تاریخ شائع کریں2017 31 July گھنٹہ 18:13
خبر کا کوڈ : 277579

برمودا ٹرائی اینگل کا راز 'دریافت' کرنے کا دعویٰ

سائنسدانوں نے دنیا کے پراسرار ترین خطے سمجھے جانے والے برمودا ٹرائی اینگل کا راز 'دریافت' کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
برمودا ٹرائی اینگل کا اسرار درحقیقت یہی ہے کہ وہاں کوئی اسرار ہی نہیں۔
برمودا ٹرائی اینگل کا راز
سائنسدانوں نے دنیا کے پراسرار ترین خطے سمجھے جانے والے برمودا ٹرائی اینگل کا راز 'دریافت' کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ درحقیقت سائنسدانوں نے کہا ہے کہ پیورٹو ریکو، فلوریڈا اور برمودا کے درمیان واقع اس سمندری تکون کا اسرار درحقیقت یہی ہے کہ وہاں کوئی اسرار ہی نہیں۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدان کارل کروزن لینسکی نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے زور دیا کہ اس سمندری خطے میں متعدد بحری جہازوں اور طیاروں کے بغیر کسی سراغ کے غائب ہونے کے پیچھے خلائی مخلق یا اٹلانٹس کے گمشدہ شہر کے فائر کرسٹلز کا ہاتھ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں گمشدگیاں ماورائی نہیں بلکہ خراب موسم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں اور اگر اوسط کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں ہر جگہ اس طرح بحری اور ہوائی جہاز غائب اتنی تعداد میں ہی غائب ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سمندری تکون سات لاکھ اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہاں بہت زیادہ سمندری ٹریفک ہوتی ہے۔

ان کے بقول جب آپ وہاں غائب ہونے والے جہازوں کی تعداد پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکالیں گے کہ دیگر سمندری خطوں کے مقابلے میں اس میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں۔

سڈنی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنسدان کا مزید کہنا تھا کہ برمودا ٹرائی اینگل کو ایک پراسرار خطہ بنانے کی ایک سادہ وضاحت یہ ہے کہ اس کے بارے میں افواہیں فلائٹ 19 کے غائب ہونے پر پھیلنا شروع ہوئیں۔

یہ پانچ یو ایس نیوی ٹی بی ایم ایوینجر تارپیڈو بمبارز تھے جو کہ پانچ دسمبر 1945 کو اٹلانٹک میں معمول کے مشن پر نکلے تھے، مگر یہ پانچوں طیارے غائب ہوگئے، جس کے اثار یا عملے کے 14 ارکان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوسکا۔

آسٹریلین سائنسدان کے مطابق یہ واقعہ خراب موسم اور انسانی غلطی کے باعث پیش آیا تھا جس کا عملہ بھی نشے میں دھت تھا۔

اس سے پہلے گزشتہ سال ایک تحقیق میں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ اس خطے کے اوپر پھیلے شش پہلو بادل ممکنہ طور پر بحری جہازوں اور طیاروں کی گمشدگی کا باعث بنتے ہیں۔

کولوراڈو یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شش پہلو بادل 65 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں پیدا کرتے ہیں جو 'ہوائی بم' کی طرح کام کرتے ہوئے بحری جہازوں کو غرق اور طیاروں کو گرا دیتی ہیں۔

مگر کسی تحقیق میں اس سوال کا جواب سامنے نہیں آسکا کہ اگر یہ بادل یا خراب موسم بحری جہازوں اور طیاروں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں تو ان کا ملبہ کہاں جاتا ہے، کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال اس خطے میں اوسطاً چار طیارے اور 20 بحری جہاز گم ہوجاتے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdcguu9xyak9un4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ