تاریخ شائع کریں2015 14 October گھنٹہ 11:51
خبر کا کوڈ : 208584

محسن انسانیت امام حسین ؑ

محسن انسانیت امام حسین ؑ

دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو نظریئے سے عمل کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی ان کا کہنا ہے کہ کسی کے نظریئے سے اس کے عمل کا پتہ چلتا ہے اور دوسرے وہ ہیں کہ جن کا کہنا ہے کہ کردار سے کسی کے نظریئے و عقیدے کا پتہ چلتا ہے۔ ہم فیصلہ تاریخ سے کرواتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نظریئے سے عمل کا نہیں بلکہ عمل سے نظریئے و عقیدے کا پتہ چلتا ہے۔ فرعون کو ہی لے لیجئے، فرعون کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ منکر خدا تھا، اس نے حضرت موسٰی ؑ کے مقابلے میں آکر توحید کو جھٹلانے کی کوشش کی تھی اور اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا۔ اپنی جھوٹی خدائی کو باقی رکھنے کے لئے بنی اسرائیل کے معصوم بچوں کا قتل عام کرتا تھا۔ اسی طرح نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈال کر خدا سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ میری بحث فرعون یا نمرود کے عقیدے و نظریئے پر نہیں ہے، ان کے عقیدے تو واضح تھے بلکہ یہ تو خود ہی اپنے عقیدے کا اظہار کرتے تھے، اپنے آپ کو خدا کہلواتے تھے اور اپنی خدائی کو باقی رکھنے کے لئے لوگوں کا قتل عام کیا کرتے تھے۔ ہم نے ان کو بطور نمونہ اور اپنی بات کے ثبوت کے لئے کہ عمل سے عقیدے کا پتہ چلتا ہے پیش کیا ہے۔

میں بات ان کے عقیدے و نظریئے پر کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے ظاہراً اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے، جیسے یزید! تاریخ گواہ ہے کہ یزید نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یزید نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں اسلام کو اتنا نقصان پہنچایا کہ جس کا ازالہ قیامت تک نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی واقعہ کربلا رونما ہوا، اس نے کربلا کے میدان میں جو ظلم خاندان پیغمبر ؑ پر کیا، اس سے انسانیت کانپ اٹھتی ہے، اس نے محسن انسانیت امام حسین ؑ کو بڑی بے رحمی سے قتل کیا۔ یزید اپنے آپ کو خلیفہ رسولﷺ سمجھتا تھا اور نواسہ رسولﷺ کو اس خلافت کا باغی کہتا تھا۔ اسی بات کو لے کر یزید نے اپنے بنائے ہوئے نام نہاد مفتیوں سے امام حسینؑ کے قتل کا فتویٰ جاری کروایا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مفتی کا بک جانا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ رسم تو یزید سے چلی آ رہی ہے۔ یزید کے مظالم یہاں تک نہ رکے، بلکہ مکے و مدینے کی سرحدوں کو بھی پار کر گئے۔ اس نے مکے پر دھاوا بول کر خانہ خدا کو آگ لگا کر حجاج کرام کو قتل کیا۔ پھر مکے سے نکل کر اس نے مدینے پر حملہ کرکے دس ہزار مسلمانوں کو شہید کیا۔ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے اور تین دن تک مسجد نبوی میں اذان اور نماز نہ ہوسکی اور اپنے فوجوں پر مدینے میں رہنے والے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حلال قرار دیا اور کافی تعداد میں ناجائز بچے پیدا ہوئے۔

[1] ان سارے مظالم پر اس وقت بھی چند لوگوں کے سواء ساری امت مسلمہ خاموش رہی اور یزید کے ان تمام مظالم کو اسلام کا رنگ دیتی رہی۔ یہ تھی یزید کے عمل کی اس کے نظریئے و عقیدے پر دلالت۔

اب بات تھوڑی سی آل سعود کے عقیدے و نظریئے پر ہو جائے کہ ان کے عقیدے و نظریئے کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں۔ آل سعود نے اقتدار میں آتے ہی کردار یزیدی کو دہرانا شروع کر دیا۔ جس طرح یزید نے مدینے پر حملہ کیا تھا، اسی طرح آل سعود کے پہلے خلیفہ محمد بن سعود نے مدینے پر حملہ کرکے مزارات اہلبیتؑ و اصحاب پیغمبرﷺ کو گرایا اور روزہ رسول کی بے حرمتی کی۔
 
[2] جس طرح  یزید نے کربلا کے میدان میں امام حسین ؑ کو شہید کیا تھا، اسی طرح آلِ سعود نے کربلا پہ حملہ کرکے امام حسین ؑ کے مزار کو گرا کر یزید کی سنت پر عمل کیا۔ یزید نے کعبے پر حملہ کرکے خانہ خدا کو جلایا تھا اور بہت سارے حجاج کو قتل کیا تھا۔ آلِ سعود نے یزید کی اس سنت کو اسی سال منٰی کے میدان میں پورا کیا۔ یزید نے کعبے کو جلایا تھا، آلِ سعود نے حجاج کرام کی لاشوں کو سورج کی تپش سے جھلسا کر یزید کی سنّت ادا کی۔ یزید نے ذوالحجہ میں مدینے پر حملہ کیا تھا اور تقریباً چار ہزار سے زائد لوگ مارے گئے تھے، اس سال سانحہ منٰی بھی ذوالحجہ میں پیش آیا ہے اور اس میں بھی تقریباً چار ہزار سے زائد حجاج کرام بڑی بے دردی سے مارے گئے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ یزید کا کارنامہ تھا اور یہ آل یزید کا کار نامہ ہے۔

جس طرح سے یزید نے اپنے پالتو مفتیوں سے امام حسین کے قتل کا فتویٰ جاری کروایا تھا، اسی طرح آلِ سعود نے بھی اپنے زرخرید مفتیوں کے ذریعے سے حجاج کرام کے قتل کا ذمہ دار خدا کو ٹھہرایا ہے۔ یزید بھی حرام مہینوں میں مسلمانوں کو قتل کرتا تھا، آلِ سعود نے بھی حرام مہینوں میں یمن پر جنگ مسلط کر رکھی ہے، یزید اپنے آپ کو امیرالمومنین کہتا تھا، آلِ سعود اپنے آپ کو خادمین حرمین کہتے ہیں۔ جس طرح یزید نے کربلا کے میدان میں چھوٹے چھوٹے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے، اسی طرح یہ آل سعود آج یمن میں بچوں کا قتل عام کر رہے ہیں، نہتے یمنیوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جس طرح امت مسلمہ یزید کے ظلم پر خاموش تھی، اسی طرح آج ال سعود کے مظالم پر بھی خاموش ہے۔ ماضی میں جس طرح یزید کی عیاشیوں، بدکاریوں اور مظالم کو چھپایا جاتا تھا، اسی طرح آج آلِ سعود کی عیاشیوں، بدکاریوں اور مظالم کو چھپایا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے میڈیا، حکمرانوں، نام نہاد مفتیوں اور زرخرید دین کے ٹھیکیداروں کو تاریخ سے یہ عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ ظلم کی رات چاہے کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سویرا ضرور ہوتا ہے۔ حکومت اور دولت کی طاقت سے جب یزید اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک امیرالمومنین نہیں کہلوا سکا تو آلِ سعود خادم الحرمین شریفین ہونے کا ڈھونگ کب تک رچائے رکھیں گے۔ یزید کی طرح آلِ سعود کا ہر عمل ان کے باطل ہونے پر کھلا گواہ ہے۔
[1]: خلافت و ملوکیت ص182، تاریخ طبری ج4 ص472، ابن الشر ج3 ص310
[2] از تاریخ نجد و حجاز

تحریر: سجاد احمد مستوئی
https://taghribnews.com/vdcg779xtak9zn4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ