تاریخ شائع کریں2016 10 October گھنٹہ 22:18
خبر کا کوڈ : 247555

کربلا:قیامت تک آنے والے حریت پسندوں کے لئے نمونہ عمل

کربلا:قیامت تک آنے والے حریت پسندوں کے لئے نمونہ عمل
دین اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اسی قسم کی آزادی کا پیغام دیا ہے جو حریت پر مشتمل ہو، جس میں نہ فقط ظاہری دشمنوں سے انسان کو آزاد ہونا چاہئے بلکہ اپنے اندرونی دشمنوں یعنی نفس امارہ سے بھی انسان کو آزاد ہونا چاہئے۔ اسلام نے اس قسم کی حریت و آزادی کی فقط تعلیم ہی نہیں دی بلکہ عملی نمونہ و اسوہ پیش کرکے اپنے پیروکاروں کے لئے ایسی حریت کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ جس کی عظیم ترین مثال تاریخ اسلام کا وہ المناک واقعہ کہ جسے عاشور و کربلا کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ روز عاشورہ پیغمبر اکرم (ص) کے نواسے امام حسین (ع) نے مسلمانوں کے لئے آزادی و حریت کی وہ مثال قائم کی ہے کہ جو قیامت تک آنے والے حریت پسندوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ کربلا کے واقعے میں بہت سے درس و پیغام ہیں اور مسلمانوں کے نزدیک جب تک کربلا کا واقعہ زندہ ہے، اس وقت وہ کسی کی غلامی و اسارت میں نہیں آسکتے۔ اگر کسی زمانے اور علاقے کے مسلمان غلامی و اسیری اور ذلّت و خواری کی زندگی میں مبتلا نظر آتے ہیں تو یقیناً وہ مسلمان واقعہ کربلا کو فراموش کرچکے ہیں یا اس واقعہ کی حقیقی معرفت نہیں رکھتے، غیر محسوس طاقتیں ان کے اور کربلا کے درمیان حائل ہوچکی ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فرمایا تھا کہ عزت کی موت ذلّت و خواری کی زندگی سے بہتر ہے۔ یہ فقط امام حسین علیہ السلام کا نظریہ نہیں تھا بلکہ آپ کی سپاہ میں موجود چھوٹے بڑے سب ہی افراد عزّت کی موت کو ذلّت کی زندگی پر ترجیح دیتے تھے۔ امام حسین (ع) کے بھتیجے حضرت قاسم بن حسن (ع) کہ جو اس وقت فقط 13 سال کے تھے، جب ان سے امام عالی مقام نے پوچھا کہ ’’قاسم موت کو کیسا دیکھتے ہو تو قاسم ابن حسن (ع) نے کہا کہ میرے نزدیک موت شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے کربلا کے سفر کے دوران قدم قدم پر اپنے ساتھ آنے والوں کو آزادی و حریت کا درس دیا اور ذلت و خواری کی زندگی پر عزّت کی موت کو ترجیح دے کر اس وقت کے مسلمان معاشرے میں موجود انحراف اور ذلت آمیز زندگی کے آثار کو مٹانے کی سعی کی۔

امام عالی مقام کا اس سلسلے میں ہر فرمان حریت پسندوں کے لئے پیغام درس لئے ہوئے ہے۔ ایک دوسرے مقام پر امام نے فرمایا ’’الموت اولیٰ من رکوب العار‘‘ ذلت کی زندگی سے موت بہتر ہے۔ یا فرمایا ’’لیس الموت فی سبیلا لعز الا حیاۃ خالدۃ‘‘ عزت کے راستے میں سوائے ابدی زندگی کے اور کچھ نہیں۔ یا امام کا یہ فرمان ’’ہیھات من الزلۃ‘‘ ذلت و رسوائی ہم سے دور ہے۔ آزادی و حریت کا وہ درس ہے کہ جو مسلمانوں کو قیامت تک ذلت و اسارت کی زندگی سے نجات دلانے کے لئے کافی ہے۔ لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہے کہ جب مسلمان کربلا کے اس درس اور پیغام کو فراموش نہ کریں یا اغیار کی سازشوں اور پروپیگنڈے کے نتیجے میں کربلا کی اہمیت کو بھول نہ جائیں۔

امّت مسلمہ کی موجودہ حالت دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ مسلمان کربلا کے پیغام کو بھول چکے ہیں اور کسی اور امام حسین (ع) یا کسی اور کربلا کے منتظر ہیں، چونکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو ذلت کی زندگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کہیں عالمی یزیدیت کے کارندے مسلمانوں پر ذلت آمیز زندگی مسلط کئے ہوئے ہیں اور کہیں عالمی یزیدیت بنفس نفیس مسلمانوں کو ذلیل و خوار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہمارا اس وقت آج سے چودہ سو برس پہلے گزرنے والے یزید نام کے کسی فرد سے سروکار نہیں، وہ یقیناً اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہوگا بلکہ ہمیں یزیدیت سے سروکار ہے، جو ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں مسلمانوں کو ذلّت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔
تحریر: جاوید عباس رضوی
 
https://taghribnews.com/vdchmqnim23nkmd.4lt2.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ