آئن اسٹائن کی آخری کتاب/ موضوع: آئن اسٹائن کی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی ؒکے ساتھ خط وکتابت
عالمی اردو خبررساں ادارے " نیوزنور" نے عظیم المرتبت فقیہ آل محمد حضرت آیت اللہ العظمی حسین بروجردی قدس سرہ کی ویب سائيٹ"بروجردی ڈاٹ اورگ" سے سائنسی دنیا کے مرجع تقلید "البرٹ آئن اسٹائن" اور فقہی دنیا کے مرجع تقلید "حضرت آيت اللہ العظمی بروجردی" قدس سرہ کے درمیان خط و کتاب پر مشتمل مستند فارسی یاداشت پایا جس کی سائنسی اور فقہی اہمیت کے پیش نظر نیوزنور ڈاٹ کام کے تحقیقی ادارے نے اسکا اردو ترجمہ کیا تاکہ اردو زبان بھی اس سے استفادہ کرسکیں۔
تقریب نیوز:البرٹ آئن اسٹائن نے ۱۹۵۴ء میں امریکہ میں اپنی آخری کتاب لکھی۔ جرمن زبان میں تحریر کردہ دی ارکلرونگ یعنی اعلامیہ میں انہوں نے اسلام کو دنیا کے جملہ ادیان میں سب سے برتر نیز مکمل ترین اور معقول ترین دین قرار دیا۔یہ کتاب درواقع آئن اسٹائن کی آیت اللہ بروجردی (م۱۹۶۱ء)کے ساتھ وہ خفیہ خط وکتابت ہے جو شاہ ایران کے خاص مترجمین کے توسط سے رازدارانہ طور پر انجام پاتی رہی۔
عالمی اردو خبررساں ادارے " نیوزنور" نے عظیم المرتبت فقیہ آل محمد حضرت آیت اللہ العظمی حسین بروجردی قدس سرہ کی ویب سائيٹ"بروجردی ڈاٹ اورگ" سے سائنسی دنیا کے مرجع تقلید "البرٹ آئن اسٹائن" اور فقہی دنیا کے مرجع تقلید "حضرت آيت اللہ العظمی بروجردی" قدس سرہ کے درمیان خط و کتاب پر مشتمل مستند فارسی یاداشت پایا جس کی سائنسی اور فقہی اہمیت کے پیش نظر نیوزنور ڈاٹ کام کے تحقیقی ادارے نے اسکا اردو ترجمہ کیا تاکہ اردو زبان بھی اس سے استفادہ کرسکیں۔
البرٹ آئن اسٹائن نے ۱۹۵۴ء میں امریکہ میں اپنی آخری کتاب لکھی۔ جرمن زبان میں تحریر کردہ دی ارکلرونگ یعنی اعلامیہ میں انہوں نے اسلام کو دنیا کے جملہ ادیان میں سب سے برتر نیز مکمل ترین اور معقول ترین دین قرار دیا۔یہ کتاب درواقع آئن اسٹائن کی آیت اللہ بروجردی (م۱۹۶۱ء)کے ساتھ وہ خفیہ خط وکتابت ہے جو شاہ ایران کے خاص مترجمین کے توسط سے رازدارانہ طور پر انجام پاتی رہی۔
اس کتاب میں آئن اسٹائن نے اپنے ’’نظریۂ نسبیت‘‘ کو قرآن کریم کی کچھ آیات، نہج البلاغہ اور خاص طور پر علامہ مجلسی کی بحارالانوار میں مذکور کچھ احادیث سے مطابقت دی ہے۔(واضح ہو کہ ان احادیث کا حمید رضا پہلوی وغیرہ کے ذریعہ عربی سے انگریزی میں ترجمہ اور آیت اللہ بروجردی کے زیرنگرانی شرح کی جاتی تھی) آئن اسٹائن نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں ایسی پرمغز احادیث نہیں ملتیں۔ یہ صرف شیعہ مذہب ہے جس کے ائمہ نے ’’نسبیت‘‘ کا پیچیدہ نظریہ پیش کیا ہے لیکن اکثر سائنسداں اسے سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جو علامہ مجلسی نے رسول اکرمﷺ کی معراج جسمانی سے متعلق نقل کی ہے کہ زمین سے اوپر اٹھتے وقت رسول اکرمﷺ کا دامن یا پائے اقدس پانی کے ایک برتن سے ٹکرا گیا اور وہ برتن الٹ گیا۔ لیکن جب آپؐ معراج جسمانی سے واپس تو آپؐ نے دیکھا کہ اتنا وقت گذر جانے کے باوجود ابھی اس برتن میں سے پانی زمین پر گر رہا ہے۔ آئن اسٹائن نے اس حدیث کو ’’زمان کے انبساط اور نسبیت‘‘ سے متعلق شیعہ دینی پیشواؤں کا بیش قیمت ترین علمی بیان قرار دیا اور اس پر مفصل طبیعیاتی شرح لکھی ہے۔۔۔
اسی طرح اس کتاب میں طبیعیات کی رو سے معاد جسمانی کو بھی ثابت کیا گیا ہے۔ آئن اسٹائن نے نیوٹن کے تیسرے قانون (عمل اور ردعمل) کے علاوہ معاد جسمانی کے ریاضیاتی فارمولہ کو مادہ اور توانائی کے مشہور فارمولہ ؛ E=M.C۲>>M=E:C۲ کے برعکس قرار دیا ہے۔ یعنی اگر ہمارا جسم توانائی (انرجی) میں بدل جائے تب بھی دوبارہ اسی طرح مادہ میں بدل کر زندہ ہوجائے گا۔
مؤلف نے کتاب میں آیت اللہ بروجردی کا ذکر بڑے احترام سے کیا اور بار بار انہیں ’’بروجردی عظیم‘‘ کی لفظ سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح پروفیسر حسابی مرحوم کا تذکرہ بھی متعدد بار’’عزیز حسابی‘‘ کہہ کر کیا ہے۔
مذکورہ کتاب پروفیسر ابراہیم مہدوی (لندن)نے بنز اور فورڈ آٹوموبائل کمپنیوں کے بعض اراکین کے تعاون سے تیس لاکھ ڈالر میں ایک یہودی صاحبِ نوادرات سے خریدی ہے۔کمپیوٹر کی مدد سے کتابچہ میں موجود ہر صفحہ کی تحریر کا جائزہ لینے کے بعد اس امر کی توثیق کی گئی ہے کہ اسے آئن اسٹائن نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔
اب اس گراں قیمت ورثہ کا ڈاکٹر عیسےٰ مہدوی (ڈاکٹر ابراہیم مہدوی کے بھائی) جرمن سے فارسی میں ترجمہ کر رہے ہیں اور راقم متن میں مذکورہ مآخذ کی تحقیق کر رہا ہے۔اب تک ایک بڑے حصہ کا ترجمہ اور تحقیق مکمل ہو چکی ہے۔کتاب کا اصل نسخہ سلامتی وجوہات کے باعث لندن کے خفیہ امانات مرکز (لاکر)کے حوالہ کر دیا گیا ہے اور اس کی پروفیسر ابراہیم مہدوی امانات سیکشن میں حفاظت کی جا رہی ہے۔مزید تفصیلات اور رجسٹریشن نمبر وغیرہ کتاب کے خلاصہ کے شروع میں ہم قارئین کی نذر کریں گے۔
آئن اسٹائن کی آخری کتاب پر ایک نظر
DIE ERKLA "RUNG
(اعلامیہ)
ترجمہ: ڈاکٹر عیسے مہدوی
تحقیق ، پیش لفظ اور حاشیہ: اسکندر جہانگیری
پیش لفظ
۲۰۰۳ء کے اوائل میں لندن میں مقیم پروفیسر ابراہیم مہدوی نے( پیدائش ۱۳۱۰ ہجری شمسی) امریکہ، جرمنی اور فرانس جا کر بالترتیب فورڈ، بنز، اور کنکورڈ آٹوموبائل کمپنیوں کے بعض سرمایہ داروں سے گفتگو کر کے انہیں مذکورہ کتاب کی خریداری میں مدد دینے پر مائل کیا اورآخرکار ایک یہودی صاحبِ نوادرات سے آئن اسٹائن کا بدست خود تحریر کردہ آخری کتابچہ خرید لیا گیا۔ قیمت تیس لاکھ ڈالر طے پائی جس کے لئے مذکورہ کمپنیوں کی امداد کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
BENZ ۔دس لاکھ امریکی ڈالر۔ اس فخر کے ساتھ کہ آئن اسٹائن جرمن تھے۔
FORD۔دس لاکھ امریکی ڈالر اس فخر کے ساتھ وہ امریکہ میں رہتے تھے ۔ نیز اس فخر کے ساتھ کہ کتاب میں امریکی صدر جان ، ایف، کینڈی (جنہیں ۱۹۶۳ء میں قتل کر دیا گیا)کا بار بار ذکر ہو ا اور یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ وہ امریکہ کے اگلے صدر ہوں گے ۔جبکہ جس وقت یہ کتاب تحریر کی جا رہی تھی (۱۹۵۴ء) تب کینڈی کے بطور صدرِ امریکہ منتخب ہونے میں سات سال باقی تھے۔
شایدکینڈی خاندان کے افراد کے یکے بعد دیگرے قتل کے حیرت انگیز معمہ کا کوئی سرا بھی اس کتاب میں موجود ہو اور ہم یہ جان سکیں کہ صدر کینڈی کو کیوں قتل کیا گیا؟ اس کے پیچھے کیا راز تھا؟ کیوں ان کے خاندان تک کو ختم کر دیا گیا؟ کیوں۔۔۔؟
CONCORDE۔ پانچ لاکھ امریکی ڈالر۔ فرانس انقلاب یا غدر کے دوران قتل ہونے والے مسٹر لاوازیہ اور ان کے قانون بقائے مادہ کے اعزاز میں کہ جس کا مذکورہ کتاب میں کئی بار ذکر ہو اہے۔
TITANIC۔ پانچ لاکھ امریکی ڈالر۔ برطانوی بحری جہاز ٹائٹینک کے غم انگیز حادثہ کے مہلوکین نیز مذکورہ کتاب کے طب، حیاتیات اورادویہ شناسی سے متعلق حصوں کی تکمیل میں آئن اسٹائن کی مدد کرنے والے پینسلین کے موجد برطانوی سائنسداں الیکزینڈر فلمینگ (م ۱۹۵۵ء) کی یاد میں۔
کتاب سے جڑی اہم شخصیات: البرٹ آئن اسٹائن (۱۹۵۵ء میں مشکوک موت)، الیکزینڈر فلمینگ (م۱۹۵۵ء)، آیت اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردیؒ (م۱۹۶۱ء)، نیلز بور (بوہر) ڈنمارک کے مشہور ماہرعلم کیمیا و طبیعیات۔انہوں نے بھی مذکورہ کتاب لکھنے میں مؤلف کے ساتھ تعاون کیا (۱۹۶۲ء میں وفات ہوئی)۔ جان، ایف، کینڈی (۱۹۶۳ء میں قتل ہوئے)، علی رضا پہلوی (مترجم اور رابطہ کار کہ جنہیں سابق سوویت یونین کے خفیہ ادارہ کے، جی، بی نے ۱۹۵۴ء میں جب یہ کتاب لکھی جا رہی تھی اس طیارہ کو گرا کر جس میں وہ سفر کر رہے تھے انہیں قتل کر دیا، حمید رضا پہلوی (م ۱۹۹۲ء)، نیلز بور نے ان کا آئن اسٹائن سے تعارف کروایا تھا جبکہ اس وقت ان کی عمر محض بائیس برس تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیوں وفات کی پہلی تین تاریخیں ؛ ۱۹۵۴ء ۱۹۵۵ء اورپھر۱۹۵۵ء اور اسی طرح بعد کی تین تاریخیں؛ ۱۹۶۱ء، ۱۹۶۲ء اور۱۹۶۳ء عیناًیکے بعد دیگرے واقع ہوئی ہیں؟ کیوں کتاب کے مؤلف (آئن اسٹائن) اور ان کے اصلی معاون (الیکزینڈر فلمینگ) دونوں نے ایک ہی سال یعنی ۱۹۵۵ء میں انتقال کیا ہے؟ کیوں ایک مترجم اور رابطہ کارکی (ع۔۔۔پ۔۔۔) کتاب کی تألیف کے سال ہی طیارہ گرجانے سے موت ہو گئی؟ کیوں چند برس قبل ایک دیگر مترجم اور رابطہ کار (ح۔۔۔پ۔۔۔) کے بہزاد اور نازک نامی دو جوان بیٹوں کی ایران سے باہر زہر کے اثر سے مشکوک موت واقع ہو گئی؟
اتنی عظیم شخصیت کی کتاب نصف صدی تک خفیہ کیوں رہی؟ برطانیہ کا سیکرٹ لاکر’’ کسی خطرناک مذہبی انقلاب کے خطرہ ‘‘کا بہانہ بنا کر کسی بھی حال میں ہمیں مذکورہ کتاب کی اشاعت کی اجازت کیوں نہیں دے رہا ہے؟
کتاب کے شروع میں آئن اسٹائن نے آیت اللہ بروجردی کو ان الفاظ میں مخاطب کیا ہے:
’’" Herzliche Gru &e von Einstein
آئن اسٹائن کی طرف سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عالم اسلام کے قائد جناب سید حسین بروجردی کی خدمت میں سلام عرض ہے۔
آپ کے پاس چالیس خطوط روانہ کرنے کی بعد اب میں نے دین مبین اسلام اور شیعہ اثنا عشری مذہب قبول کر لیا ہے۔ ا ب اگر پوری دنیا ملک کر مجھے اس پاک ایمان سے منصرف کرنا یا میرے دل میں معمولی ساشک پیدا کرنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ مجھے بڑھاپے نے ناکارہ اور کمزور بنا دیا ہے۔مارچ (۔۔۔) ۱۹۵۴ء ہے کہ میں وطن سے دور امریکہ میں رہ رہا ہوں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ میں اگست ۱۹۴۶ء یعنی آٹھ سال پہلے آپ سے آشنا ہوا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ۶اگست ۱۹۴۵ء کو اُس خبیث شخص نے میری طبیعیاتی ایجاد (ایٹم میں چھپی طاقت کے انکشاف) کوایک آگ اگلتی تباہ کن آسمانی بجلی کی طرح ہیروشیما کے نہتے عوام پر گرا دیا تو میں شدت غم سے قریب تھا کہ مر جاتا۔چنانچہ میں نے ایک بین الاقوامی معاہدہ پر دستخط اور اسے عالمی سطح پر منظور کروانے کی کوشش کی۔
اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔ لیکن اس کے نتیجہ میری آپ جیسی عظیم شخصیت سے ملاقات ہو گئی جس نے مجھے اُس شدید غم سے بھی نجات دی اور آخرکار میں خفیہ طور پر مسلمان بھی ہو گیا۔ چونکہ ان چالیس خطوط کے ماحصل کے طور پر یہ میری آخری تحریر ہے اس لئے میں کچھ باتیں بعد کے قارئین کے لئے بھی لکھنا چاہتا ہوں:
جیسا کہ شہر قم میں مقیم بروجردی صاحب جانتے ہیں میں نے اگست ۱۹۳۹ میں اس وقت کے امریکی صدر روزولٹ کے پاس ایک خط لکھ کر انہیں بتایا کہ جرمنی جو کہ دوسری عالمی جنگ کی شروعات کے دور سے گذر رہا ہے ایٹم توڑ کر اس میں موجود عظیم توانائی حاصل کر کے اس پر کنٹرول رکھنے کی جانب آگے بڑھ رہا ہے تاکہ ایک لمحہ میں بعض شہروں کو نیست ونابود کر دے۔ میں نے ان (روزولٹ) سے پرزور الفاظ میں کہا کہ نازی جرمنی کو ایسے بھیانک منصوبہ سے روکنے کے لئے امریکہ جیسی بڑی طاقت کو جو کہ میری نظر میں اُس وقت دنیا کی سب سے زیادہ عقلمند اور صبروبرداشت کی حامل سپر پاور تھی فی الفور ایک ٹیم کو ایٹم کا جوہرہ توڑنے کی سائنسی تحقیق وجستجو پر مامور کر دے اور جلد ایٹم بم بنا لے۔اس لئے کہ جلد یا بدیر یہ کتا رسیاں توڑ لے گا یعنی نسل پرست اور خونخوار اڈولف ہٹلر ایٹم بم بنا لے گا۔ اور جب وہ دیکھے گاکہ وہ رائج ہتھیاروں کی مدد سے دنیا کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے تو ضرور اِس کا استعمال کرے گا اور کئی بڑے شہروں کو اپنے ایٹم بم کا نشانہ بنائے گا۔ لیکن اگرامریکہ نے اسے پہلے ہی بنا کر اعلان کر دیا ہوگا تو پھر ہٹلر جیسے دیوانے دنیا کو آگ کے حوالہ نہ کر سکیں گے!
پس جناب پاپ پیوس۱۲ نے بھی کہ جن کی قیادت ۱۹۳۹ء میں کیتھولک عیسائیوں کے لئے شروع ہوئی تھی یہی فتویٰ دیا لیکن اس بات کی تاکید کی کہ جنگ میں یہاں تک کہ جرمن نازیوں کے خلاف بھی ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہونے چاہئیں۔ اس کے بعد میں نے اس وقت کےمسلمانوں کے قائد سید ابوالحسن (ابوالحسن اصفہانی جو کہ نجف میں مقیم تھے) کے پاس خط لکھا۔ انہوں نے بھی جواب میں یہی لکھا کہ ’’مجبوری کی صورت ایٹم بم بنانا ضروری ہے تاکہ جرمن ڈر جائیں اور کسی بھی ملک پر ایٹمی حملہ نہ کریں۔ لیکن اسلام میں اس تباہ کن ہتھیار کا استعمال پوری طرح ممنوع ہے اور کسی بھی صورت میں اسے ابتدائی طور پر (پھر سے تاکید کر رہا ہوں کہ )یہاں تک کہ خود نازی جرمنی کے خلاف بھی استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہو ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کئے جانے چاہئیں اور رائج ہوہتھیاروں ہی سے نازی جرمنی کا مقابلہ کرنا چاہئے‘‘۔
جی ہاں! دنیا اس وقت ایک مجبوری کی حالت میں تھی۔لہٰذا میں (آئن اسٹائن) مختلف ادیان و مذاہب کے ان بزرگ قائدین کے کے حکم کے مطابق روزولٹ کو ایٹم بم کی ساخت کی اطلاع دینے پر مجبور تھا ، اس سے نازی جرمنی کے قدم رک گئے ، میرے اس عمل سے دنیا کے بہت سے لوگوں کی جان بچ گئی۔ لیکن افسوس کہ یہ فارمولہ اُس دوسرے دیوانے آدمی (شاید ہاری ٹرومین مراد ہیں جو کہ ۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۳ء تک امریکہ کے صدر رہے)کے ہاتھ لگ گیا اور وہ میری اور روزولٹ کی نصیحتوں کو بھلاتے ہوئے شیطانی وسوسہ کا شکار ہوگیا۔چنانچہ اس نے مدہوشی کے عالم میں حکم دیا کہ اس کا احمق اور ستم پیشہ پائلٹ ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو جب دنیا دوسری عالمی جنگ کی تلخیاں بھلا رہی تھی اور عالمی سطح پر امن قائم ہو رہا تھا اس خطرناک بم کو ہیروشیما پر گرا دے۔ اس بم کا سائز ایک گیند سے زیادہ نہیں تھا اور زمین پر پہونچنے سے پہلے ہی شہر کے آسمان میں پھٹ گیا تھا لیکن پورا شہر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب میں اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو میری عمر کے چند ماہ یا چند سال کم ہو جاتے ہیں اور میں اور زیادہ بوڑھا ہو جاتا ہوں!! میں جیسا کہ ۱۹۱۴ سے ۱۹۱۸ تک چلنے والی پہلی عالمی جنگ کے دوران عالمی امن کا منصوبہ سامنے لانا چاہتا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی طرح۱۹۱۸سے ۱۹۳۹ تک چلنے والی دوسری عالمی جنگ کے اِن سیاہ چھ برسوں میں مستقل اس تگ و دو میں رہا کہ کسی طرح اپنا عالمی امن کا منصوبہ پیش کردوں لیکن اس بار بھی کوئی فائدہ نہ ہوا!! گویا ایٹم کا جوہرہ توڑنا انسان کے سخت و سیاہ دل کو نرم کرنے سے کہیں زیادہ آسان تھا!! واقعاً یہ دو پیروالی موجود دنیا کی سب سے زیادہ سخت مخلوق ہے!!۔۔۔ قدرےچھوٹی سطح پر بھی میں ناکام رہا ہوں۔ جب کراٹے، جوڈو اور کنگ فو وغیرہ جیسے مارشل آرٹ وحشی، غیرمتمدن اور کیکڑا کھانے والے مشرق یعنی چین، جاپان اور کوریا سے یوروپ اور امریکہ پہونچے تو میں اس طرح کی ورزش کے مخالفین میں سے تھا۔ میں کہتا تھا کہ ان وحشی آداب ور سوم کے نتیجہ میں معاشرہ میں تشدد بڑھے گا لیکن سب مجھے پلاسٹر کی دیوار کی طرح دیکھتے رہے اور کچھ نہیں بولے۔ جیسا کہ خود آپ (آقائے بروجردیؒ) نے (ایکس۔۲۵) خط کے جواب میں لکھا ہے اسلام میں یہاں تک کہ ایک بال اکھاڑنا، معمولی خراش پیدا کرنا یا کسی انسان کو معمولی سی تکلیف دینا بھی ناجائز اور ممنوع ہے۔
ہاں! سیاست کے ذہن میں صرف ہیجان انگیز لمحات ہی کی فکر ہوتی ہے جبکہ ایسے سیاسی اقدامات ریاضی کے معادلات کی مثل ناقابل جبران آثار ونتائج پیدا کرتے ہیں۔ اور اب اے بروجردی۔۔۔صاحب! اے عقل و خرد کے مالک قائد! اے مہربان باپ! میں آپ کا بہت ہی مشکور ہوں کہ جب ۱۹۵۲ء میں اسرائیل کے صدر وائٹس مین کا انتقال ہوا تو میں نے آپ سے مشورہ چاہا کہ مجھے (آئن اسٹائن کو) باقاعدہ اور علنی طور پراسرائیل کی صدارت پیش کی گئی ہے اور سب مجھےوطن سے ہجرت کرنے والے ایک جہاں دیدہ یہودی کے بطور جانتے ہیں تو کیا میں یہ عہدہ قبول کر لوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ’’اللہ سے ڈرنے والا اور عقلمند انسان کبھی یہ پیشکش قبول نہیں کرے گا۔ جوبھی سیاست میں پڑا آلودہ ہو گیا۔ لہٰذا آپ بھی خود کو سیاست سے آلودہ نہ کریں‘‘۔ لہٰذا میں (آئن اسٹائن) نے علمی مصروفیات کا بہانہ بنا کر اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔