اندرونی اور بیرونی سازشوں اور دباو کے باوجود عوام کی ولایت فقیہ کے ساتھ عقیدت اور رہبری کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ملک اب تک باقی ہے اور انقلاب اسلامی پوری طاقت کے ساتھ فتنوں اور سختیوں کا مقابلہ کررہا ہے۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ان 44 سالوں میں ایک دن کے لئے بھی دشمن کو سکون کی نیند نصیب نہیں ہوئی ہے۔ یہ سوال اب بھی اپنی جگہ باقی ہے کہ ان 44 سالوں میں کیا چیز باعث بنی کہ ایران اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سامنے پوری قوت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی سالوں میں ہی رپبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ دشمن نے انقلاب اسلامی کے بارے میں غلط اندازے لگائے ہیں۔ بدخواہوں کو گمان تھا کہ انقلاب چھے مہنوں سے زیادہ موثر نہیں رہے گا۔ اس کے بعد اگلے چھے مہینوں کی پیشن گوئی کی۔ آج اسی سے زیادہ چھے مہینوں کے دورانیے گزرگئے ہیں اور انقلاب کا چھوٹا پودا تناور درخت بن چکا ہے۔ آج بھی دشمن کے اندازے غلط ہی ثابت ہورہے ہیں۔
آج بھی یاد ہے کہ ایرانی ریڈیو سے اعلان ہوا کہ مسلمانوں کے عظیم قائد اور عالمی حریت پسندوں کے پیشوا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ اس اعلان کے بعد چھوٹے بڑے اور مرد و عورت سب سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت بھی بعض دشمنوں نے آٹھ سالہ جنگ کے بعد دوبارہ انقلاب کے خاتمے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔ لیکن ان کا خواب حقیقت میں بدل نہ سکا کیونکہ انقلاب کی قیادت آیت اللہ خامنہ ای کے مضبوط ہاتھوں میں آگئی تھی جنہوں نے امام خمینی کے راستے کو جاری رکھا۔ اس کے بعد بھی مختلف مواقع پر دشمن نے فتنے برپا کرکے انقلاب کے لئے دشواریاں ایجاد کیں لیکن میدان میں منہ کی کھانی پڑی۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران دنیا کے دوسرے انقلابات سے مختلف ہے۔ اس انقلاب نے کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود اپنی اصل شکل کو برقرار رکھا ہے۔ یہ انقلاب نہ صرف اپنے اہداف کی طرف گامزن ہے بلکہ خطے اور پوری دنیا کو بھی پوری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔
دنیا میں گذشتہ تین صدیوں کے دوران متعدد انقلاب رونما ہوئے جن میں سے فرانس، روس، چین، ہندوستان اور الجزائر کا انقلاب قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ہر انقلاب خاص اہداف کے ساتھ رونما ہوا لیکن مختصر مدت کے بعد اپنے اہداف سے ہٹنے کی وجہ سے انحرافی راستے پر چل پڑا۔ انقلاب اسلامی ایران اس حوالے سے دوسرے انقلابات سے مختلف ہے اسی وجہ سے عالمی مبصرین کے لئے خاص موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
دنیا کے دوسرے انقلابات کے برعکس انقلاب اسلامی ایران چالیس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود نہ صرف باقی ہے بلکہ خطے اور عالمی سطح نمایاں اثرات کا حامل ہے۔ اس وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کی بقاء کا اصل راز کیا ہے؟
امام خمینی کے استقبال سے زیادہ تشییع جنازہ باشکوہ اندازہ میں ہونے کی کیا وجہ ہے؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے امام خمینی کی طرز قیادت اور رہبری کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے معنویت اور عقلانیت کے ساتھ قیادت کو آگے بڑھایا۔ انقلاب اسلامی کے ذریعے حکومت اسلامی تشکیل پانے سے پہلے امام خمینی معاشرے میں ایک جامع الشرائط مجتہد کے طور پر معروف تھے جس کی وجہ سے عوام اور امام کے درمیان وابستگی ایجاد ہونے لگی۔ آپ کی صداقت اور صفات حمیدہ کی وجہ سے انقلاب سے پہلے پورا معاشرہ میدان میں آگیا۔ امام خمینی نے پہلے بھی بہت سارے مذہبی رہنما عوام کو میدان میں حاضر ہونے کی دعوت دیتے تھے لیکن عوام کی طرف اتنا استقبال نہیں کیا گیا۔ آپ ایک فقیہ اور زمانے کے حالات سے باخبر مرجع تقلید تھے جس کی وجہ سے عوام کا سمندر سڑکوں پر آیا۔ انقلاب کے بعد بھی لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے قول اور عمل میں وہی خلوص اور ہمردی باقی ہے اور آپ کی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہے اسی لئے پہلے سے زیادہ لوگوں نے تشییع جنازے میں شرکت کرکے آپ کو رخصت کیا۔
امام خمینی کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت اور رہبری مثالی ہے۔ آپ نے کسی بھی موقع پر امام خمینی کی راہ سے انحراف نہیں کیا اور انقلاب کو درپیش تمام خطرات اور گمراہ افراد کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ آپ نے ولی فقیہ کی حیثیت سے انقلاب اسلامی کے اصولوں اور اقدار کی مکمل پاسداری کی۔ رہبر معظم نے اس شخص کا راستہ جاری رکھا جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ امام خمینی کی شخصیت دنیا میں قابل مقایسہ نہیں ہے۔ امام خمینی کے کردار کو صرف انبیاء اور ائمہ سے موازنہ کرسکتے ہیں۔ امام خمینی اسی مکتب کے شاگرد تھے اسی لئے دنیا کی سیاسی شخصیات سے ان کا مقایسہ مناسب ہی نہیں ہے۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ان کے راستے کو جاری رکھیں گے۔ ہم نے راستے کو درمیان میں نہیں چھوڑا ہے۔
کئی دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی دشمن امید سے ہیں کہ انقلاب اسلامی کا آخری سال ہے لیکن ہر دفعہ ان کا اندازہ غلط ثابت ہورہا ہے اور انقلاب اسلامی پہلے زیادہ طاقت اور قوت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ آج پہلے سے زیادہ انقلاب کے بارے میں اور اب تک گزرے ہوئے سفر کے بارے میں جوانوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ جوانوں کو آگاہ کرنا انقلاب کے دوسرے قدم کے سلسلے میں نہایت موثر ثابت ہوسکتا ہے۔
کچھ سالوں کے بعد انقلاب اسلامی پچاس سال پورے کرے گا۔ اس دوران پورے خطے اور عالمی سطح پر انقلاب کی طاقت اور اثرات واضح ہوچکے ہیں۔ بیرونی اور اندرونی مخالف جماعتیں پوری طرح جان چکی ہیں کہ یہ انقلاب ختم ہونے والا نہیں ہے کیونکہ اس کی جڑیں عوام کے دلوں میں ہے۔ اس انقلاب کو جاری رکھنے کے لئے انقلاب کے ابتدائی آرمانوں کو برقرار رکھنے کے علاوہ رہبر معظم کی سفارشات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم فرماتے ہیں کہ امام خمینی نے ہمیں سب سے بڑا درس یہ دیا ہے کہ ہمارا ذہن، عمل اور روح انقلابی ہونا چاہئے اس درس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ امام میراث نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔ وہ ہمارے پیشوا اور ہمارے سامنے ہیں اگرچہ ان کا جسم نہیں ہے لیکن ان کی باتیں، فکر اور راستہ ہمارے سامنے ہے۔ اسی نگاہ سے امام کو دیکھنے اور ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔