان کے تاجروں کو ایرانی اور عالمی اصولوں کے مطابق اشیاء تیار کرنی چاہیں، تاکہ انہیں تجارت میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے
پاکستان اور ایران کے تاجر حوالے ہنڈی کے ذریعے رقوم منتقل کرتے ہیں، لیکن اب پاکستان اور ایرانی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت فیصلہ کیا ہے کہ یورو اور ین میں بینکوں‌ کے ذریعے ترسیلات کی جائیں گی۔
پاک ایران تجارت کا روشن مستقبل
صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ جو کہ چاروں اطراف سے بلند و بالا پہاڑوں‌ میں‌ گھرا ہوا ہے، اس علاقے کے 75 فیصد عوام کا ذریعہ معاش زراعت اور لائیو سٹاک کے علاوہ تجارت سے وابستہ ہے۔ بلوچستان کے تاجر کم وسائل اور سہولیات کے باوجود لوگوں کو روزگار کی فراہمی کیساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں‌ سالانہ اربوں‌ روپے کا ریونیو، ٹیکس کی مد میں‌ جمع کرکے قومی خزانے کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کا بارڈر ایران کیساتھ منسلک ہونے کیوجہ سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو تجارتی ایمپورٹ‌ اور ایکسپورٹ کے حوالے سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ ویسے تو ایران میں‌ بہت سی چیزیں پاکستانی تاجر ایکسپورٹ کرتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر پاکستانی چاول کو ایران میں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ 2016ء اور 2017ء کے دوران بلوچستان کے تاجروں نے ایران میں 1 لاکھ 16 ہزار 62 میٹرک ٹن چاول ایکسپورٹ کرکے 5 ارب 15 کروڑ 40 لاکھ 14 ہزار 347 روپے کا ریونیو قومی خزانے میں جمع کرایا۔ اسی طرح 42 ہزار 940 میٹرک ٹن تل بھی ایران ایکسپورٹ کیا گیا۔ اس مد میں 1 ارب 34 کروڑ 69 لاکھ 56 ہزار 914 روپے کا ریونیو حاصل کرکے قومی خزانے میں‌ جمع کیا گیا۔ بلوچستان سے تاجروں کا 12 رکنی وفد 5 روزہ دورے پر یکم اگست کو تہران روانہ ہوگا، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ کو یقینی بنانے کیساتھ ساتھ اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے خصوصی بات چیت کی جاسکے۔ محکمہ انڈسٹری صنعت و حرفت بلوچستان کی رپورٹ کے مطابق ایران سے کھانے پینے کی اشیاء سمیت تقریباً 112 سے زائد اشیاء پاکستان میں امپورٹ ہو رہی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ایران کیساتھ تجارت کے شعبے میں مزید بہتری پیدا کرنے کیلئے 25 سے 35 فیصد ٹیکس ویلیو میں کمی کی گئی ہے، جس سے ایران کے تاجروں‌ کو کافی فائدہ پہنچ رہا ہے۔

رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن پاکستان کیمطابق اقتصادی پابندیوں سے قبل ایران کو پاکستان کیجانب سے چالیس کروڑ ڈالر کا چار لاکھ ٹن سوپر باسمتی چاول برآمد کیا جاتا تھا۔ لیکن اب گذشتہ چھ سالوں سے پابندیوں‌ کیوجہ سے مجموعی طور پر سالانہ صرف ایک لاکھ ٹن چاول ہی برآمد کیا جا رہا ہے۔ جنوری 2016ء میں ایران پر عالمی اقتصادی پابندیاں اٹھنے کے بعد پاکستانی تاجروں نے وفاقی حکومت سے پاک ایران تجارتی تعلقات کی بحالی کا مطالبہ کیا، جسکے پیش نظر 23 مارچ 2017ء کو یوم پاکستان کے موقع پر وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) کیجانب سے ایران کیساتھ تجارت کی بحالی کا باقاعدہ اعلان ہوا۔ اس ضمن میں چاول کی پہلی شپمنٹ اپریل کے مہینے میں ایران کی طرف روانہ کی گئی۔ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے مطابق پہلے مرحلے میں 10 لاکھ ٹن چاول ایران بھیجا جائے گا، جبکہ ایران سے بھی کیمیکل اور دیگر مصنوعات درآمد کی جائیں گی۔ ادارہ فروغ برآمدات کے چیف ایگزیکیٹو محمد منیر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ پاکستانی چاول بھیجنے کیلئے ایران سے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ بینکنگ چینل کھولنے سے دو سال میں پاک ایران تجارت دو ارب ڈالر پر پہنچنے کے امکانات ہیں۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹیکس کیمطابق وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کیجانب سے ایران کیساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کے بعد مارچ 2016ء کی بنسبت مارچ 2017ء میں باسمتی چاول کی برآمدات میں 154.28 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رواں سال صرف مارچ کے مہینے میں 45 ہزار 745 میٹرک ٹن چاول ایران برآمد کیا گیا۔ جسکی قیمت 43.976 ملین امریکی ڈالر لگائی گئی، جبکہ گذشتہ سال اسی مہینے صرف 17.294 ملین امریکی ڈالر کا 17 ہزار 412 میٹرک ٹن چاول ایران کو برآمد کیا گیا تھا۔

اس بہتری کی وجہ جہاں ایک جانب ایران پر عالمی اقتصادی پابندیوں کے اٹھنے کو قرار دیا جا رہا ہے تو دوسری جانب ایرانی حکومت کیجانب سے چاول کی حد اکثر قیمت کو کم کرنا بھی ہے۔ اس سے قبل انڈیا بھی پاکستان کی طرح ایران میں اپنا چاول بڑی مقدار میں برآمد کرتا رہا ہے۔ ایک سال قبل ایران میں چاول کی فی میٹرک ٹن کی قیمت 950 ڈالر رکھی گئی تھی، جبکہ اب ایرانی حکومت کیجانب سے حد اکثر قیمت کو 850 ڈالر فی میٹرک ٹن کر دی گئی ہے۔ ایران کیساتھ زیادہ سمندری فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈیا کے تاجروں کیلئے اس کم قیمت پر اپنا چاول فروخت کرنا زیادہ منافع بخش نہیں، لیکن پاکستان چونکہ ایران کیساتھ زمینی اور دریائی طور پر منسلک ہے، اسی وجہ سے پاکستان کو اب بھی اپنے چاول فروخت کرنے میں زیادہ منافع حاصل ہو رہا ہے۔ گذشتہ دنوں کوئٹہ چیمبر آف کامرس کا خصوصی دورہ کرتے ہوئے ایران میں تعینات پاکستانی سفیر محمد آصف درانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی تاجر قراردادوں کے ذریعے قوانین اور ضابطوں کیمطابق ایرانی تاجروں سے تجارت کریں۔ تاجروں کے مسائل حل کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے تاجروں کو ایرانی اور عالمی اصولوں کے مطابق اشیاء تیار کرنی چاہیں، تاکہ انہیں تجارت میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پاکستان اور ایران کے تاجر حوالے ہنڈی کے ذریعے رقوم منتقل کرتے ہیں، لیکن اب پاکستان اور ایرانی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت فیصلہ کیا ہے کہ یورو اور ین میں بینکوں‌ کے ذریعے ترسیلات کی جائیں گی۔ تاجروں کی سہولت کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور مرکزی بینک ایران ایل سی کی گارنٹی دے گا۔ پاکستانی تاجروں کو چاہیئے کہ وہ روایتی بزنس کو چھوڑ کر کارپوریٹ بزنس کی طرف آئیں۔

پاک ایران مشترکہ ایوان صنعت و تجارت کے صدر حاجی ولی محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان سے ایکسپورٹ ہونے والا چاول جب ایران کے شہر زاہدان پہنچتا ہے تو لیبارٹری سے تصدیق کیلئے چاول کے نمونے کو تہران بھیجا جاتا ہیں۔ اس دوران تاجروں کو کئی ہفتوں تک انتظار کرکے دشواری اٹھانا پڑتی ہے۔ اسکے علاوہ پاکستانی کنٹینرز جب ایران کے مختلف شہروں میں سامان پہنچانے کے غرض سے جاتے ہیں تو ان سے فیس کی مد میں خطیر رقم وصول کی جاتی ہے، جو کہ دس ہزار سے پچاس ہزار روپے ہوتی ہے۔ اسی طرح ایران کو پاکستان میں اپنے تازہ پھل لانے کی کھلی اجازت ہے، جبکہ پاکستان کو اپنے تازہ پھل جیسے کہ آم، کینو اور کیلے وغیرہ ایران میں صرف ایک محدود مدت تک فروخت کرنے کی اجازت ہے۔ دریں اثناء چیمبر آف کامرس کوئٹہ کیجانب پاکستانی سفیر محمد آصف درانی کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے کہ پاکستان سے ایران جانے والی مال بردار گاڑیوں کو زاہدان کے علاوہ ایران کے کسی اور علاقے میں ان لوڈ ہونے کی اجازت نہیں، جبکہ ایرانی ویزے کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چیمبر کیجانب سے پرمٹ کے خاتمے، دستاویزات کی تصدیق کی فیس میں اضافے، میر جاؤا میں مال کیلئے گوداموں کی فراہمی اور وہاں سے لوڈنگ اور ان لوڈنگ کی اجازت کے سلسلے میں بھی سفیر کو کردار ادا کرنے کی استدعا کی گئی۔ بینکنگ چینل کھولنے کے حوالے سے 15 اپریل 2017ء کو تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مرکزی بینک اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا، جس میں اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ریاض الدین ریاض اور بینک مرکزی جمہوری اسلامی ایران کے وائس گورنر غلام علی کامیاب نے اپنے اپنے مرکزی بینکوں کی جانب سے معاہدے پر دستخط کئے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان گیارہ سالوں کے طویل عرصے کے بعد بینکاری نظام کی بحالی کیلئے دونوں ملکوں کے مرکزی بینکوں کے درمیان معاہدے طے پائے۔ اس معاہدے کا مقصد باہمی تجارت کے لئے انتظام کا طریقہ فراہم کرنا تھا، جو کہ بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کے مطابق ایل سی کے ذریعے ہونے والی تجارت کی ادائیگیوں میں استعمال ہوگا۔ اس معاہدے کے تحت بینک تجارتی لین دین کے لئے مجاز بینکوں کو کام کرنے کی دعوت دیں گے۔ اس حوالے سے طریقہ کار کی تفصیل اسٹیٹ بینک جاری کرے گا، جبکہ اسٹیٹ بینک کو امید ہے کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے تجارتی روابط کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس طریقہ کار کو لیٹر آف کریڈیٹ کے ذریعے اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے تحت ہونے والی تجارت کی ادائیگیوں کے لئے استعمال کیا جائے گا، جبکہ طریقہ کار کے حوالے سے تفصیلات اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کی جائیں گی۔ آنے والے دنوں میں پاکستان اور ایران کے درمیان‌ تجارتی فروغ کے حوالے سے ایک نیا باب شروع ہونے کی امیدیں ظاہر کی جا رہی ہیں، جبکہ گذشتہ سال ایرانی صدر حسن روحانی کی پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کیساتھ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کو سالانہ 5 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ لہذا اگر پاکستان مستقبل میں بیرونی مداخلت کو نظرانداز کرتے ہوئے ملکی مفادات کی خاطر اپنے ہمسایہ ملک ایران کیساتھ اچھے روابط قائم رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے، تو اس سے دونوں ممالک کے تاجر حضرات اور عام عوام کو بے حد معاشی فائدہ ہوسکتا ہے۔

رپورٹ: نوید حیدر
بشکریہ: اسلام ٹائمز
https://taghribnews.com/vdcf0td0tw6deta.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ