مسلمانوں کے لیے مقدس مقامات کی حرمت، تقدس اور عظمت کے ذکر کی ضرورت نہیں، خاص طور پر روئے زمین پر موجود دو مقدس مقامات، خانہ کعبہ و مسجد نبوی جو سورج کی طرح ہر ایک پر عیاں ہیں۔ اور ان دونوں کی حرمت واضح اصولوں میں سے ہے، یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو خواہ مسلکی اختلاف کیوں نہ ہو، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں اور ان کی بے لگام پالیسیوں کی وجہ سے سرزمینِ وحی میں مقدس مقامات کے تقدس کو پامال کرنا کافی تشویش کا باعث بنا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ سعودی ولی عہد کی زیر قیادت تفریحی اور تفریحی پروگراموں کے زیر اثر سعودی معاشرے میں فحاشی اور اخلاقی انحطاط کے رجحان کو پھیلانے کا پہلا اور آخری ہدف اسلامی مقامات کی حرمت پر حملہ کرنا ہے۔ جزیرہ نما عرب اور انہیں سیاحتی مقامات میں تبدیل کر دیا۔اس حد تک کہ "اسرائیلیوں" نے بھی مکہ اور مدینہ میں داخل ہونے کی جرأت کی، دریں اثناء غیر اخلاقی میلوں کا قیام جس میں مغربی موسیقی کے گروہ، جو کہ غیر اخلاقی اور غیر اخلاقی حرکات کے لیے مشہور ہیں، سعودی عرب میں کینسر کی رسولی کی طرح پھیل رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم ایک رپورٹ کا حوالہ دے سکتے ہیں جسے "اسرائیل" چینل 13 نے گزشتہ سال اپنے رپورٹر گل تیماری سے نشر کیا تھا، جو مکہ میں اپنی گاڑی چلا رہا تھا اور اس راستے میں داخل ہوا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہے اور حجاج کرام کے ساتھ کوہ عرفات کا دورہ کرنے آیا تھا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ "اسرائیلی" صحافی کو مکہ جانے کی اجازت دینے والے سعودی حکام نے عمرہ کی اجازت کے بغیر اس مقدس شہر جانے والے مسلمانوں پر 10,000 ریال جرمانہ کیا!!
چند روز قبل سوشل نیٹ ورکس پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں مسجد نبوی کے صحن میں دو لڑکیوں کو بغیر حجاب کے دیکھا گیا تھا اور ایک سیکیورٹی اہلکار ان سے بات کر رہا تھا۔ اس ویڈیو میں سنہری بالوں والی لڑکی نے اپنے کندھے پر رکھے بیگ سے عربی عبایا اور سفید اسکارف نکالا اور پہن لیا۔
اس ویڈیو کے بعد سوشل نیٹ ورکس پر شدید ردعمل سامنے آیا، تاکہ مسجد نبوی کے امور کی تنظیم نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان دو غیر مسلم لڑکیوں کا مسجد کے صحنوں میں داخلہ غلطی سے ہوا ہے۔
تاہم یہ بیان سعودی رائے عامہ کو قائل نہیں کرسکا کیونکہ بعض کارکنوں نے اس معاملے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ لڑکی مقدس مقامات کی حرمت سے آگاہ تھی اور اسی وجہ سے اس نے اپنے ساتھ ایک چادر بھی اٹھا رکھی تھی، مسجد کوئی انجان نہیں جسے وہ نہ جانتا ہو۔
اس دوران کچھ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ دونوں لڑکیاں تمام سکیورٹی پوائنٹس سے گزر کر مسجد النبی کے صحن میں کیسے پہنچیں اور سکیورٹی اہلکار نے معمول کے رویے کے برعکس ان کے ساتھ اتنی نرمی اور مہربانی سے پیش کیوں رکھا؟
یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ واقعہ سعودی رائے عامہ کے ردعمل کو جانچنے کے لیے ایک تجرباتی اقدام سے زیادہ کچھ نہیں ہے، یعنی اس ملک کے حکام جان بوجھ کر نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ اس طرح کے مناظر جانی پہچانے اور معمول کے مطابق لگیں، تاکہ سعودیوں تک پہنچ جائے۔ اطمینان کا مقام، اور اس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی تیاری کی جانی چاہیے۔