تاریخ شائع کریں2017 14 June گھنٹہ 15:58
خبر کا کوڈ : 271583

اسلامی اتحاد میں حائل رکاوٹیں

قرآن کریم نے رسول اعظم ﷺ کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ،اسلامی معاشرے کی رھبری قرار دی ہے اور ان اختلافات کے حل کی ذمہ داری نبی کریم ﷺ کی
یقیناًاختلاف کو چھوڑکر اتحاد اپنانے سے مراد یہ ہرگز یہ نہیں کہ ہر ایک کہ آداب و عقائد و سنت رسم و رواج ایک ہو جا ئیں کہ ہم اس طرح کے اتحاد کے وجود کو محال جا نیں اس اتحاد کو وجود میں لانے کے لئے مذھبی وعقیدتی تفاوت کو علمی مباحث اور مناظرات کلامی سے مغلوب کیا جائے اور ایک فرقہ دوسرے فرقے کو حق سمجھتے ہو ئے اتحاد کرلے بلکہ مسلمان اپنے اپنے مذاھب اور عقیدے پر برقرار رہتے ہو ئے اور مباحث علمی کو جا ری رکھتے ہوئے اصول مشترک یعنی خدائے واحد ،قبلہ واحد ،کتاب آسمانی واحد ،نبی واحد وغیرہ وغیر ہ ، پر شرک و کفر و ظلم و بیداد ،استکبار و استعمارکے مقابل میں اور حق جوئی کے لئے اتحاد کی کوشش ہو سکتی ہے ۔ ۔
اسلامی اتحاد میں حائل  رکاوٹیں
اشارہ

قرآن کی تعلیمات اور اُمت اسلامی اس بات سے مانع ہے کہ استکبار اپنے ناپاک عزایم میں کامیاب ہو سکےلیکن اس شرط کے ساتھ جب امت اسلام قرآن سے متمسک اور  مشترکات دینی و مذھبی میں خرد مندی کے ساتھ اور تعصبات نژادی و قرقے کو چھوڑدے اور اپنا محور اسلام اور قرآن کو قرار دیتے ہو متعصب انگیز مواد کہ جو مخلتف چینلز پر فساد اور تفرقہ پھیلانے کے لئے نشر ہوتا ہے اس سے متاثر ناہو۔

اتحاد کے عوامل اور ان کے اثار کی تحقیق اور ان میں رکاوٹیں اور ان کی علت و اسباب اور اس اتحاد کے تحفظ  اور رکاوٹوں کی دوری کی  راہیں یہ باتیں ان باتوں  میں سے ہے کہ جن کو اس سال بری اھمیت دی گئی ہے اسی بنا پر پیش نظر مقالہ  قرآن و اہل بیت کی تعلیمات کی روشنی میں رکاوٹیں اتحاد کے ایک گوشے کی تحقیق ہے ۔

اتحاد بشریت کے لئے ایک نعمت الہی ہے
اتحاد و بھائی چارہ اور  صبر و استقامت ملتوں کی کامیابی کے راز ہیں اور اختلاف و تن پروری اور دنیا طلبی ملتوں کی شکست اور زلت کے اسباب ہیں اور یہ سنت الہی ہے کہ جو معاشروں میں رائج ہے اسی وجہ سے قراان نے اتحاد کو ایک نعمت کے عنوان سے پہچنوایا اور مسلمانوں کوخطاب کرتے ہو ئے فرمایا

واذكُروا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم اِذ كُنتُم اَعداءً فَاَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَاَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ اِخونًا1 اپنے اوپر ہونے والی نعمتوں کو یاد کر و کہ جب تم دشمن تھے پس خدا نے تمہاری دلوں کو جوڑ دیا پس اس نعمت کےسبب تم بھائی بن گئے ۔

انسان طبیعتا ً مدنی الطبع یعنی سوسائیٹی میں رہنے کا عادی ہے جس کا تقاضا ہے کہ وہ تنہا نہیں رہ سکتا زندگی گذارنے کے لئے اس کا  سوسائیٹی کا انتخاب اس کی طبیعت کا تقاضا ہے ، یہ بات اپنے فوائد کے حصول کے لئے مدمقابل آنے والی مشکلات کے رفع کا تضاضا کرتی ہے ۔

قانون  و شریعت وہ بھی ایسی شریعت کہ جس کا تعلق آسمان سے ہو اورانبیا علیہم السلام کی جس کی تبین کی ہو اس  کی ضرورت کا فلسفہ بھی یہی ہے ۔3

قرآن کریم نے اُمت اسلامی کی اور انسانی سماج  کی وحدت پرتاکید کی کہ جس کی جانب توجہ کرنے سے انسان روبط عمومی کی تقویت  اور سامنے والے  کے احترام کو پاتا ہے اور سلطہ طلب اور استکبار و استعمار کے روک تھام میں قدم آگے بڑھا تا ہے اسی بنا پر قرآن جو ہر خلقت  انسان کو  یکساں پہچنواتا ہے 

"هو الذی خلقکم من نفس واحده"4 جنسی ،قومی و لسانی پہچان کو فخر فروشی کے عنوان سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی پہنچان  کے عنوان سے بتا تا ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح پہنچانا جا سکے و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا؛5 ہم نے تم کو ملتوں اور قبائل میں قرار دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہنچان سکو ۔اور جو انسان کی برتری کا معیار کے وہ تقویٰ ہے وہ خدا کے حضور،ایسانہیں کہ جو شخص تقویٰ کا حامل ہے  انسان معاشرے میں اسکے حقوق ایک عام شہری سے زیادہ ہوں اگر ایسا ہو تو معاشرہ طغیان اور ریاکاریکا شکار ہو جا ئے گاجبکہ برعکس دیکھا جا ئے تو تقویٰ  فردی و اجتماعی سیاست و اقصاد کا رکن ہے اور اس رعایت کرنا ضروری ہے ۔

قرآن پوری دنیا کے  اتحاد کے علاوہ ادیان کہ جنکا گوہر و جوہر ایک ہے یعنی  خدا کے آگے تسلیم ہے کہ یہ وہی اسلام ہے ان کے بھی اتحاد کرنے کو حکم دیتا ہے ارشاد ہوااِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الاِسلامُ 6." اگر ادیانی آسمانی چاہیں تواپنے اختلافات کو چھوڑ کر تین بنیادی اصول اسلام کہ توحید ، نبوت و قیامت پر تکیہ کرتے ہوئے  الحاد و کفر کے خلاف اتحاد کر سکتےہیں ، ۔قُل ياَهلَ الكِتبِ تَعالَوا اِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَينَنا وبَينَكُم اَلَّا نَعبُدَ اِلَّا اللَّهَ ولانُشرِكَ بِهِ شيًئا...»7

ادیان آسمانی کے اتحاد کے مقولے سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ دین کامل کی اقدار کو چھوڑ دیا جا ئے اور بلکہ ادیانی اتحاد سے مراد دین کی اساس کو محفوظ کرنا ہے اور معاشرے میں امن برقرار رکھتے ہو ئے استکبار و سلطہ طلب دنیا تجاوز پسند افکار و کفرکے مد مقابل کھڑا ہو نا ہے   جو مودر تاکید قرآن مجید ہے ۔

مومنین کا اتحاد اور امت اسلام کا اتحا د بھائی چارہ بعنوان ’’اُمت واحدہ ‘‘ کے عنوان سے ہے  اِنَّ هذِهِ اُمَّتُكُم اُمَّةً واحِدَةً واَنَا رَبُّكُم فَاعبُدون»8. اس بنا پر قرآن مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی کہہ رہا ہے ’’ انماالمومنون اخوۃً   ۹ اور ان سےخیر اور تقویٰ میں ایک دوسرے کا مدگار بنے کو کہا ’’ تعاونوا علی البر و التقویٰ ‘‘ ۱۰ ،اور حبل المتین  الہی سے تمسک  کو کہا اور ہر طرح کے اختلاف و تفرقہ کو چھوڑنے کو کہا ’’وارتصموا بحبل اللہ جمعیاً و لاتفرقوا‘‘ ۱۱ اور وہ کہ جو مومنین کی صفوف میں دراڑ کا سبب بنےوہ مسلمانوں کی عزت و شوکت کو زخمی کرتا ہے  روح امید و سماج کی  اصلاح کو نااُمیداور دل سرد   کر دیتاہے اور معاشرے و افراد کو انحاط و انھدار  کا شکار کر دیتا ہے  ۔

اس بنا پر نبی مکرم اسلامﷺ اجتماع کی تاکید کی اور اسے رحمت قرار دیا اور تفرقہ کو مایہ عذاب جانا ’’ الجماعۃ رحمۃ والفرقۃ عذاب 12اور قرآن نے ان مومنین کو کہ جو راہ خدا میں فولاد کی مانند دشمن اسلام سے بر سر پیکار ہیں انہیں خدا کا محبوب قرار دیا ہے ۔ "اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذينَ يُقاتِلونَ فى سَبيلِهِ صَفًّا كَاَنَّهُم بُنيانٌ‏مَرصوص"13 اسی طرح کے مومنین متحد وا نسجام و انضمام کی بدولت اور عزلت نشینی سے دور رہتے ہوئے سیاسی و اقتصاد ی،ثقافتی و اجتماعی ہیں   ۔ 14 اور طوفانوں تلاطم اور مشکلات میں  ،سازشوں میں ،تفرقہ افکنی میں اور مستکبروں کے ناپاکعزائم اور ان کی  پلید نیات اور ان کی قوت و دولت کی حوس میں ،فرست طلبوں کی لالچی فطرت کے مقابل میں یہ مومنین سیہ ساپلائی ہو دیوار ہو تے ہیں ۔

ہاں البتہ اختلاف کو چھوڑکر اتحاد اپنانے سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ ہر ایک کہ آداب و عقائد و سنت رسم و رواج ایک ہو جا ئیں کہ ہم اس اتحاد کے تحقق کو محال جا نیں  اس اتحاد کو وجود میں لانے کے لئے مذھبی وعقیدتی  تفاوت کو علمی  مباحث اور  کلامی  مناظرات سے مغلوب کیا جائے  اور ایک فرقہ دوسرے فرقے کو حق سمجھتے ہو ئے اتحاد کرلے بلکہ مسلمان اپنے اپنے مذاھب اور عقیدے پر برقرار رہتے ہو ئے اور مباحث علمی کو جا ری رکھتے ہوئے اصول مشترک یعنی خدائے واحد ،قبلہ واحد ،کتاب آسمانی واحد ،نبی واحد وغیرہ وغیر ہ ، پر شرک و کفر و ظلم و بیداد ،استکبار و استعمارکے مقابل میں اور حق جوئی کے لئے اتحاد کی کوشش ہو سکتی ہے ۔

ہمیں معمار انقلاب سلامی سید روح اللہ خمینی  کی اس فریاد کو سنا ہوگا کہ ’’ ہم مسلمانوں کو خود سے جدا محسوس نہیں کرتے اور امید کرتے ہیں کہ مسلمان بھی یہی سوچ رکھیں  کہ سب اسلامی ممالک ہیں اور سب مسلمانوں کے ہیں ‘‘15 ۔اگر مسلمان اسلامی دستورات پر عمل پیرا ہو جا ئے اور وحد ت کی حفاظت کرے  اور اس بات کو سمجھ لے کہ اختلاف و تنازع انکی شکست اور تنزلی کا سبب ہے ، لاالہ الااللہ  کے پرچم کے سائے میں رہتے ہوئے اسلام کے دشنموں  اور تجاوز کرنے والوں کے ہاتھوں سے اسلامی ممالک کو محفوظ رکھیں اورشرق و غرب کے ہاتھوں کو مسلمان ممالک سے کاٹ ڈالیں۔ ۱۶

اتحاد کی رکاوٹیں
بالیقین مسلمانوں کااتحاد مسلمانوں کے لئے مایہ افتخارو قدرت و شوکت اور ان کے دشمنوں کے ضُعف کا باعث اور مستکبران جھان کی آنکھ کا کانٹا ہے ۔یہ اتحاد بغیر رکاوٹ اور عکس العمل کے ممکن نہیں دشمن اس  اتحاد کے خلاف بہت گہری سازش و طولانی  پالیسی کے ساتھ میدان میں واردہوگا اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیھلانے کی کوشش کرے گا اور اسلامی اقدار کہ جو اس  اتحاد کی روح ہیں اسکی  رونق کو کم رنگ کرنے کے لئے سازشیں کرے گا ،ان اوامر کی تلاش اور ان نکات کی جستجو  مسلمانوں کےمفکرین کا کام ہے کہ وہ ان نکات کو بیان کریں اور ان کے بارے تدبیر کا تلاش کرے  تاکہ دشمن اسلام کو  اس بات کی فرصت ناملے کہ وہ اسلام پر شب خون مار کر اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب نا ہو۔

اس مقالے میں اختلاف کے عوامل اور رکاوٹوں کو دو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے

الف) اتحاد کی اخلاقی رکاوٹیں
ب)اتحاد کی  سیاسی و اجتماعی رکاوٹیں
اگر چہ ان رکاوٹوں  کے  ہر گوشے پر تحقیق کرنا ایک فرصت طلب کام ہے لیکن ہم کم وقت میں اس مسلئے کی کلیات اور اصلی مسائل کی جانب اشارہ کریں گے۔

الف)اتحاد کے اخلاقی رکاوٹیں
نبی اکرم ﷺنے اپنی بعثت کے ہدف کو مکارم اخلاق کی تکمیل کہا ہے۔

"انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق»17 اور اخلاق  و آداب فقط فرد میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس کا بیشتر حصہ اخلاق اجتماعی سے تعلق رکھتاہے بنیادی طور پر جب فردی اخلاق فاسد ہو گا   فرد کہ جو اجتماع کی اکائی اور جزہے تو خودبخود معاشرہ فاسدہو گا اور انسان کے آپس کے روابط میں فساد پیدا  ہو گا اتحاد بھی  بعنوان ایک اجتماعی مسئلے اور معاشرے  کی صفات کا ایک جز  ہونے کی حیثیت سے کے اس بات سے مستثنیٰ نہیں  ۔

 صحیح اسلامی اخلاق  اتحاد کی بنیادوں کومحکم و مستحکم کرتا ہے اور بری اور رذیل صفات کو بنیادوں سے اکھڑ کر  باہر پھینک دیتا ہے   ۔
 
 
۱) ہواپرستی اور عدم اخلاص:
بہت سے اختلافات چاہے فردی ہو ں یا گروہی ہوں ظاہری طور پر ان کی بنیاد علمی اور فکری ہے ، لیکن در اصل میں ہوا پرستی ، خود پسندی ، خودخواہی کے علاوہ اس میں کو ئی دوسرا عنصر نہیں۱۸۔

اگر کسی پوسٹ کی تعیناتی  اور اس کی حمایت اور خدمت ،رضالہی کےلئے ہو نا کہ  جان پہنچان ، رشتہ داریاں ، ہم مسلک و پارٹی ، کے لئے  ہو ،ساری زمہ داریاں اسلامی معاشرے سے مشکلات کے حل کے لئے ہوں تواتحاد حاصل ہو جا ئے گا، اسی وجہ سے شیطان اختلاف و تفرقہ ڈالتاہےکہ مخلصوں کو آنے ہی نا دیا جائے کیونکہ جب  مخلص افراد  ہر عہدے پر آجا ئیں گے تو اس کا تسلط باقی ہی نہیں رہے گا کیونکہ اس نے خود اعتراف کیا ۔لاغویّنهم اجمعین الّا عبادک منهم المخلصین"19اسی وجہ سے نبی مکرم اسلامﷺ نے خدا کی راہ میں اخلاص عمل کو اہم عنصر قرار دیا ہے تاکہ  کسی مسلمان کاقلب  کسی بھی وقت خیانت نا کرے  ۔ثلاثٌ لاَیُغلُّ علیهنّ قلب رَجُلٍ مُسلِمٍ. اخلاصُ العمل لله عزوجل و النصیحة لائمه المسلمین و اللزوم لجماعتهم.»20

مذکورہ عبارت میں خدا کے لئے اخلاص  کا دوسرے دو عناوین  پر  مقدم ہونا  یہ بات روشن کرتا ہے کہ اخلاص اختلافات کے  ختم کرنے  کا محور ہے ۔

۲) اندھا تعصب :
زاتی و مذھبی و گروہی تعصب من جملہ ان رکاوٹوں میں سے ہے جو اتحاد کے لئے مضرہیں  ،متعصب  انسان اپنی مذھبی وابستگی یا قومی و گروہی وابستگی کو بغیر کسی دلیل کے مدنظر رکھتا ہے اور اس کی حمایت میں افراطی کیفیت کو اپنا نا ، اپنا مذھبی و شریعی وظیفہ سمجھتا ہےاور اپنے مخالف نظریات کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بناتاہے اور انہیں رد کرتا ہے   .21

متعصب شخص کی مثال اس شخص کی مانند ہے کہ جو اکیلے کسی آئنہ گھر میں رہتا ہے اور اپنے علاوہ کسی کو نہیں دیکھتا ہے ،قرآن مشرکوں کی وصف بیان کرتے ہو ئے فرماتا ہے ۔ "واِذا قيلَ لَهُمُ اتَّبِعوا ما اَنزَلَ اللَّهُ قالوا بَل نَتَّبِعُ ما اَلفَينا عَلَيهِ ءاباءَنا اَولَو كانَ ءاباؤُهُم لايَعقِلونَ شَيًئا ولا يَهتَدون؛22 جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں بلکہ  جو کچھ ہمارے آباء واجداد نے چھوڑا ہے ہم تو اس کی پیروی کریں گے  ہر چند ان کے آباء اجداد نا کو ئی بات سمجھتے تھے اور نا ہدایت یافتہ تھے ۔

بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات  تعصب سے سازگار نہیں ہیں جو بھی جو بھی خود تعصب کرتا ہے یا کوئی دوسرا اس کی خاطر تعصب  کرتاہے وہ ایمان کی رمق سے خالی ہوتا ہے اور یہیی معنٰی نبی اکرم ﷺ  کی حدیث مبارکہ سے سمجھ میں آتا ہے۔«مَن تَعَصّب أو تُعُصّبَ له فقد خلع ربق الایمان من عنقه.»23 ان سب کے باوجود کس طریقے سے  اسلام  وایمان کا دعویٰ  کرسکتا ہے جبکہ وہ خود   قومی ولسانی و مذھبی  اندھے تعصب  کی بذر پاشی کرے ؟
کیا ایسا نہیں کہ استعمار گروں نے  وہابی متعصب کو بعنوان اوزار مسلمانوں کو برادر کشی پر لگایا دیا ہے ؟ 

۳) تکبر و خود پسندی :
تکبراُن  اخلاقی آفات میں سے کہ جو انسانی معاشرے کو دیگر گوں کر دیتا ہے یہ  بُری صفت  استکبار طلب کی  خُو ہے اور یہ  صرف ان میں   منحصر نہیں بلکہ مسلمان نما افراد میں اس طرح کی صفات پائی جا تی ہیں کہ جب وہ افراد کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو مسلمانوں کو بے گانوں سے زیادہ  ضرر پہنچاتے ہیں قرآن کریم ایسے روحانی بیماروں  کی حکایت کرتا ہے کہ جنھوں نے اپنی اس نفسیات کے سبب اپنی پوری قوم کو برباد کردیا  ۔جیسا کہ قوم عاد و قوم جناب شعیب کے بارے میں قرآن نے ان صفات کا ذکر کیا۔ "فامّا عاد فاستکبروا فی الارض"24 " قالَ المَلَاُ الَّذينَ استَكبَروا مِن قَومِهِ لَنُخرِجَنَّكَ ياشُعَيبُ ‏و الَّذينَ ءامَنوا مَعَكَ مِن قَريَتِنا ... "25 ۔ پس قوم عاد نے زمین پر تکبر کیا ، قوم کے بڑے جنھوں نے تکبر کیا (شعیب سے ) کہا ائے شعیب ہم تمہیں  اور تمہارے ساتھ ایمان ایمان لانے والوں کو ( اس شہر سے ) نکال دیں گے ،

اس کے علاوہ متکبر انسان سے  معاشرہ  اور  سب جدا ہوجاتے ہیں  متکبر انسان  بہت جلد تنہا ہو جا تا ہے  اور اس کے اپنے اس کا ساتھ چھوڑ جاتےہیں ۲۲۔

حتٰی اس کے بہت قریبی دوست اور احباب اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ،متکبر معاشرہ اختلاف اور انتشار   کا شکار رہتا ہے ۔

یہی معنٰی امیر المومنین علی علیہ السلام کی ایک حدیث سے ظاہر ہوتا ہے،’’ من تکبر علی الناس ذل ۔۲۷۔جو کوئی تکبر  کرتا ہے ذلیل ہو جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ  آج دنیا بھر میں آزاد پسند خُو امریکہ کی ہٹ دھرمی اور متکبرآنہ سوچ کے لئے نفرت اور حقارت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

۴)حسد و کینہ و بد گمانی
 مسلمانوں کے درمیان  اختلاف کا ہونا ایک طبیعی امر ہے کہ جس  کی وجہ سے آپس میں کد ورتیں پیش آتی ہیں کہ جو بڑت پن  اور مسالمت آمیز رویے و عفو  درگذر سے قابل حل ہیں  جبکہ اس کے برخلاف کینہ توزی  ،اختلاف و کدورتوں کی افزائش کا سبب بنتا ہے ۔

تاریخ اس طرح کے داستانوں سے پُر ہے کہ جس میں انتقام جو ئی کی خاطر سلاطین  و اُمراء و قبائل کے سرداروں نے اقوام و ملتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جبکہ  اس کا سبب کنیہ اور حسد وبدگمانی  تھی کہ جس نے لوگوں کو ھتک ناموس اور تجاوز پر ابھارا اور معاشرے کے اتحاد کو سبوتاژ کیا ۔

تاریخ اسلام میں بھی نیز اس طرح واقعات موجود ہیں جس کی بنیاد کینہ توزی ہے لیکن پیغمبر ﷺ و قرآن کی تعلیمات  کی اساس صلح و آشتی اور دینی بھائیوں کےدرمیان بھائی چارہ ہےفاصلحوا بین اخویکم»28  بُرائیوں کا اچھائی سے جواب دینا ،ادفع بالتی ھی احسن  ۲۹ عفو و در گذر کواپنی زندگی کا حصہ بنالینا ،خذ العفو و امُر بالمعرف و اعرض عن الجاھلین ۳۰ جب اس طرح کی فضا مسلمانوں کے درمیان جڑ پکڑ لے گی تو تمام تر سازشیں دم توڑجائیں گی اورمسلمان دوسروں کے بھی مدد گار ثابت ہو ں گے ۔

۵)دنیا پرستی و جاہ طلبی
ایثار و فداکاری  و تواضع و فروتنی اسلامی اتحاد کی نیاز میں سے ہے ، دنیاکے طالب اور شہرت کے عاشق مقام و منزلت کے رسیا یہ سب کام مال و منال کےلئے کرتے ہیں اور آڑے وقت میں میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں لہذا لائق افراد کو ہر وہ میدان سونپھنا چاہیے کہ جس  کی وہ اہلیت رکھتے ہیں جو لوگ نہ اہل ہوتے ہیں پھر وہ  تعصب کا سہارا لیتے ہیں اور رشتے داری یا پارٹی کی بنیاد پر آگے آتے ہیں یہ افراد سب سے پہلے اتحاد اسلامی و مسلمان پر حملہ کرتے ہیں یہ افراد حبل اللہ متین سے تمسک نہیں کرتے  بلکہ حبل الشیطان سے تمسک کرتے ہیں  اور تفرقہ پھیلاتے ہیں ایسے افراد بڑی آسانی سے تھوڑے سے مال پر اور معمولی سے عہدے کے عوض اپنی اور اپنی قوم کی  شوکت و عزت بیچ دیتے ہیں استعمار گر بھی ایسے ہی افراد کی تلاش میں رہتے ہیں۔

قرآن کی تعبیر کےمطابق ایسے افراد لھوو لعب  کی تجارت میں مصروف ہیں ،واِذا رَاَوا تِجارَةً اَو لَهوًا اِنفَضّوا اِلَيها وتَرَكوك َ‏قائمًا31 "

اسی وجہ سے امیرالمومنین علیہ السلام نے دنیا کی دوستی کو ہر فتنے کا آغاز قرار دیا ہے ،حب الدنیا رأس الفتن و اصلُ المِحنَ32 " اور اس سے بڑھکر اور کیا رنج ہوگا کہ ایک ارب مسلمانوں کا اقتصاد،سیاست و نظام غرب زدہ ہے ۔
سیاسی رکاوٹیں اور اجتماعی اتحاد

گوشہ نشینی، تخرب کاری، اپنے لیڈر و رھبر کی اطاعت کا قبول نہ کرنااور ان سب میں استعمار کا کردار، یہ وہ امور ہیں کہ جنھیں اہم ترین سیاسی و اجتماعی  رکاوٹیں کہا جا سکتا ہے  ۔

۱)گوشہ نشینی: اجتماعی امور میں حصہ لینا اور کسی زمہ داری کو قبول کرنا اتحاد کے لوازم میں سے ہے،وہ افراد کہ جو دوسروں کی  نااہلی کو دیکھتے ہیں یا ان کی ارزش کے قائل نہیں ہو تے ،ماحوال کو سالم نہیں دیکھتے ،یا یہ کہ کس بھی مقام ومنزلت کواہمیت نہیں دیتے ہیں  کنج عزلت میں چلے جاتے ہیں یعنی تنہائی اختیار کرلیتے ہیں یہ افرادناصرف دشمنوں کو نہیں بھاتے بلکہ بنیادی طور پر ان افراد کی تشویق اور حمایت کے سزاوار ٹھرتے ہیں ۔

نبی اکرم ﷺ اجتماع کومایہ رحمت اور پراگندگی کو مایہ عذاب قرار دیتے ہیں الجماعۃُ رحمۃ الفرقۃ عذاب ،۳۳ اور قرآن کریم نے ایک چھوٹے سے جملے سے کہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ً ولاتفرقوا ۳۴ ۔کہہ کر حکم قطعی کہ اجتماع لازم ہے صادر کر دیا،کیونکہ اجتماع درد مشترک کو احساس کرتا ہے اور  بصورت اجتماع اس کے حل کی تلاش کرتا ہے نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں ، من اصبح لا یھتم بامور المسلمین  فلیس بمسلم ۳۵۔ وہ  کہ جو صبح اس حالت میں بیدار ہوا کہ اس نے مسلمانوں کے امور کے بارے میں کچھ نہیں سوچا یا کو ئی اہتمام نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ،ایک اور مقام پر فرمایا ، من سمع رجلاً ینادی یا للمسلمین ،فلم یُجبہ فلیس بمسلم ۳۶۔ کسی نے سنا کہ کو ئی مسلمان مدد کے لئے پکار رہا ہے کہ میری مدد کرو اور وہ اسکو جواب نا دے تو وہ مسلمان نہیں،ایسا بہت بار ہوا ہے کہ جب اسلامی جمہوری کی سیاست میں موجود کچھ مسلمان نما افراد یہ کہتے ہو ئے نظر آتے ہیں کہ جب اسلامی جمہوریہ نے عراق و افغانستان ،شام و لبنان و فلسطین و بوسینا ہرزگونیہ کی مدد کی تو انھوں نے یہ کہتے ہو ئے اعتراض کیا جہ ہمارے داخلی مسائل بہت زیادہ ہیں ان کو پہلے دیکھا جا ئے  اُن مشکل سے ہمارا کیا تعلق اُن کےمسائل وہ جانیں۔

یہی وہ باتیں ہیں کہ جو عامۃ الناس کی زبانوں پر بھی آجاتی ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض فلموں اور ٹی وی ڈارموں  اور ٹاک شو میں یہ بات کہی جا تی ہے کہ ’’ یہ مشکل  تمہاری ہے‘‘  ۔

۲ )تخریب کاری: تنظموں کا پھیلاو اور مغرب کے  سیاسی گروہوں  کی خیال پردازیاں اور ان کی روشن فکری  کہ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے درد کا علاج  تنظیموں کی زیادتی یا افزائش میں ہے وہ کسی ملک کی خوش حالی کو سیاسی تنظیموں کی افزائش میں دیکھتے ہیں  یہ بات درست ہے کہ ایسی تنظیم کہ جو باضمیر و ملت پرست و باایمان ہو اور ملک کی اصلاح میں قدم بڑھائے اس کی افادیت سے انکار نہیں  لیکن عام طور پر اخلاقی رکاوٹیں جیسا کہ تعصب و افراط و جاہ طلبی ، نفس پرستی ،حسادت و بد بینی و اخلاص کا نا ہونا  اور ان جیسے عوامل  کے حامل افراد ان تنظیموں میں نفوز پیدا کر لیتے ہیں جو خود  ایک اتحاد کی راہ میں  بڑی رکاوٹ ہے   ۔

 لیکن اگراسلامی ممالک کی تنظیمیں اسلام کی قدر ت اور کلمۃ اللہ کے لئے کام کرے تو سینکڑوں تنظمیں بھی کم ہیں  ایسی تنظیمیں حزب اللہ کے مصداق بن جا ئیں گے کہ جو قرآن و سنت  کی تائیدمیں ہو اور  دشمن اسلام کے مقابے میں کامیابی کی نوید ہو جائے گی ، الا ان حزب اللہ ھم الغالبون ۳۷۔

امام خُمینی ؒ نے گروہ بازی کے خطرناک ہونے تاکید کی اور فرمایا ’’ کہ جو اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ ملک کی  خدمت کریں گے ، انھیں یہ بات سمجھا دو ،ان سے کہو، اگر خدمت کرنا چاہتے ہو تو کیوں گروہ گروہ ہو گئے ہو ؟   گروہ  گروہ ہونے کو معنٰی یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں اپنے لئے کام کروں ،یہ اپنے لئے کام کرنا چاہتے ہیں ، اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۳۸


۳)اطاعت کا قبول نا کرنا
رھبر یا لیڈر کشتی کا ناخدا ہوا کرتا ہے اسکا وجود لازم ہے اگر کشتی میں سوار لوگ اپنی اپنی مرضی چلائیں تو ناصرف کشتی منزل مقصود تک نہیں پہنچے گی اس کے غرق ہونے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے ،خدا اور پیغبر و اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت اور ایک ایسے صالح فرد کی اطاعت کہ جو ان کی پیروی کرتا ہے اس بات کو قرآن کی تائید حاصل ہے ،اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم۳۹۔

قرآن کریم نے رسول اعظم ﷺ کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ،اسلامی معاشرے کی رھبری قرار دی ہے اور ان اختلافات کے حل کی ذمہ داری نبی کریم ﷺ کی ہے اور حکم ہے کہ تم خدا اور رسول کے حکم کے سامنے اپنی گردنیں جھکالو ،فان تنازعتم فی شی ءٍ فردوہ الی اللہ والرسول ۴۰۔

ایرانی عوام نے اپنے رھبر کی اطاعت میں دو ہزار پانچ سو سالہ  شھنشاہی نظام  کو مٹی میں ملایااور کامیابی حاصل کی ،بحران انقلاب ، پابندیاں ،دھکمیاں ، جنگ و اضطراب ایک بعد ایک سب کو سر کرتے چلے گئے اور سربلند رہے لیکن یہ ابھی اختتام نہیں  بلکہ اس کو جاری رہنا ہے کہ جو صرف اپنے رھبر کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں اور اگر اس کوئی کوہتائی ہوئی تو اتحطاط کا شکار ہو جا ئیں گے ۔

۴)استعمار:خوئے استعماری اور روح استکباری اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ مسلمانوں کو عزت و برتری ملے ،قوم عاد اسی روح کی حامل تھی کہ جس نےکہاتھا کون ہے جو ہماری طرح قدرت رکھتاہے 

"فَاَمّا عادٌ فاستَكبَروا فِى‏الاَرضِ بِغَيرِالحَقِّ وقالوا مَن اَشَدُّ مِنّا قُوَّةً ا"41

اس بنا پر مستکبران  ہمیشہ مستقل وآزادی کے خواہا ممالک  کو کمزور کرنے کے پیچھے ہیں اور یہ کہ اسلامی معاشروں کا اتحاد اور ان کا آپس میں انسجام ان کے لئے خطرہ ہے نا ایک گوشہ نشین مسلمان ، استعمار اس اتحاد کوتوڑنے کی خاطر ان میں تفرقہ ڈالنے کی خاطر کوششیں کرتا ہے اور یہ کہ قرآن کریم اور اس کی تعلیمات وحدت کا مرکز اور محور ہے  اور ان سب سے بڑا حربہ مسلمانوں کو  ان کے اپنے اعتقادات میں کمزور کرنا ہے  ۔

یہ ایک  خطرناک بیانیہ ہےجو یہودی معاشرے نے دیا ہے کہتے ہیں ’’ ہم پر واجب ہے کہ ان کتاب ، قرآن کو کہ جو ان کا تیز دھار ہتھیار ہے ، اس سے کام لیں تا کہ اسلام کو ان کے درمیان سے ختم کردیں ، ہم پر واجب ہے کہ ہم لوگوں کو بتائیں کہ جو کچھ اس قرآن میں ہے صحیح ہے جدید نہیں ہے اور اس کو کسی اور جگہ سے لیا ہے اور جو کچھ اس میں جدید ہے وہ صحیح نہیں ہے ۴۲۔

’’گلاڈسٹون ‘‘ جو کہ  برطانیہ  کے اہم ترین صدر رہ چکے ہیں  برطانیہ کی بادشاہت کے لئے اس کی اسمبلی میں عوام سے کہتا ہے  ’’دو چیزوں نے  اسلام پر ہماری استعماریت کو روک رکھا ہے ہمیں چاہیے کہ بھر پور قوت کے ساتھ کوشش کریں ،دو ہی چیزیں ہیں، وہ اپنے ساتھ قرآن لایا ہو ا تھا ،اس وقت اس نے قرآن دیکھایا اور کہا ،سب سے پہلے یہ کتاب ، کچھ تھوڑا سا رکنے کےبعد مشرق کی جانب اشارہ کرکے کہتا ہے ،دوسرے یہ کعبہ  ،43
اس نے مسلمانوں کے دو مشترک محور کی جانب اشارہ کیا اور ان دونوں کی نشاندہی ہو چکی ہے ۔44

حوالہ جات:

1. 1.آل عمران، 103.
2. ر.ک: اخلاق در قرآن، مکارم شیرازی و همکاران، ج3، ص443.
3. دایرة المعارف قرآن کریم، جلد 2، ص 337.
4. نساء/ 1.
5. حجرات/ 13.
6. آل عمران/ 19.
7. آل عمران، 64.
8. انبياء،92.
9. حجرات/ 10.
10. 8.. مائده/ 2.
11. آل عمران/ 130
12. میزان الحکمه، جلد 1، حدیث 2438، ص 406.
13. صف/ 4.
14. اخلاق در قرآن؛ جلد 3، ص 449.
15. 5.. وحدت از دیدگاه امام خمینی ص 199، سخنرانی 12/10/61
16. همان، ص 200، سخنرانی 22/ 11/61.
17. کنز العمال، متقی هندی، جلد 3، ص 16 حدیث 5217 ؛ نک: اخلاق در قرآن جلد 1، احادیث دیگر.
18. بیداری اسلامی و مواجهه صحیح با اختلافات، یوسف قرضاوی ، ترجمه عبدالرسول گلرانی ص 187.
19. حجر/ 39ـ 40.
20. خصال صدوق، باب سوم ص 167، محجة البیضأ جلد 8 ص 135 ، احادیث دیگر : اخلاق در قرآن 1/ 274.
21. بیداری اسلامی 191، اخلاق در قرآن جلد 2 ص 198.
22. 1 بقره/ 170
23. اصول کافی، ج 2/ ص 308 حدیث 2.
24. فصلت/ 15.
25. اعراف/ 88.
26. اخلاق در قرآن جلد 2 ص 29ـ 30 و 59.
27. بحارالانوار، جلد 74، ص 235 حدیث 3.
28. حجرات/ 10.
29. فصلت/ 34.
30. اعراف/ 99.
31. جمعه/ 11.
32. غرر الحکم و درر الکلم ، شماره 4870.
33. میزان الحکمه جلد 1 حدیث 2438 صفحه 406.
34. 1 آل عمران/ 103.
35. کافی، کتاب الایمان و الکفر باب 70 حدیث او 5.
36. کافی همان منبع حدیث 5.
37. 1 مائده/ 56
38. وحدت از دیدگاه امام خمینی ص 382.
39. نساء/ 59.
40. همان
41. فصلت/ 15.
42. قانون تفسیر، علی کمالی ص 11، نقل از التبشیر و الاستعمار فی البلاد و العربیه ص 40.
43. قانون تفسیر ص 11.
44. نک: وحدت از دیدگاه امام خمینی ، ص 337ـ 364.
https://taghribnews.com/vdcfcyd0mw6deta.k-iw.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ