تاریخ شائع کریں2017 20 July گھنٹہ 12:34
خبر کا کوڈ : 275950

امام صادق علیہ السلام علمائے اہل سنت کی نظر میں

جعفر ابن محمد جو بھی حدیثیں اور روایات بیان کرتے تھے وہ سب صحیح اور سچي ہوتی تھیں
امام صادق علیہ السلام کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں نہ فقط شیعہ علماء نے بہت کچھ بیان کیا ہے بلکہ اس بارے میں اہل سنت کے علماء اور بزرگان نے بھی بہت کچھ بیان کیا ہے۔ مذاہب اہل سنت کے آئمہ، علماء اسلامی اور صاحب نظر و فکر افراد نے امام صادق علیہ السلام کی علمی، عملی، اخلاقی صفات اور کرامات کو بیان کیا ہے۔
امام صادق علیہ السلام  علمائے اہل سنت کی نظر میں
امام صادق علیہ السلام  کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں نہ فقط شیعہ علماء نے بہت کچھ بیان کیا ہے بلکہ اس بارے میں اہل سنت کے علماء اور بزرگان نے بھی بہت کچھ بیان کیا ہے۔ مذاہب اہل سنت کے آئمہ، علماء اسلامی اور صاحب نظر و فکر افراد نے امام صادق علیہ السلام کی علمی، عملی، اخلاقی صفات اور کرامات کو بیان کیا ہے۔
 
  
ابوحنيفہ اور امام صادق علیہ السلام 

نعمان بن ثابت بن زوطی (80 - 150ه. ق.) کہ جو  ابو حنيفہ کے نام سے بھی معروف ہیں، اور مذہب حنفی کے سربراہ ہیں، وہ امام صادق کے ہمعصر بھی تھے۔ انہوں نے امام صادق کی عظمت اور بلند مقام کے بارے میں بہت ہی اچھے اعترافات کیے ہیں، کہ ان میں سے یہ ہے کہ:

ما رأيت افقه من جعفر بن محمد و انه اعلم الامۃ۔
میں نے جعفر ابن محمد سے فقیہ تر اور عالم تر کسی کو نہیں دیکھا۔ وہ اس امت کے اعلم ترین بندے تھے۔
شمس الدين ذهبی، سير اعلام النبلاء، ج 6، ص 257۔ تاريخ الكبير، ج 2، ص 199 و 198، ح 2183.

امام صادق (ع) کے زمانے میں عباسی خلیفہ منصور دوانقی کی حکومت تھی۔ وہ اولاد علی (ع)  اور اولاد فاطمہ (ع) اور خاص طور پر امام صادق (ع) کی عزت، عظمت اور شہرت سے ہمیشہ پریشان اور غصے کی حالت میں رہتا تھا۔ اس پریشانی کے حل کے لیے وہ کبھی ابو حنیفہ کو امام صادق کے مقابلے پر کھڑا ہونے کا کہتا تھا۔ منصور دوانقی امام صادق کے علمی مقام اور عزت و عظمت کو دوسروں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، ابو حنیفہ کی اس زمانے کے سب سے بڑے عالم کے عنوان سے حکومتی سطح پر عزت اور احترام کرتا تھا، تا کہ اس سے سرکاری سطح پر امام صادق (ع)  کے احترام کو کم کیا جا سکے۔

اس بارے میں خود ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ:

ایک دن منصور دوانقی نے کسی کو میرے پاس بھیجا اور کہا کہ: اے ابو حنیفہ لوگ جعفر ابن محمد سے بہت محبت اور اسکا بہت احترام کرتے ہیں، معاشرے میں اسکا ادب و احترام روز بروز زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ تم جعفر ابن محمد کی عزت اور احترام کو لوگوں کی نظروں میں کم کرنے کے لیے، اسطرح کرو کہ چند مشکل اور پیچیدہ علمی مسئلوں کو تیار کرو اور ایک مناسب وقت پر اس سے یہ سوالات پوچھو تا کہ وہ ان سوالات کا جواب نہ دے سکے اور اس طرح سے لوگوں کے دلوں میں اسکی محبت کم ہو جائے گی اور لوگ اس سے دور ہو جائیں گے۔

ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر چالیس مشکل علمی مسئلوں کو تیار کیا اور جس دن منصور حیرہ کے مقام پر تھا، اس نے مجھے اپنے پاس بلایا اور میں اسکے پاس پہنچ گیا۔ جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ جعفر ابن محمد منصور کے دائیں طرف بیٹھے ہیں۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو انکی جلالت اور رعب کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔ اتنا رعب تو خلیفہ  منصور کو دیکھ کر بھی مجھ پر طاری نہیں ہوا تھا، حالانکہ خلیفہ کو سیاسی قدرت رکھنے کی وجہ سے با رعب ہونا چاہیے تھا۔ میں نے داخل ہو کر سلام کیا اور انکے ساتھ بیٹھنے کی اجازت طلب کی، خلیفہ نے اشارے سے مجھے کہا کہ میرے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ میں بھی چپ کر کے بیٹھ گیا۔ اس پر منصور عباسی نے جعفر بن محمد کی طرف دیکھا اور ان سے کہا کہ: اے ابو عبد اللہ، یہ ابو حنیفہ ہیں۔ انھوں نے جواب دیا، ہاں میں اسکو جانتا ہوں۔ پھر منصور نے مجھ سے کہا کہ اے ابو حنیفہ اگر تم نے کوئی سوال پوچھنا ہے تو ابو عبد اللہ جعفر ابن محمد سے پوچھ لو۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ میں نے بھی اسے بہت اچھی فرصت جانا اور وہ چالیس سوال جو میں نے پہلے سے تیار کیے ہوئے تھے، ایک ایک کر کے سب کو جعفر ابن محمد سے پوچھا۔ امام صادق ہر مسئلے کو بیان کرنے کے بعد، اسکے جواب میں فرماتے تھے کہ:

اس مسئلے میں تمہارا عقیدہ اس طرح ہے، مدینہ کے علماء کا عقیدہ اس طرح ہے اور ہم اھل بیت کا عقیدہ اس طرح ہے۔ بعض مسائل میں امام کی نظر ہماری نظر کے مطابق تھی اور بعض سائل میں مدینہ کے علماء کی نظر  کے ساتھ موافق تھی اور کبھی امام کی نظر ہر دو نظروں کے مخالف تھی، اس صورت میں امام تیسری نظر کو انتخاب کر کے بیان کیا کرتے تھے۔

میں نے تمام چالیس مشکل سوال کہ جو انتخاب کیے ہوئے تھے، ایک ایک کر کے سب کو جعفر ابن محمد سے پوچھا تو انھوں نے بھی بڑے آرام اور تحمل سے ان سوالات کے مجھے جوابات دئیے۔

پھر ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ:

ان اعلم الناس اعلمهم باختلاف الناس۔
بے شک اعلم ترین وہ بندہ ہے کہ جسکو علمی مسائل میں مختلف علماء کے نظریات کا علم ہو، اور کیونکہ جعفر ابن محمد بالکل ایسے ہی تھے، پس وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے۔ سیر اعلام النبلاء، ج ‏۶، ص ۲۵۸ر بحارالانوار، ج‏۴۷، ص‏۲۱۷

اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی عظمت کے بارے میں فرمایا ،لولا جعفر بن محمد ما علم الناس مناسک حجهم  اگر جعفر بن محمد ناہو تے تو مجھے احکام حج کا بھی علم نا ہوتا۔- شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج ۲، ص ‏۵۱۹، طبع قم، نشر اسلامى


مالک بن انس و امام صادق علیہ السلام:

مالک بن انس ﴿۹۷۔ ١۷۹ ھ ق﴾ اھل سنت کے چار مسلکوں میں سے مالکی مسلک کے بانی ہیں انہیں اھل سنت ائمہ اربعہ میں شمار کرتے ہیں۔ وہ ستانوے ہجری میں پیدا ہوے اور ایک سو اناسی ہجری میں وفات پائي۔ مالک بن انس کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اور اخلاقی عظمت کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں ایک مدت تک جعفر ابن محمد کی خدمت میں زانوےادب تہ کیا کرتا تھا آپ مزاح بھی فرمایا کرتے تھے ہمیشہ آپ کے لبوں پر تبسم رہتا تھا۔ - سیر اعلام النبلاء، ج ‏۶، ص‏۲۵۶

جب آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لیاجاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ سبز اور زرد ہوجاتا تھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہو اور وضو سے نہ ہوں۔ میں جب تک ان کے پاس آیا جایا کرتا تھا میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ان تین حالتوں سے خارج ہوں یا وہ نماز پڑھتے رہتے تھے ، یا قرآن کی تلاوت کررہے ہوتے تھے یا پھر روزہ سے ہوتے تھے۔ میں نے نہيں دیکھا کہ آپ نے کوئي بے فائدہ اور عبث بات کی ہو ۔ وہ علماء زھاد میں سے تھے کہ جن کے دل میں خوف خدا گھر کرگیا تھا۔ ان کے پورے وجود سے خوف خدا عیاں رہتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں ان کی خدمت میں پہنچا ہوں اور آپ نے جس دری پرآپ بیٹھے رہتے تھے اسے میرے لئے نہ بچھا یا ہو۔ تیمیه، التوسل و الوسیله، ص ۵۲ر جعفریان، حیات فکرى و سیاسى امامان شیعه، ص‏۳۲۷
مالک بن انس امام جعفر صادق علیہ السلام کے زھد و عبادت و معرفت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایک برس ہم امام صادق علیہ السلام کے ساتھ حج کرنے مدینے سے نکلے، مسجد شجرہ پہنچے جو اھل مدینہ کی میقات ہے۔ ہم نے احرام باندھا اور سب جانتےہیں کہ احرام باندھتے وقت تلبیہ کہنا یعنی لبیک اللھم لبیک کہنا واجب ہے۔ سب لوگ تلبیہ کھ رہے تھے۔ مالک کہتےہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام صادق علیہ السلام تلبیہ کہنا چاہتے ہیں لیکن ان کا رنگ متغیر ہورہا ہے آپ کی آواز حلق میں پھنس رہی ہے آپ مرکب سے زمیں پر گرنا ہی چاہتےتھے ، میں آگے آیا اور کہاکہ کے فرزند رسول خدا یہ ذکر تو آپ کو کہنا ہی ہوگا جیسے بھی ہو اس ذکر کو زبان پرجاری فرمائيں ، آپ نے فرمایا یابن ابی عامر کیف اجسر ان اقول لبیک اللھم لبیک و اخشی ان یقول عزو جل لا لبیک و لاسعدیک

اے پسر ابی عامر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں جسارت کروں اور اس بات کی جرات کروں اور زبان پر لبیک کے الفاظ جاری کروں ، لبیک کہنے کے یہ معنی ہیں کہ خداوندا تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا ہے میں تیری اطاعت کرتاہوں اور اس کی انجام دہی پر تیار رہتاہوں۔ میں بھلا کس طرح سے خدا کے حضور ایسی گستاخی کرسکتاہوں اور خود کو اطاعت خداوندی کے لئے پیش کرسکتا ہوں؟ اگر میرے جواب میں کھ دیا جاے کہ لا لبیک ولاسعدیک تو میں کیا کروں گا؟- شیخ صدوق، امالى، ص‏۱۴۳، ح‏۳

مالک بن انس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی فضیلت و عظمت کےبارے میں کہتے ہیں کہ ما رات عین ولا سمعت اذن ولا خطر علی قلب بشر افضل میں جعفرابن محمد۔
کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا کہ کوئي جعفر ابن محمد سے بھی افضل ہوسکتا ہے۔شهید مطهرى، سیرى در سیره‏ ائمه اطهار علیهم السلام، ص‏۱۴۹

مالک بن انس کے بارے میں ملتا ہےکہ وہ جعفر ابن محمد سے حدیث سن کر بیان کرتے تھے اور بعض اوقات یہ کہتے تھے کہ میں نے یہ حدیث مرد ثقہ سے سنی ہے اور اس سے ان کی مراد جعفر ابن محمد ہوتے تھے۔شرح الاخبار فى فضایل الائمه الاطهار، ج‏۳، ص‏۲۹۹، ح‏۱۲۰۳

حسین بن یزید نوفلی کہتےہیں کہ سمعت مالک بن انس الفقیہ یقول واللہ مارات عینی افضل من جعفر ابن محمد زھدا و عبادۃ و ورعا و کنت اقصدہ فیکرمنی و یقبل علی فقلت لہ یوما یابن رسول اللہ ما ثواب من صام یوما من رجب ایمانا و احتسابا فقال وکان واللہ اذا قال صدق حدثنی ابیہ عن جدہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من صام یوما من رجب ایمانا و احتسابا غفرلہ فقلت لہ یا ابن رسول اللہ فی ثواب یوما من شعبان فقال حدثنی ابی عن ابیہ عن جدہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من صام یوما من شعبان ایمانا و احتسابا غفر لہ ۔

حسین بن یزید نوفلی نے مالک بن انس فقیہ سے نقل کیا ہےکہ وہ کہتےہیں کہ خدا کی قسم ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ کوئي زھد و علم و فضیلت اور ورع میں جعفرابن محمد سے برتر ہو، میں ان کے پاس جاتا تھا وہ خندہ پیشانی سے میرا استقبال کرتے تھے اورمیری عزت کرتے تھے۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ فرزند رسول خدا ماہ رجب میں روزہ رکھنے کا کیا ثواب ہے؟ انہوں نے میرے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک روایت نقل کی اور جب بھی وہ کچھ کہتے تھے سچ کہتےتھے۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد نے اپنےوالد سے اور انہوں نے ان کے جد سے نقل کیا ہےکہ ماہ رجب کے روزہ کا ثواب یہ ہے کہ روزہ رکھنے والے کے گناہ بخش دئے جائيں گے۔ اس کےبعد میں نے ماہ شعبان کے روزے کے بارے میں پوچھا آپ نے اس بار بھی وہی جواب مرحمت فرمایا۔ - امالى صدوق، ص ۴۳۵ و۴۳۶، ح ۲

ابن شبرمه اور امام صادق علیہ السلام:
عبدالله بن شبرمه بن طفیل ضببى معروف به «ابن شبرمه‏» (۷۲-۱۴۴ق) ابن شبرمہ کوفے کے نامدار قاضی تھے وہ بہتر ہجری میں پیدا ہوے اور ایک سو چوالیس ہجری میں وفات پائي۔ابن شبرمہ کہتے ہیں کہ ما ذکرت حدیثا سمعتہ من جعفر ابن محمد الا کاد ان یتصرع لہ قلبی سمعتہ یقول حدثنی ابی عن جدی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

وہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نےجعفر ابن محمد سے حدیث سنی ہومگر یہ کہ وہ میرے دل میں اترجاتی تھی ، اور وہ اس طرح حدیث بیان کرتے تھے کہ میں نے اپنے والد سے اور انہوں نے میرے جد سے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے، اور خدا کی قسم جعفر ابن محمد نے کبھی بھی اپنے والد پر جھوٹ نہیں باندھا اور نہ ان کے والد نے اپنے والد پر جھوٹ باندھا اور نہ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھا۔ یعنی جعفر ابن محمد جو بھی حدیثیں اور روایات بیان کرتے تھے وہ سب صحیح اور سچي ہوتی تھیں۔ امالى صدوق، ص ۴۳۵ و۴۳۶، ح ۲

ابن ابی لیلی اور حضرت امام صادق علیہ السلام:
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت نقل کرتےہیں کہ محمد بن عبدالرحمان معروف بہ ابن ابی لیلی ( 74۔148 ھ ق) جو کوفے کے مشہور فقیہ، محدث ، مفتی اور قاضی تھے وہ ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس گئے اور ان سے متعدد سوالوں کے جواب چاہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے انہيں مرحمت فرمادے۔ اس کےبعد ابن ابی لیلی امام جعفر صادق علیہ السلام سے خطاب کرکے کہتے ہیں کہ اشھد انکم حجج اللہ علی خلقہ ۔ میں شہادت دیتاہوں کہ آپ خدا کے بندوں پرخدا کی طرف سے حجت ہیں۔ من لایحضره ‏الفقیه، ج ۱، ص ۱۸۸، ح‏۵۶۹

عمرو بن عبید معتزلی: 
ایک مرتبہ عمروبن عبید معتزلی امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس آيا اور اس آیت کی تلاوت کرنے لگا الذین یجتنبون کبار الاثم و الفواحش نجم: ۳۲ اس کے بعد خاموش ہوگيا، امام نے پوچھا کیوں رک گئے تو اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ قرآن سے مجھے گناہان کبیرہ کے بارے میں آگاہ فرمائيں، امام نے گناہان کبیرہ کو بیان کرنا شروع کیا، امام علیہ السلام کا بیان اس قدر واضح شافی اور قابل فہم اور جامع تھا کہ عمرو بن عبید نے بے اختیار اونچی آواز میں کہا ھلک من قال برايہ و نازعکم فی الفضل و العلوم ۔ ہلاک ہوگيا وہ جس نے اپنی رائے کو مقدم رکھا اور آپ سے علم و فضل میں نزاع کیا۔ کلینى، کافى، ج ۲، ص ۲۸۷- ۲۸۵
ابو بحر جاحظ بصری

جو تیسری صدی ہجری کے معروف ترین دانشوروں میں سے تھے کہتے ہیں کہ جعفر ابن محمد وہ ہیں جن کے علم وفقہ کا ڈنکا ساری دنیا میں بجتا ہے اور کہا جاتا ہےکہ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا ہے۔ آپ کی علمی عظمت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے۔ رسائل جاحظ، ص‏۱۰۶ر حیات فکرى و سیاسى امامان شیعه، ص‏۳۲۸

عمرو ابن مقداد:
 جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر علما میں سے تھے کہتے ہیں : کنت اذا نظرت الی جعفر ابن محمد علمت انہ میں سلالۃ النبیین وقد رایتہ واقفا عندالجمرۃ یقول سلونی سلونی۔

وہ کہتے ہیں کہ میں جب بھی جعفر ابن محمد پر نظر ڈالتاہوں تو سمجھ جاتاہوں کہ وہ پیغمبروں کی نسل سے ہیں ، میں نےخود دیکھا ہے کہ وہ منی کے ایک جمرے پر کھڑے ہوکر لوگوں سے فرماتے تھے کہ ان سے پوچھ لیں سوال کرلیں اور ان کے بے کراں علم سے فائدہ اٹھائيں۔سیر اعلام النبلاء، ج‏۶، ص‏۲۵۷

ابو الفتح محمد بن ابی القاسم اشعری معروف بہ شہرستانی نے اپنی کتاب الملل و النحل میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظمت کے بارےمیں لکھا ہے کہ و ھو ذو علم عزیز فی الدین و ادب کامل فی الحکمۃ و زھر بالغ فی الدنیا و ورع تام عن الشہوات۔ وہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام دین میں علم بے کراں، حکمت میں ادب کامل اور دنیا اور اس کے زرق وبرق کے تعلق سے مکمل زھد کے حامل اور شہوات سے مبری تھے- الملل و النحل، ج ۱، ص‏۱۴۷ر حیات فکرى و سیاسى امامان ‏شیعه، ص ۳۳۰

ابن خلکان: 
ابن خلکان امام جعفر صادق علیہ السلام کےبارےمیں لکھتے ہیں کہ احد الائمہ الاثنی عشر علی مذھب الامامیہ و کان میں سادات اھل البیت و لقب بالصادق لصدق مقالتہ و فضلہ اشہر من ان یذکر۔ وہ لکھتےہیں کہ مذھب امامیہ کے ایک امام تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں انہيں سچائي کی بناپر صادق کا لقب دیا گيا اور ان کی فضلیت اتنی عیاں ہے کہ اس کےبیان کی ضرورت نہیں۔ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کیمیا میں ید طولی رکھتے تھے، ابوموسی جابر بن حیان طرطوسی ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ جابر نے ایک ہزار ورق پرمشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس میں جعفر ابن محمد کی تعلیمات تھیں۔ وفیات الاعیان، ج ۱، ص‏۳۲۷ر سیره‏ پیشوا، ص‏۳۵۳ر حیات فکرى‏ و سیاسى امامان شیعه، ص ۳۳۰
https://taghribnews.com/vdchmmniv23nqwd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ