تحریر: سید نثار علی ترمذی
بشکریہ:اسلامی ٹائمز
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کے ساتھ بیٹھا ان کی زیارت میں مگن تھا کہ فرمانے لگے کہ ایک وقت تھا، جب بڑے بڑے ہوٹلوں میں شہید باقر الصدر پر سیمینار منعقد ہوتے تھے۔ اب ان کا یوم شہادت گزر جاتا ہے اور کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ دوسروں کا کیا گلہ کریں، ہم بھی انہیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اب ان کا یوم شہادت آنے والا ہے تو کیوں نا ان کی یاد میں محفل کا انعقاد کیا جائے۔؟ وہیں بیٹھے بیٹھے پروگرام طے پایا کہ فلییٹز ہوٹل میں سیمینار منعقد ہو اور شرکاء کو افطاری دی جائے، کیونکہ ماہِ رمضان کے دن تھے۔ مقررین طے ہوئے۔ شہید نے اس سیمینار کی صدارت کے لئے آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی مرحوم کو جو پاکستان میں امام خمینیؒ کے نمائندے تھے اور ماہ رمضان میں درس و تدریس کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے، کا نام تجویز کیا۔ نیز اس سیمینار کی افادیت کو دوچند کرنے کے لئے شہید باقر الصدر کی کتب کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔
وقت مقررہ پر ہال شرکاء سے بھر گیا۔ بہت سے لوگوں نے شہید کی کتب کو دیکھ کر حیرانگی کا اظہار کیا۔ ایک صحافی نے تو دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے اس شخصیت کو کہاں چھپا رکھا تھا۔ غرضیکہ آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی مرحوم نے اپنا خطبہ صدارت ارشاد فرماتے ہوئے کہا ’’گو کہ کسی شخصیت کے چلے جانے سے اس کی کمی تو دور نہیں ہوسکتی، اگر آج شہید باقرالصدرؒ اور استاد شہید مطہریؒ موجود ہوتے تو امام خمینیؒ کا خلا پر ہوسکتا تھا۔‘‘ یہاں چند سطریں اسی عظیم شخصیت کے بارے میں تحریر کی جا رہی ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں، جن کی قدر خود ان کی ملت نے نہیں کی، جس کے حقوق کے تحفظ کے لئے انہوں نے اپنی جان تک قربان کر دی۔ شہید باقر الصدرؒ 25 ذیقعدہ 1353ھ بمطابق یکم مارچ 1935ء کو کاظمین میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان دو سو سال سے زائد عرصے سے دینی ہدایت کا مرکز رہا ہے۔
آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد سید حیدر صدر مرجع تقلید میں سے تھے۔ اپنے زمانہ کے یگانہ انسان اور زہد و تقویٰ کا مظہر تھے۔ ان کا انتقال 1356ھ میں ہوا۔ شہید کی والدہ مرحوم آیت اللہ شیخ عبدالحسین آل یسٰین کی بیٹی تھیں۔ جو خود بھی عالمہ تھیں۔ اس مایہ ناز خاتون نے طولانی عمر پائی اور اپنے فرزند شہید باقرالصدرؒ اور بیٹی آمنہ بنت الھدیٰ شہیدہ کے جانسوز اور درد ناک سانحہ شہادت کا مشاہدہ کرنے کے بعد 1407ھ کو دعوت حق کو لبیک کہا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ اور اپنے بھائی سے حاصل کی۔ پھر کاظمین کے مدرسہ ’’منتدالنثر‘‘ سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کی ذہانت و خوش اخلاقی کے سبب اساتذہ اور طلاب آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اساتذہ آپ کو لائق اور ذہین طالب علم کے طور پر متعارف کرواتے تھے۔ آپ کی مقبولیت کا ایک سبب، آپ کی عزاداری امام حسین ؑ کے پروگراموں میں آپ کی تقریریں اور شعرخوانی تھی۔ آپ چھوٹی عمر میں بغیر لکنت کے رواں تقریر فرمایا کرتے تھے۔ لوگ آپ کی اس صلاحیت پر عش عش کر اٹھتے تھے۔
اپنی عالمہ والدہ کے مشورہ پر حوزہ علمیہ نجف اشرف تشریف لائے۔ آپ نے دو بزرگ شخصیات مرحوم آیت اللہ شیخ محمدؒ رضا آلِ یسٰین اور مرحوم آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی ؒ کے دروس میں شرکت کی، جن میں آپ کے اساتذہ بھی شریک ہوتے تھے۔ آپ کے بھائی نے آپ کے بارے میں یوں فرمایا؛ کہ ہمارے گراں قدر بھائی نے سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ہی تمام مدراج علمی کو طے کر لیا تھا۔ انہوں نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی بہن سیدہ بنت الھدیٰ کو بھی ابتدائی کتابوں کی تعلیم دی تھی اور شہیدہ سیدہ نے بھی کسی غیر مناسب گرلز اسکول میں قدم رکھے بغیر اپنے بھائی سے قرآن و حدیث، ادبیات، اصول وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ شہید صدرؒ اپنی سترہ اٹھارہ سال کی طالب علمی کی زندگی میں (شروع سے آخر تک) اگرچہ غیر معمولی ذہانت کے حامل رہے ہیں، لیکن پھر بھی روزانہ سولہ گھنٹے پڑھائی، مطالعہ، بحث و مباحثہ اور تحقیق میں صرف کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ خود بھی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں تنہا ہی کئی طالب علموں کے برابر محنت کرتا ہوں۔ ان کی اسی محنت و تلاش کا نتیجہ ہے کہ تمام مشکلات پر قابو پالیا اور علم و فضیلت کے بہت اعلیٰ درجے پر فائز ہوگئے۔
آپ نے گیارہ سال کی عمر میں منطق پڑھی اور اسی موضوع پر ایک کتاب لکھ ڈالی۔ ان کی اس کتاب کا موضوع وہ اعتراضات تھے، جو بعض منطقی کتابوں میں کئے گئے تھے۔ شیخ مرتضیٰ آلِ یسٰین 1370ھ میں رحلت کرگئے تو آپ نے ان کے رسالہ علمیہ ’’بلغۃ الراغبین‘‘ پر حاشیہ لکھا۔ جب حواشی کو متطم کر رہے تھے کہ شیخ عباس میثی نے آپ سے فرمایا کہ ’’آپ پر تقلید حرام ہے‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مسلم مجتہد ہیں۔ اس طرح آپ کا تعلیمی سلسلہ فقط 17 یا 18 سال تک جاری رہا۔ آپ نے رسمی طور پر 1378ھ میں اصول، درس خارج کہنا شروع کیا۔ یہ دورہ 1391ھ تک جاری رہا۔ اسی طرح آپ نے فقہ کا درس خارج کتاب ’’عروۃ الوثقٰی‘‘ سے 1381ھ میں شروع کیا جو برسوں جاری رہا۔
آپ کے شاگرد عزیز آیت اللہ سید کمال حیدری اپنے ایک انٹرویو میں شہید کی مرجعیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں یوں فرماتے ہیں؛ جب وہ نجف اشرف گئے تو اپنے استاد شیخ یوسف فقیہ سے جو خود بھی شہید صدر کے شاگرد تھے، ان سے دریافت کیا کہ وہ اب حوزہ علمیہ میں آگئے ہیں تو کس مجتہد کے درس میں شریک ہوں تو انہوں نے شہید صدر کے درس میں جانے کی سفارش کی۔ تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کیا وہ مجتہد ہیں۔؟ انہیں میرا سوال عجیب لگا۔ اس کے بعد آقا یوسف فقیہ نے مجھ سے کہا یعنی کیا مطلب وہ مجتہد ہیں یا نہیں؟ اس وقت آقا باقرالصدرؒ کے زیر نظر مجتہد پروان چڑھ رہے ہیں اور ان کا شاگرد بذات خود مجتہد ہے۔ لہٰذا انہوں نے شہید صدرؒ کے درس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ یہ 1976ء کی بات ہے۔ آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم کی رحلت کے بعد عرب اور بالخصوص عراق کے مؤمنین نے تقلید کے لئے آپ سے رجوع کیا۔
آیت اللہ کمال حیدری شہید باقر الصدرؒ کی خصوصیات بیان کیں۔ ان کی تلخیص پیش ہیں۔
ا) شہید صدر اپنے زمانے میں رائج فکری اور فلسفی مبانی (Bases) سے بخوبی آگاہ تھے۔ شہید صدر کی ایک خصوصیت ایک پیغام کی حامل ہے اور وہ یہ کہ اگر ہمارے حوزات علمیہ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیئے تو ان کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور دنیا کی فکر کے ساتھ ترقی کریں۔ چالیس سال پہلے کے سوالات آج کے سوالوں سے متفاوت ہیں۔ بدقسمتی سے ہم میں سے بعض جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شہید صدرؒ، شہید مطہریؒ اور علامہ طباطبائی ؒ جیسی عظیم شخصیات کی روش بھی یہی تھی، یعنی یہ لوگ اپنے دور کے مسائل کو مدِنظر رکھ کر اپنے علمی آثار مرتب کرتے تھے۔
ب) مرحوم شہید باقر الصدرؒ واقعاً اپنی ذات میں ایک مخزن علوم اور دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے یا کسی بھی مسئلے کے بارے میں تحقیق کا ارادہ کرتے تھے تو ان بحثوں میں ابتکار initiative اور تازگی نظر آتی تھی۔ فقہ، اصول، منطق، معرفت شناسی اور اقتصاد کے مبانی (Bases) میں شہید صدر کی روش دوسروں سے بہت متفاوت ہے۔
ج) شہید صدرؒ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اسلامی معاشرے کو درپیش عصری مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ ہمارے حوزات علمیہ کا بھی یہی فریضہ ہے۔ مثلاً آج کا ہمارا اصل چیلنج، جیسا کہ رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے بھی فرمایا ہے، معاشی مسائل ہیں۔ شہید صدر نے اپنی کتاب ’’اقتصادنا‘‘ میں اسلامی اقتصادی نظام کا تعارف پیش کیا۔
ھ) شہید صدر نے اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جو لائحہ عمل پیش کیا، وہ ایک اسلامی حکومت کا قیام ہے، جس کا نمونہ ایران میں ہے کہ ایک رہبر اور ولی امر ہو اور گارڈین کونسل جیسا ایک گروہ ہونا چاہیئے، جو رہبر کو مشورے دے۔ اسی کے شہید صدر قائل تھے کہ حوزات علمیہ کے مراجع عظام اس نظام کی دیکھ بھال، حفاظت اور نظارت کے ذمہ دار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔