بشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی
پیغمبر اعظم کی حکمرانی کا ایک اخلاقی مظہر معاشرے میں عدل و انصاف کا پھیلاؤ تھا، پیغمبر اکرم (ص) کا پہلا نعرہ یہ تھا کہ خدا کی نظر میں انسانوں کی برتری کا معیار عرب، عجم، سیاہ یا سفید ہونا نہیں بلکہ اہل تقوی ہونا ہے۔
اٹھائیسویں صفر المظفر، رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کا دن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک اہم ترین حصہ آپ کی سیرت اور طرز حکمرانی ہے تاکہ انسانوں کو سعادت کی منزل تک پہنچایا جا سکے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے اخلاقیات کے میدان میں کئی بنیادی اصولوں کے ذریعت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حکومت میں لوگوں کو جو پہلا سرمایہ فراہم کرتے ہیں وہ اخلاقی فضائل ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ تند رو اور سخت مزاج انسان ہوتے تو لوگ آپ کے اردگرد سے بکھر جاتے۔ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِینَ
جب رسول اللہ ص نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو چند سالوں کے بعد ان صحرائی بدووں کو مہذب اور مخلص بنا دیا کہ جنہوں نے فتح مکہ میں آپ کے ساتھ حصہ لیا۔
رسول اللہ ص نے انہی غیر مہذب لوگوں سے ایسی اصحاب کی تربیت فرمائی جنہوں نے خیبر، بدر، احد، غزوہ اور دیگر جنگوں میں حصہ لیا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے محبت اور خلوص کے ساتھ اپنی جانیں قربان کیں۔
مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج نامی دو قبیلے 120 سالوں تک ایک دوسرے سے لڑتے رہے لیکن نبی رحمت نے کچھ انتظامی اور اخلاقی اقدامات سے ان کے درمیان صلح کرادی۔
جس دور میں اوس اور خزرج نے یثرب پر غلبہ حاصل کیا، اس کے بارے میں کوئی صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ شہر کا انتظام کیسے چلایا جاتا تھا، خاص طور پر اس لیے کہ دونوں قبیلوں کے درمیان ایسی دشمنی تھی کہ اس کی وجہ سے خونریز اور طویل جنگیں اور تنازعات ہوئے، اور بلاشبہ یہودیوں نے دونوں قبیلوں کے درمیان فتنے کی آگ بھڑکائی۔
رسول اللہ ص کی حکمرانی کے دیگر اخلاقی مظاہر میں سے معاشرے میں عدل و انصاف کا پھیلاؤ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نعرہ یہ تھا کہ خدا کی نظر میں انسان کی برتری کا معیار عرب، عجم، کالے یا گورے ہونا نہیں ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے زیادہ عزت دار اہل تقوی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول نے امید کا چراغ جلایا ان لوگوں کے دلوں میں جو عدم مساوات میں پھنسے ہوئے تھے اور جبر اور امتیازی سلوک کی مذمت کرتے تھے۔ جب وہ لوگ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی ادبیات میں ناانصافی یا امتیاز کا کوئی ذکر نہیں ہے تو ان میں سے بہت سے لوگ آپ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
رسول اللہ ص کی دعوت عالمگیر تھی
نبی رحمت کی زندگی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ آپ نے پوری دنیا میں عدل و انصاف اور خدا پر ایمان پھیلانے کو اپنا مشن سمجھا۔ یہ حقیقت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کو دنیا کے لیے ایک عمومی دعوت قرار دیا ہے، یہ بھی قرآن کی آیات میں بیان ہوا ہے کہ دین اسلام جزیرہ نما عرب جیسی سرزمین سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام لوگوں کے لیے ہے۔ لیکن بہرصورت اس کا آغاز جغرافیائی اور علاقائی نقطہ نظر سے ہونا ناگزیر تھا، اسی وجہ سے جزیرہ نمائے عرب اسلام کا گہوارہ ہے اور اسے پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔ اسی علاقے میں پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت کے مختلف مراحل دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں تمام لوگوں کو مخاطب کیا تھا یا آپ نے ایک چھوٹی جماعت سے آغاز کیا تھا؟ جیسا کہ تاریخ میں ثابت ہے کہ معاشرے کے موجودہ حالات کے مطابق انہوں نے اسلام کی دعوت آہستہ آہستہ اور کئی مراحل میں دی۔
سب سے پہلے جن لوگوں کا اعلان حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہ وہ ہیں جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبی تعلق تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں انسانی مزاج کے اعتبار سے دوسرے لوگوں سے زیادہ پسندیدہ دیکھا۔ اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین سامعین وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد ہیں، وہ آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہداف ان کے لیے مانوس اور واضح ہیں۔
لہٰذا دعوت کے آغاز اور ابتدائی ایام میں پیغمبر اکرم ص کی زوجہ محترمہ اور امام علی (ع) کہ جن کی پرورش اور تعلیم آپ ص کے گھر میں ہوئی انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ بھی اسلام قبول کرتے ہیں۔ اس کے بعد زید بن حارثہ نامی ایک غلام جسے حضرت خدیجہ (س) نے خرید کر رسول اللہ (ص) کو بخش دیا تھا، نے اسلام قبول کر لیا۔
اس کے بعد رسول اللہ (ص) اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس تشریف لے گئے، جن لوگوں کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی، ان میں نوجوانوں کی موجودگی کافی واضح ہے۔
نوجوان اپنے مزاج اور سالم طبیعت کی وجہ سے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں دعوتِ رسول کو قبول کرنے کے لیے زیادہ تیار تھے، اس لیے عمار، سعد بن ابی وقاص اور زبیر جیسے نوجوان سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیک کہنے والوں میں شامل تھے اور انہوں نے آپ ص کی دعوت قبول کر لی۔
ایک اور گروہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ ہوا وہ غلام، یتیم، پابرہنہ اور وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ پہلا گروہ ہے جس میں گھر والے، جوان اور نادار لوگ شامل ہیں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے حلقے میں وہ اپنے قبیلے اور قبیلے کو اسلام کی دعوت دینے کا مشن پاتے ہیں۔ اس مشن کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جزیرہ العرب کا سماجی ڈھانچہ مکمل طور پر قبائلی ڈھانچہ تھا اور قبائلی ڈھانچے میں قبیلہ ہی ہوتا ہے جو لوگوں کی حمایت کرتا ہے اور اگر وہ قبیلہ کسی شخص کی حمایت کرتا ہے تو لوگ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جاہل معاشرے میں سہارا پانے کے لیے دوسرے مرحلے میں اپنے قبیلے کو اسلام کی دعوت دی۔ ان میں سے کچھ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا، اور کچھ نے ابو لہب کی طرح اسلام قبول نہیں کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی کرنے لگے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قبائلی حمایت پانے کے بعد، اگلے مرحلے میں عام لوگوں کو دعوت دینی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب لوگ کسی فکری اور اعتقادی مسئلے کو پھیلانا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اپنے رشتہ داروں، خاندان، دوستوں اور پھر معاشرے سے مخاطب ہونا چاہیے۔ مکہ کا معاشرہ وہ پہلا مقام ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عام ہوئی۔ اس دعوت میں مشرکین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخاطب کیا ہے۔
مشرکین مکہ نے بھی پیغمبر اسلام کی دعوت کے جواب میں مختلف طرز عمل کا مظاہرہ کیا اور پیغمبر اسلام (ص) ان کے سامنے اسلام کے بنیادی مقاصد کو پیش کرنے کے لئے کئی مراحل سے گزرے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کو وہ سب کچھ نہیں بتا سکتے تھے جو اسلام کے متن میں ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ کے لوگوں کو آہستہ آہستہ توحید، مساوات اور انصاف جیسی اسلام کی تعلیمات سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور پھر آخر کار ان کے عقائد اور خیالات کو چیلنج کیا۔
نبی رحمت کی قربانی اور عاجزی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی مظاہر میں سے ایک ان کی بے لوثی اور عاجزی ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتی زندگی میں ہمیشہ دولت اور سہولتیں لوگوں کے ساتھ بانٹیں اور غریبوں کا خیال رکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعمال نے لوگوں پرثابت کیا کہ وہ اپنے معاشرے کے محتاجوں کو نہیں بھولے۔ اس کے علاوہ غریبوں اور محروموں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اور عمل سے برکت ملی، وہ جانتے تھے کہ اگر کبھی مفلسی کا شکار ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حامی و مددگار ہوں گے۔
دوسرے اقدامات میں سے ایک جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتظامی نظام میں ہمیشہ لاگو کیا وہ آپ کی عاجزی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے عاجز اور حلیم تھے کہ اس زمانے کے طاغوت کے لوگوں نے بھی کہا کہ آپ کیوں نبی ہو کر اس بلند مقام کے ساتھ لوگوں کے درمیان اور بازاروں میں پھرتے ہیں اور مزدوروں، نوکروں اور غلاموں کے ساتھ بیٹھتے اور اٹھتے ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی کا نتیجہ تھا کہ جو بھی آپ کو اپنے دسترخوان پر مدعو کرتا تھا آپ اسے قبول کرتے تھے اور ان سے ان کی زبان اور ان کی سمجھ کے مطابق بات کرتے تھے۔
ایک اسلامی حکمران کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری اخلاقی خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ وہ اس وقت کے معاشرے کے مسائل اور مشکلات کا مقابلہ کرنے والوں کی صف اول میں تھے۔
ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بیٹھے ہوں اور صحابہ اور سپاہیوں کو قریش کے تجارتی قافلے سے لڑنے کے لیے بدر کے کنویں پر جانے کا حکم دیا ہو، بلکہ وہ خود جنگ اور جہاد میں پیش پیش ہوتے تھے۔
آپ کے اس عمل سے لوگوں کے دل آپ طرف جذب ہوئے، اسی لئے قرآن پاک کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کو تمہارے لیے نمونہ بنایا ہے، اگر تم کمال کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنا چاہتے ہو تو رسول اللہ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ اور معیار ہے۔ لہذا ہمیں اپنی ذاتی، سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی زندگی کے تمام پہلوؤں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔