تاریخ شائع کریں2017 12 January گھنٹہ 15:12
خبر کا کوڈ : 256763

چین: الیکٹرانک خفیہ معلومات کی نگرانی کیلئے بحری جہاز تیار

چین کی بحریہ نے الیکٹرانک معلومات کی نگرانی کرنے والا نیا بحری جہاز تیار کرلیا
یہ پہلا موقع ہے جب چین کی جانب سے خفیہ معلومات جمع کرنے والے جہازوں کے بارے میں اس قدر معلومات عوامی کی گئی ہیں
چین: الیکٹرانک خفیہ معلومات کی نگرانی کیلئے بحری جہاز تیار
بیجنگ : چین کی بحریہ نے الیکٹرانک معلومات کی نگرانی کرنے والا نیا بحری جہاز تیار کرلیا، یہ جدید جہاز چینی بیڑے میں اہم اضافہ قرار دیا گیا ہے جبکہ جنوبی چین کے سمندر میں جزیروں کے تنازع میں بیجنگ کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔

رپورٹس کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے پاس اب برقی توانائی سے چلنے والے 6 جہاز موجود ہیں جبکہ یہ پہلا موقع ہے جب چین کی جانب سے خفیہ معلومات جمع کرنے والے جہازوں کے بارے میں اس قدر معلومات عوامی کی گئی ہیں۔

چین کے ایک اخبار کے مطابق نیوی نے گذشتہ سال میں 18 جہازوں کو کمیشن کیا، جن میں میزائل تباہ کرنے والے بحری جہاز، چھوٹے جنگی جہاز اور گائیڈڈ میزائل داغنے والے فریگیٹ شامل تھے۔

چین کی جانب سے دوسرے ایئرکرافٹ کیرئیر کی تیاری کا بھی اعلان کیا گیا ہے جبکہ چین کے پاس موجود ایئرکرافٹ کیرئیر کافی پرانا ہوچکا ہے، یہ سویت یونین کے دور میں بنایا گیا تھا تاہم اس کی جنوبی چین کے سمندر میں موجودگی دیگر ممالک کے لیے اکثر تشویش کا سبب بن جاتی ہے۔

بحری بیڑے میں شامل کیے گئے خفیہ الیکٹرانک معلومات کی نگرانی کرنے والے جہاز کے حوالے سے چینی اخبار لکھتا ہے کہ ہل کوڈ 856 کے ساتھ نئے جہاز سی این ایس میزار کو شمالی سمندر پر موجود بیڑے کی مدد کے لیے کنگ ڈاؤ کی مشرقی بندرگاہ پر پہنچایا گیا۔

یہ جہاز ہر موسم میں 24 گھنٹے مختلف اہداف کی نگرانی کے ساتھ ساتھ خفیہ الیکٹرانک معلومات حاصل کر سکتا ہے۔
چین کے دفاعی تجزیہ کار اس جہاز کا مقابلہ جدید فوجی صلاحیتیں رکھنے والے ممالک جیسے کہ امریکا اور روس کے جہازوں سے کر رہے ہیں۔

نیوی کے افسران کے مطابق چینی جہاز اب پہلے سے زیادہ امریکی اور جاپانی جنگی جہازوں کو نگرانی کر سکتے ہیں۔

جنوبی چین کے سمندر میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں، بحری جہازوں کے ذریعے یہاں سے تقریباً 5 ٹرلین ڈالر کی تجارت کی جاتی ہے، چین اس سمندر اور اس میں موجود جزائر کا دعویدار ہے، تاہم ایسے ہی کچھ دعوے برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام کے بھی ہیں، جہاں دوسرے ممالک نے یہاں فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے وہیں چین بھی فوجی طاقت بڑھاتا جارہا ہے۔

چین کے مطابق اس کے مقاصد برے نہیں ہیں جبکہ وہ تمام تنازعات کو دو طرفہ بات چیت سے حل کرنا چاہتا ہے مگر دوسری جانب بیجنگ کی خطے میں جہازوں اور طیاروں کی نگرانی کے معاملے پر واشنگٹن سے سفارتی چپقلش بھی ہو رہی ہے۔

ایک روز قبل ہی امریکی نومنتخب صدر کے نامزد سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ چین کی ان جزائر تک رسائی روک دینی چاہیئے جہاں اس نے فوجی اثاثے رکھے ہیں۔
https://taghribnews.com/vdciqqarpt1awy2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ