QR codeQR code

عراق چین تعلقات اور چین کا مشرق وسطٰی میں بڑھتاہوااثرورسوخ

13 Apr 2022 گھنٹہ 11:52

چین کی علاقائی حکمت عملی  کا مقصد  یہ ہے کہ ایک  ایسا  فریم ورک قائم کیا جائے جوچین اور ایران کی سربراہی میں، مغرب کے خلاف ، طاقت کا یک نیا توازن  پیدا کر سکے۔ا


بشکریہ:شفقنا اردو

باوجود علاقائی اور عالمی ہلچل کے، چین نے مشرق وسطٰی میں اپنی سرمایہ کاری کو  جاری رکھاہوا  ہے۔ شنگھائی کی فوڈان یونیورسٹی کی ایک  حالیہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہےکہ،بیجنگ نے 2021 میں عراق میں دس  اعشاریہ  پانچ بلین ڈالر کاایک نیا تعمیراتی ٹھیکہ حاصل کر لیا ہے،یہ رقم،  اسی سال ‘چین کی روڈ اینڈ بیلٹ’منصوبے پر ہونےوالی سرمایہ کاری کا چھٹا حصہ  بنتی ہے۔

عراق،علاقے میں چین کے سب  اولین تجارتی  حصے دار کےطور پر ابھرا ہے،اور روس اور  سعودی عرب کے بعد، چین کےلیےتیسرا بڑا تیل  فراہم کرنےوالا ملک ہے۔اسکے توانائی کے زخائراور تزویراتی (اسٹریٹجک )محل وقوع-خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کےقریب ہونا- اسے،  بی-آر-آئی (Belt and Road Initiative)  کے لیے ایک اہم ملک کی حیثیت دیتا ہے۔جیسے ہی علاقے سےواشنگٹن کانخلا ہو رہا ہے، چین اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے تیاربیٹھا ہے: بغداد کے ساتھ بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات، وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی اثرورسوخ میں تبدیل ہو جائیں گے۔امریکہ ، ایران اور ترکی جو عراق کے ساتھ گہرا ور فعال تعلق رکھتے ہیں، چینی اقدامات  کا بغور مشاہدہ کر  رہے ہیں۔

جغرافیائی-سیاسی  خطرہ

بی آر آئی منصوبے کے تحت مشرق وسطٰی میں چین کی بڑھتی  ہوئی موجودگی، امریکہ کی  علاقائی حکمت عملی کے لیےرکاوٹ بن رہی  ہے۔اب جبکہ امریکہ گزشتہ  ایک  عشرے سے  ، مشرق وسطٰی میں اپنی مصروفیت  کم کرنے کی کوشس کر رہا ہے، ایسے میں واشنگٹن کو، علاقے میں، اپنی اب تک کی قائم شدہ مظبوط سیاسی ، معاشی اور  فوجی  موجودگی کے لیے خطرات محسوس ہو رہے ہیں۔ چین کا عراق  کی تعمیر نو میں کردار اور بڑھتےہوئے چین-ایران تعلقات علاقے میں ،چینی موجودگی میں اضافے کا سبب بن رہےہیں اور یہ  امریکی مفادات کی قیمت پر ہو رہا ہے۔توانائی کے منصوبوں میں، چین-عراق تعاون، 1981 سے باہمی رشتوں کےلیے سنگ میل  کی  حیثیت رکھتا ہے، یہ اس وقت ہوا جب "چینی پٹرولیم   انجنئیرنگ اور تعمیراتی کارپوریشن نےملک میں اپنے منصوبوں کا آغاز  کیا تھا۔ بہرحال،2015 میں،  بڑھتی  ہوئی اسٹریٹجک شراکت داری امریکہ کےلیےانتباہ کن، نقطہ آغاز تھا۔

عراق کو اپنے بعد ازداعش تعمیراتی منصوبوں کی ضروریات کےلیے 88 ارب ڈالر کی خطیر رقم کی ضرورت ہے، جو کہ بیجنگ کے لیے، تعمیرات اور سرمایہ کاری کے زریعےاپنی موجودگی میں اضافے کا ایک  اچھا  موقع ہے۔اس وقت، جبکہ  2018 میں باہمی تجارت 30 ارب ڈالر تک  پہنچ  گئی تھی ،تعلقات میں اضافہ وزیراعظم عادل عبدالمہدی کےدور میں شروع ہوا، جس نے2019 میں چین کےدورے کے دوران کہا تھا  کہ بیجنگ سے ان کے تعلقات، ایک بہت بڑی جست لینے کے لیے تیار ہیں۔ 2021 کے پہلے  نصف میں،دونوںملکوں کےدرمیان تجارت 16ارب ڈالر سے اوپر چلی گئ۔امریکی سخت گیر اقدامات کے برعکس، چین عراق میں نرمی کی حکمت عملی  استعمال کرتاہے۔ خصوصا” معاشی سرمایہ کاری اور  اورسیاسی عدم مداخلت  کی سیاست چین کا  طریقہ  کار ہے۔

شام کی جنگ کے معاملے پر، پہلے ہی،چین نے روس  کےساتھ مل کر،مغربی بلاک کے خلاف اقوام متحدہ میں کئی  مرتبہ اپنی ویٹو کی طاقت کو استعمال کیا ہے۔ یہ افغانستا  ن اور  اس جیسے کئی علاقائی معاملا ت میں زیادہ  فعال ہےاور مستقبل قریب میں یہ عراق میں  امریکہ کی سیاسی اور   فوجی موجودگی کو مزید محدود کر دے گا۔

ایرانی فوائد

چین کی علاقائی حکمت عملی  کا مقصد  یہ ہے کہ ایک  ایسا  فریم ورک قائم کیا جائے جوچین اور ایران کی سربراہی میں، مغرب کے خلاف ، طاقت کا یک نیا توازن  پیدا کر سکے۔اس معاملے میں، عراق میں امریکی فوجی کردارمیں کمی نے ایران کے لیے علاقائی اور چین کے لیے عالمی کردار کے دروازے کھول دئیے ہیں۔

گزشتہ  مارچ میں، چین اور ایران نےایک  25 سالہ باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت، بیجنگ نے  ، تیل  کی فراہمی کے بدلے، ایران میں  400 ارب ڈالر  کی سرمایہ کاری  کا وعدہ کیا ہے۔اس حقیقت نے، ان علاقوں میں جہاں ایران کا اثرورسوخ ہے، وہاں چین کی طاقت میں اضافےکےراستے کھول  دئیے ہیں، خصوصاً عراق میں اور عموماً مشرق وسطٰی میں ۔

یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ایران کے عراق کے ساتھ مضبوط معاشی تعلقات ہیں اور ساتھ  ہی  عراق کےسیاسی منظر میں مداخلت کی اہلیت بھی  ہے  اور پھردرجنوں ملیشا قوتیں ہیں جن کی ایران مدد کرتا ہے۔ایران، جو عراق میں امریکی موجودگی سے پریشان ہے، اپنی اس بے چینی کا اظہار ،سیاست اور میدان جنگ دونوں میں ، اپنی پراکسیوں کے زریعے ،مریکی اثاثوں پر حملوں کی صور ت میں کرتا ہے۔ ایرانی گماشتےترکی کو  ،اور  عراق میں ترک فوجی  چھاؤنیوں کو بھی باقاعدہ دھمکاتے ہیں۔

ترکی  کا کیا معاملہ ہے؟

عراق، بی آر آئی کےاس زمینی راستے کے لیے،جو مشرق وسطٰی کو ، براستہ ایران، عراق، اور ترکی یورپ سے جوڑتا  ہے،  جغرافو-اسٹریٹجک اہمیت رکھتا  ہے۔ اس معاملے میں،انقرہ بھی اس منصوبے کو خاص  اہمیت  اس  لیے دیتا ہے کہ اس  سے غیرمعمولی معاشی  فوائد کی توقع ہے۔2014 میں، چین نے اربل میں اپنا قونصلیٹ جنرل کا دفتر کھولا اور، کرد علاقائی حکومت(KRG )میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ۔ کے آر جی کے ترکی کےساتھ بھی قریبی معاشی، فوجی اور سیاسی  تعلقات  ہیں۔

تاہم چین کی ایران سے قربت اور  عراق میں  اس کے ساتھ اتحاد ، عراق میں ترکی کے سیاسی اور معاشی تعلقات پر برا اثر ڈالے گا۔ خاص کر جبکہ، تہران چاہتا ہے کہ چین،عراق میں امریکہ کے خلاف ایک توازنی عنصر کے طور  پر عمل کرے۔ ہو سکتا ہے ، وہ یہ بھی  چاہتا ہو کہ، چین کی سرمایہ کاری والی حکمت عملی کو وہ ،کے آر جی میں ترکی کےخلاف توازن پیدا کرنے والے عنصر کے طور پر استعمال کرے۔

اقوام متحدہ  میں چین کے نائب مستقل مندوب، گینگ شوانگ کی گزشتہ دسمبر میں،  عراقی علاقے میں چین کے فوجی آپریشن کے پس منظر میں،ا نقرہ کو کی جانے والی کال ” خود مختیاری کا احترام کریں” بتاتی ہے کہ عراق میں چین کا اثرونفوذ معاشی  اور جیو پولیٹیکل غلبے سے کہیں آگے نکل چکاہے۔ یہ بالکل  واضح ہے کہ یہ عراق کی حمایت میں ہے۔ بہرحال، مختصر الفاظ میں، یہ  نہیں ہو  سکتا کہ بیجنگ جیسا  طاقتور عنصر بھی انقرہ کی ناگزیریت پر اثر ڈال سکے ،کیونکہ  انقرہ  ،کے آر جی کی توانائی کی دنیا کو فروخت کےلیےاور اسکےیورپ تک  رسائی  کےلیےکلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
 


خبر کا کوڈ: 545440

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/article/545440/عراق-چین-تعلقات-اور-کا-مشرق-وسط-ی-میں-بڑھتاہوااثرورسوخ

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com