تاریخ شائع کریں2017 25 May گھنٹہ 12:07
خبر کا کوڈ : 269165

ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی دورہ، پس پردہ حقائق

عرب، اسلامی، امریکی اتحاد کے دیگر فریقوں کو کھانے پینے، رہائش اور فوٹو سیشن میں اٹھک بیٹھک کے علاوہ کیا حاصل ہوا؟ ٹرمپ کا یہ پہلا غیر ملکی شو
ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے پہلے 100 دن گذارنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ فلسطین پر قائم جعلی ریاست اسرائیل اور اس کے بعد ویٹیکن سٹی روم میں کیتھولک مسیحیوں کے پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کو بھی پہلے غیر ملکی دورے کی سیریز میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر شامل رکھا۔
ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی دورہ، پس پردہ حقائق
تحریر: عرفان علی
بشکریہ: اسلام ٹائمز

ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کی حیثیت سے پہلے 100 دن گذارنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ فلسطین پر قائم جعلی ریاست اسرائیل اور اس کے بعد ویٹیکن سٹی روم میں کیتھولک مسیحیوں کے پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کو بھی پہلے غیر ملکی دورے کی سیریز میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر شامل رکھا۔ اس انتخاب کا مقصد واضح تھا کہ دنیائے اسلام و یہودیت و مسیحیت کو گمراہ کیا جاسکے۔ درحقیقت وہ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ تو اسلام، یہودیت اور مسیحیت کو انتہاء پسندی و دہشت گردی کے خلاف یکجا کرنا چاہتے ہیں۔ اس دورے کے اہداف کے بارے میں 4 مئی 2017ء کو امریکہ کے قومی یوم دعا کے دن وائٹ ہاؤس میں خارجہ امور کی کوریج کرنے والے رپورٹرز اور کالم نویسوں کو آف دی ریکارڈ بریفنگ بھی دی گئی تھی۔ ٹرمپ اپنا یہ امیج پیش کرنا چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحی پیشوا کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں۔ دعوے کی حد تک کوئی اسے قبول کر لے تو آزاد ہے، لیکن درحقیقت ایسا ہرگز نہیں کہ ٹرمپ نے دنیائے اسلام اور یہودیت کے اصل دینی مراکز سے تاحال باہمی تعامل کی کوئی صورت نکالی ہو۔

جہاں تک پوپ فرانسس یا ویٹکن سٹی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ کیتھولک مسیحیوں کا مذہبی مرکز ہیں، کیونکہ مسیحی دین و سیاست کی جدائی کے قائل ہوچکے ہیں۔ ٹرمپ خود مسیحی سیاستدان ہیں۔ لیکن دنیائے اسلام کے بارے میں امریکی بھی یہ حقیقت جانتے ہیں اور سیموئل ہنٹنگ ٹن نے تمدنوں کے تصادم نامی تصنیف میں بھی تحریر کر دیا تھا کہ دنیائے اسلام کی کوئی مرکزی ریاست نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ مسلمانان عالم کے سیاسی فیصلے سعودی عرب کی بادشاہت نہیں کرتی اور نہ ہی اسے دنیائے اسلام کے سیاسی فیصلوں کا کسی نے اختیار دیا ہے۔ سعودی بادشاہت نے جس طرح مکہ و مدینہ کے مقدس مقامات پر تسلط جمایا ہے، یہ بھی دنیائے اسلام کو معلوم ہے اور یہ جس مسلک محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تعلیمات و تشریحات یعنی وہابیت کی پیروکار ہے، دنیائے اسلام کی اکثریت اس سے بھی نالاں ہے۔ سعودی بادشاہت کو اسلام و مسلمین کا ٹھیکہ برطانوی و امریکی سامراج نے ہی دے رکھا ہے، لیکن سعودی حکمران خاندان کو دنیائے اسلام کی طرف سے ایسا کوئی مینڈیٹ حاصل نہیں کہ وہ امت مسلمہ کی جانب سے کوئی فیصلہ سنا سکے۔

قصہ مختصر یہ کہ وہابیت بھی دین و سیاست کی جدائی کی قائل ہے، حالانکہ دین کے نام پر منفی سیاست سے یہ کبھی باز نہیں آئی۔ رہ گئی نسل پرست دہشت گرد جعلی ریاست اسرائیل، اس کا یہودیت نامی مذہب سے نہیں بلکہ یہودیت بعنوان نسل تعلق ہے جو کہ اسکا سیکولر سیاسی نظریہ ہے اور جسے عرف عام میں صہیونیت کہا جاتا ہے۔ ادیان ابراہیمی یا آسمانی مذاہب کے عنوان سے معروف اسلام، و مسیحیت و یہودیت انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے بنی نوع انسان تک پہنچے ہیں اور انبیائے کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ اس میں آل سعود، نیتن یاہو اور ٹرمپ جیسے انسانیت دشمن حکمرانوں سے مفاہمت کی کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ لہٰذا امر واقعہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے دنیا اور امریکی عوام کو دھوکہ دیا ہے کہ وہ اسلام، یہودیت و مسیحیت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ کو سعودی بادشاہ کی جانب سے دورہ سعودی عرب کی دعوت ملی تھی۔ ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد سعودی حکومت نے ان کے یہودی داماد جاریڈ کشنر اور دیگر سے رابطے کرکے خیر سگالی کے پیغامات بھجوائے تھے۔ اسی طر ح فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے والی جعلی ریاست اسرائیل کے صدر ریووین ریولن اور وزیر اعظم نیتن یاہو نے دی تھی۔

چار مئی 2017ء کی بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا گیا کہ سعودی بادشاہت کے تزویراتی خدشات و مشکلات کو برطرف کرنا دورہ سعودی عرب کا اصل مقصد تھا۔ ٹرمپ کے مشیروں نے بتایا کہ یہ تاثر کسی طور درست نہیں کہ ٹرمپ کو امریکہ کے اتحادیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ مشیروں کے مطابق ٹرمپ اتحادیوں کے حوالے سے مضبوط موقف رکھتے ہیں، البتہ ان کی ترجیح ملٹی نیشنل فورمز ہیں جیسے نیٹو، گروپ7 وغیرہ۔ البتہ ملٹی نیشنل فورمز کو بھی اس صورت میں فوقیت دیں گے، جب وہ امریکی مفاد میں ہوں اور جب امریکی مفاد میں نہ ہوں تو پھر وہ امریکہ کی جانب سے تعاون کے لئے شرائط پیش کریں گے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو ٹرمپ کے غیر ملکی دورے اور خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ امریکہ کے تزویراتی اعتماد و اطمینان کو عالمی سطح پر پہلے سے زیادہ موثر طریقے سے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ انکی اپروچ یہ ہے کہ ذاتی سفارتکاری کا استعمال زیادہ کریں، تاکہ عالمی رہنماؤں سے ذاتی تعلقات قائم کرلیں۔ انہوں نے یہ حکمت عملی بھی بنا لی ہے کہ اتحادیوں کے ذریعے امریکی مفاد حاصل نہ ہوں تو دشمنوں سے بھی تعامل کر لیا جائے، بشرطیکہ اس سے امریکی مفاد کو تحفظ حاصل ہو۔ ساتھ ہی وہ پرانی پالیسیوں کو ترک کرکے نئی پالیسیوں کو متعارف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں وارد ہونا چاہتے ہیں، لیکن حقائق کی تبدیلی کے ساتھ ایڈجسٹ ہونا بھی جانتے ہیں۔

جیسا کہ ذکر ہوا کہ سعودی بادشاہت نے ٹرمپ کو ان کے یہودی داماد کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ وہ ریڈیکل ازم سے لڑائی کے لئے متعہد ہیں۔ ساتھ ہی وہ ایک مضبوط ایران سے پریشان بھی۔ ٹرمپ اور ان عرب رہنماؤں کے مابین مختلف ایشوز پر ہم آہنگی بھی تھی۔ اس لئے ٹرمپ نے ماضی کی امریکی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ سعودی عرب سمیت ان عرب حکمرانوں کو یقین دلایا جائے کہ امریکہ ان کے ساتھ ہے۔ امریکہ عدم رواداری اور نظریاتی انتہا پسندی کے خلاف لڑائی کے لئے ان عربوں کے ساتھ طویل المدت اتحاد کے لئے آمادہ ہے، دہشت گردوں کو پیسوں کی فراہمی کے عمل کو روکنے اور ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہے، لیکن اس کے لئے مالی بوجھ عرب حکمرانوں کو ہی برداشت کرنا ہوگا۔ البتہ دکھانے کی حد تک داعش نامی تکفیری گروہ کو شکست دینا امریکہ و عرب اتحاد کا اعلانیہ ہدف رکھا جائے گا۔ صحافیوں کو محسوس ہوا کہ واضح طور پر امریکی حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہو رہا ہے تو اس پر ٹرمپ کے مشیروں نے بہانہ بنایا کہ دیکھیں ایران حزب اللہ لبنان اور یمن میں حوثیوں کی مدد کر رہا ہے۔ ان مشیروں سے کسی نے یہ نہ پوچھا کہ فلسطین کے سارے سنی مقاومتی گروہوں کو بھی ایران ہی مدد فراہم کرتا آیا ہے اور اب بھی کر رہا ہے تو ایران اور اس کے اتحادی کس طرح فرقہ پرست قرار دیے جاسکتے ہیں۔؟

یہ سوال تو کوئی نہ کرسکا، البتہ ٹرمپ کے مشیروں نے صحافیوں کو ایران کے بارے میں سب سے زیادہ اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ ٹرمپ سرکار ایران کے رویے کے بارے میں اپنے عدم اطمینان کو الفاظ نہیں بلکہ ایکشن کے ذریعے ظاہر کرے گی۔ لیکن اگر ایران اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہے تو فون اٹھائے اور امریکی حکمران کو کال کرے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ ٹرمپ نے ماضی کے امریکی صدور کی نقالی کرتے ہوئے پھر ایک اور فوٹو سیشن سربراہی اجلاس منعقد کیا، جس میں سوائے سعودی عرب اور ٹرمپ کے کوئی تیسرا رہنما دنیا کے سامنے ظاہر نہ ہو پایا، بلکہ ایٹمی اسلحے سے لیس دنیا کے واحد مسلمان ملک پاکستان کے وزیراعظم کو نہ تو تقریر کا موقع دیا گیا، نہ کوئی سائیڈ لائن ملاقات اور نہ ہی دہشت گردی کے نتیجے میں ستر ہزار انسانوں اور 120 بلین ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنے پر ہمدردی کے دو بول بولے گئے۔ نہ ہی کسی قسم کا خراج تحسین پیش کیا گیا۔ لبنان والے الگ شور مچا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی نواز شریف جیسا سلوک روا رکھا گیا۔ ٹرمپ اور سعودی عرب نے تو خوب خرید و فروخت کے ریکارڈ قائم کئے۔ مہنگے تحفوں سے ٹرمپ کو سلامی دی گئی۔ اعلٰی ترین سول اعزاز بھی دے دیا گیا۔ لیکن عرب، اسلامی، امریکی اتحاد کے دیگر فریقوں کو کھانے پینے، رہائش اور فوٹو سیشن میں اٹھک بیٹھک کے علاوہ کیا حاصل ہوا؟ ٹرمپ کا یہ پہلا غیر ملکی شو جو ریاض میں منعقد ہوا، اس کی ناکامی کا چرچا تو اتحادی ممالک کے ذرایع ابلاغ نے کر دیا ہے اور کیا لکھا جائے۔
https://taghribnews.com/vdciq3arwt1aqz2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ