تاریخ شائع کریں2017 7 August گھنٹہ 03:11
خبر کا کوڈ : 278398

سعودی عرب کا اہم ترین دغدغہ اسرائیل سے معمول کے روابط ہیں

سعودی عرب کا اہم ترین دغدغہ اسرائیل سے معمول کے روابط ہیں
خبری ذارئع العہد نے سعودی عرب کے  اس دعوے کا کہ، "مسجد الاقصیٰ کی بحالی میں ملک سلمان کا ہاتھ ہے" ، مذاق اُڑیا ہے اور کہا ہے کہ ملک سلمان جو کہ اس وقت مغرب میں موج مستی کر رہے ہیں ،کسی وقت بھی  اسرائیل سے معمول کے روابط سے دست بردار نہیں ہوئے ہیں ،وہ کبھی بھی مسجد اقصیٰ کے مسئلے میں واسطہ نہیں بن سکتے ہیں۔
 

العہد خبر ی ذارئع نے “سعودی عرب اسرائیل سے معمول کے روابط کا خواہاں اور فلسطینیوں کی آرزوں کاخون کرنا چاہتا ہے”کے عنوان سے علی ابراہیم مطر کا ایک کالم شائع کیا ہے،اس میں انھوں نے کہا ہے کہ“سعودی عرب کا اہم ترین دغدغہ اسرائیل سے معمول کے روابط ہیں ،نامسجد اقصیٰ کا دفاع کرنا ۔

علی ابراہیم مطر کا کہنا ہے کہ “صہیونی حکام قدس کی یہودی سازی کے لئے قدم بہ قدم ہر روز آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ سعودی حکومت اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کرنے کے درپے ہے ،یہ دوراہیں کبھی بھی جدا نہیں ہونے والی،اگر بعض عرب ریاستیں مسجد اقصیٰ کے معاملے میں صرف نظر نہیں کرتی تو آج صہیونیوں کو یہ جرت نہیں ہوتی کہ وہ  فلسطینیوں کے مقدسات کے لئے خطرہ بن سکے”۔

عرب اور مسلم ممالک میں سعودی وہابی اور اسرائیل دو شریک ہیں کہ جو طول تاریخ میں ظلم و جنایات کے مجرم ہیں چہ بسا ان کے کچھ اصول مشترک بھی ہوں کہ جس میں مسلمانوں کا قتل اور اسلام کا چہرہ مسخ کرنا ہے کہ اس میں انھوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔

یہ بات بزرگو اور شیوخ کے درمیان معروف ہے کہ عرب پر قبضہ کرنے کے بعد  انگریزوں کی مدد سے عبد العزیز کا پہلا ہدف  نجران  پر تسلط پر تھا کہ جس کے سارے شواہد یہی کہتے ہیں کہ یہ کام یہودیوں کے لئے انجام دیا تھا۔

شیعہ عالم دین سید محسن امین  نے اپنی کتاب میں  کہ جو وہابیت کے رد میں لکھی گئی تھی، اس میں لکھا ہے کہ 1937  کی ایک رات جان فیلبی کہ جو برطانیہ کی جانب سے عربوں کی سیاست کو چلا رہا تھے اپنے ایک مشہور سفر میں محمد التمیمی ،کے جو نجد کے  شیوخ میں سے تھے ،کے ساتھ نجران گئے تھے۔

جب  فیلبی  کی سفر کی تھکان اتر گئی تو وہ نجران میں ایک یہودی خاندان کی تلاش میں نکلا کہ جس کے سربراہ  کا نام یوسف تھا تاکہ اسے عبدالعزیز کی جانب سے دی گئی رقم دے ، فیلبی نے تمیمی کے ساتھ مذکورہ خاندان کو ڈھونڈا اور اسے پانچ سو ریال چاندی کے سکے جو یمن میں رائج تھے دیئے۔

سعودیوں کے جڑیں یہودیوں سے جا کر ملتی ہیں اور یوسف کے جس کا نام لیا گیا جو نجران کا رہنے والا تھا اس کا نسب چھٹی پشت میں آل سعود سے جا کر مل جاتاہے ان سب کا تعلق ایک سلمان نامی یہودی سے ہے کہ جس کے دو بیٹے تھے جس میں سے ایک نام مقرن تھا کہ جو آل سعود کا جدہے اور دوسرا بیٹا کہ جو یوسف کا جدہے ، اس سے بھی زیادہ معلومات اس کتاب میں موجود ہے ۔

سعودیوں میں اسرائیل سے  معمول کے تعلقات کے قیام کی آرزو  روز بہ روز بڑھ رہی ہے جس کا نتیجہ فلسطینیوں کے آرمان اور ان کی خواہشات کا خون ہے ،چند روز پہلے مجتہد جو کہ  ایک ٹیوٹر کے سرگرم فرد ہیں  ،وہ شاہی خاندان کی اندرونی خبر ٹیوٹر پر دیتے ہیں ،ریاض اور تل ابب کے رابطوں کے بارے میں خبر نشر کی کہ جس کی قدامات دسیویں سال کی ہے یعنی سعودی عرب  پنہان رہ کر اس رابطے میں تقویت کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔

مجتہد کی روایت کے مطابق  سعودی اور اسرائیل کی یہ کوشش ہزاروں سال پرانی ہے ، ملک سلمان جب ریاض کے امیر تھے اسرائیل سے رابطے میں تھے،موجودہ وزیر خارجہ ان کا رابط تھا وہ شخص وہ ہے کہ جوانی میں بن سلطان کی بندرگاہ اس کے ہاتھ میں تھی سعودی کی جانب سے واشنگٹن میں سفیر تھا اور سلمان کے معاون کے طور پر کانگریس میں منصوب ہوا۔

اسرائیلی قلم کار  یرڈین لیخٹرمن نے ، خبر ی ذارئع المصدر کے مطابق سابقہ شاہ فہد بن عبدالعزیز  کے معالجہ کی خبر دی کہ جو موشہ مانی نامی ڈاکٹر کے زیر نظر ہواکہ جس کا تعلق اسرائیل سے تھا کہ جس کا انتخاب صہیونی حکومت نے  کیا تھا۔

اتنی گفتگو کے بعد بات روشن اور واضح ہے کہ آل سعود سے یہ بات بعید نہیں کہ وہ عربوں اور فلسطینوں کو بیچ ڈالیں اور اپنی جڑ کی جانب پلٹ جائیں، اسرائیل سے اچھے اور معمول کے راوبط کر ڈالیں،درحال حاضر صرف علان ہوناباقی رہ گیا ہے،اس چیز میں جو چیز رکاوٹ ہے وہ عربوں کا ان کے خلاف قیام ہے ۔

جو ظلم  سعودی عرب نے یمن ،شام اور عراق میں رواں رکھا  تاکہ اسرائیل کے خلاف کو ئی عرب ملک کھڑا نا ہو سکے ، سعودی عرب نے یہ خدمت اسرائیل کی توسعہ سازی کی خاطر کی ہے، اس بارے میں بہت سے سوال اُٹھتے ہیں کہ اس وقت سعودی عرب کا کیا مقام ہے کہ جو اس نے یمن،شام اور عراق میں کیا ہے،بہت سے سوال کہ جو اس نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر اپنی آنکھیں بند کرلیں فلسطینوں کے حقوق پائمال ہو ئے جا رہے ہیں ،بیت المقدس کو یہودی سازی میں شامل کرنے کی سازش  ہو رہی ہے ۔

افسوس کا مقام ہے کہ سعودی شاہ اپنی چھٹیاں منانے یورپ گئے ہو ئے ہیں اوربیت المال مسلمانوں کے بارے میں عرب امت کے بارے کچھ نہیں کر رہا،دہشت گردی کے مقابلے میں انھوں نے آنکھیں موند لی ہیں۔ جبکہ بعض سعودی جرائد اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک سلمان نے مسجد اقصیٰ کے بند دروازے کھلوائے ہیں قدس کے بحران کو حل کیا ہے جبکہ وہ چھٹیاں منانے اور موج مستی میں لگے ہیں ۔

فلسطین اور وہاں شہید ہونے والے افراد کے سلسلے میں ،مسجد اقصیٰ کے دفاع کے سلسلے میں آج سعودی عرب کا کیا مقام ہے کیا کردار ہے؟ کہ جو مسجد اقصیٰ کے بارے میں جھوٹے دعوے کر رہا ہے فلسطینیوں کا خون پائمال کررہا ہے جبکہ وہ موج مستی میں لگے ہیں، انور عشقی اسرائیلی حکام سے ملنے گئے ہیں تاکہ اسرائیل اور سعودی روابط معمول پر آئیں اور سعودی عرب میں امن قائم کرنے کے لئے موسادسے ہم آہنگی ہوسکے ۔

سعودی حکام کو اس طرح کے بیانات دیتے ہوئے شرم آنی چاہیے،انکو تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ کیا ہو گیا ،یہ فلسطینی ہیں کہ جنھوں نے قوت و حوصلے کے ساتھ جانفشانی کے ساتھ خود سے مسجد اقصیٰ کا دفاع کیا ہے ، انھوں نے اسرائیل کے خلاف قیام کیا ہے ۔

امت کی نگاہوں میں اس کذاب میڈیا کی کو ئی حیثیت نہیں،کیونکہ سعودی عرب اور صہیونیست اپنے  مشترکہ  دشمن یمن کے لوگوں کے قتل میں شریک ہیں تو وہ ہرگز فلسطینوں کی حمایت نہیں کرسکتے ۔سعودی عرب نے دہشت گردوں کا شام میں اسلحہ پہنچایا تاکہ شام کی عوام کہ جو فلسطین کے مدافع ہیں،انکا قتل کیا جائے تو ان سے کوئی  امید نہیں کہ وہ مسجد اقصیٰ کی کو ئی خدمت کریں گے۔

سعودی عرب ،عراق کے خلاف سازش میں شریک ہے اور اپنی ہی عوام کو العوامیہ میں خاک و خون میں غلطاں کر رہا ہے، وہ اسرائیل کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کر سکتا ،بلکہ ہمیشہ سکوت طاری رکھے گا، تاکہ اس کے اور اسرائیل کے رابطے معمول کے مطابق قائم ہو جا ئیں،بلکہ اسکا اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے۔
https://taghribnews.com/vdcgy79x7ak9uw4.,0ra.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ