تاریخ شائع کریں2017 17 August گھنٹہ 11:52
خبر کا کوڈ : 279849

مقبوضہ کشمیر:’’دفعہ 35 اے‘‘

کشمیر کی اپوزیشن پارٹیوں نے دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی صورت میں ’’ایک بڑی بغاوت‘‘ کے جنم لینے کا خدشہ ظاہر کیاہے۔
مقبوضہ کشمیر:’’دفعہ 35 اے‘‘
مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ’’دفعہ 35 اے‘‘ کو لیکر سرینگر سے نئی دہلی تک سیاسی حلقوں میں جاری زوردار بحث کے بیچ بھارتی سپریم کورٹ کے سہ رُکنی بنچ نے ’’دفعہ 370‘‘ کی منسوخی کے حق میں دائر کی گئی ایک اور پٹیشن سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے بھاجپا حکومت کو چار ہفتوں کے اندر اندر اپنا جواب پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ پٹیشن دہلی ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے دائر کی گئی ہے، جس کے تحت عدالت نے دفعہ 370 کی منسوخی کے سلسلے میں ایک عرض داشت خارج کر دی تھی۔

جموں و کشمیر کی آئین ہند میں خصوصی پوزیشن پر سوالات اٹھانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس حوالے سے نئی دہلی کی عدالتوں میں آئے روز نت نئے کیس دائر کئے جا رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ گذشتہ روز ہی کشمیر کی اپوزیشن پارٹیوں نے دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی صورت میں ’’ایک بڑی بغاوت‘‘ کے جنم لینے کا خدشہ ظاہر کیا۔ دفعہ 35 اے کو لیکر ایک پٹیشن اِس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

کماری وجے لکشمی جھاہ نامی ایک خاتون نے اپریل کے مہینے میں دہلی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس میں دفعہ 370 کو غیر قانونی قرار دیکر اس کی منسوخی کا مطالبہ کیا گیا تھا، حالانکہ جولائی 2014ء میں سپریم کورٹ نے اسی طرح کی ایک عرضداشت کو یہ کہتے ہوئے خارج کیا تھا کہ اس بارے میں ہائی کورٹ سے ہی رجوع کیا جائے۔ کماری وجے لکشمی نے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی عرضداشت میں بتایا کہ ان کی عرضی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن سے بالکل مختلف ہے۔

انہوں نے اپنی عرضداشت میں کہا تھا کہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 جس کے تحت جموں کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہے، ایک عارضی دفعہ ہے، جس کی مدت 1957ء میں ریاست کی آئین ساز اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔

انہوں نے عدالت کو یہ کہتے ہوئے مائل کرنے کی کوشش کی کہ جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد دفعہ 370 اور ریاستی آئین کو برقرار رکھنا ’’بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ فراڈ کے مترادف ہے‘‘ کیونکہ نہ بھارتی صدر، نہ پارلیمنٹ اور نہ ہی بھارتی حکومت نے اس کو جاری رکھنے کی منظوری دی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 11 اپریل2017ء کو دلی ہائی کورٹ کے جسٹس جی روہنی اور جسٹس جینت ناتھ نے مذکورہ عرضداشت یہ کہتے ہوئے خارج کر دی تھی کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ایک پٹیشن پہلے ہی خارج کی ہے، لہٰذا دفعہ 370 کے قانونی جواز کو چیلنج کرنے سے متعلق عرضداشت ہائی کورٹ کے ذریعے سماعت کیلئے منظور نہیں کی جاسکتی۔ معلوم ہوا ہے کہ کماری وجے لکشمی جھاہ نے دہلی ہائی کورٹ کے اسی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اب سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

انہوں نے دفعہ 370 کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو چیلنج کیا ہے اور عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ اس دفعہ کی منسوخی کے احکامات صادر کرے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس جے ایس کھیہر، جسٹس اے کے گوئل اور جسٹس ڈی وائی چندرچُود پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پٹیشن سماعت کی منظور کی اور ابتدائی مرحلے میں بھارتی حکومت کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے عرضداشت پر اپنے عذرات چار ہفتوں کے اندر اندر پیش کرنے کی ہدایت دی۔ کیس کی اگلی سماعت اگلے ماہ کے اوائل میں ہوگی۔

کشمیر کی آئینی حیثیت کے تحفظ کیلئے سیاسی و دینی تنظیمیں یک زباں: پردیش کانگریس کے سابق صدر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں آئین ہند کی دفعہ 35 اے کی نسبت ایک صحیح فیصلہ لیا ہے۔ اس طرح بی جے پی کے بغیر جموں و کشمیر کی سبھی جماعتیں آئین ہند کی دفعہ 35 اے کے بارے میں ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آرہی ہیں۔

اپوزیشن کے اس فیصلے سے کشمیر کے سیاسی منظر پر ایک اور خوشگوار واقعہ رونما ہوا ہے کہ اپوزیشن اور حریت اس معاملے پر متفق ہیں۔ یہ بات ماننا پڑے گی کہ آر ایس ایس کی تنگ نظری اور کشمیر کے بارے میں اس کی غلط سوچ کا ایک اہم فائدہ یہ ہوا ہے کہ اپوزیشن اس معاملے پر مکمل طور متفق ہوئی ہے اور ریاست کے سیاسی منظر میں بی جے پی پہلے ہی اس معاملے پر الگ تھلگ ہوگئی ہے، کیونکہ الائنس کے ایک حصے نے پہلے ہی دفعہ 35-A کے بارے میں اپنی سوچ کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس نے سپریم کورٹ میں جاکر خود وزیراعظم نریندر مودی کیلئے دشواری پیدا کی ہے۔ درایں اثنا مزاحمتی قیادت اور بھارت نواز جماعتوں کی طرف سے ’’آرٹیکل 35 اے‘‘ اور جموں کشمیر کو خصوصی مراعات دینے والی دفعات کے خلاف نئی دہلی کی طرف سے مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے توسط سے سپریم کورٹ کا سہارا لینے کے خلاف یک زبان ہونے کا خیرمقدم کرتے ہوئے عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے کہا ہے کہ زبانی خرچ سے اب کام چلنے والا نہیں ہے اور یہ مناسب وقت ہے کہ ریاست کی تمام نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی پالیسیوں میں نظرثانی کرکے مشترکہ اہداف کا تعین کریں۔ انجینئر رشید نے کہا ’’سپریم کورٹ کا سہارا لیکر آئین کے بنیادی ڈھانچے سے چھیڑ چھاڑ کرنا نہ صرف قابل اعتراض بلکہ خود آئین کی توہین ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ جموں کشمیر کے مسئلہ کے دائمی حل پر بات چیت کرنے کے بجائے نئی دہلی شہریت کے متعلق لاگو قوانین کو ختم کرنے کے در پے ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو چاہئے تھا کہ وہ متعلقہ پٹیشن کو سرے سے ہی خارج کرتی کیونکہ جو چیز بحث کے دائرے میں بھی نہیں آسکتی، اُس کو عدالت میں بحث کیلئے منظور کرنا بہت ہی غیر قانونی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں متحد ہوکر نئی دلی پر واضح کرنا ہوگا کہ شہریت کے متعلق موجودہ قوانین میں کسی بھی طرح کی ترمیم کشمیر کے لوگوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے اسمبلی رکن حکیم محمد یاسین نے ’’محبوبہ مفتی کو آرٹیکل 35 اے کا دفاع کرنے کا مشورہ‘‘ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس دفعہ کیساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی تو وہ بڑی حماقت ہوگی، کیونکہ اس صورت میں بھارتی حکومت کو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

حکیم محمد یاسین نے سوالیہ انداز میں کہا کہ جو حکومت اپنے ہی ترتیب دیئے گئے ایجنڈا آف الائنس کو عملانے میں ناکام ہوئی ہے، وہ ریاستی آئین اور آئین ہند کی دفعہ 370 کا دفاع کرنے میں کس طرح سے کامیاب ہوگی۔ دفعہ 35 اے کا ذکر کرتے ہوئے حکیم محمد یاسین نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نے غلطی سے بھی دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی حماقت کی تو اُس کو عوامی غیض و غضب کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’دفعہ 35 اے‘‘ سے ہی ریاست جموں و کشمیر کو سیاسی سماجی اور ماحولیاتی سطحوں پر ایک اہم پوزیشن حاصل ہے اور ریاستی عوام متحد ہوکر دفعہ ھٰذا کا دفاع کرنے کیلئے کوئی بھی قربانی پیش کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔

ساتھ ہی ساتھ جموں و کشمیر فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ نے کہا کہ کشمیر میں آبادیاتی تشخص کو تبدیل کرنے اور مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کی کسی بھی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہماری جدو جہد کا اصل مقصد جموں کشمیر کے لئے حق خود ارادیت کا حصول ہے، تاہم دہلی کے حکمران اور ان کے مقامی حامی ریاستی آئین میں درج 35 اے یا کشمیری باشندوں کو حاصل تحفضات میں ترامیم یا تغیر و تبدل کرکے ریاست کی مسلم اکثریتی شناخت پر ضرب لگانے کے لئے جلد بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے ریاستی عوام کو اس سلسلے میں پیش بندی کے لئے تیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو بیرون ریاست سے لوگ ہماری زمینیں خرید کر ہمیں بے گھر کریں گے اور اس طرح یہ لوگ رائے شماری کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایک منظم سازش کر رہے ہیں اور اپنے حق میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے پیش بندی کر رہے ہیں۔ انہوں نے ریاستی عوام کو بھارتی حکام اور ان کے مقامی حواریوں کی چالوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس طرح کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

ریاست جموں و کشمیر کی آئینی تخصیص کی حامل ’’دفعہ 35 اے‘‘ کے خاتمے کے حوالے سے کی جا رہی کوششوں پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کاروان اسلامی اور جمعیت ہمدانیہ کے سربراہان نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ ایسی کسی بھی کوشش کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، جو ریاست کی خصوصی پوزیشن کو زک پہنچانے کے حوالے سے کی جا رہی ہیں۔ جموں و کشمیر کاروان اسلامی کے سربراہ غلام رسول حامی نے کہا کہ کشمیر کے چند سیاست دانوں نے اپنی انا اور سیاسی فائدے کے لئے ہمیشہ غیر یقینیت کے ماحول کو پروان چڑھا کر اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جی ایس ٹی‘‘ کے بعد ’’دفعہ 35 اے‘‘ اور اب 370 جو کہ اب اپنے آخری سانسوں پر قائم ہے کو اب مکمل طور ختم کرنے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت آچکا ہے کہ اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرکے کشمیری قوم کو اپنے حق کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس دوران ’’دفعہ 35 اے‘‘ کے خلاف ہو رہی سازشوں کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے جموں و کشمیر جمعیت ہمدانیہ کے سربراہ میرواعظ کشمیر مولانا ریاض احمد ہمدانی نے اہل ریاست سے اپیل کی ہے کہ متحدہ ہوکر ریاست کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون کا دفاع کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن خصوصاً سٹیٹ سبجیکٹ قانون فرقہ پرست ہندو جماعتوں کو روز اول سے ہی کھٹکتا آرہا ہے اور یہ فرقہ پرست جماعتیں کئی دہائیوں سے ریاست کو ان خصوصیات سے محروم کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کو ختم کرنے کا مقصد ریاست کے مسلم اکثریتی کردار اور ریاست کے انفرادیت اور الگ پہنچان کو ختم کرنا ہے۔ انہوں نے اہل کشمیر سے اپیل کی کہ وہ متحد ہوکر ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
https://taghribnews.com/vdci53ar3t1ayv2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ