تاریخ شائع کریں2017 14 June گھنٹہ 13:44
خبر کا کوڈ : 271548

فضائل و مناقب امیرالمومنین امام المتقین حضرت علی ؑ

شافعی اس جستجو میں مرگیا کہ علی ؑ اس کا خدا ہے یا رب اس کا خدا ہے
امیرالمومنین کے اتنے فضائل ہیں کہ گننا اور شمار کرنا ممکنات میں سے نہیں، یہ علی ؑ ہی تھے، جن کا مسجد نبوی میں کھلنے والا دروازہ رسول خدا نے بند نہیں کیا تھا، جبکہ دیگر صحابہ کے دروازے بند کر دیئے گئے تھے
فضائل و مناقب امیرالمومنین امام المتقین حضرت علی ؑ
فرزند ابو طالب، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو بعض ایسے شرف اور فضائل حاصل ہیں، جو کسی بھی اور شخصیت کو نصیب نہیں ہوئے۔ آپ پروردہ نبوت ہیں، اس لئے کہ ابھی بچے تھے کہ نبی کریمؐ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب ؑ سے آپ کو گود لے لیا، حضرت ابو طالب ؑ نے نبی آخر کی پرورش فرمائی تھی، اپنے پاس رکھنے کے بعد امام علی ؑ کی پرورش اور نشوونما آنحضرتؐ ہی کے زیرسایہ ہوئی، یہی وجہ ہے کہ کسی اور انسان کو آنحضرتؐ کے زیرسایہ اتنی وقت گذارنا اور صحبت رکھنا نصیب نہیں ہوا، جتنا امیرالمومنین حضرت علیؑ کو موقعہ ملا۔ حضرت علی ؑ خود فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمؐ کے ساتھ یوں ہوتا تھا جیسے اونٹنی کے ساتھ اس کا بچہ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے آنحضرتؐ نے اس طرح سے علم دیا، جیسے فاختہ دانہ دانہ کرکے اپنے بچے کو دیتی ہے۔ حضرت علی ؑ کا کہنا ہے کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو میں غار حرا میں آنحضرت ؐکے ساتھ تھا۔ اس موقع پر میں نے ایک زبردست چیخ سنی تو میں نے آنحضورؐ سے پوچھا کہ یہ کیسی آواز ہے؟ آپؐ نے فرمایا یہ شیطان کی چیخ ہے۔ پھر فرمایا: علی! جو میں دیکھتا ہوں، اگرچہ وہ تم نہیں دیکھتے، لیکن جو میں سنتا ہوں، وہ تم بھی سنتے ہو۔

امیرالمومنین کے اتنے فضائل ہیں کہ گننا اور شمار کرنا ممکنات میں سے نہیں، یہ علی ؑ ہی تھے، جن کا مسجد نبوی میں کھلنے والا دروازہ رسول خدا نے بند نہیں کیا تھا، جبکہ دیگر صحابہ کے دروازے بند کر دیئے گئے تھے، آپ کی پاکدامنی اور عصمت کی گواہی قرآن نے دی تھی کہ رجس آپ ؐ اور آپ کے اہلبیت کے دیگر اراکین سے دور تھا، قرآن اس کا گواہ ہے کہ صرف علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے اعلان نبوت سے پہلے بھی کوئی نادانی یا معصیت کاری نہیں کی تھی، نجانے کیسے لوگ حضرت ابو طالب کہ جو محسن اسلام ہیں، کے اس فرزند کیساتھ بغض و کینہ رکھتے ہوئے ناقابل قبول اور من گھڑت ضعیف روایات جنہیں خارجی اور ناصبیوں نے روایات کیا ہے، کے سہارے آپ کے مقام و منزلت پر وار کرتے ہیں۔ دراصل ایسے لوگ اپنی اصلیت کو ظاہر کرتے ہیں، ان کا شمار ان منافقین میں ہی ہوتا ہے، جنہیں زمانہ نبوت میں مسلمان پہچاننے کیلئے علی ؑ کا نام لیا کرتے تھے، ہمارے ملک میں قومی میڈیا میں ایسے کئی ایک ناسور اپنی تحریروں سے موالیان حیدر کرار کے دل دکھاتے نظر آتے ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک دن وہ گرفت میں آجائیں گے، تب انہیں بچانے کوئی نہیں آئے گا، اس لئے کہ ناصبیوں اور خارجیوں کی حکومت ایک دن ختم ہوگی اور امام مہدی ؑ کا دور شروع ہوگا، جس میں عدل و قسط قائم کیا جائے گا اور اہلبیت ؑ کے ساتھ تعصب کرنے والے اور ان کا دل دکھانے والوں کو ان کی کیئے کی سزا دی جائے گی۔

یہ امام علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے زندگی کا ہر لمحہ و ساعت رسول خدا کی معیت و سرپرستی میں گذاری، اسی لئے رسول خدا ؐنے امام علی ؑ کو ہی اپنا بھائی قرار دیا، جب مواخات مدینہ ہوا تو آپ نے سب کے سامنے علی ؑ کو اپنا بھائی منتخب فرمایا، یہ علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے بستر رسول پر سو کر آیت قرآنی کی رو سے مرضی خدا خرید لی، ایسے وقت میں جب کفار و مشرکین مکہ جو ابوسفیان کی قیادت میں آپ ؐ کو شہید کرنا چاہتے تھے، امام علی ؑ نے بستر رسول پر سو کر آپ کو ہجرت کیلئے روانہ کیا اور جب کفار و مشرکین آپ تک پہنچے تو سامنے مولا علی کو پایا، یہ علی ؑ ہی تھے، جنہوں نے تمام جنگوں میں اپنی شجاعت و بہادری سے خود کو منوایا، جنگ بدر میں مشرکین کے ستر چنیدہ سردار مارے گئے، جن میں سے آدھے امام ؑ علی نے تہہ تیغ کئے، جنگ خیبر میں یہودیوں کے معروف قلعہ کو آپ نے ہی فتح کیا اور یہودی پہلوان مرحب کو ایک ہی وار سے ختم کر دیا، جنگ خندق میں جب ایک پہلوان خندق پھلانگ کر اندر داخل ہوگیا اور رسول ؐ کے خیمہ کے سامنے مد مقابل کو للکارنے لگا تو سب سہمے ہوئے تھے، تب رسول کو غصہ میں کہنا پڑا کہ کون اس کتے کی زبان خاموش کریگا، اسی وقت مولا علی سامنے آئے جبکہ آپ کی عمر بہت چھوٹی تھی، امر ابن عبدود مانا ہوا پہلوان تھا، جو ایک ہزار بندوں پہ بھاری تھا، آپ نے اسے للکارا اور پہلے وار کا موقعہ دیا اور پھر اسے اگلے جہاں رخصت کر دیا۔

میدان احد میں مولا علی ؑ اور چند دیگر صحابی تھے جنہوں نے رسول خدا ؐکے فرمان اور ہدایت پر عمل کیا اور درے کو نہیں چھوڑا جبکہ بڑے نامور صحابہ خالد بن ولید کی چال میں آکر رسول ؐ کی ہدایت کو بھول گئے تھے، مسلمانوں کو اس میں شکست ہوئی، اگر علی ؑ نہ ہوتے تو رسول خدا کی زندگی کا بچنا مشکل ہوتا، یہی وہ جنگیں ہیں جن میں مسلمانوں نے فتح پا کر اسلام کو پھیلانے میں کردار ادا کیا، ورنہ اس سے پہلے تو کھل کر اسلام کا نام لینا بھی جرم بنا ہوا تھا، اسی طرح جنگ خیبر میں اتنا مال غنیمت حاصل ہوا کہ بہت سے مسلمانوں نے پہلی بار سیر ہو کر کھانا کھایا، جو مولا علی ؑ کا عظیم کارنامہ تھا، اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ مولا علی خشک روٹی پانی میں ڈبو کر کھاتے تھے، یہ ان کا تقویٰ اور للہیت تھی، ورنہ وہ سب کچھ رکھتے تھے اور اس بات کو ہر ایک تسلیم کرتا ہے کہ سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ آپ کی شادی مرضی خدا سے ہوئی، اگر علی نہ ہوتے تو سیدہ کا ہم کفو کوئی نہ ہوتا، اس سے بڑھ کے آپ کی کیا عظمت بیان ہو کہ کائنات کے رسول کی صاحبزادی کیلئے بڑے بڑے نامور صحابہ رشتہ لینے گئے مگر ناکام ہوئے جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ رشتہ آسمان پر طے ہوچکا تھا، نبی خدا نے مرضئی خدا کیمطابق آپ کا نکاح سیدہ کائنات سے پڑھایا۔

دنیا نے پھر وہ وقت دیکھا، جب آپ امت کے خلیفہ اور وقت کے امام تھے اور کوفہ کو اپنا دارالخلافہ بنایا ہوا تھا، انیسویں ماہ مبارک رمضان کی شب تھی، اہلبیت اطہار کے گھر میں یہ شب بھی شب عاشور کی طرح عجیب تھی، سپیدہ سحر ابھی نمودار نہیں ہوا تھا، امیرالمومنین علی ؑ ابن ابی طالب شب بھر عبادت و ریاضت میں مصروف رہے تھے، اس شب کی فجر کو کوفہ میں ایک قیامت برپا ہونے والی تھی، شائد اسی وجہ سے آسمان پر چمکتے ستارے بھی اپنی عمر کے اس آخری لمحات میں غمگین اور دکھی سے محسوس ہو رہے تھے، سرزمین کوفہ میں اہلبیت اطہارؑ کا گھرانہ جہان عالم کیلئے مرکز رشد و ہدایت کا ساماں کرتا تھا اور یہاں یتیمان و مساکین امت پیغمبر خدا کی امیدیں تھیں، جو پوری کی جاتی تھیں، آج اس گھر میں عجیب اداسی چھائی ہوئی تھی، امیر المومنین نے اس شب اپنی دختر ام کلثوم کے ہاں افطار کیا تھا، بہت معمولی سا کھانا تناول فرما کر امیر المومنین ؑ اپنی عبادت میں مصروف ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اس شب حضرت علی (ع) دیگر شبوں سے زیادہ مطمئن نظر آرہے تھے، آپ کی حالت کے بارے تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ کبھی آسمان کی جانب دیکھتے اور کہتے، خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے، یقیناً آج کی شب وہی شب ہے کہ جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ علی ؑ جس نے بدر، احد، خندق، خیبر اور منافقین و مشرکین کے خلاف اپنی تلوار کے ایسے جوہر دکھائے تھے کہ تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے، شہادت جسے آپ نے کامیابی سے تعبیر کیا ہے، سے محروم تھے، مگر آپ سے اس کا وعدہ کیا گیا تھا، رسول خدا ؐنے آپ کو اس کی بشارت دی تھی اور آپ کو اس کا شدت سے انتظار بھی رہتا تھا، آج اس کا وقت آن پہنچا تھا۔

امیر المومنین حضرت علی ؑ انییسویں ماہ رمضان کو نماز صبح کی ادائیگی کے لئے مسجد کوفہ کی جانب گئے، جہاں اپنے وقت کا سب سے شقی ترین شخص ابن ملجم مرادی خارجی زہر میں بجھی تلوار لئے امام ؑ کی آمد کا منتظر تھا، تاکہ کائنات کی اس برترین شخصیت اور تاریخ انسانیت کے سب سے عظیم انسان کے فرق مبارک کو شگافتہ کرے۔ عبدالرحمان ابن ملجم ملعون نے انیسویں کی شب (فجر) میں آپ کے سر پر زہر میں بجھی تلوار سے ضربت لگائی اور دو روز تک موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد اکیس ماہ رمضان سن چالیس ہجری قمری کو آپ اپنی دیرینہ آرزو یعنی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ آپ کی زبان مبارک نے اس وقت یہی کلمات ادا کئے، فزت و رب الکعبہ(رب کعبہ کی قسم علی ؑ کامیاب ہوگیا) عربی قصیدہ جو حضرت محمد ابن ادریسؒ المشہور امام شافعی کا ہے۔ ان کے صرف دو تین اشعار درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

ان کان حب الولی رفضا فانتی ارفضی اطحیادی
ترجمہ: اگر علی ؑ کی محبت رفض ہے تو پھر میں تمام بندگان خدا سے زیادہ رافضی ہوں

لو ان المرتضیٰ ایدی محلہ لکان الخلق طرا سجدا الٰہ
ترجمہ: اگر علی ؑ اپنے رتبے کو ہی اپنے پہ ظاہر کر دیتے تو مخلوق ان کو سجدہ کرنے لگتی

و مات الشافعی فلیسی یدری علی رب ام رب اللہ
ترجمہ: شافعی اس جستجو میں مرگیا کہ علی ؑ اس کا خدا ہے یا رب اس کا خدا ہے۔

اور شاعر نے آپ کی زندگی کا احاطہ اس شعر میں خوب کیا ہے:

کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت

جس وقت آپ پر تلوار کا وار کیا گیا، اس وقت آپ ؑ نہایت ہی خضوع و خشوع کے عالم میں نماز صبح کی ادائیگی میں مشغول تھے اور اپنے خدا سے رازو نیاز کر رہے تھے، آپ کی خشوع و خضوع کا یہ عالم تو تاریخ نے لکھا ہے کہ جب آپ کے پاؤں میں ایک جنگ کے دوران تیر پیوست ہوگیا تو رسول خدا ؐ نے فرمایا کہ ابھی چھوڑ دو تکلیف ہوگی، جب نماز پڑھیں تو اس وقت نکال لینا، شائد اس انہماک اور خشوع و خضوع کا علم ابن ملجم اور اس کو بھیجنے والوں کو بھی بخوبی تھا، لہذا جیسے ہی آپ نے اپنا سر سجدہ معبود میں جھکایا تو شقی ابن ملجم نے اپنی تلوار اٹھائی اور اس فاتح بدر، خندق، خیبر و احد کے سر پر ضرب لگائی، کوئی بھی اس کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کہ آپ کا مقابلہ سامنے آکر کرے، جس کی تلوار ذوالفقار کے کمالات کی دنیا معترف ہو، اس کا سامنا کرنے کی کس میں جرات تھی؟ امیر المومنین علی ؑ کی تلوار جس کا نام ذوالفقار تھا، کی چمک سے دشمنان اسلام کے دل لرز اٹھتے تھے۔ جب کوفہ میں آپ پر حملے کی خبر پھیلی تو ایسا ہی محسوس ہوا کہ اچانک زمین و آسمان میں تلاطم برپا ہوا اور اس تلخ واقعے سے خدا کے مومن بندوں کے دل غم و اندوہ سے لبریز ہوگئے۔ جبرئیل امین نے زمین و آسمان کے درمیان ندا دی۔ خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے۔ آسمان کے ستارے تاریک ہوگئے اور پرہیزگاری کی نشانیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ خدا کی قسم ایمان و ہدایت کی مضبوط زنجیر ٹوٹ گئی۔ محمد ؐکے چچازاد بھائی اور ان کے وصی کی شہادت ہوگئی۔ ہاں اب ستاروں کی بینائی، علی ؑ کے عابدانہ آنسوؤں کا نظارہ نہیں کرسکیں گی اور آسمان کی سماعت ان کی عاشقانہ مناجات نہیں سن سکے گی، امت مسلمہ ان کے بلیغ خطبات سے محروم ہو جائے گی، اب کون دعویٰ سلونی کرے گا۔؟

امیرالمومنین علی علیہ السلام کو دنیا میں مجموعہ اضداد شخصیت کے طور پر پہچانا اور لکھا جاتا ہے، یعنی آپ ہی وہ شخصیت ہیں، جن میں بیک وقت ایک دوسرے کی ضد صفات پائی جاتی ہیں، کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ مصلٰی عبادت پر محو رہنے والا علی میدان کارزار کا شہسوار بھی ہے، اس کی شجاعت و بہادری کا ڈنکا عالم عرب میں بجتا ہے اور اسے یہ کمال بھی حاصل ہے کہ اس کے خطبات اور اقوال ایسے فصیح و بلیغ ہوں کہ آج تک شیدائے علم و ادب انہیں ادب و زبان کی گہرائیوں کے عنوان دیتے ہیں اور اہل علم ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ کی انہی بلند صفات و کمالات کی بدولت رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے، لوگوں نے دیکھا کہ کبھی اللہ کے پیارے نبی یہ فرما رہے ہیں کہ "علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔" کبھی یہ فرمایا کہ "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ کبھی یہ فرمایا کہ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ مژدہ سنایا کہ "علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے، جو ہارون کو موسٰی سے تھی۔" کبھی یہ فرمایا: علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا، مواخات مدینہ کے موقعہ پر جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو امیر المومنین علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ایک لاکھ سے زائدحاجیوں کے مجمع میں علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا مولا اور سرپرست ہوں، اسی طرح علی بھی تم سب کے مولا و سرپرست ہیں۔یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور تمام مسلمانوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو مبارک باد دی۔

آپ کی وصیت جسے امام حسن ؑ کے نام لکھا گیا ہے، اس کا مطالعہ ہر ایک کیلئے بہت ہی سود مند ہے، اس میں بھی امام ؑ نے وہ حقائق کھولے ہیں، جو واقعی ایک باپ کو اپنے فرزند اور اولاد کیلئے بیان کرنے اور متوجہ کرنے کی ضرورت رہتی ہے، صرف مختصر طور پر ایک پہرہ حاضر ہے۔ فرزند! یاد رکھو کہ میری بہترین وصیت جسے تمہیں اخذ کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اس کے فرائض پر اکتفا کرو اور وہ تمام طریقے جن پر تمہارے باپ دادا اور تمہارے گھرانے کے نیک کردار افراد چلتے رہے ہیں، انہیں پر چلتے رہو کہ انہوں نے اپنے بارے میں کسی ایسی فکر کو نظرانداز نہیں کیا، جو تمہاری نظر میں ہے اور کسی خیال کو فرو گذاشت نہیں کیا ہے اور اسی فکرونظر نے ہی انہیں اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ معروف چیزوں کو حاصل کر لیں اور لایعنی چیزوں سے پرہیز کریں۔ اب اگر تمہارا نفس ان چیزوں کو بغیر جانے پہچانے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اس کی تحقیق باقاعدہ علم و فہم کے ساتھ ہونی چاہیے اور شبہات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور نہ جھگڑوں کا شکار ہونا چاہیے اور ان مسائل میں نظر کرنے سے پہلے اپنے پروردگار سے مدد طلب کرو اور توفیق کے لئے اس کی طرف توجہ کرو اور ہر اس شائبہ کو چھوڑ دو، جو کسی شبہ میں ڈال دے یا کسی گمراہی کے حوالے کر دے۔ پھر اگر تمہیں اطمینان ہو جائے کہ تمہارا دل صاف اور خاشع ہوگیا ہے اور تمہاری رائے تام و کامل ہوگئی ہے اور تمہارے پاس صرف یہی ایک فکر رہ گئی ہے تو جن باتوں کو میں نے واضح کیا ہے، ان میں غور و فکر کرنا، ورنہ اگر حسب منشاء فکرونظر کا فراغ حاصل نہیں ہوا ہے تو یاد رکھو کہ اس طرف صرف شب کور اونٹنی کی طرح ہاتھ پیر مارتے رہو گے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہوگے اور دین کا طلبگار وہ نہیں ہے، جواندھیروں میں ہاتھ پاؤں مارے اور باتوں کو مخلوط کر دے۔ اس سے تو ٹھہر جانا ہی بہتر ہے۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر
https://taghribnews.com/vdcgtq9x7ak9un4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ