تاریخ شائع کریں2017 30 April گھنٹہ 09:05
خبر کا کوڈ : 266799

سعودی عرب میں اندرونی اختلافات کی کہانی

محمد بن سلمان نے محمد بن نائف کے خلاف دھواں دار انداز سے خاموش بغاوت کا صور پھونک دیا ہے
بن سلمان نے بن نائف کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے وزارت داخلہ اور سیکورٹی امور کے محکمے کے مقابلے میں سلامتی کونسل کی تشکیل کرڈالی جو براہ راست شاہ سلمان کے دفتر سے وابستہ ہے۔
سعودی عرب میں اندرونی اختلافات کی کہانی
محمد بن سلمان سعودی بادشاہ کے ذریعہ اعلیٰ حکام کی تقرری اور معزولی کے حکم کو محمد بن نائف کے خلاف ایک منظم سازش کے طور پر استعمال کرتے ہوئے حکومت میں اپنی جڑیں جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اعلیٰ سعودی حکام کی معزولی اور نئی تقرری سعودی بادشاہ کی مہر و دستخط کے ساتھ محمد بن سلمان کے ذریعہ انجام پائی ہے جو محمد بن نائف کے خلاف خاموش بغاوت اور محمد بن سلمان کے سعودی حکومت پر مکمل کنٹرول کرنے کی کوششوں کے مترادف ہے۔

چالیس افراد پر مشتمل عزولی کا یہ عمل کہ جس نے سعودی تجزیہ کاروں کے درمیان ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، کو سعودی میڈیا نے تیل کی قیمتوں میں آنے والی گراوٹ کے سبب کارکنوں کی اجرتوں میں کمی کو پورا کرنے کی کوششں بتاتے ہوئے، عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی۔

محمد بن سلمان نے سعودی ولیعہد محمد بن نائف کی سعودی بادشاہت کے منصب پر فائز ہونے کی راہ میں بڑی مشکل کھڑی کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے۔

دونوں "محمد" جانتے ہیں کہ سعودی بادشاہت کی راہ واشنگٹن سے ہوکر گزرتی ہے۔

محمد بن سلمان اپنے اور بادشاہت کے درمیان آنے والی ہر مشکل کو برطرف کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں لیکن محمد بن نائف اس حکم کے سلسلے میں سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں۔

محمد بن نائف ہمیشہ ہی ملک کے حساس مسائل میں اظہار نظر کرتے رہے ہیں لیکن سعودی بادشاہ کے مذکورہ فرمان پر ابھی تک انہوں نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

انہوں نے اپنے مشہور نظریہ "وژن 2030" میں محمد بن سلمان کو اپنا قوت بازو، دست راست اور بھائی بتاتے ہوئے ان کی اہمیت کو کم کرکے صرف ایک مشیر تک محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔

حکومتی امور سے آشنا بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فرمان کے بعض اجزاء محمد بن سلمان نے اپنے والد کی مہر کا استعمال کرتے ہوئے خود صادر کئے ہیں جیسے اپنے بھائی خالد بن سلمان کو امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر کی حیثیت سے مقرر کرنا۔

حالات کی بہتری کے نام پر لئے جانے والے یہ فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ محمد بن سلمان، امریکی حکام کے درمیان اس بات کو تقویت دینا چاہتے ہیں کہ وہ سعودی بادشاہ سلمان کے بہترین جانشین ہو سکتے ہیں۔

اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے سلمان کی جانشینی کیلئے اپنی دلچسپی پر مبنی خبروں کی تردید کی تھی لیکن بعض حلقوں میں کہا جا رہا ہے کہ امریکہ محمد بن نائف کو مستقبل میں سعودی حکومت کی باگ ڈور سونپنے کا خواہاں ہے کیونکہ محمد بن نائف ایک تجربہ کار انسان ہے اور دہشت گردی سے جنگ میں امریکہ اور ان کے درمیان بہترین ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اسی دوران سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے امریکی صدر ٹرمپ سے اپنی ملاقات کو واشنگٹن سے پہلے کے مقابلے میں اور زیادہ قربت اختیار کرنے کا وسیلہ بتایا، کیونکہ ٹرمپ نے علاقائی مشکلات کے حوالے سے محمد بن سلمان کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں دلچسپی دکھائی تھی۔

لہٰذا محمد بن سلمان نے حالات کو غنیمت جانتے ہوئے امریکہ سے گہرے مراسم بنانا مناسب سمجھا، ایسے مراسم جو واشنگٹن سے مستقل رابطہ برقرار کرنے میں سازگار ہوں تاکہ محمد بن نائف کو پچھاڑتے ہوئے انہیں ان کے اہداف اور جاہ طلبی سے روکا جا سکے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے بھائی خالد بن سلمان کو عبد اللہ بن فیصل آل سعود کی جگہ پر واشنگٹن میں سعودی سفیر کے عہدہ پر تعینات کیا ہے جنہیں سیاست کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے اور اس عہدہ تک پہنچنے والے سب سے کم عمر سعودی شہری ہیں۔ خالد سعودی فضائیہ کا رکن ہے جو یمن کے خلاف سعودی اتحادی فوجوں میں تعینات تھا۔

محمد بن سلمان نے محمد بن نائف کو پچھاڑنے کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک وسیع محاذ کھولا ہے جس میں محمد بن نائف کی دسترس میں رہنے والے محکمہ اطلاعات، پٹرولیم اور داخلی امور کے شعبے میں بھی اپنے افراد کی تقرری کرنا شامل ہیں جو بن سلمان کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں تھے۔

بن سلمان نے بن نائف کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے وزارت داخلہ اور سیکورٹی امور کے محکمے کے مقابلے میں سلامتی کونسل کی تشکیل کرڈالی جو براہ راست شاہ سلمان کے دفتر سے وابستہ ہے۔

محمد بن سلمان نے محمد بن غفیلی کو اعلیٰ عہدے سے نوازا اور انہیں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر تعینات کرتے ہوئے اس محکمہ میں جگہ دی تاکہ بن نائف کے اختیارات کو محدود کر سکیں اور ملک بھر میں ان کے اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکے۔

محمد بن سلمان نے ایک اور سنگین قدم اٹھاتے ہوئے خفیہ ایجنسی کے نائب صدر یوسف الادریس کو معزول کیا اور اپنے معتمد خاص احمد عسیری کو اور قریب لاتے ہوئے خفیہ ایجنسی کے نائب سربراہ کے عہدہ پر فائز کیا تاکہ عسیری حساس وقت پر محمد بن سلمان کیلئے ان تنظیموں کی حمایت حاصل کر سکیں۔

محمد بن سلمان نے لندن میں سعودی سفیر کے مشیر، سعودی بادشاہ کے پوتے نیز اپنے بھتیجے احمد بن فہد بن سلمان کو الشرقیہ کا گورنر بنایا، بن سلمان نے ان کو سعود بن نائف بن عبدالعزیز کا نائب بنا کر محمد بن نائف کے غصے کو بھڑکانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔

محمد بن سلمان نے پیٹرولیم میں توانائی کے امور کے نام سے ایک الگ محکمے کا قیام کرتے ہوئے ملک سلمان کے بیٹے عبدالعزیز بن سلمان کو اس کا سربراہ بنایا تاکہ تیل کے ملکی ذخائر پر بھی بن سلمان کے حامیوں کا تسلط رہے۔

اپنے بھائی خالد بن سلمان کے برعکس عبد العزیز کو پٹرولیم کے شعبے سے متعلق کافی معلومات ہیں، عبد العزیز کو اس شعبے کا سربراہ بنانے اور اہم فیصلہ لینے والے عہدوں پر ان تعیناتیوں کے بعد سلمان بن عبد العزیز فیملی کی قدرت و طاقت میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔

مذکورہ فیصلے کے بعد مختلف منصبوں پر تعیناتی کے فیصلوں میں آسانی ہوگی اس سے پہلے مختلف عہدیداروں کو معزول کرنے کیلئے آل عبدالعزیز کی اکثریت کا راضی ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا لیکن ملک سلمان کے دور اقتدار میں عبدالعزیز کی پوری نسل شاید ہی اپنے میراثی حق تک پہنچ سکے۔

بہر حال محمد بن سلمان نے محمد بن نائف کے خلاف دھواں دار انداز سے خاموش بغاوت کا صور پھونک دیا ہے جسے بعض عوامی حلقوں اور میڈیا کی حمایت بھی حاصل ہوئی ہے جس کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ سرکاری کارکنوں کو پھر سے سرکاری امداد کا مل رہا ہے۔

ان تمام فیصلوں سے کچھ عرصہ قبل ہی واشنگٹن پوسٹ نے محمد بن سلمان کا انٹرویو لیا تھا جو ان کو خبردار کرنے کے مترادف تھا جس میں انکی تصویر ایک مطلق العنان شخص کے انداز میں پیش کی گئی تھی۔

اس انٹرویو کے بعد ہی سعودی بادشاہ کے احکامات صادر ہوئے اور مذکورہ اخبار کا فرضیہ جھوٹا ثابت ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعودی خاندان میں اقتدار کیلئے کوئی رسہ کشی نہیں ہے۔
https://taghribnews.com/vdci3qar3t1aqy2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ