افغانستان میں, جب تک سیاسی نظام مکمل طور پر, طالبان کے ہاتھوں میں ہے, امن کے امکانات ایک دور کی بات رہے گی. دوحہ معاہدہ پر, امریکہ اور طالبان کے درمیان 29فروری 2020 کو دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے کی رو سے، نہ صرف امریکی افواج کا افغانستان سے سے نکلنے کا معاملہ طے پایا تھا، بلکہ اس میں طالبان پر بعض ذمہ داریاں بھی عائد کی گئی تھی۔
معاہدے کے مطابق، طالبان پر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ وہ دہشت گردوں کی طرف سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سکیورٹی کو لاحق خطرات روکنے کے لیے اقدامات کریں گے ،اور یہ کہ وہ افغانستان کے اندر سیاسی تصفیے کےلیے جامع مذاکرات شروع کریں گے۔ اگست 2021 میں، امریکہ کیطرف سے سے جلد بازی میں کیے گئےفوجی انخلا سے جرات پا کر کر طا لبان نے، معاہدے کے تحت، طے پانے والی ذمہ داریوں سے روگردانی کی اور انہوں نے ، افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے بجائے سیاسی طاقت اپنے ہاتھوں میں لینے کو ترجیح دی۔
افغانستان کے عوامی دانش ور طالبان کی مذمت کرنے میں میں ناکام رہے.دوہا معاہدہ اور اسکی تفصیلات نے اس وقت ، افغانستان میں خودمختیار حکومت کے امکان کو کم کردیا، اور جنگ اور امن دونوں میں طالبان کو برتری دلوا دی۔معاہدے کی بعض یقین دہانیوں نے طالبان کو میدان جنگ اور زبانی پروپیگنڈے دونوں میں مضبوط بنانےمیں مدد دی ۔
اس میں معاہدے کے وہ حوالہ جات شامل ہیں جو "بعدا ز تصفیہ نئی افغان حکومت سے متعلق ہیں، اور ایسی شقیں جن میں طالبان جنگجوؤں کو "سیاسی قیدی” کہا گیا ہے، اور پھر بالواسطہ طور پر ایسی شرائط جن کے زریعے طالبان کی شیڈو گورنمنٹ کو قانونی جواز مہیاکرنا جیسے؛ ” طالبان ویزا ، پاسپورٹ ، سفری اجازت نامےیا دوسرےقانونی کاغذات "نہیں دیں گے؛ اور افغانستان میں انسانی حقوق کے زکر کی مکمل غیر موجودگی۔
قیام امن کی ناکامی کا ایک اور کیس
صلح نامہ ، محض کوئی ایسا معاہدہ نہیں جس سے توقع تھی کہ وہ ملک میں جاری تصادم کا پرامن خاتمہ ثابت ہو گا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان1988 کا اقوام متحدہ کے زیر سایہ ہونے والاجنیوا معاہدہ ،جس میں سوویت یونین اور امریکہ ضامن ریاستیں تھیں ، اس میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا اور اور افغان تصادم کے تصفیے کا مکمل فریم ورک مہیا کیا گیا تھا۔اسی طرح 2001 کا ‘بون معاہدہ-قطع نظر اس کے کہ اسے امن معاہدے کا نام دیا جا سکتا ہے یا نہہں-اس میں بعد از طالبان افغانستان’ میں، سیاسی انتقال اقتدار کے انتظام کا طریقہ کار متعین کیا گیا تھا۔ اس نے مختصراً ان اقدامات کا زکر کیا جو عبوری انتظامیہ کی تشکیل سے لے کر نئے آئین اور انتخابات کے انعقاد تک طے کئےجانے تھے۔
بہر حال، نہ تو جنیوا معاہدہ اور نہ ہی بون معاہدہ ، ان حالات کو جنم دینے میں کامیاب ہوا جو افغانستان کے پیچیدہ مسئلے کے جامع حل کے فروغ میں مدد گارہوتے۔ابھی حال ہی میں ،طالبان کی جانب سے، دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں سے قابل نفرت اعراض اور اس کے ساتھ امریکہ کےجلد باز خروج نےطالبان کے دوبارہ ظہور کےعمل کو تیز کیا، اور ایک مرتبہ پھر افغاستان میں ، طویل تصادم کےپائدار سیاسی حل حاصل کرنےکے مواقع کے پہلے سے تنگ راستے کو ایک مرتبہ پھر بند کردیا۔جنیوا معاہدہ ، بون معاہدہ اور دوحہ معاہدہ ، ان تینوں کےدرمیان معیاری فرق موجود ہے۔ بہرحال، دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ، ان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ تمام افغانستان میں تصادم کی بڑی وجہ کےبارے میں بالکل خاموش ہیں اور وہ وجہ ہے نسلی تصادم۔
افغانستان ایک کثیر النسلی ملک ہے، جہاں مختلف نسلی گروہ، جغرافیائی طور پر بھی آپس میں بٹے ہوئے ہیں۔ تاریخی طورپر، افغانستان کے بنیادی اور اہم متنازعہ معاملات میں سے اہم ترین معاملہ جو کہ افغانیوں تقسیم کی وجہ ہے یہ ہے کہ حکومت کون کرے گا اور کیسے کرے گا۔ اس معاملے پر عدم اتفاق نے 1990 میں اپنا اظہار پر تشدد طریقے سے کی اور 2004 کے آئین کی بنیاد پر ہونے والے چار صدارتی انتخابات میں ،غیر متشدد طریقے سے کیا تصادم کی بنیادی وجہ کو نظر انداز کرنے ، اور نسلی گروہوں کے درمیان طاقت کی دوبارہ تقسیم وہ اہم کڑی ہے جوتینوں معاہدات کی ناکامی کو آپس میں جوڑتی ہے اور عدم استحکام کی آگ کو مزید ہوا دیتی ہے۔
موجودہ صورت حال
اگست 2021 میں، دوحہ معاہدہ پر دستخط ہونے کے سے دو سال سے کم کے عرصہ میں افغانستان کو دارالخلافہ ،کابل طالبان کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔ اس پیش رفت کے اثرات ما بعد کے نتیجے میں، کئی سابقہ حکومتی افسران ، بالخصوص وہ جو افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکورٹی فورسز سے تعلق رکھتے تھے کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارےگئے اور ان سرکاری ممبران کو یا تو قتل کر دیا گیا یا انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغان سیکورٹی فورسز اورسابق افغان حکومت سے وابستہ ایک سو آدمیوں کو طالبان کی طرف سے عام معافی کے اعلان کے باوجود قتل کر دیا گیا ۔مزید بر آں،مخلوط حکومت کے قیام ،انسانی حقوق کی پاسداری اور دہشت گرد مخالف یقین دہانیوں پربین الاقوامی برادی کی طرف سے کئےجانے والے تقاضوں کےباوجود، طالبان نے کوئی بھی رعایت دینے سے انکار کر دیا۔
افغانستان میں امن ؟
یہ پہلے دن سے ہی واضح تھا کہ جولائی 2018 کی افغانستان میں سیاسی تصفیےکی کوششوں کا امکان اپنی بہترین صورت میں، غیر یقینی تھا۔ دوحہ معاہدہ، نے، بجائے امن کے طریقہ کار یا پائیدار سیاسی تصفیے کے لیے ٖضروری اقدامات طے کرنےکے، محض ، امریکی اخراج کے ممکنہ نظام الاوقات طے کئے ۔طالبان نے بھی امریکہ سے جنگ جیتنے کے سودے پر مذاکرات کیے نہ کہ مخالفین کے ساتھ سیاسی تصفیے یا امن معاہدے کی جستجو پر۔