بشکریہ:شفقنا اردو
سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے تحریکِ عدم اعتماد کے خلاف دی جانے والی رولنگ پر ازخود نوٹس اور سیاسی جماعتوں کے وکلا کی درخواستوں پر سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ سماعت میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت چاہے تو حساس ادارے کے سربراہ سے ان کیمرا بریفنگ لے سکتی ہے۔ دوسری جانب عدالت کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں لڑ رہے ہیں جب کہ معاملہ ہمارے گلے میں ڈالا جا رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما رضا ربانی نے دلائل دیتے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ ہے۔ جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سسٹم نے ازخود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیرآئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا۔ ان کے سامنے اس خط کے بارے میں اورارکانِ پارلیمان کے حوالے سے کوئی عدالتی حکم تھا اور نہ ہی سازش کی کوئی تحقیقاتی رپورٹ تھی۔ کیا اسپیکر عدالتی احکامات کے بغیر رولنگ دے سکتے تھے؟ انہوں نے تحریری رولنگ دے کر اپنی زبانی رولنگ کو غیر مؤثر کر دیاْ یہ رولنگ آئین کے خلاف ہے۔ دلائل دیتے ہوئے رضا ربانی کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اگر قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیرِ اعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیرِ اعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے۔
ارباب اختیار کا خیال ہے کہ سب کچھ ملک کے دستور اور قانون کے مطابق ہوا ہے، اس لیے حزب مخالف کی درخواست کو خارج کر دیا جائیے۔ اب اس انتہائی حساس اور اہم ترین سوال پر سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے، بہتر ہو گا کہ اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائیے۔ دریں اثنا یہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ ماضی میں اس سے ملتے جلتے مقدمات میں پاکستان کی اعلی عدالتوں کے جج حضرات کیا فیصلے کرتے رہے۔ ضروری نہیں کہ یہ فیصلے موجودہ مسئلے پر عدالت عالیہ کے فیصلے پر اثر انداز ہوں، لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ایسا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلا فیصلہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب سن انیس سو چون میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے ایک حکم کے ذریعے آئین ساز اسمبلی کو برخاست کر دیا تھا۔ برخاست شدہ اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے اس برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے گورنر کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ معاملہ وفاقی عدالت میں چلا گیا۔ جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت یعنی اس وقت کی سپریم کورٹ نے گورنر کے حکم کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نظریہ ضرورت کا عنصر داخل ہوا۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس نوعیت کے کچھ اور مقدمات بھی موجود ہیں، جن کا گہرائی سے جائزہ لے کر پاکستان کی اعلی عدالتوں کے رجحانات کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کی ایڈ وائس پر صدر نے ایک ایسی قومی اسمبلی کو تحلیل کیا ہے، جس میں قبل ازیں عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہو چکی تھی، اور عام طور پر باور کیا جاتا تھا کہ اس دن اس تحریک پر ووٹنگ ہو گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس اہم مقدمے میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔ اور اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں.