تاریخ شائع کریں2017 14 April گھنٹہ 13:03
خبر کا کوڈ : 265286

داعش کو پیدا کرنے والا اور اسے پروان چڑھانے والا امریکہ ہے

داعش کو پیدا کرنے والا اور اسے پروان چڑھانے والا امریکہ ہے
ملی یکجہتی کونسل اور جمعیت علمائے پاکستان (نوارنی) کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کا شمار ملک کے اہم مذہبی و سیاسی رہنماﺅں میں ہوتا ہے، ملک میں نظام مصطفٰی (ص) کا نفاذ انکی جماعت کا مشن ہے، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر نے دوسری مرتبہ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کی صدارت سنبھالی ہے۔


کیا سعودی فوجی اتحاد داعش اور دہشتگردی کیخلاف کارروائی میں سنجیدہ نظر آتا ہے۔؟


صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ مشرق وسطٰی میں جو قوتیں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں، داعش  کے آگے صف آراء ہیں اور اپنی قربانیاں پیش کر رہی ہیں، انہیں آپ فوجی اتحاد میں شامل نہیں کر رہے ہیں، تو اس اتحاد کو داعش کے خلاف اتحاد کیسے کہا جا سکتا ہے، شام، عراق، ایران سب سے زیادہ داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں، پھر اس سعودی فوجی اتحاد کی سرپرستی امریکہ کر رہا ہے، داعش کو بھی پیدا کرنے والا اور اسے پروان چڑھانے والا امریکہ ہی ہے، داعش کو جدید ترین اسلحہ اسرائیل کے ذریعے پہنچانا اور اسرائیل کے ذریعے داعش کی پشت پناہی کرنے والا امریکہ ہی ہے، امریکہ داعش کا نام لیکر مزید اسلامی ممالک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، اگر سعودی فوجی اتحاد حقیقت میں داعش کے خلاف ہوتا تو جو ممالک پہلے سے داعش کے خلاف لڑ رہے ہیں، ان کو شامل کرتے اور ان ممالک کے ساتھ ملکر کوئی حکمت عملی طے کرتے، داعش کو ختم کرنا دو دن کا کام تھا ان کا، لیکن جو طاقتیں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں، آپ ان کے خلاف فوجی اتحاد بنا کر داعش کو ختم کرنے کے بجائے الٹا تقویت پہنچا رہے ہیں۔ امریکہ داعش کا نام استعمال کرکے مسلمانوں کو تقسیم کر رہا ہے۔ عالم اسلام کا المیہ ہے کہ اس کے اکثر حکمرانوں نے غلامی مصطفٰی کا پٹا اپنے گلے سے اتار کر امریکی غلامی اختیار کی ہوئی ہے، امریکہ کے ہر حکم ہر عمل درآمد کرتے ہیں، امریکہ کے کہنے پر چلتے ہیں، فلسطین کی مثال ہمارے سامنے ہے، امریکی غلام حکمران مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات تو بہت دور کی بات ہے، ہمارے بہت سے حکمران تو امریکہ کے خوف کے مارے ایک قرارداد بھی لانے کی ہمت نہیں رکھتے کہ کہیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے، ہمارے اکثر حکمران امریکی غلامی میں اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ حال ہی میں مصر نے سلامتی کونسل کے اندر اسرائیل کے خلاف ایک قرارداد جمع کرائی، لیکن امریکی صدر ٹرمپ کا ایک فون آیا اور مصر نے وہ قرارداد واپس لے لی، پھر ایک غیر مسلم ملک نے وہ قرارداد پیش کی، اس سے بڑی ہم مسلمانوں کی بدبختی کیا ہوگی، تو ایسے حکمرانوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف اقدامات کریں۔

کیا سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کے باعث پاکستان کی غیر جانبدارانہ پوزیشن برقرار رہ پائے گی۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: سعودی عرب کی سربراہی میں جو فوجی اتحاد بنا ہے، اس میں شمولیت کا مسئلہ بہت ہی نازک  اور حساس مسئلہ ہے، اس سعودی فوجی اتحاد میں بہت سے اسلامی ممالک شامل نہیں ہیں، ایران، شام، عراق، آذربائیجان سمیت کئی اہم اسلامی ممالک اس کا حصہ نہیں ہیں، یہ تاثر قوی ہو رہا ہے کہ یہ فوجی اتحاد ایران کے خلاف ہے، ایران اس فوجی اتحاد کی عالمی پلیٹ فارم پر مخالفت کر چکا ہے، اگر ایسی حساس صورتحال میں پاکستان اس میں شامل ہوتا ہے، تو اس سے پاکستان کی غیر جانبدارانہ پوزیشن انتہائی متاثر ہو جائے گی کہ ایران ہمارا اسلامی و دوست پڑوسی ملک ہے، سعودی عرب بھی دوست ملک ہے، تو ان دونوں دوستوں کے درمیان ہمیں ایک ایسی رائے اختیار کرنی چاہیئے تھی کہ جس میں دونوں کے ساتھ دوستی برقرار رہتی اور کسی ایک کی طرف جھکاؤ نہ ہوتا، پاکستان کی غیر جانبداری بھی مجروح نہ ہوتی، اسی مناسبت سے یمن کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی قراردادیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ اس میں پاکستان نے واضح طور پر غیر جانبداری برقرار رکھی ہے، اگر پارلیمنٹ کی اسی قرارداد کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہاں بھی فیصلہ کرتے، تو ہماری غیر جانبداری بھی برقرار رہتی اور ہماری مصالحانہ پوزیشن بھی برقرار رہتی، ہم اپنے دونوں اسلامی ممالک کے درمیان صلح کرانے کی پوزیشن میں ہوتے، لیکن ایک طرف جھکاؤ اور وہ بھی اس صورت میں کہ آپ نے پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا، حتٰی کہ ان کے اپنے لوگ بھی اس فیصلے کی حمایت میں نہیں ہیں، حق میں نہیں ہیں، دیگر جماعتیں بھی شدید تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں، ایسی صورتحال میں جیسا کہ بعض تجزیہ نگاروں نے بھی کہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف جو لابی ہے، اسے کم کرنے کی کوشش کریں، یعنی وہ پڑوسی ملک جو دشمنی پر پورا اترے ہوئے ہیں، ان کیلئے آپ مشورے دے رہے ہیں کہ کم کریں اور جو ایران پہلے سے ہمارا دوست ہے، اسے آپ دشمن بنانے کی راہ اختیار کر رہے ہیں، یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔

پہلے تو نواز حکومت یہ اقرار ہی نہیں کر رہی تھی کہ ہم نے اجازت دی ہے یا نہیں دی ہے، کبھی کہا کہ راحیل شریف صاحب کا ذاتی مسئلہ ہے، پھر کہا کہ یہ تو فوج کا مسئلہ ہے، پھر جب فوج نے بھی تردید کر دی کہ یہ ہمارا نہیں بلکہ ریاست کا مسئلہ ہے، اب پھر نواز حکومت کے لوگ پریشان ہو رہے ہیں کہ کیا کریں، کوئی کہتا ہے کہ این او سی دیا ہے، کوئی کہتا ہے کہ این او سی نہیں دیا ہے، یہ جو نواز حکومت کے لوگوں کے جو مختلف بیانات آ رہے ہیں، یہ بھی اسی پر دلالت کر رہے ہیں کہ نواز حکومت کی اپنی ہی صفوں میں اس مسئلے پر انتشار ہے، حکومت کی وجہ سے پوری قوم تذبذب کا شکار ہے کہ آپ یہ کیا غضب کر رہے ہیں۔ اب تو اس اتحاد کے حوالے سے اور زیادہ واضح ہوگیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ تقریبات میں امام کعبہ اور سعودی وزیر مذہبی امور نے تو واضح طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ جو بھی ہمارے خلاف آئے گا، ہم اس کا مقابلہ کرینگے اس اتحاد کے ذریعے، اب اس بیان کے بعد تو کوئی کسر باقی نہیں رہتی، اس کے بعد تو واضح ہوگیا کہ جو بھی کے اندر ایران بھی ہوگیا، جو بھی کے اندر شام بھی ہوگیا۔ ابھی شام پر امریکی حملے کے حوالے سے آپ کہاں کھڑے ہیں، اقتصادی راہداری منصوبے کا حامل آپ کا سب سے حلیف ملک چین دوسری طرف کھڑا ہوا ہے، پاکستان نے روس کے ساتھ تازہ تازہ تعلقات بحال کرنا شروع کئے ہیں، وہ بھی دوسری طرف کھڑا ہے، یہ سب تو سعودی فوجی اتحاد کے خلاف جا رہے ہیں، سعودی فوجی اتحاد تو چین اور روس کے دوسری طرف کھڑا ہے، کیا پاکستان سعودی فوجی اتحاد میں شامل ہو کر اپنے سارے حلیف ممالک سے لڑے گا، کیا پاکستان سعودی فوجی اتحاد میں شامل ہوکر چین سے لڑے گا، روس سے لڑے گا۔ پہلی بار پاکستان نے امریکہ پر اعتماد کم کیا ہے اور دوسرے ممالک پر اعتماد کرنا شروع کیا ہے، جو ملک و قوم کیلئے بہت اہم پیشرفت تھی، لیکن آپ خود سی پیک منصوبے اور نئی بنائی گئی خارجہ پالیسی کا ستیاناس کر رہے ہیں۔

سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کی نواز حکومت کی خواہش کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: اس ساری صورتحال میں نواز شریف صاحب نہ تو قومی مفاد دیکھ رہے ہیں، نہ ملکی مفاد دیکھ  رہے ہیں، نہ اپنی پارٹی کا مفاد دیکھ رہے ہیں، نواز شریف صاحب صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات دیکھ رہے ہیں، کیونکہ جلاوطنی کے دور میں سعودی عرب نے ان کو ٹھکانہ دیا تھا، پناہ دی تھی، وہاں انکی جائیدادیں ہیں، کاروبار ہیں، سعودی عرب میں انکی ملیں ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ اپنے کاروبار، جائیدادوں، ملوں کو بچانا بھی ہے، اپنے پرانے احسانوں کا بدلہ بھی اتارنا ہے، اسی لئے نواز شریف صاحب آنکھ بند کرکے اور تمام ملکی و قومی مفاد کو نظر انداز کرکے، سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ بھارت اور افغانستان تو پہلے سے ہی ہمارے مخالف ہیں، اب آپ اپنی تیسری سرحد بھی آپ غیر محفوظ کر رہے ہیں، اپنے ذاتی مفاد کے حامل اقدامات سے اور بیان یہ دلوایا جا رہا ہے کہ ہم ایران کے خلاف نہیں لڑینگے، لیکن امام کعبہ و سعودی وزیر اعلان کر چکے ہیں جو ہمارے سامنے آئے گا، ہم اس کے خلاف لڑینگے، پھر آپ ایک اتحاد میں شامل ہو کر کیسے کہنے گے کہ میں نہیں لڑوں گا، جبکہ لڑنے کا فیصلہ تو اتحاد کریگا، جب وہ پچیس تیس ممالک ایک ساتھ اکٹھے جمع ہو رہے ہیں ایران کے خلاف اور وہ ایران کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر دیں، تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں نہیں لڑوں گا، جبکہ آپ اس کے اندر شامل ہوگئے، تو نواز حکومت قوم کو بے وقوف بنا رہی ہے کہ ہم نہیں لڑینگے، ہم یہ نہیں کرینگے، ہم وہ نہیں کرینگے، ہم ایران کے خلاف نہیں ہیں، ہم تو صلح کرانے جا رہے ہیں، یہ سب بیکار کی باتیں ہیں، اس صورتحال کے اندر ملک کو خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔

شام پر حالیہ امریکی حملے کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: امریکہ کو جب بھی کسی مسلم ملک پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو وہ جھوٹے بہانے تلاش کرتا ہے، جیسا  کہ افغانستان اور عراق پر امریکہ نے جھوٹے بہانے بنا کر حملہ کیا، اب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے طے کیا ہوا ہے کہ انہوں نے شام کو تباہ و برباد کرنا ہے، لیکن انہیں کوئی موقع مل نہیں رہا، لیکن شام میں حالیہ کیمیکل حملے کے حوالے سے روس کی بات ایک حد تک درست نظر آ رہی ہے کہ خود امریکہ نے خان شیخون کے علاقے میں کیمیکل حملہ کرایا ہے، پھر اسی کیمیکل حملے کو جواز بنا کر شام پر کروز میزائل سے حملہ کر دیا، اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ابھی عالمی تحقیقات شروع بھی نہیں ہوئی تھیں کہ امریکہ نے الزام لگا کر شام پر حملہ کر دیا، اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، یعنی آپ افغانستان اور عراق کی طرح جھوٹا بہانہ بنا کر ایک اور اسلامی ملک شام پر قابض ہونا چاہتے ہیں، یہ امریکہ کی پرانی پالیسی ہے، اس حوالے سے تمام اسلامی ممالک کو سوچنا چاہیئے۔

کچھ اسلامی ممالک کیجانب سے اسلامی ملک شام پر امریکی حملے کی حمایت پر کیا کہیں گے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: کچھ اسلامی ممالک اگر امریکی غلامی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ وہ اپنے ہی اسلامی ممالک پر  امریکی قبضے پر خوش ہو رہے ہیں تو ان غلام ممالک کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کی باری بھی آئے گی، اگر امریکی غلامی ترک کرکے ان غلام اسلامی ممالک نے اتحاد نہیں کیا تو امریکہ ان حمایت کرنے والے ممالک پر بھی اسی طرح قبضہ کریگا، جس طرح امریکہ نے دیگر اسلامی ممالک پر قبضہ کیا ہے۔

عالم اسلام کو درپیش مسائل کا حل کیسے ممکن ہے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: اسلامی اتحاد کے حوالے سے ماضی میں پاکستان کی صورت میں واحد قوت نظر آرہی تھی کہ  بھٹو نے اپنے دور میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تھی، سب لوگوں کو جمع کیا تھا، یہی امریکہ اور مغرب کو ناگوار گزر رہی تھی کہ بھٹو اسلامی بلاک کیوں بنا رہا ہے، آج بھی یہی حل تھا کہ ہمارے حکمران اسلامی بلاک بناتے، ایران، سعودی عرب سمیت تمام اسلامی ممالک کو بلا کر ایک مشترکہ لائحہ عمل بناتے تو اتحاد بھی ہو جاتا اور امریکہ کو سازشیں کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا، شام، یمن، عراق سمیت تمام اسلامی ممالک کو درپیش مسائل و بحران طاقت کے بجائے مذاکرات سے حل ہو جاتے، پاکستان کی ایسی پوزیشن تھی کہ وہ اس حوالے سے اقدامات کرتا، مگر پاکستان نے سعودی فوجی اتحاد میں جانے کے باعث اپنی پوزیشن خراب کر دی۔

موجودہ حساس عالمی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو کیا کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے۔؟
صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر: اللہ تعالٰی نے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک بنایا ہے، ایٹمی ملک پاکستان پر عالم اسلام  کی نگاہ ہے، پاکستان کو فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس طلب کرنی چاہیئے، عالم اسلام کو درپیش تمام اہم مسائل کے حل کیلئے مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا چاہیئے، اتحاد و اتفاق کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، سعودی بلاک اور ایرانی بلاک میں تقسیم ہونے کے بجائے اسلامی بلاک بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور پاکستان کو اس حوالے سے اپنا کلیدی اور بھرپور کردار ادا کرنا چاہیئے۔
https://taghribnews.com/vdcivwarqt1aqr2.s7ct.html
آپ کا نام
آپکا ایمیل ایڈریس
سکیورٹی کوڈ