قانون کے معیار وملاک کے بارے میں پھلا نظریہ عدالت اور قانون کا اصول عدالت کے موافق ھونا ھے اور ھر وہ قانون جس میں جتنا عدل ھوگا اسی کو معاشرہ میں جاری ھونا چاھئے۔
اقدار کے بارے میں اسلام اور مغربی تمدن میں نظریاتی فرق
تنا (TNA) برصغیر بیورو
taqrib.info , 19 Feb 2013 گھنٹہ 7:21
قانون کے معیار وملاک کے بارے میں پھلا نظریہ عدالت اور قانون کا اصول عدالت کے موافق ھونا ھے اور ھر وہ قانون جس میں جتنا عدل ھوگا اسی کو معاشرہ میں جاری ھونا چاھئے۔
تقریب نیوز (تنا): 1۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
ھماری بحث کا موضوع اسلام کے سیاسی نظریہ کو بیان کرنا تھا جس کے چند فرضیہ تھے اور اس نظریہ کو عقلی طور پر ثابت کرنے کے لئے ان مقدموں کو اپنی توجہ کا مرکز بناکر ان کے بارے میں بحث ھونا چاھئے، جیسا کہ ھم نے بیا ن کیا کہ اسلام کے سیاسی نظام میں خدا کا قانون کسی ایسے شخص کے ذریعہ جاری ھونا چاھئے،اور حکومت کا ذمہ دار اس شخص کو ھونا چاھئے جو خدا کے طرف سے منصوب ھو اور خدا کی طرف سے اس کو اجازت دی گئی ھو، مندرجہ بالا نظریہ کے بارے میں مندرجہ ذیل مقدموں کی ضرورت پیش آتی ھے:
پھلا مقدمہ: معاشرہ کے لئے قانون کا ھونا ضروری ھے۔
دوسرا مقدمہ: قانون خدا کی جانب سے نازل ھونا چاھئے۔
تیسرا مقدمہ: ان قوانین کا اجرا کرنا لازم ھے اور ان کی جاری کرنے والی اسلامی حکومت ھے۔
(مندرجہ بالا مقدموں کو مد نظر رکھتے ھوئے مسلمان افراد مندرجہ بالا نظریہ کو قبول کرنے میں کوئی شک وشبہ نھیں کریں گے، لیکن بحث کواضح کرنے کے لئے او ردوسرے افراد پر بھی حق ظاھر ھونے کے لئے ان مقدموں کو عقلی استدلال کے ساتھ بیان کرنا ضروری ھے)
معاشرہ میں قانون کا ھونا ضروری ھے تو جھاں تک ھم کو علم ھے کوئی شخص بھی اور وہ افراد بھی جنھوں نے اس بارے میں بحث کی ھے وہ اس میں شک نھیں کرتے کہ بشر کو اپنی اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لئے قانون کی ضرورت ھے لیکن معاشرہ میں کس قانو ن کو حاکم ھونا چاھئے اس بارے میں بھت زیادہ اختلاف پائے جاتے ھیںاور اس بنیاد پر قانون کے معتبر ھونے کے بارے میں فلاسفہٴ حقوق اور حقوق داں حضرا نے بھت زیادہ تحقیق وجستجو کی ھے اور ھم کس بارے میں بھتر قوانین اور دوسروں سے برتر قوانین کو مشخص ومعین کریں اس بارے میں ھم نے گذشتہ جلسہ میں قانون کے معیار وملاک کو بیان کرنے کی خاطر تین اھم نظریوں کی طرف ااشارہ کیا تھا، البتہ اس بارے میں دوسرے نظریات بھی ھیںلیکن وہ اس اھمیت کے قابل نھیں ھے کہ ان کے بارے میں بحث کی جائے۔
قانون کے معیار وملاک کے بارے میں پھلا نظریہ عدالت اور قانون کا اصول عدالت کے موافق ھونا ھے اور ھر وہ قانون جس میں جتنا عدل ھوگا اسی کو معاشرہ میں جاری ھونا چاھئے ، دوسرا نظریہ یہ ھے کہ وہ قانون بھتر اور برتر ھے جو معاشرہ کے نظام اور امنیت کو پورا کرسکے، اور آخر کار تیسرا نظریہ یہ ھے کہ وہ قانون بھتر اور برتر ھے جو لوگوں کی زندگی کی تمام ضرورتوں کو پورا کرسکے، یہ تین نظریہ ان افراد کے مقابل میں ھیں جن کا عقیدہ یہ ھے کہ بُرے قانون کو اچھے قانونسے اور بھتر قانون کو برے قانون سے تشخیص وتعین کرنے کا کوئی بنیادی معیار نھیں ھے، اور صرف معیار وملاک لوگو ںکی خواھش ھے: معاشرہ جس چیز کو پسند کرے وہ بھتر ھے اور قانون بھی اسی بنیاد پر بننا چاھئےے،یہ ”پوزیٹو“(مثبت) نظریہ ھے جو ھماری نظر میں بالکل واضح طور پر باطل ھے اس لئے کہ ایسا نھیں ھے کہ ھر دن جس شخص کا جو دل چاھے وھی قانون برتر ھوجائے بلکہ ایک عقلی معیار ھونا چاھئے تاکہ اس کے بارے میں کوئی بحث کرکے کسی منطقی نتیجہ پر پھونچا جاسکے۔
2۔دین کی نظر میں بھترین قانون اور دوسروں کے نظریہ کے تحت تاثیر واقع ھونے کا خطرہ
دین اسلام کی نظر میں وہ قانون سب سے اچھا اور سب سے بلند قانون ھے جو انسانوں کی مادی اور معنوی ضرورتوں کو پایہٴ تکمیل تک پھونچائے اور ایسا قانون ھو کہ اس قانون کے سایہ میں انسانوں کی مادی او رمعنوی ضرورتوں کو چاھے وہ کتنی ھی وسیع کیوں نہ ھوں سب سے اچھے طریقہ سے فراھم ھوسکتی ھوں اس نظریہ کا دوسرے نظریوں سے فرق یہ ھے کہ اس میں معنوی مصالح کو بھت زیادہ تاکید او رانپر بھت زیادہ اعتماد کیا جاتا ھے ۔
لیکن افسوس کہ ”رنسانس“(وہ نظریہ جو یورپ میں پندرھویں صدی کے آخر اور سولھویں صدی کے شروع میں پیدا ھوا او ران کا نظریہ گذشتہ آثار کی تقلید کرنا تھا) کے بعد ”اومانیسٹی“ کو تقویت ملی اور آھستہ آھستہ انسان کے ذھن سے خدا اور معنویت اور آخرت سے اس کی توجہ ھٹ گئی اور علمی سطح سے خارج ھوگیا، اور آخر کار ان سب چیزوں کو بھلا بیٹھا، اگرچہ کھیں کھیں گوشہ وکنارمیں محدود دائرے میں معنوی امور پر بھی اعتماد کیا جاتا تھا،لیکن دنیا کی فلسفی اور حقوقی محفلوں میں اصلی اعتماد اور مسلط رغبت یہ ھے کہ ایسا قانون ھونا چاھئے جو انسانوں کی مادی ضرورتوں کو پورا کرسکے، درحالیکہ معنوی ضرورتوں سے اس کا کوئی سروکار نہ رکھتا ھو، البتہ ھمارے نظریہ کے اعتبار سے یہ بات واضح ھے کہ قانون و معنوی ضرورتوں پر بھی بھر پور توجہ رکھناچاھئے، اس لئے کہ انسان کے وجود کا سب سے اھم اور اصلی جز روحی ، معنوی اور الھٰی اشیاء پر کامل یقین ھے اس بنیاد پر ھم اس بلند وبالا پھلو اور مصالح معنوی کو نظر انداز نھیں کرسکتے. اب ھمارا موضوع بحث یہ ھے کہ کیا قانون کو معنوی ضرورتوں پر توجہ دینا ضروری ھے یا نھیں؟
اس بات کی تاکید اور اس بارے میں بحث کرنا دلیل انحرافی کے ذریعہ جو آج کل التقاط فکری کی وجہ سے مختلف سطح کے افراد میں وقوع پذیر ھوئی ھے ھم اس مطلب کی اوز زیادہ وضاحت کے لئے ایک مثال کے ذریعہ کردینا چاھتے ھیں، فرض کیجئے کہ جسم کے سلسلے میں بعض محققین اپنی رائے کا اظھا ر کرتے ھیںاور وہ لوگ جو اس علم کے اعلیٰ درجات پر پھونچے ھوئے ھیں جیسے ”انشٹن“ ایسے ھی افراد جسم کے بارے میں اظھار خیال کرسکتے ھیں۔
لیکن اگر انھیں سے نفسیاتی علم کے بارے میں کسی نظریہ کی تائید یا ردّ کے بارے میں خود ان کا نظریہ مانگا جائے تو وہ اپنا نظریہ نھیں دیتے ھیں،کیونکہ ان کو اس علم میں مھارت نھیں ھے اور اگر نظریہ دیں تو بھی اس علم کے ماھرین سے مشورہ اور معلومات حاصل کرکے اپنی زبان کھولتے ھیں، کیونکہ انھوں نے اس علم میں مھارت حاصل نھیں کی ھے، اسی طرح وہ افراد جو کسی علم میں مھارت نھیں رکھتے صاحب نظر افراد کے کسی نظریہ کی تائید کی بناپر کسی نظریہ کی تائید یا تصدیق کرتے ھیں، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ کوئی شخص مختلف علوم کے ماھرین کے نظریات کا مطالعہ کرکے ان پر گامزن ھوجاتا ھے لیکن ا سکو اتنا وقت میسر نھیں ھوتا کہ ان نظریات کا آپس میں ایک دوسرے سے موازنہ کرسکے کہ یہ نظریات آپس میں ایک دوسرے کے موافق ھیں بھی یا نھیں؟ کیا ان منسجم آراء ونظریات کا مجموعہ انسانیت کو تشکیل دے سکتا ھے یا نھیں؟ وہ ایسا کرنے کے لئے بالکل ھی فکر ھی نھیں کرتا ھے اور نہ ھی اس کوفکر کرنے کاکو ئی انگیزہ ھوتا ھے وہ تو صرف یہ کھتا ھے کہ میرا عقیدہ ھے کہ فلاں علم النفس کا جاننے والا یا معاشرہ کی شناخت رکھنے والا یا حقوق کا جاننے والا بھتر نظریہ رکھتا ھے اور یھی امر فکری التقاط کا سبب ھوتا ھے،لیکن اھل نظر اور محقق حضرات تمام نظریات کو جمع کرکے ان کا ایک دوسرے سے موازنہ کرتے ھیںاور یہ دیکھتے ھیں کہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے سازگار ھیں یا نھیں، اگر فلاں علم النفس کے جاننے والے کے کسی نظریہ کو قبول کرنا چاھتے ھیں تو اس کی جامعہ شناسی کے دوسرے نظریہ سے اس لئے مطابقت کرتے ھیں کہ یہ ایک دوسرے سے مناسبت رکھتا ھے یا نھیں؟ اور اسی طرح دوسرے موضوعات کے دوسرے نظریات کو مختلف نظریات سے موازنہ کرتے ھیں ۔
اھل نظر وتحقیق کے قطع نظر کم علم رکھنے والے افراد میں بھی نظریہ منتخب کرنے کا سلیقہ بھت زیادہ پایا جاتا ھے، اور جب بھی ان افراد کو کوئی کتاب مل جاتی ھے تو اس کتاب کا مطالعہ کرتے ھیں او ریہ تحقیق کئے بغیر کہ اس کتاب کا لکھنے والا معتبر ھے یا نھیںاس کے نظریات دوسرے نظریات سے مناسبت رکھتے ھیں یا نھیں اس کے تحت تاثیر واقع ھوجاتے ھیں اور نتیجةً فکری التقاط سے دوچار ھوجاتے ھیں، لھٰذا ھر کتاب کی تحقیق اور اس کا مطالعہ کرنے سے پھلے توجہ رکھنی چاھئے کہ اس کتاب کا لکھنے والا معتبر ھے یا نھیں؟ کیا اس کے نظریات دوسرے موضوعات کے نظریات سے مناسبت رکھتے ھیں یا نھیں؟
3۔دینی نظریات میں دوسروں سے متاٴثر ھونا
بڑے افسوس کی بات ھے کہ ھمارے اسلامی معاشرہ میں اس صدی کے آدھے دوسرے حصہ میںدوسروں کے نظریات کے تحت تاثیر ھونے کا بڑا زور وشور پیدا ھوگیا ھے، بعض افراد اپنی زندگی کے ایک مرحلہ میں اپنے ماں باپ ،ماحول اور علماء سے عقائد اسلام کو حاصل کرتے ھیں او رقبول کرلیتے ھیں . اس کے بعد جب وہ زندگی کے دوسرے مراحل میں داخل ھوتے ھیںاور جب اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹی میں داخل ھوتے ھیں تو اس ماحول میں رھکر دوسروں کے عقائد اور نظریات او رمختلف علوم کے مختلف موضوعات سے آشنا ھوجاتے ھیں او ریہ توجہ کئے بغیر کہ یہ افکار ونظریات دوسرے مختلف علوم کو حاصل کرنے والے افراد کے علوم سے سازگار ھے یا نھیں ؟ ان کو بھی قبول کرلیتے ھیں۔
مثال کے طور پر جس نظریہ کو وہ فلسفہ میں قبول کرتے ھیں ،وہ نظریہ علم الحیات ، فیزیک اور علم حساب کے نظیریہ سے یا کسی دوسرے دینی نظریہ سے مناسب اور سازگاری رکھتا ھے یا نھیں؟ اگر ھم غور وخوض کرکے اس نتیجہ پر پھونچتے ھیں کہ یہ بعض موارد میں ایک دوسرے کے سازگار نھیں ھیںاور ایک کامل مجموعہ کو تشکیل نھیں دیتے اس طرح کی شکل تفکر کو تفکر التقاطی (دوسروں کے تحت تاثیر ھونا) کھتے ھیں؟
آج ھمارے دینی معاشرے کے افراد بھت وسیع سطح میں تفکر التقاطی میں مبتلا ھیں، اس لئے کہ ایک طرف تو وہ اسلامی معاشرے سے اپنے وراثتی اور خاندانی عقائد کو حاصل کرتے ھیں او ران کو اپنے ھاتہ سے جانے نھیں دیتے ھیں، اور دوسری طرف سے مختلف علوم انسانی کے مسائل کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ھے وہ ان کو بھی مان لیتے ھیں اور دینی عقائدکے ساتھ ملادیتے ھیں. وہ اس چیز سے غافل رھتے ھیں کہ یہ مختلف نظریات آپس میں ایک دوسرے سے تال میل نھیں کھاتے اور ھم کو یا تو دینی عقائد کو تسلیم کرنا چاھئے یا ان افکار کو جو دین کے مخالف ھیں۔
اس بنا پر اگر ھم جامعہ شناسی، حقوق، سیاست اور ان کے مانند نظریات جو ھمارے دینی عقائد سے ھم آھنگ ھو ان کو تسلیم کرنا چاھیں تو ھم کو جن نظریات کو دوسرے ممالک کی کتابوں کا ترجمہ کرکے اور ان کی تبلیغ کرکے ھم تک پھونچایا گیا ھے اس کو نظر انداز کریں، اور انسانی علوم کے ان جدید نظریات کو جو علمی نقطہ نظر اور اصولی لحاظ سے بھی ھمارے دینی عقائد سے سازگار ھوں ان کو بیان کرنا چاھئے، اور اگر ایسا نھیں کریںگے تو یا تو ھم اپنے دینی عقائد سے دست بردار ھوجائیں یا پھر اپنے دینی عقائد کے مخالف نظریات اور افکار کو چھوڑ دیں، اس لئے کہ دونوں کو ایک ساتھ جمع نھیں کیا جاسکتا، جس طرح یہ تسلیم نھیں کیا جاسکتا کہ اب دن بھی ھے اور رات بھی۔
نتیجہ کے طور پر ھم نے جو اساسی او ربنیادی نکتہ بیان کیا ھے اس پر توجہ کئے بغیر تمام نظریات کی تلاش میں نھیں نکلا جاسکتا اورھر حصہ کو قبول نھیں کیا جاسکتا اور التقاط فکری اور دنیا میں سر نھیں کھپایا جاسکتا ھے اس صورت میں ھمارے اندر شناخت ومعرفت میں ”افراطی پلورالیزم“ کا نظریہ ظاھر ھوجائے گا، اس کا مطلب یہ ھے کہ ھر شخص جو کچھ کھے وہ صحیح ھے اور ھم صرف باطل نھیں کھتے ھیں، اور ھر شخص حقیقت کے کچھ حصہ کو بیان کرتا ھے او رھر مکتب کے اندر کچھ نہ کچھ حق ضرور پایا جاتا ھے، فلسفہ میں اس طرح کا نظریہ (جو آج بھی یورپی فلاسفہ حضرات میں رائج ھے) وہ شک وتردید میں ختم ھوتا ھے یہ نظریہ اس بنیاد پر ھوتا ھے کہ عام طور سے علوم میں مختلف نظریات ھوتے ھیں اور ھر نظریہ میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ھوتی ھے اور ھم کسی چیز پر یقینی اعتقاد نھیں رکہ سکتے، تو ھمارے لئے کسی چیز پر بھی قطعی اور جزمی اعتقاد نہ رکھنا بھتر ھے اور نظریہ کے صواب یا غلط ھونے کے احتمال پر کفایت کرنا چاھئے، اور دین کے باب میں بھی ھم کو پلورالیزم دینی کو قبول کرنا چاھئے، او راسی بنیاد پر خدا کی وحدانیت پر مسلمانوں کا عقیدہ اور جو شخص کوئی دوسرا عقیدہ رکھتا ھے اس کو ابدی عذاب کا مستحق سمجھتے ھوئے ان کو تسلیم کرلیں اور صحیح سمجھیں، اور عیسائیت کہ جو تین خداؤں کا عقیدہ رکھتے ھیں ان کے عقیدہ کو بھی صحیح سمجھیں اور جو دو خداؤں (خدائے خیروخدائے شر) کا عقیدہ رکھتے ھیں اس کو بھی درست سمجھیں، اس لئے کہ ان میں سے کوئی ایک عقیدہ بھی قطعی اور صحیح نھیں ھے ، ممکن ھے ھر ایک درست ھو یا ایک بھی درست نہ ھو اور ھم یہ بنا بھی نھیں رکھتے کہ ان میں سے کسی ایک سے برخورد کریں، چونکہ وہ تمام خوب اور درست ھوسکتے ھیں۔
تمام مختلف اور متضاد عقائد ونظریات شک گرائی وشکّاکیت (کہ جن پر کوئی شخص مکمل طور پر اعتقاد نھیں رکھتا) او رپلورالیزم کے نظریہ کی بناپر ھیں، اجتماعی تساھل (سھل انگاری) اور تسامح جو اس چیز پر مبنی ھے کہ اجتماعی طور پر نہ تو تعصب ھو نہ کسی نظریہ کی طرفداری کی جائے، اور نہ غصہ سے کام لیا جائے اور اسی بنیاد پر آج کل کے دور میں ان کو رائج کیا جائے کہ کسی کو تعصب نھیں کرنا چاھئے اور ھر شخص جو کچھ کھے اس کے بارے میں یہ سوچنا چاھئے کہ شاید یہ صحیح ھو، توحقیقت میں انسان کے اندر دینی عقائد ، فلسفی اور علمی اعتبار سے بے تفاوت کی حالت ایجاد کرتا ھے۔
آج کل یورپ میں اکثر افراد یھی نظریہ رکھتے ھیں او رھمارے لئے یہ نظریہ ایک تحفہ سے کم نھیں ھے اس لئے کہ ھمارے معاشرہ کو بھی محنت ومشقت وتحقیق کے ذریعہ اپنے اندر یہ حالت پیدا کرلینی چاھئے کہ ان کو دینی، علمی او رفلسفی عقائد سے متعصب نھیں ھونا چاھئے او رھر نظریہ کے بارے میں کھنا چاھئے کہ ممکن ھے یہ نظریہ درست ھو او رممکن ھے دوسرا نظریہ درست ھو، کبھی کبھی یہ بھی کھا جاتا ھے کہ ھم کو اپنے علم کو مطلق نھیں سمجہ لینا چاھئے او رنہ ھی یہ کھنا چاھئے کہ یہ سو فی صد درست ھے اس کے علاوہ اور کچھ صحیح نھیں ھے، ھم کو ایسا یقین نھیں رکھنا چاھئے ، ھمیں تو صرف اپنے اعتقاد پر برقرار رھنا چاھئے او راس کا احترام کرنا چاھئے اور دوسرے بھی اپنا عقیدہ رکھیں، (ھم سے کوئی مطلب نھیں) یہ وھی ثقافت ھے جس کو یورپ کی دنیا نے اپنے لئے منتخب کررکھا ھے اور وہ یہ چاھتے ھیں کہ تمام عالَم میں اسی ثقافت کے زیر سایہ زندگی ھونی چاھئے۔
یعنی ان کا عقیدہ یقینی اور جزمی اعتقاد کا انکار کرنا اور اس چیز کا انکار کرنا کہ دین حق، مذھب حق اور نظریہٴ حق ایک ھے اور افراد کے اذھان عالیہ میں اس بات کا ڈالنا کہ ممکن ھے نظریہٴ حق متعدد ھوں او رانسان کو ایک چیز پر ھی یقینی اور جزمی اعتقاد نھیں کرلینا چاھئے. اور مقام بحث میں تعصب سے کام نھیں لینا چاھئے، دینی غیرت اور مذھب کے اندر تعصب کو ختم کردینا چاھئے، افراد کو ایک دین ایک مذھب اور ایک فکر کی طرف رجحان کو ختم کرنا چاھئے تاکہ سب مل کر ایک اجتماعی زندگی بسر کرسکیں اور مذھبی مسائل میں کوئی اختلاف نہ ھوں، کیونکہ یھی دینی اختلاف قتل وغارت اور جنگ جدال کے باعث ھوئے ھیں اب تو تمام مذاھب، ادیان اور افکار کو صحیح اور حق کھنا چاھئے تاکہ آپس میں صلح وآشتی کا راستہ ھموار ھوجائے۔
4۔پلورالیزم دینی کا مطلب
اگرچہ ھم خصوص طور پر پلورالیزم کے مسئلہ کو بیان کرنا نھیں چاھتے لیکن مختصر طور پریہ عرض کرتے ھیں کہ مقام عمل میں ایک موقع پر ھم یہ کھتے ھیں کہ مختلف مذاھب کے طرفداروں کے ساتھ او رفلسفہ میں مختلف نظریے رکھنے والوں اور مختلف علوم کے ماننے والوں کے ساتھ مودبانہ طریقے سے ملنا چاھئے او ران کو اس بات کی اجازت دینا چاھئے کہ وہ اپنے نظریات کو بیان کریں اور ان کا دفاع کرسکیں، او رمختلف طریقوں سے بحث وگفتگو اور بحث کریں، آج دنیا میں ھم یہ مشاھدہ کرتے ھیں کہ ایک عیسائی یھودی اور زرتشتی کے ساتھ دوستانہ زندگی بسر کرتا ھے اور ان کے درمیان کشمکش، اختلاف ،برادرکشی اور قتل وغارت باکل بھی نھیں پائی جاتی ۔
اس چیز کو تقریباً اسلام کے علاوہ کسی بھی مذھبی دینی اور سیاسی نظام میں مد نظر نھیں رکھا گیا ھے اور اس حد تک صاحبان ادیان کی خاطر ومدارات نھیں ھوئی ھے، حالانکہ اسلام میں اعتقادات کا مزکز عظیم ”توحید“ (خداکی وحدانیت کا اقرار ) ھے او رتوحید کو رائج او رثابت کرنے کے لئے ”تثلیث“(تین خداؤں کا ماننا) اور شرک سے مقابلہ کرنا ضروری مانا گیا ھے، پھر بھی ھم یہ دیکھتے ھیں کہ اسلام میں عیسائیت او ریھودیت دونوں مذھب کو رسمی مذھب کے عنوان سے پھچنوایا گیا ھے اور ان دونوں مذھبوں کے پیروکار اسلام کی پنا ہ میں ھیں ان کی جان ومال اور ناموس محفوظ ھیں او رکسی شخص کو ان کے حقوق کو پامال کرنے کا ذرا سا بھی حق نھیں ھے۔
تمام الھٰی مذاھب کے پیروکاروں کے ساتھ اس طرح پیش آنا ، اولیاء دین اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے سیرت میں سے ھے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نھج البلاغہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ھیں کہ میں نے سنا ھے کہ عراق کے کسی شھر میں ایک کافر ذمی کی لڑکی کے پیر سے پازیب نکال لی گئی ھے مسلمانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ھے ، کیونکہ اسلامی ملک اور اسلامی ملک کی پناہ میں ایک غیر مسلمان لڑکی پر یہ ستم ھوا، دوسرے مذھبوں کے طرفداروں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ اسلام کی بلندی اور افتخار کو بیان کرتا ھے جس کے لئے قرآن مجید کی واضح وروشن آیت موجود ھے:
(قُلْ یَا اٴَھلَ الْکِتَابِ تَعَالَوا إلٰی کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ إلاَّ اللّٰہ. )(1)
”(اے رسول) تم (ان سے) کھو کہ اے اھل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو تمھارے اور ھمارے درمیان یکساں ھے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں…“
اور دوسری آیت ھم کو اَحسن (سب سے اچھا) سلوک کی طرف دعوت دیتی ھے ، ارشاد ھوتا ھے:
(وَلَا تُجَادِلُوا اٴَھلَ الْکِتَابِ إلاَّ بِالَّتِیْ ھیَ اٴَحْسَنُ.)(2)
”او ر(اے ایماندارو ) اھل تاب سے مناظرہ نہ کیا کرو مگر عمدہ او رشائستہ الفاظ وعنوان سے …“
اگر پلورالیزم کا یہ مطلب ھے تو ھم کو یہ کھنا پڑے گا کہ یہ اسلامی افتخارات میں سے ھے ، اگر پلورالیزم کا یھی مطلب ھےتو ھم کو دل سے یہ کھنا چاھئے کہ عیسائیت بھی اسلام کے مانند ھے یھودیت بھی اسلام کے مانند ھے او ریھودی ھونےاور مسلمان ھونے کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے اس لئے کہ ھر ایک میں کچھ نہ کچھ حقیقت پائی ھی جاتی ھے، نہ ا سلام مطلقاً طور پر حق ھے اور نہ ھی یھودیت مطلق طور پر حق ھے ، یا یہ کھیں کہ دونوں حق ھے اس راستہ کے مانند حق ھیں کہ جو ایک ھی مقصد پر پھونچاتے ھیں چاھے کسی راستہ سے چلے جاؤ مقصد تک پھونچ جاؤ گے، بے شک اس طرح کے نظریہ کو کوئی بھی مذھب قبول نھیں کرتااور نہ ھی عقل اس بات کو تسلیم کرتی ھے۔
مگر کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ توحید کا عقیدہ رکھنا اور تثلیث کا عقیدہ رکھنا دونوں برابر ھیں؟ یعنی خدا کی وحدانیت کے اعتقاد اور تین خداؤں کا اعتقاد رکھنے کے درمیان کوئی فرق نھیں پایا جاتا؟ کیا اس دین کی اساس اور بنیاد پر جو یہ کھتا ھوا نظر آرھا ھے:
(وَلَا تَقُولُوا ثَلاٰثَةٌ إنْتَھوا خَیْراً لَکُمْ.)(3)
”اور تین (خداؤں) کے قائل نہ بنو (تثلیث سے) باز رھو (اور) اپنی بھلائی (توحید) کا قصد کرو“
یا قرآن ان افراد کے بارے میں جنھوں نے خدا کی طرف ناروا چیزوں کی نسبت دی او ریہ کھا کہ خدا اولاد رکھتا ھے، ارشاد ھوتا ھے:
( تَکَادُ السَّمٰواتُ یَتَفَطّرْنَ مِنْہ وَتَنْشَقُّ الاٴرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالَ ھداً.)(4)
”قریب ھے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شگافتہ ھوجائے او رپھاڑ ٹکڑے ٹکڑے ھوکر گرپڑیں“
جب اسلام اس طرح کے شرک آمیز اعتقادات کا اس طرح قطعی رویہ اختیار کرتا ھے تو ھم کو یہ کھنے کا کیا حق ھے کہ اگر تم چاھوتو مسلمان بن جاؤ اور نھیں چاھتے تو بت پرست بن جاؤ، کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق نھیں ھے ، اور تم کو ایک ھدف او رمقصد تک پھونچانے والے ھیں، او ردونوں راستے صراط مستقیم شمار کئے جاتے ھیں!! اور میں تو اس چیز کو بھت بعید سمجھتا ھوں کہ کوئی صاحب عقل انسان بغیر کسی غرض اور باطل ھدف کے اس طرح کی باتیں کرے او راس طرح کے عقیدہ کو قبول کرے۔
بھر حال التقاط فکری اس زمانے کی ایک بڑی مشکل ھے اس لئے اس کی طرف توجہ دینا ضروری ھے او رتاکہ ھمارے افکار صحیح وسالم رھیں او راصل نظریہ کو حاصل کرکے اس پر برقرار رھنا چاھئے۔
5۔بندگی خدا کی عظمت اور اس کا مطلق آزادی سے ٹکراؤ
تمام نظریات کا ھماری بحث سے رابطہ یہ ھے کہ جن افراد نے یورپی ثقافت سے الھام کے ذریعہ اصل آزادی کو مطلق طور پر انسان کی سب سے بڑی قیمت اور اھمیت کے عنوان سے قبول کیا ھے اور آزادی کو انسان کے لئے سب سے بڑی ارزش سمجھتے ھیں. برخلاف اس کے کہ خود کو اسلام اور دستورات اسلامی کا پابند سمجھتے ھیں اور خود کے دیندار ھونے کا دعویٰ کرتے ھیں، اس یورپی ارزش کی اس طرح حمایت کرتے ھیں کہ جیسے دیگ سے زیادہ چمچہ گرم ھوگیا ھو، اور بے شک یہ ایک قسم کا التقاط ھے اگر یہ مبنیٰ ھو کہ ھم اس گروہ کے ساتھ منطقی بحث کرنا چاھیں تو ھم کو یہ کھنا چاھئے کہ اسلام کی اساس وبنیاد خداوندعالم کی پرستش اور عبادت ھے ، خدا وند عالم فرماتا ھے:
(وَلَقَدْ بَعَثْنَا کُلِّ اُمَّةٍ رُسُولاً اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہ وَاجْتَنِبُوا الطّٰاغُوتَ…)(5)
”اور ھم نے تو ھر امت میں ایک (نہ ایک ) رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرو اور بتوں (کی عبادت) سے بچے رھو“
صرف اسلام ھی نھیں بلکہ ھر آسمانی دین کی بنیاد خداوندعالم کی خالصانہ عبادت وبندگی ھے۔
مگر ایک صاحب دین اور ایک مسلمان یا یھودی اورنصرانی اس کے علاوہ دین الھٰی سے اور کیا تصور کرسکتا ھے، ھمارا اعتقاد یہ ھے کہ اسلام تمام ادیان توحیدی کے ساتھ ان احکام کے علاوہ جو زمان اور مکان کے مناسب صادر ھوتے ھیں تمام کلیات اور اصول اعتقادی میں یکساں وبرابر ھے۔
اوراگر اس بارے میں کوئی اختلاف نظر آئے تو یہ اس تحریف کا اثر ھے جو بعض ادیان الھٰی میں کی گئی ھے، نتیجتاً اسلام میں سب سے بڑی اھمیت یہ ھے کہ انسان خالص خدا کا بندہ ھو او رخداوندعالم اس حقیقت کو قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں بیان فرماتا ھے:
(وَمَا اُمِرُوْا اِلاَّ لِیَعْبُدُوْا اللّٰہ مُخْلِصِیْنَ لَہ الدِّیْنَ…)(6)
”انھیں امر نھیں دیا گیا مگر یہ کہ خداوندعالم کی کامل اخلاص کے ساتھ دین میں پرستش وعبادت کریں“
اور سورہ زمر میں ارشاد ھوتا ھے:
(اَلاَ لِلّٰہ الدِّیْنُ الْخَالِصْ.)(7)
”آگاہ رھو کہ عبادت تو خاص خدا ھی کے لئے ھے۔
اور سورہ لقمان میں فرماتا ھے:
(وَمَنْ یُسْلِمْ وَجْھہ اِلٰی اللّٰہ وَھوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی.)(8)
”اور جو شخص خدا کے آگے اپنا سر(تسلیم) خم کرے او روہ نیکو کار (بھی) ھو تو بے شک اس نے (ایمان کی) مضبوط رسّی پکڑی“
اب جب انسان اپنے کو خدا کا بندہ سمجھتا ھے خدا کی بندگی کو سب سے زیادہ باارزش جانتا ھے اور اس نے اپنے کو مکمل طور سے خداوندعالم کے اختیار میں قرار دیدیا ھے تو وہ مطلق آزاد کا معتقد ھوسکتا ھے اور جس چیز کو اس کا دل چاھے اس کو اھمیت دے سکتا ھے؟ کیا یہ دونوں ایک دوسرے سے موافق اور سازگاری رکھتے ھیں؟ اگر میں درحقیقت اسلام ِ حق کا عقیدہ مند ھوں اور یہ اقرار کرتا ھوں کہ خدا کا ایک دین ھے اور اس کو قبو ل کرنا چاھئےے اور میں یہ عقیدہ رکھتا ھوں کہ ایک خدا اور اسکی عبادت کروں اور تمام چیزوں کو اسی کے اختیار میں چھوڑدینا چاھئے اور اسی کے ارادہ کے تابع ھیں تو میں کس طرح مطلق طور پر آزاد رھنے کا معتقد رہ سکتا ھوں اور جس طرح چاھوں عمل کروں؟ فکر کرنے کے یہ دو طریقے کس طرح ایک دوسرے سے ھم آھنگ ھوسکتے ھیں، جو لوگ اس طرح کا ادّعا کرتے ھیں یا بے خبری کی بنیاد پر التقاط سے دوچار ھوگئے ھوں، یا دل میں اسلام کا عقیدہ نھیں رکھتے ھیں یا دوسروں کو فریب دینے کی وجہ سے یہ ادعا کرتے ھیں یا اصلاً وہ اس بات کی طرف کوئی توجہ ھی نھیں دیتے ھیں کہ یہ دو نظریہ آپس میں ایک دوسرے سے ناسازگار ھیں؟ اس صورت کے علاوہ میں یہ کیسے ھوسکتا ھے کہ انسان ایک طرف تو یہ کھے کہ میں کاملاً اور میرا تمام وجود خدا کے ارادہ کا تابع ھے او رصرف اپنے لئے مطلق آزادی کا قائل ھو اور یہ کھے کہ جو میرا دل چاھے گا وھی انجام دوں گا۔
یہ طرز تفکریعنی انسان کے مطلق طور پر آزاد ھونے کا اعتقاد یورپ والوں کی فکر کی پیداوار ھے وھاں پر مسیحیت کے معتقد گروہ اپنے دین کا عقیدہ رکھتے ھوئے (شاید اپنے فطری لگاؤ کی بنیاد یا اپنے ماحول اور دینی تربیت کی وجہ سے اپنے دین سے دست بردار نھیں ھوتے) خاص دلیلوں اور استدلالوں کی وجہ سے یا چند اھم اعتراضوں کی وجہ سے انسان کے مطلق آزاد ھونے کا عقیدہ رکھتے ھیں، بے شک کوئی انسان بغیر کسی دلیل کے اس طرح کی بات نھیں کرسکتا، بلکہ ایک نقطہ سے اپنی بات شروع کرتا ھے اور اس طرح گفتگو کرتا ھے کہ جو دوسروں کے لئے جذّاب او رقابل قبول ھوتی ھے۔
مثال کے طورپر وہ کھتے ھیں کہ کیا ایک پرندہ کو پنجرہ میں بند کردینا اور اس پنجرہ کو لوھے کے پنجرہ میں رکہ دینا بھتر ھے یا پرندہ کے اڑنے کے لئے پنجرہ کا دروازہ کھول د ینا بھتر ھے؟کہ وہ جدھر چاھے چلاجائے، ظاھر ھے کہ پرندہ کو آزاد کردینا بھت اچھا ھے اور وہ بھی یھی چاھتاھے، اور اس کے بعد وہ کھتے ھیں کہ جس آزادی کے بارے میں ھم بحث کرتے ھیں اس سے مراد یھی آزادی ھے۔
ھمارے معاشرہ میں مکمل طور پر اسلامی قوانین ھوتے ھیںاس کے بعد ”ولایت فقیھ“ سے مربوط قوانین بھی اس میں رکھے جاتے ھیں، اور ان کے اندر پارلیمینٹ کے بنائے ھوئے قوانین بھی رکھے جاتے ھیںاور اسی طرح ”مجمع تشخیص نظام “ اپنی جگہ پر مسلم ھے اورآخر میں ”شورای نگھبان“ وضع شدہ قوانین پر اظھار نظر کرتی ھے، اس طرح قوانین بنانا یقینا پنجرہ کو دوسرے پنجرہ کے اندر رکھنے کے مانند ھے! بھترین قانون وہ ھے جو انسانوں کو جس طرح وہ چاھیں اس طرح عمل کرنے کی اجازت دیدے اور جس طرح چاھیں گفتگو کرنے کی اجازت دیدے، یعنی کلی طور پر وہ آزادانہ زندگی بسر کریں؟ ! اور ظاھر سی بات ھے کہ پھلا قانون پنجرہ ھے او ردوسرا قانون آزادی ھے۔
اگر ھم دوسری ثقافتوں کے عقائد وافکار او رآراء کی مشکل سے دوچار ھوجائیںتو ایسے موقع پر اس چیز کی تاکید کرتے ھیں کہ ابتدا میںھم کو ان کا ریشہ ڈھونڈنے کی کوشش کرنا چاھئے اس کے بعد یہ دیکھنا چاھئے کہ وہ نظریات اسلامی نظریات سے سازگاری رکھتے ھیں یا نھیں؟
اگراسلامی نظریات کے موافق ھیں تو قبول کریں اور اگر اسلامی نظریات کے مخالف ھیں تو ان کو چھوڑ کر اپنے دین کے اصول کی تلاش میں نکلنا چاھئے اور انھیں اصول کو اپنے عقائد اور نظریات کی بنیاد قرار دیں۔
6۔یورپ اور علم ودین کے ٹکراؤ کا دور ھونا
علم ودین سے ٹکراؤ کو حل کرنے کے لئے یورپی متدین حضرات نے دین کے دائرہ فرمانروائی میں شک کرتے ھوئے کچھ راہ حل پیش کئے اور اس شبہ کو بیان کیا کہ بنیادی طور پر علم وفلسفہ کی کو دین سے جدا بتایا ھے ، جب ھم یہ کھتے ھیں کہ فلسفی قدروقیمت، اخلاقی قدروقیمت اور یا انسانی قدر وقیمت دین کے ساتھ سازگار ھے یا نھیں یہ اس فرض کی بنا پر کھتے ھیں کہ دونوں ایک نقطہ پر مل جائیں چونکہ جب دو خط ایک دوسرے کی طرف مائل ھے تو ایک نقطہ پر وہ دونوں خط ایک دوسرے سے جدا ھوتے ھیں لیکن اگر دو خط ایک دوسرے کے برابر ھوں مقابل میں ھوں تو کبھی بھی وہ آپس میں ایک دوسرے سے نھیں مل سکتے، اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ نھیں ھوگا چونکہ ان میں سے ھر ایک خط اپنے ھدف پر ختم ھوتا ھے جو اس کا دوسرے خط کے علاوہ مستقل ھدف ھے۔
وہ علم ودین کے ایک دوسرے سے رابطہ کی اس طرح وضاحت کرتے ھیں کہ دین اور علم، دین اور فلسفھ، دین اور عقل دین اور اخلاقی قدر وقیمت کے مابین صلح برقرار رکھنی چاھئے دوجھت اور دو مستقل حوزوں کو ان کے لئے ترسیم کرنا چاھئے یعنی حوزہٴ دین علوم کے دوسرے حوزوں سے جدا ھے او رحوزہ دین کا ارتباط خدا سے ھوتا ھے اور جو کچھ اس ارتباط سے پیدا ھوتا ھے جیسے نیائش، نماز ، دعا او رکچھ شخصی مسائل ان کا دوسروں سے کوئی ربط نھیں ھوتا ، اس سلسلہ میں نہ علم کو کوئی دخالت ھے نہ فلسفہ کو او رنہ کسی دوسرے عامل کو کوئی دخالت ھے یہ تو صرف اور صرف دل سے مربوط ھوتا ھے او راگر کوئی چیز اس حوزہ میں دین کے ساتھ شریک ھوگی تو وہ عرفان ھے چونکہ دین اور عرفان دونوں ایک مقولہ سے ھیں اور دونوں کا ایک ھی کاسہ سے پانی پیتے ھیں، نتیجتاً علم، فلسفہ اور عقل کا دین سے کوئی ربط نھیں ھوتا بلکہ ان تینوں کا فرمانروائی میدان ایک دوسرے سے الگ الگ ھے اور ھر ایک کے اپنے خاص وسائل ھوتے ھیں۔
لیکن حوزہٴ اخلاق میں وہ قدروقیمت اور وہ چیزیں جن کوانجام پانا چاھئے یا وہ چیزیں جن کو انجام نھیں پانا چاھئے ،یہ چیزیں خدا سے مربوط ھیں جیسا کہ کیا نماز پڑھی جانی چاھئے یا نھیں؟ یہ دین سے مربوط ھے اور اس سلسلہ میں علم سے کوئی معارضہ نھیں ھے، لیکن اگرکچھ چیزوں کو انجام پانا چاھئے او رکچھ چیزوں کو انجام نھیں پانا چاھئے یہ انسانی کی اجتماعی زندگی سے مربوط ھوتی ھیں جیسا کے چور کے بارے میں بیان کیا جاتا ھے کہ اس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا چاھئے؟ کیا اس کو مجازات دینا چاھئے یا نھیں؟ کیا خیانت کرنے والے اور گناہ کار شخص کو اس کی سزا دینی چاھئے یا نھیں؟ اس سلسلہ میں خاص طور سے یہ کھا جاتا ھے کھ: جو شخص کسی جرم اور خیانت کا مرتکب ھوتا ھے وہ بیمار ھے اس کا علاج ھونا ضروری ھے اور نرمی اور محبت کے ساتھ اور مناسب مقام پر اس کا علاج کرنا چاھئے اور اس کی نگرانی کرنا چاھئے تاکہ وہ اس خیانت سے دست بردار ھوجائے۔
ھم دنیا کے کسی ملک میں کسی ایسی جگہ کے بارے میں کوئی اطلاع نھیں رکھتے کہ جھاں خیانت کرنے والے او رگناہ کار کے ساتھ بیمار جیسا برتاؤ کیا جاتا ھو اور اس کو سزا نہ دی جاتی ھو لیکن پریکٹیکل کے میدان میں وہ یہ کھتے ھی کھ: خیانت کرنے والوں کو سزا نھیں دینی چاھئے اور اصل میں انسان کو سزا دینا یہ اس کی شایان شان نھیں ھے،اور نہ ھی انسانی کرامت سے سازگار ھے اور کلی طور پر یہ بیان کرتے ھیں کہ اگرچہ انسان سب سے برے ظلم کا مرتکب ھی کیوں نہ ھوجائے اس کو مطلق طور پر سزا نھیں دی جاناچاھئے اس لئے کہ انسان سے اس طرح کا برتاؤ کرنا اسکی شان اور مرتبہ کے خلاف ھے ، اس نظریہ کے مقابل ھم مسلمانوں کا عقیدہ یہ ھے کہ دین زندگی کے تمام امور میں حق دخالت رکھتا اور اس نے قانون بیان کردیا ھے کہ
(وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیْھمَا …“(9.)
”چور مرد اور چور عورت کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں“
اجتماعی مسائل کو دین سے جدا کرنے والے کھتے ھیں کہ دین کو ان چیزوں کے بارے میں دخالت کرنے کا کوئی حق نھیں ، دین تو صرف اور صرف یہ کھتا ھے کہ نماز پڑھو یا یہ کھہ سکتا ھے کہ خداوندعالم سے کس طرح دعا کی جائے لیکن یہ کہ ایک گناہ کار سے کس طرح پیش آیا جائے اس کا دین سے کوئی ربط نھیں ھے اور یہ امر بھی تسلیم شدہ ھے کہ اس بارے میں علم تجربی کا بھی کوئی دخل نھیں ھے اس لئے کہ تجربیات ان صفتوں کا ایسا سلسلہ ھے کہ جو آشکار طور پر عینی چیزوں کے رابطہ کو بیان کرتا ھے، دوسرے الفاظ میں علم موجودہ چیزوں کے بارے میں بیان کرتا ھے لیکن علم” کن چیزوں کو انجام دیا جائے یا کن چیزوں کو انجام نہ دیا جائے“ بیان کرتا ھے ،احکام ِ ارزشی کو بیان کرنا علم کا کام نھیں ھے، لھٰذا اخلاقی اوراجتماعی مسائل چاھے وہ حقوقی قوانین ھوں یا مدنی اور کیفری قوانین یہ تمام صرف اخلاقی مسائل ھیں اور ان میں صرف یہ بیان ھوتا ھے کہ کیا ھونا چاھئے اور کیا نھیں ھونا چاھئے، ان میں نہ دین دخالت رکھتا ھے اور نہ علم (علم سائنس اور علم تجربی)دخالت رکھتا ھے۔
7۔اسلام اور آزادی خواہ مکتب میں عوام الناس کی اھمیت
جب اخلاقی قدر وقیمت ،کن چیزوں کو انجام دینا چاھئے اور کن چیزوںکو انجام نھیں دینا چاھئے ان مسائل میں دین کا کوئی دخل نھیں ھے، اور نہ ھی علم کی کوئی دخالت ھے، تو یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ ان مسائل میں کس کو حق دخالت ھے؟ آج کل کے دور میں یورپ کی ثقافت میں اس سوال کا یہ جواب دیا جاتا ھے ھے کہ قدروقیمت ،کن چیزوں کوانجام دینا چاھئے او رکن چیزوں کو انجام نھیں دینا چاھئے ،یہ اعتباری امور ھیں یہ خاص اھمیت کے حامل نھیں ھوتے ھیں بلکہ ان کے بارے میں تو یہ دیکھنا چاھئے کہ عوام الناس کیا چاھتی ھے؟ ان کے نقطہ نظر سے کون چیزیں انجام دینا چاھئے او رکن امور کو انجام نھیں دینا چاھئے ، ان کی قدر وقیمت یہ سب اعتباری چیزیں ھیں یعنی ان کی بنا حقائق عینی، خارجی اور نفس الامری پر نھیں ھے، یہ تو صرف عوام الناس کے سلیقہ پر موقوف ھےں، اب ھم کو کیا کرنا چاھئے اور کیا نھیں کرنا چاھئے تو نہ دین کی تلاش کرنا چاھئے ، نہ علم کے پیچھے دوڑنا چاھئے اور نہ ھی فلسفہ کی تلاش کرنا چاھئے بلکہ عوام الناس سے سروکار رکھنا چاھئے اور یہ دیکھنا چاھئے کہ وہ کیا چاھتے ھیں۔
قانون گذاری کے بارے میں یورپی جمھوریت کی بنیاد اس چیزپر استوار ھے کہ عوام الناس کی خواھش (طلب) کے علاوہ کسی اور واقعیت کا کوئی وجود نھیں ھے کہ انجام دینے والی چیزیں اور نہ انجام دی جانے والی چیزیں اس کی بنیاد پر کشف کیا جائے۔
مادی امور میں انجام دینے والے امور اور انجام نہ دئے جانے والے امور یہ سب امور تجربی کے دائرہ میں شامل ھیں اور علوم تجربیات سے مربوط ھیں جن کو تجربہ گاہ میں ثابت کیا جاتا ھے، لیکن خدا سے ارتباط کے وقت جن امور کو انجام دینا چاھئے اور جن کو انجام نھیں دنیا چاھئے یہ سب دینی دائرہ سے مربوط ھوجاتے ھیں اور جو کچھ دین کھے گا اس کو بجالانا چاھئے اور ان کا علم سے کوئی مطلب نھیں ھے، لیکن جن امور کو انجام دینا چاھئے او رجن امور کو انجام نھیں دینا چاھئے یہ خود انسانوں کی اجتماعی زندگی سے مرتبط ھوتے ھیں نہ ان میں خداوندعالم کو دخالت کرنے کا حق ھے اور نہ ھی علم ان کو معین ومشخص کرسکتا ھے۔
اگر آپ یہ مشاھدہ کرتے ھیں کہ یورپ میں عوام الناس کی رائے اور عمومی آراء پر اعتماد کیا جاتا ھے تو یہ وھاں کی موجودہ خاص ثقافت کی اساس وبنیاد کی وجہ سے ھے، اب اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھتا ھے کہ دین، انسان کی زندگی کے تمام امورکوشامل ھوتا ھے،اور ھمارے وہ تمام امور جو ھماری زندگی سے مربوط ھیں کہ ھم کو کون سے کام انجام دینے چاھئے اور کون سے کام انجام نہ دینے چاھئے انھیں خدا وندعالم سے حاصل کرنا چاھئے، اور اس بارے میں ھم کو عوام الناس کی رائے کا تابع نھیں ھونا چاھئے، اگر خدوند عالم کسی چیز کو معین فرمادے اور اس کے انجام دینے کا حکم صادر فرمادے لیکن عوام الناس کی طلب دوسری ھو تو اس میں کون معتبر ھوگا؟
تمام معاشروں میں عوام الناس کی طلب اور دین میں بیان ھونے والے احکام کے مابین کم وبیش تضاد پایا جاتا ھے، تحریف ھونے والے تمام ادیان سے ھمارا کوئی مطلب نھیں ھے بلکہ ھماری بحث تو ان ملکوں سے ھے جن میں اکثر افراد مسلمان ھیں، اور وہ کسی دین کے پیروکار ھیں کہ وہ اپنی زندگی کے تمام امور میں خواہ وہ فردی ھوں یا اجتماعی گھریلوں مسائل ھوں یا بیوی کے انتخاب کا مسئلہ یا اولاد کی تربیت کی بات ھو، یا اجتماعی اور بین الاقوامی مسائل ھوں،تو کیا اس صورت میں وہ افراد یہ کھنے کا حق رکھتے ھیں کہ ھم نے اس دین کو تسلیم کرلیا ھے درحالیکہ ان کا ادعا ھے کہ قانون کے معتبر ھونے کا معیار وملاک عوام الناس کی رائے ھے؟ کیا وہ کم سے کم ان دونوں کو اس صورت میں بھی تسلیم کرسکتے ھیں جھاں پر دونوں میں تعارض ھو؟
لیکن افسوس آج ھمارے نشریات میں جو کچھ غرب (یورپ) میں ھورھا ھے وہ رواج پارھا ھے جب ایک دین میں ھم جنس بازی کو سب سے بری چیز بتلارھا ھے تو خدانحواستہ اگر عوام الناس ھم جنس بازی کے جائز ھونے کے حق میں ووٹ دیں تو کیا عوام الناس کی مرضی اور مانگ کو دین پر مقدم کرتے ھوئے تسلیم کیا جاسکتا ھے؟! اور کیا حقیقت میں یہ دونوں ایک ساتھ جمع ھوجائیں گے؟ یورپ کی دنیا نے دین اورعوام الناس کی خواھش کے مطابق متضاد مسائل کو حل کردیا ھے ان کا عقیدہ یہ ھے کہ اس طرح کے مسائل دین کو دخالت کرنے اور عوام الناس کی خواھش کونظرانداز کرنے کا کوئی حق نھیں ھے دین کا تعلق کلیسا سے ھوتا ھے جھاں پر افراد اپنے گناھوں کا اعتراف کرتے ھیں اور کچھ دعا وغیرہ کرنے سے افراد کے گناہ معاف ھوجاتے ھیں جس کے بعد کلیسا ان کو بھشت کے لئے روانہ کردیتا ھے، لیکن اجتماعی مسائل سے دین کا کوئی تعلق نھیں ھے، اجتماعی مسائل کو تو صرف عوام الناس کی رائے ھی مشخص ومعین کرسکتی ھے، کناڈا میں نئے مذھبی فرقے کی بنیاد ڈالنے والے کشیش (عیسائیوں روحانی پیشوا) سے ایک ٹی وی پروگرام میں سوال کیا گیا کہ ھم جنس بازی کے بارے میں آپ کے مذھب کا کیا نظریہ ھے؟ اس نے جواب دیا: میں فوراً تو اپنا قطعی نظریہ نھیں دے سکتا لیکن اتنا کھہ سکتا ھوں کہ انجیل کا سرے سے مطالعہ کرنا چاھئے!!
8۔اسلام اور یورپ میں جمھوریت اور قانون گذاری کا مرجع
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یورپین لوگوں نے دین اور اجتماعی مسائل کو جدا کرکے اپنا من پسند راہ حل تلاش کرکے دین اورعوام الناس کے مابین تعارض کا حل ڈھونڈنکالا، کیا ھم بھی اسلام کے ماننے والے اس طرح کے راہ حل کی تلاش میں ھیں؟ یہ وھی اندیشہ (فکر)ھے جو ”سیکولاریزم“ کے نام سے مشھور ھے یعنی دین کو مسائل اور زندگی کے امور سے جدا کرنا چاھے وہ اجتماعی ،حقوقی سیاسی، اور گھریلو ھی مسائل کیوں نہ ھوں، کچھ افراد اس بارے میں ”ایرانی ثقافت کی خدمت“ کی وجہ سے دسیوں تقریروں اور متعدد مضامین میں یہ بیان کیا کرتے ھیں کہ دینی کا دائرہ ، سیاست ، اجتماعی ،حقوقی اور اقتصادی مسائل سے جدا ھے اور اس بارے میں رات دن محنت کیا کرتے ھیں، تو کیا ھم بھی ایسا ھی عقیدہ رکہ سکتے ھیں؟ اگر ھمارا ایسا عقیدہ نھیں ھے تو ھم کو توجہ رکھنا ھوگی کہ ھم ان کے دھوکہ میں نہ آئیں اور یہ جان لیں کہ جو کچھ وہ بیان کرتے ھیں وہ ھمارے عقیدہ کے ھم آھنگ نھیں ھے اور اس بات کی طرف بھی توجہ رکھنا ھوگی کہ خواستِ خدا اور عوام الناس کی طلب کے مابین معارضہ ایجاد ھوجائے تو جو کچھ دین خدا نے معین کیا ھے ا سکو اپنائیں اور حقیقت میں خدا کی مرضی کو مقدم کریں۔
البتہ حقیرتکالیف کو مشخص ومعین کرنے کا قصد نھیں رکھتے کہ افراد ھمارے بیان سے آزادی کے خلاف کوئی مطلب نکالیں لیکن ان کو منتخب کرنے غوروفکر او ردقت سے کام لے کر آگاہ اور آزاد طور پر کسی چیز کو منتخب کرنا چاھئے ان کو متوجہ رھنا چاھئے کہ آج کل جو ”قانون گذاری میں جمھوریت“ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ھے یعنی عوام الناس کی طلب کو خدا کی مرضی اور طلب پر مقدم رکھنا یعنی دین اور خواست خدا کا ایک طرف رکہ دینا، اگر عوام الناس کسی چیز کو منتخب کرنا چاھتے ھیں تو ان کو متوجہ رھنا چاھئے کہ وہ ان کے چنگل میں نہ پھنس جائیں کہ اسلام کو تو مجموعہ مقررات وقوانین برحاکم جامعہ کے عنوان سے قبول کرلیں اور قانون گذاری میں جمھوریت کو قبول کرلیں، درحقیقت یہ دونوں ایک دوسرے سے سازگار نھیں ھیں۔
جو افراد عوام الناس کو دھوکہ دینے، معاشرہ میں التقاط رائج کرنے اور بحث کو مخلوط کرنے میں لگے ھوئے ھیں وہ میری تقریروں اور مثالوں سے بھت زیادہ پریشان حال ھوجاتے ھیں چونکہ ان کی نیت اور ان کے سازش کا راز فاش ھوتا ھے اس لئے وہ پریشان ھوتے ھیں البتہ کچھ افراد کو سیاسی اغراض ومقاصد کی وجہ سے میری باتیں اچھی نھیں لگتیں، لیکن یہ باتیں چاھے کسی کو اچھی لگیں یا بری، ھم اپنی زندگی کے آخری لمحے تک دین اسلام کے احکام کوبیان کرنے میں کوئی دریغ نھیں کریں گے، او ردین اسلام کی حمایت میں اپنی تمام کوششیں صرف کردیں گے، اور تمام ناگوار واقعات کو اپنے لئے برداشت کرنے کے لئے آمادہ ھیں نہ کسی دھمکی سے ڈرتے ھیں، اور اور نہ کسی کے دھوکہ میں آتے ھیں۔
ھم یھاں پر احکام کو قطع وجزم دینے کا ارا دہ نھیں رکھتے لیکن یہ یاد دھانی کرادینا چاھتے ھیں کہ عوام الناس ھوشیار رھیں اور واقعیات کو حاصل کرنے کی خاطر اپنی عقل سلیم کو کام میں لائیں یورپ والوں کی باتوں اور ان کے مفاھیم سے دھوکہ میں آنے سے ھوشیار رھیں، کھیں ایسا نہ ھو کہ اپنے دین سے ھاتہ دھوبیٹھیں، ضروری ھے کہ نظریات وآراء کے جومبانی بیان کئے جاتے ھیں ان کی معرفت حاصل کریں۔
مثال کے طور پر جب یہ کھا جاتا ھے کہ قانون کو تسلیم کرنے کا معیار عوام الناس کی خواھش اور ان کی مانگ ھے اور ”قانون گذاری میں جمھوریت“ کو بیان کیا جاتا ھے تو ان کو یہ سوچنا چاھئے کہ کیا انسان کو صرف یھی بدن عطا کیا گیا ھے، اور ایک مادی زندگی دی گئی ھے اور اس کو حیوان کا مجسمہ بناکر بھیجا گیا ھے؟ اگر ایسا ھی ھے تواس صورت میں تو عوام الناس کو قانون گذاری کا حق ھے جیسا کہ اسی نظریہ کو یورپین لوگوں نے تسلیم کررکھا ھے، یا جیسا کہ اسلامی نظریات میں بیان کیا گیا ھے کہ انسان مادی بند کے علاوہ وہ بلند وبالا مقام اور روحانی اور معنوی اھمیت کا بھی حامل ھے تواس بنیاد پر قانون گذاری میں مادی مصلحتوں، نظم اور اجتماعی امنیت کی رعایت کے علاوہ معنوی مصلحتوں کی بھی رعایت کرنا ضروری ھے، اس صورت میں انسان خدا کے ارادہ کا تابع ھوگا اور قانون کا معیار وملاک خداوند عالم کی مرضی ھوگی۔
اس بات کی طرف ھم پھلے بھی اشارہ کرچکے ھیں کہ کیا واقعاً انسان مادی اور حکمت ماوراء الطبیعة سے بالا ایک معنوی پھلو بھی رکھتا ھے یا نھیں؟ کیا انسان مادی بدن اور حیوانی خصلتوں کے علاوہ کوئی اور پھلو بھی رکھتا ھے ،تاکہ وہ اسی اساس وبنیاد پر خداوند عالم سے ارتباط برقرار رکہ سکے؟ کیا واقعاً مرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی اور دوسری زندگی بھی ھے؟ کیا واقعاً اس مادی زندگی اور مرنے کے بعد والی زندگی کے مابین کوئی رابطہ ھے؟ مسلمانوں اورمتدین افراد کے لئے ان سوالات کے جوابات واضح ھیں۔
لیکن ھم کو یہ غور وفکر کرنا چاھئے کہ ھمارے سیاسی اور اجتماعی رجحان کو ھمارے اعتقاد کے ھم آھنگ ھونا چاھئے اورھماری فکر واندیشہ اور عمل میں التقاط ظاھر نھیں ھونا چاھئے، اگر واقعاً ھمارا یہ عقیدہ ھے کہ خدا ھے، قیامت ھے، اور حساب وکتاب درکار ھے توھم کو یہ واضح کرنا ھوگا اور اس قطعی نتیجہ پر پھونچنا ھوگا کہ ایک حقیقت میںغیر خدائی قانون (کو عوام الناس کی طلب کے معیار قانون ھے) پر عمل کرنا ھماری ابدی آرامگاہ میں منفی اثر رکھتا ھے یا نھیں؟ یہ سوال وجواب قطعی ویقینی طور پر ھونے چاھئےں چونکہ شک وتردید سے مشکل حل نھیں ھوتی اور نہ ھی اس بارے میں شک کرنا عقلمندی کا کام ھے۔
یورپ میں یہ مسئلہ حل ھوچکا ھے وہ بھی بڑے عجیب وغریب انداز میں یا توعالم غیر مادی اور معنوی کا انکار یا افکار واندیشہ کو شک واحتمال وتردید میں قرار دینا اور ذھنوں میں یہ ڈالنا کہ کن امور کو انجام دینا چاھئے او رکن کاموں سے اجتناب کرنا چاھئے، ان امور کی ارزش و اھمیت عینی اور خارجی حقائق پر مبنی نھیں ھے جو ان کو متعلق یقین قرار دیا جائے یہ تو صرف اعتباری اور قراردادی چیزیں ھیں جن کی بناعوام الناس کی خواھش ھے بقیہ ان کا دین سے کوئی رابطہ نھیں ھے، اور اسی وجہ سے ھمارے وہ روشن فکر افراد جن پر یورپ والوں کا سایہ پڑگیا وہ ان مطالب کو اپنی کتابوں میں لکھتے ھیں اور ھمارے عزیز نوجوانوں کے حوالے کردیتے ھیں جس کی وہ مذھب شک گرائی اختیار کرلیتے ھیں اور اس پر فخر بھی کرتے ھیں!! لیکن دین کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ اس طرح نھیں ھے بلکہ ھم کو شک وتحیر اور تردید سے باھر نکلنا چاھئے اور آگاھی اور یقین کے ذریعہ صرف ایک ھی راستہ کو منتخب کرنا چاھئے جیسا کہ قرآن کریم کے ابتدا ھی میں یقین کی تاکید کرتا ھونا نظر آرھا ھے اور فرماتا ھے:
(وَبِالآخِرَةِ ھمْ یُوْقِنُونَ.) (10)
”متقین وہ لوگ ھیں جو عالم آخرت پر یقین رکھتے ھیں“ قرآن کریم ”یشکّون“ نھیں فرمارھا ھے ،اب اگر کوئی قرآن کریم سے استفادہ کرنا چاھتا ھے تو ا سکو عالم آخرت پر یقین رکھنا ھوگا اور قرآن کریم دوسری جگہ پر فرماتا ھے:
(وَفِی الاٴرْضِ آیَاتٌ لِلْمُوْقِنِیْنَ.)( 11)
”اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (قدرت خدا کی) بھت سی نشانیاں ھیں“
دوسری طرف یورپی ثقافت سے متاثر افراد کھتے ھیں کہ انسان کسی مسئلہ میں بھی منطقی طور پر یقین پیدا نھیں کرسکتا، اور خاص طور سے جو مسائل ماوراء مادہ سے مربوط ھوتے ھیں ان میں تو انسان کو یقین ھوھی نھیں سکتا، قرآن کریم انسان کے لئے جس انحتاط اور پستی کی حالت کو بیان کرتا ھے وہ شک وتردید کی حالت ھے قرآن مجید فرماتا ھے :
(فَھمْ فِی رَیْبِھم یَتَرَدَّدُوْنَ .)(12.)
”تو وہ اپنے شک میں ڈانو اڈول ھورھے ھیں (کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں“
اور اسی طرح قرآن کریم ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ھے:
(اَءُ نْزِلَ عَلَیْہ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ ھمْ فِی شَکٍّ مِنْ ذِکْرِیْ…)(13)
”کیا ھم سب لوگوں میں بس (محمد ھی قابل تھا کہ) اسی پر قرآن نازل ھوا ، نھیں بات یہ ھے کہ ان کو (سرے سے)میرے کلام ھی میں شک ھے کہ میرا ھے یا نھیں …“
قرآن کریم ھم کو خاص طور سے اصول دین یعنی خدا ، عدل، نبوت ، امامت اور قیامت کے بارے میں اھل یقین میں سے ھونا چاھتا ھے، اب ھم کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ کو منتخب کرنا چاھئے یا اس راستہ کو اختیار کرنا چاھئے جس میں انسان بنیادی طور پر ھی یقین تک نھیں پھونچتا، اور ھمیشہ شک وتردید کی حالت میں دوچار رھتا ھے، یا اس مذھب کو منتخب کرنا چاھئے جو ھم کو انتخاب ِ آگاھانہ اور یقین کی دعوت دیتا ھے اور فرماتا ھے جب تک اھل یقین نہ ھوؤ گے کتاب خدا سے استفادہ نھیں کرسکوگے۔
ان دونوں ثقافتوں میں یہ فرق ھے کہ ان میں سے ایک انسان کے لئے سب سے بری شک وتردید اور حیرت کی حالت کو جانتا ھے اور انسان کو شک وتردید میں اس شخص کے مانند گرفتار کردیتا ھے جو خوفناک اور بھیانک جنگل میں پھونچ گیا ھو اور جو شخص بھی اس کو کسی طرف بلانا چاھے وہ اس راستہ کو اسی حیرانی وپریشانی میں منتخب کرلیتا ھے اس کے برعکس یورپی ثقافت میں شک وتردید کو بڑی اھمیت دی جاتی ھے ،ان کا عقیدہ یہ ھے کہ جب تک انسان اھل حیرت وشک نہ ھو اس وقت تک وہ انسان نھیں ھوسکتا ھے، نتیجہ کے طور پر انسان کو ان دونوں میں سے ایک راستہ قبول کرنا ھوگا، اسلام کو یا اس ثقافت کو جس میں حیرت وشک کو بھترین چیز بتایا جاتا ھے، لیکن ان دونوں راستوں کو ایک ساتھ تسلیم نھیں کیا جاسکتا ھے جس طریقہ سے یہ تسلیم نھیں کیا جاسکتا ھے کہ اب دن بھی ھے اور رات بھی، اور اسی طرح توحید ، تثلیث(تین خداؤں کو ماننا) بھی ایک عقیدہ میں نھیں سماسکتے ھیں۔
9۔ جوانوں کے لئے ایک نصیحت
میرے وہ پیارے نوجوان جو علمی اعتقادات پیدا کرنے کی فکر میں ھیں واضح اھل فکر ھونا چاھتے ھیں او راھل تقلید ھونا پسند نھیںں کرتے، ان کے لئے میری نصیحت یہ ھے کہ وہ پھلے ان سیاسی مسائل کو حل کریں ان کو یہ معلوم ھونا چاھئے کہ وہ اھل شک ھوں یا اھل یقین، دین کی پیروی کریں یا سیکولریزم رھیں، خدا پرست بنیں یا ھر قسم کی عبودیت سے آزاد یھاں تک کہ خدا کی عبودیت سے بھی آزادی چاھتے ھیں، ان کے لئے ان دونوں راستوں میں سے ایک راستہ کا اپنانا ضروری ھے، ایسا نھیں ھوسکتا کہ کبھی اس راستہ پر چلیں اور کبھی دوسرے راستہ پر چل پڑےں، کبھی ان کی باتوں کو قبول کریں اور کبھی دوسروں کی باتوں کو قبول کریں، اس طرح کا رویہ بھت خطرناک ھے، اور ھماری عاقبت کفر کی حالت اور ابدی عذاب جھنم کا باعث بن جائے۔اگر ھم قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ھیں اور اس کی حقانیت کو قبول کرتے ھیں تو کیوں انسان کی مطلق آزادی کو تسلیم کریں؟! کس طرح ھم دین کے بھی معتقد ھوسکتے ھیں اور لیبرالیزم اور سیکولریزم کے بھی؟ اس طرح کا عقیدہ رکھنا ناممکن ھے، کسی بھی بلند وبالا راستہ کو منتخب کرنے سے پھلے کچھ چیزوں کو فرض کرکے ان کے بارے میں بحث کرنا چاھئے جیسے یہ کہ کیا ھم کو انسان کو ایک موجود مادی سمجھیں اور اس کی سعادت کو صرف حیوانی لذتوں میں تلاش کریں ، آزادی کا مطلب صرف خواھشات نفسانی بیان کریں؟ یا یہ کہ انسان کی انسانیت ماوراء مادہ کے لئے ایک جو ھر ھے،روح الھٰی ھے، اور بدن صرف روح کو کامل کرنے کا وسیلہ ھے اور ھماری حقیقی زندگی ابدی زندگی ھے جیسا کہ خداوندعالم نے فرمایا ھے:(وَاِنَّ الدَّارِ الآخِرَةَ فَھیَ الْحَیْوَانُ.) (14)
”اور اگر یہ لوگ سمجھیں بوجھیں تو اس میں شک نھیں کہ ابد ی زندگی (کی جگھ) تو بس آخرت کا گھر ھے (باقی لغو)“اور دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ھے :
(وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا اِلاّٰ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ.)(15)
”اور دنیا کی(چند روزھ) زندگی دھوکے کی ٹٹی کے سوا کچھ نھیں ھے.“
اگر جھان آخرت ھماری اصلی اور حقیقی زندگی ھے تو دنیا میں ھم کو اپنی توجہ اور ھمت اس چیز میں صرف کرنی چاھئے جو ھم کو بڑی سعادت تک پھونچائے یہ ان مذاھب کے برعکس ھے جن کا عقیدہ ھے کہ اُخروی سعادت دنیا کے ساتھ جمع نھیں ھوسکتی ھے او راگر کوئی شخص آخرت میں سعادت کا خواھاں ھے تو اس کو دینا میں گوشہ نشینی اختیار کرنا چاھئے اور دنیا سے بھت کم استفادہ کرنا چاھئے، خوشبختانہ بڑی اقبال مندی کی بات ھے کہ دین اسلام دنیا
وآخرت کی سعادت کو ایک جگہ جمع ھوناممکن جانتا ھے اور معتقد ھے کہ انسان خاص طور سے زندگی میں سعادت دنیا کو بھی حاصل کرسکتا ھے اور سعادت ابدی آخرت کو بھی حاصل کرسکتا ھے۔
حوالہ
1۔سورہ آل عمران آیت 64
2۔سورہ عنکبوت آیت 46
3۔سورہ نساء آیت 171
4۔سورہ مریم آیت 90
5۔سورہٴ نحل آیت 36
۔6۔سورہ بینہ آیت 5
7۔۔سورہ زمر آیت 3
8۔۔سورہ لقمان آیت 22.
9۔سورہ مائدہ آیت 38
۔10سورہ بقرہ آیت 4
11۔سورہ ذاریات آیت 20.
12سورہ توبہ آیت 45
13سورہ ص آیت 8.
14سورہ عنکبوت آیت 64
15سورہ آل عمران آیت 185.
خبر کا کوڈ: 123831