بشکریہ:شفقنا اردو
یوکرین اور روس کومذاکرات کی میز پر لانےسے لےکر،خطے کی ریاستوں سےتعلقات معمول پر لانے اور”انطالیہ سفارت کاری فورم” تک ترکی نے جارحانہ سفارت کاری کی ہے۔ حالیہ سالوں میں قفقاز سےلے کر بحیرہ روم تک، ترک سفارت کاری کے سلسلے کا ایک پہلو قابل مشاہدہ ہے ؛ اور وہ ہے تصادم اور بحران کی صورت حال میں سفارت کاری کا عمل۔
ان شعبوں میں ترک سفارت کاری کی وضاحت کرنے کےلیے، ترکی کی تین نکاتی سوچ کو سمجھنا ضروری ہے، جس کی جڑیں سخت گیر سفارت کاری، یکطرفہ سوچ سے گریز، اور سفارت کاری کو قابل عمل بنانے کے لیےعملی سیاست کی جدوجہد میں پیوست ہیں ۔اس سوچ اور ترک سفارت کاروں کے طرز عمل نے مل کر، اپنے ہم منصب، بلکہ ہم منصب کے علاوہ دوسروں کو بھی مذاکرات کی میز تک آنے پر مجبور کردیا۔
روس کے ساتھ ترکی کے تعلقات "انقرہ حکمت عملی” کی بہترین مثال ہیں۔ شام، لیبیا اور کاراباخ میں، اس نے اپنے اتحادیوں کو یا تو برا و راست تصادم میں شریک کیا یا ان کی حمایت کی، روس کو مذاکرات کی میز تک لایا اور اسے مجبور کیا کہ وہ معاہدے پر دستخط کرے یا پھر سودے بازی کرے ۔
شام میں آپریشن سپرنگ شیلڈ کےدوران، آپریشن شروع ہونےکے ایک ہفتہ بعد، ترکی نےروس کےساتھ معاہدے تک پہنچنےکا بندوبست کیا ۔ اس سے پہلے، ترکی اور روس کے سفیروں کےدرمیان لگاتار ملاقاتیں اور دو ما ہ پر محیط مذاکرات بے نتیجہ رہے تھے۔
ترکی کےسفیروں اور جرنیلوں کےدرمیان ارتباط نے ،ادلب میں تیس لاکھ شامیوں کی کی زندگی کو محفوظ بنانے میں مدد کی۔ باالفاظ دیگر،لفظی مذمت اور پابندیوں کی دھمکی کےبرخلاف،یہ میدان عمل میں کی جانے والی سرگرمی تھی جس نےماسکو کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی۔ جیسا کہ یوکرین تصادم میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اول اور ثانی الزکر دونوں، کریملن کی جارحیت مسدودنہیں کر پائے تھے۔
ترک طریقہ کار،تمام ریاستی مشینری سےایک مشتترکہ سوچ کی توقع رکھتا ہے—” ہم میدان اور میز دونوں پر موجود ہیں” –یہ وہ عام مقولہ ہے جو ترک حکام استعمال کرتے ہیں۔ترک حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہےوہ تصادم اور بحران کی کیفیت میں اپنے ان مفادات کا تحفظ،جو براہ راست ترکی کو متاثر کرتےہیں، خاطر خواہ طریقےسے،محض نرم طاقت، معیشت اور دوسرے عوامل پر انحصار کر کےنہیں کر سکتی۔
اسی نقطہ نظر نے استنبول میں، روس-یوکرین مذاکرات کو بھی ممکن بنایا۔ مثال کے طورپر، ترکی مغرب کی،روس کے خلاف مشترکہ پابندیوں کے عمل میں شریک نہیں ہوا، اور اس نے پورے خلوص سے روس اور ترکی کے درمیان مذاکرات کی ثالثی کی پیش کش کی۔ اس مقصد کےلیے، ترکی نے بین الاقوامی سفارتکاری کے لیےانطالیہ ڈپلومیسی فورم کو استعمال کیا اور دونوں ممالک کےوزرائے خارجی کو مذاکرات کی میز پر لایا اورپھر اس عمل کواستنبول کانفرنس کے زریعے آگےبڑھایا۔
اسی طرح، یوکرین تصادم کے حوالے سے ، ترک سفارتکاروں نےایک ممکنہ بحران کو اعتماد کی فضامیں بدل دیا۔مانٹریکس کنونشن ترکی کو، جنگ کی حالت میں آبنائے (آبی راستہ) کو بندکرنے کا حق دیتا ہےلیکن ، اس کو یوکرین اور روس کے لیےبندکرنے کا مطلب یہ ہو گاکہ ماسکو سےتعلقات خراب کر لیے جائیں اور اسے ایک معاندانہ عمل کےطور پر دیکھا جائے ۔ اسے بند نہ کرنے کا مطلب کنونش کی خلاف ورزی ہوگی اور اس سے یوکرین سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ اس کے بجائے ترکی نے نیٹو، روس اور یوکرین سب کے لیے اسے بند کردیا اور کیف اور ماسکو دونوں کےمطالبات کو بہ یک وقت اہمیت دینے میں کامیابی حاصل کی۔
مشرقی بحیرہ روم میں، یونان اور جنوبی قبرص کی یونانی انتظامیہ، ترکی اور ترک جمہوریہ کو شمالی قبرص سے خارج کر دینا چاہتی تھی۔ ترکی نے اپنی براعظمی پٹی پر ، بحری طاقت کے زریعے، غیر لائسنس یافتہ معاشی سرگرمیوں کو روک دیا ۔ لیبیا کے ساتھ سمندری حدود کا معاہدہ کیا اور لیبیا کے بین الاقوامی تسلیم شدہ حکومت پر خلیفہ ہفتار کے قبضے کے خلاف اسکی حفاظت کی۔
ترک سفارتکاری کا دوسرا ستون ، انقرہ کی، سفارتی ہمدردی کے زریعے، دوسرے ممالک کو درپیش خطرات اور انکےمفادات سےآگاہی ہے۔ ترک سفارتکار، مسائل کے بارے میں یکطرفہ سوچ نہیں رکھتے۔ اس طرح،ترکی نے، دوسری ریاستوں کا اعتماد حاصل کرتےہوئےطویل المیعاد فوائد حاصل کیے۔
متذکرہ اقدامات یعنی، سخت گیر طاقت اور یکطرفہ دھڑے بندی ، دونوں سے گریز ضروری ہےلیکن سفارتی کامیابی کے لیے محض یہی کافی نہیں۔ نظریاتی بنیاد کی حامل خارجہ پالیسی کے ساتھ مل کریہ دونوں عوامل سفارتی کامیابی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔اگر ایسا ہو سکتا تو، اوبامہ کی آزاد خارجہ پالیسی بہتر کارکردگی دکھا چکی ہوتی۔
اس کا رازیہ ہے کہ ترکی بحرانی صورتحال میں بجائے نظریاتی پالیسیوں پر مبنی خارجہ پالیسی کے, حقیقی یا عملی سیاست کی روشنی میں کام کرتا ہے۔ جیسا کہ ترکی کے عرب امارات، اسرائیل، مصر اور سعودی عرب سے تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں، ترکی کی مفادات پرمبنی، عملیت پسندی اور حقیقت پسندی پر مبنی نقطہ نظر کا ثبوت ہیں۔ خارجہ پالیسی میں سخت گیر موقف نے، تعلقات کو معمول پر لانے کے اس عمل میں مدد دی، لیکن ترکی کی حقیقت پسندانہ سوچ نے اسے ممکن بنایا۔
مجموعی طورپر، کوئی بھی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ صورتحال خطے میں، بحیرہ اسود سے لے کر مشرق وسطٰی تک، ترکی کے بڑھتے ہوئے کردار کی طرف اشارہ کر رہی ہے، تاکہ ترکی اپنی حالیہ کامیابیوں کی حفاظت کرسکے اور اس خلا کو،بغیر اپنے علاقائی اتحادیوں سے مخاصمت پیداکئے، پر کر سکے جوکہ امریکہ کے چین پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔