تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
مسئلہ فلسطین کی تاریخ ایک سو سال سے زیادہ پر محیط ہے۔ فلسطینی عوام مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ غاصب صہیونی ریاست کے قیام کے لئے برطانوی اور یورپی اقدامات کے خلاف فلسطینی عوام ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے۔ آخر کار سرزمین فلسطین پر امریکہ، فرانس اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کی سازشوں کے نتیجہ میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل قائم کر دی گئی۔ فلسطین سمیت دنیا کی تمام اقوام اسرائیل کو ناجائز ریاست کا درجہ دیتی ہیں۔ پاکستان بھی اس ناجائز ریاست کو غاصب اور ناجائز تصور کرتا ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے بنائے گئے اصولوں اور نظریہ پاکستان کے مطابق اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ بہر حال غزہ کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔
آج جو کچھ ہو رہا ہے ہم سے اس کا جواب ضرور مانگا جائے گا لہذا ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرنی ہوگی اور سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرح فلسطین کے مظلوم عوام کی مدد کرسکتے ہیں اور کن اقدامات سے فلسطینیوں پر امریکی و صہیونی ظلم کو کم یا روک سکتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے مقصد کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو نہ صرف فلسطین کے مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لئے انتہائی اہم ہے۔ آج فلسطین کاز کو مضبوط بنانے کے لئے سب سے زیادہ ہمیں مسلمان معاشروں میں حتی مسیحی معاشروں اور اقوام کے درمیان جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہمارا اتحاد ہے۔ یعنی ایک عالمی اتحاد کی تشکیل جس میں مسلمان، عیسائی، صیہونزم مخالف یہودی اور دیگر تمام اقوام جو اسرائیل کو غاصب اور ناجائز تصور کرتے ہیں۔لہٰذا اس عنوان سے مسلم اُمّہ کی اقوام کی ذمہ داری زیادہ ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کی آزادی کے لئے سب سے اہم قدم امت مسلمہ کا اتحاد ہے۔ ہمیں اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بن کر فلسطین کے حق کے لئے کھڑا ہونا ہوگا۔ عالمی برادری کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایک اور اہم کام جو ہمیں موجودہ حالات میں انجام دینے کی ضرورت ہے وہ مسلم ممالک میں حکومتوں کا اسرائیل کے ساتھ تعلق بنانا اور نارملائزیشن کرنا ہے۔ ہمیں اس مسئلہ پر بھی اپنے اتحاد کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے خلاف آواز بلند کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں ان ممالک کو بھی بیدار کرنا ہوگا جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ نارملائزیشن دراصل فلسطینیوں کی جدوجہد اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ہمیں چاہیئے کہ ایسے کام انجام دیں جس کے ذریعہ عالمی برادری کو غاصب صیہونی اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے اور اس کے مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے اقدامات کرنے پر مجبور کریں۔ ایک اور اہم کام جو انجام دینے کی اشد ضرورت ہے وہ اپنی اپنی حکومت ان سے مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومتیں فلسطین کی آزادی کے لئے سفارتی اور قانونی اقدامات کو ترجییحی بنیادوں پر انجام دیں، عالمی فورمز پر فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ، اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جانی چاہیئے۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ اور دیگر قانونی ادارے اسرائیلی مظالم کے خلاف مقدمات چلائیں اور انصاف کو یقینی بنائیں۔
تعلیمی اداروں میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اس جدوجہد سے آگاہ رہیں۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعے فلسطینی عوام کے حقوق اور اسرائیلی مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا چاہیئے۔ اس کے لئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے تاکہ دنیا بھر میں فلسطین کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔ ہر فرد کی ذمہ دادی ہے کہ وہ اپنا اپنا حصہ شامل کریں۔ فلسطین کی حمایت میں معاشی بائیکاٹ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کا تجارتی یا سفارتی تعلق فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور فلسطینی عوام کے ساتھ خیانت ہے۔
ہمیں ان تمام کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے جو اسرائیل کی معیشت کو فروغ دے رہی ہیں، چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتی ہوں۔ یہ بائیکاٹ عالمی سطح پر اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس عنوان سے کھانے پینے اور استعمال کرنے کی اشیاء سمیت کمپیوٹر اور ڈیجیٹل دنیا سے تعلق رکھنے والی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہم سب کو مل کر فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیئے۔ یہ نہ صرف ہمارا مذہبی فریضہ ہے بلکہ اخلاقی و انسانی و سیاسی فریضہ بھی ہے۔ اس عنوان سے کسی قسم کی سستی اور کوتاہی سے اجتناب کرنا چاہیئے۔