امام موسی کاظم ع نے اپنے شیعوں سے روابط کو برقرار رکھنے کے لیے وکالت کا نظام ایجاد
بشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی
حضرت امام موسی ابن جعفر علیہ السلام نے شیعوں سے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے وکالت کا منظم نیٹ ورک بنایا۔ اس نظام کے تحت آپ اس زمانے کے چیلنجز سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ بحرانوں سے نبردآزما ہوئے۔
گروہ دین و عقیدہ؛ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کی عظیم ذمہ داری سنبھالی۔ آپ کی امامت کا دور 148 ہجری سے 183 ہجری تک پر مشتمل تھی۔ آپ کی سخاوت، علم اور بردباری کی وجہ سے بنی عباس کی خلافت کو خطرہ محسوس ہونے لگا اسی وجہ سے ہارون رشید اور دوسرے خلفاء نے کئی مرتبہ آپ کو زندان میں ڈالا اور آپ پر بدترین طریقے سے تشدد کیا گیا۔ شیعوں اور امام کے روابط اور ملاقاتوں کی شدید نگرانی کی گئی۔ خلفاء بنی عباس شیعوں کو امام سے ملاقات اور روابط کے الزام میں گرفتار کرتے تھے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے اپنے شیعوں کی حفاظت کو یقینی بنانے اور روابط کو برقرار رکھنے کے لیے وکالت کا نظام ایجاد کیا۔
امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے مہر نیوز کے نمائندے نے ہدایت فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ حجت الاسلام رضا غلامی سے گفتگو کی جس کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
حجت الاسلام رضا غلامی نے کہا کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی امامت کے دوران بنی عباس کی حکومت کے ابتدائی ایام چل رہے تھے۔
فطری طور پر بنی عباس اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے شیعوں کی تحریکوں پر قابو پانے کی کوشش میں تھے اسی وجہ سے امام عالی مقام پر بھی زیادہ دباو تھا۔ بنی عباس معاشرے کو سیاسی، فکری اور ثقافتی لحاظ سے اپنے زیرتسلط لانے کی کوشش کررہے تھے۔ امام موسی کاظم علیہ السلام کے لئے اسی وجہ سے محدودیت ایجاد کی گئی تھی۔
حجت الاسلام غلامی نے کہا کہ بنی عباس اپنی حکومت کو شرعی جواز فراہم کرنے کے درپے تھے۔ اس حوالے سے ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خاندان علی بن ابی طالب مخصوصا امام موسی کاظم علیہ السلام تھے۔
اس دور میں اسلامی حکومت کا دائرہ وسیع ہوا تھا جس کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں بسنے والوں کے سوالات کا جواب دینا مشکل ہورہا تھا۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کو اس مشکل کا بھی کوئی مستقل حل نکالنا تھا۔ مختلف اقوام اور مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعلقات اور رفت و آمد بڑھنے کی وجہ سے اعتقادی اور فرھنگی مسائل بھی پیش آنے لگے تھے۔ امام زین العابدین علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کرام نے مختلف مذاہب اور ادیان کے ماننے والوں کے ساتھ مناظرے کی تشستیں رکھیں اور باطل فرقوں کے خلاف قیام کیا۔ ائمہ کرام نے اپنے شاگردوں کے ذریعے بھی زمانے کے مختلف چیلنجز کا سامنا کیا۔
حجت الاسلام غلامی نے کہا کہ امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد امام موسی کاظم علیہ السلام کے لئے سرمایے کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ نے ان لوگوں کے ذریعے وکالت کا نظام مرتب کیا۔ اپ وکالت کے اس نظام کے ذریعے اپنے زمانے کے بحرانوں اور چلینجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوگئے۔ امام عالی مقام کی زندگی کا بیشتر حصہ زندانوں میں گزرا اس کے باوجود آپ علیہ السلام وکالت کے اس نظام کے ذریعے شیعوں سے رابطہ برقرار رکھنے اور ان کی مشکلات حل کرنے میں کامیاب ہوگئے جو کہ آپ کی زندگی میں انجام پانے والا اہم کارنامہ ہے۔
حجت الاسلام غلامی نے کہا کہ امام اپنے وکلاء کے ذریعے سوالات کا جواب دینے کے علاوہ خمس و زکات کی ادائیگی اور غریبوں کی مدد کا کام بھی انجام دیتے تھے۔ آپ نے وکالت کے اس بہترین نظام کے ذریعے باطل فرقوں کے شبہات اور فاسد عقائد کی اصلاح بھی کرتے تھے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے وکالت کے اس نظام کی بہتری کے لئے مختلف علاقوں میں اپنے معتمد لوگوں کو متعین کررکھا تھا جن میں سے مفضل بن عمر کوفہ، عبدالرحمن بن حجاج بغداد، عبداللہ بن جندب اہواز، علی بن یقطین کوفہ، ابراہیم بن سلام اور اسامہ بن حفص نیشابور، علی بن حمزہ بطائنی اور عثمان بن عیسی مصر میں آپ کی وکالت کرتے تھے۔ امام علی مقام نے وکالت کے اس منظم اور منسجم نیٹ ورک کے ذریعے اپنے پیروکاروں سے رابطے کے ساتھ ساتھ حکومت کی سازشوں کا بھی بھرپور مقابلہ کیا۔