ہندوستان اور چین کے لیے پانچ وسطی ایشیائی جمہوریہ کی اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی اہمیت
ہندوستان اور چین کے لیے پانچ وسطی ایشیائی جمہوریہ کی اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی اہمیت کے بارے میں ایک رپورٹ میں، یوریشیا ریویو ویب سائٹ نے لکھا: "امریکہ کے انخلا کے بعد نئی دہلی اور بیجنگ کے لیے ان ممالک کے ساتھ بات چیت بہت ضروری ہو گئی ہے۔
یوریشیا ریویو ویب سائٹ نے ہندوستان اور چین کے لیے قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان کی پوزیشن کا تجزیہ کیا اور لکھا: وسطی ایشیائی جمہوریہ ہندوستان اور چین کے جیو پولیٹیکل فریم ورک میں بہت نمایاں کردار رکھتے ہیں۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد ہندوستان اور چین دونوں نے مملکوں کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے نئے اقدامات شروع کیے ہیں۔
چین نے، یقیناً، جولائی 2020 سے تمام پانچ وسطی ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ ایک نیا معاہدہ شروع کیا ہے، جس کا عنوان "5+1 ڈائیلاگ" ہے۔ اب تک، اور 2004 سے، چین ان ممالک کے ساتھ دو طرفہ اور کثیر جہتی طور پر بات چیت کر رہا ہے۔ چینی رہنماؤں اور ان ممالک کے درمیان پہلی P5+1 میٹنگ میں CoVID-19 وائرس کورس کے دوران تجارت اور سرمایہ کاری پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔
دوسری میٹنگ 12 مئی 2021 کو ہوئی، جس میں تعاون، کوویڈ 19، اور افغانستان کے ساتھ مشغولیت کے لیے سیاسی نقطہ نظر کو اپنانے پر توجہ دی گئی۔ اس تناظر میں، چینی صدر شی جن پنگ نے 25 جنوری 2022 کو ان ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کی، جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقائی سلامتی کو مضبوط بنانے میں ان کے تعاون کی خواہش کی گئی۔
ہندوستان نے P5+1 کی شکل میں وسطی ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ بھی بات چیت کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آخری بار سنہ 2015 میں وسطی ایشیا کا دورہ کیا تھا۔ تاہم، افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے بعد، دونوں فریقوں کی دوسری ملاقات 10 نومبر 2021 کو ہوئی، جس میں علاقائی سلامتی کے مذاکرات کے موقع پر افغانستان پر توجہ مرکوز کی گئی۔ تیسری میٹنگ دسمبر 2021 میں ہوئی۔
ہندوستان نے 5+1 کی شکل میں پانچ جمہوریہ کے صدور کے ساتھ "انڈیا-سینٹرل ایشیا سمٹ" کے عنوان سے ایک ورچوئل میٹنگ بھی کی۔ یہ اجلاس چین کی جانب سے اسی سطح پر بلائے جانے کے دو دن بعد ہوا۔ ملاقات کا سب سے اہم مرکز افغانستان میں ہونے والی پیش رفت اور ایرانی بندرگاہ چابہار تھا۔ یہ بندرگاہ درحقیقت پاکستان گوادر کی حریف بندرگاہ ہے جسے چینی سرمایہ کاری سے تیار کیا گیا ہے۔
چین نے اپنے تین ہمسایہ ممالک قازقستان، تاجکستان اور کرغزستان کے ساتھ ساتھ خطے کے دو دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ بات چیت کے لیے "5+1" لیبل کا انتخاب کیا ہے۔ ہندوستان نے وسط ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی وضاحت "وسیع ہمسائیگی" کی پالیسی کے تناظر میں کی ہے۔ چین اور بھارت وسطی ایشیا کے پڑوس میں جغرافیائی سیاسی قدر اور ممکنہ مسابقت دونوں کو دیکھتے ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران افغانستان میں امریکی موجودگی نے چین کے لیے وسطی ایشیا میں اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بفر زون بنایا ہے۔ لیکن افغانستان سے امریکی انخلاء اور طالبان انتظامیہ کے رویے کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے بعد، چین نے اپنی مغربی سرحدوں کے ساتھ بفر زون بنانے کے لیے 5+1 فریم ورک قائم کیا۔
افغانستان سے امریکی انخلاء نے یہ بھی ظاہر کیا کہ ہندوستان وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ نئی مشغولیت کیوں چاہتا ہے۔ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد بھارت نے افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔ اس وجہ سے، ہندوستان نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ اسے وسطی ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ آزادانہ طور پر اور ایک آزاد گروپ کے اندر شامل ہونا پڑے گا۔ ہندوستان کے سیکورٹی پیراڈائم کے مطابق، ملک کے شمالی اور مغربی محاذ ایک ترجیح ہیں۔ یہ افغانستان میں امریکی موجودگی اور طالبان سے پہلے کی افغان حکومتوں کے ساتھ گہرے تعلقات کے ذریعے حاصل ہوا۔ تاہم، افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد، وسطی ایشیائی جمہوریہ کے ساتھ تعلقات ایک اہم سلامتی اور تجارتی مسئلہ بن گیا۔
وسطی ایشیائی ممالک کے نقطہ نظر سے، جہاں اقتصادی اور فوجی صلاحیتیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف محدود ہیں، کوئی بھی تعامل ان کے سلامتی کے مفادات کے لیے ایک اضافی قدر ہے۔ چین پہلے ہی افغانستان کے ساتھ شراکت داری کی اہمیت کو تسلیم کر چکا ہے اور اس لیے اس نے ملک کو وسیع پیمانے پر انسانی امداد بھیجی ہے۔ جب تک خطرے کی وجہ کو ایک انٹرایکٹو حکمت عملی کے ذریعے بے اثر نہیں کیا جاتا، یہ امکان ہے کہ تمام ادارہ جاتی انتظامات جو استحکام اور سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں موثر اور پائیدار نہیں ہوں گے۔
افغانستان نے خطے میں استحکام کو یقینی بنانے میں اپنی مرکزی حیثیت برقرار رکھی ہے۔ اب صورتحال بہت زیادہ خراب ہے۔ اگر افغانستان کو اس کے اپنے آلات پر چھوڑ دیا گیا تو اس کے اثرات پورے خطے کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔