QR codeQR code

جوہری ہتھیاروں کی جنگ

23 Sep 2024 گھنٹہ 15:56

لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ اب ایسی منطق کس حد تک کام کر سکتی ہے کہ یہ تنازعہ روسی ریاست کے دارالحکومت کے بالکل قریب میں ہو رہا ہے، کہیں دور جیسا کہ افغانستان ہے ، وہاں نہیں ہورہا۔ خاص طور پر چونکہ گزشتہ تیس سالوں میں نیٹو کی توسیع کی پالیسی نے امریکہ کے لیے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں جو اس کے لیے ایک طرح سے چیلنجز بھی ہیں۔


تحرین:نواز صدیق
بشکریہ:شفقنا اردو

 

1945 کے اواخر میں کئی افسانوی تصوراتی سماجوں پر مبنی کہانیوں کے ممتاز مصنف جارج آرویل نے ایک کالم شائع کیا جس کا عنوان تھا ‘آپ اور ایٹم بم’۔ قارئین کے ایک وسیع حلقے ے کو مخاطب کرتے ہوئے، 20 ویں صدی کے ادب کے اس کلاسک نے تجویز کیا کہ ۔ جوہری ہتھیاروں کے طور پر تکنیکی جدت جیسا کہ ایٹم بم ہے ، کس طرح تاریخ کے دھارے پر اتنے بڑے اثرات مرتب کر سکتے ہیں جو اس سے پہلے شاید ہی کبھی ہوئے ہوں۔ اب ہم شاید ایک ایسے وقت کے قریب پہنچ رہے ہیں جب عالمی سیاست کا دھارا یا تو اورویل کے فیصلے اور اس پر مبنی پیشین گوئیوں کی تصدیق کرے گا یا – افسوسناک طور پر – ان کو غلط ثابت کرے گا۔

معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے، یہاں تک کہ جوہری طاقتوں کے درمیان ماضی کے عالمی تناؤ سے سبق سیکھنا بھی کوئی مجرب نسخہ نہیں ہے: گزشتہ تیس سالوں میں دنیا میں ان کی پوزیشن میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، اور سب سے شدید، بالواسطہ تنازعہ روس کے مرکزی انتظامی اداروں اور صنعتی مراکز کے قریب جسمانی طور پر ہو رہا ہے۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے سنجیدہ مبصرین اس بارے میں کچھ شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں کہ آیا امریکہ کی حکمت عملی، جو کہ عمومی طور پر 1945 سے 1991 تک ماسکو کے ساتھ تصادم کی منطق کو بطور مشابہت اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہے، درست ہے۔

اگر ہم اورویل کے قیاس کا خلاصہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ اس حقیقت پر منتج ہوتا ہے کہ دو یا تین طاقتوں کی طرف سے نہ صرف ایک دوسرے کو بلکہ پوری انسانیت کو تباہ کرنے کے ایسے زبردست مواقع کا حصول دنیا کی تاریخ کے پورے انداز کو بدل دیتا ہے۔ اس سے پہلے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، یہ ہمیشہ طاقتوں کی موجودہ عالمی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت پر مبنی تھا، اور اس طرح کے انقلابات کے نتائج اگلے کے لیے بنیادبن گئے۔ ایٹم بم کے بعد، اورویل نے لکھا، دنیا کی تمام اقوام کو یہ سوچنے سے بھی روک دیا گیا ہے کہ ان کے لیے ایسا اقدام کامیاب ہو سکتا ہے۔ جوہری طاقتیں ایسا اس لیے نہیں کر سکتیں کہ عالمی جنگ ان کی یقینی تباہی کا باعث بن سکتی ہے، اور چھوٹے اور درمیانے درجے کی طاقتیں اپنی فوجوں کی نسبتاً کمزوری کی وجہ سے یہ نہیں کر سکتیں۔ ظاہری طور پر ، یہ سچ معلوم ہوتا ہے کہ پرانے طریقوں کے مطابق کام کر کے، یعنی فوجی طاقت کا سہارا لے کر، اب کوئی بھی ترقی پذیر طاقت دنیا میں اپنی پوزیشن کو معیار کے مطابق نہیں بدل سکتی۔

لہٰذا یہ محاورہ کہ ایٹمی طاقت کو جنگ میں شکست دینا ناممکن ہے اور خود اس کے لیے خطرہ صرف وہ خود ہے۔ اس کا مطلب بنتا ہے کہ یہ اس کے سیاسی نظام کی اپنی آبادی کو نسبتاً ہم آہنگی میں رکھنے کی نااہلی ہے۔ جیسا کہ اورویل لکھتا ہے: "اگر، جیسا کہ ایسا لگتا ہے، [ایٹمی بم] ایک نایاب اور مہنگی چیز ہے جتنا کہ ایک جنگی جہاز بنانا مشکل ہے، تو ایک ایسے امن کو لامتناہی طور پر طویل کرنے کی قیمت پر ، جو درحقیقت امن نہیں ہے ، بڑے پیمانے پر جنگوں کو ختم کرنے کا امکان غالب ہوسکتاہے۔ ۔ یہاں تک کہ اقتصادی طور پر طاقتور چین کے پاس بھی ابھی تک روس اور امریکہ کے مقابلے کے ہتھیار نہیں ہیں۔ دوسری بڑی جنگوں کے خاتمے کے لیے مزید ثبوت کی ضرورت ہے (تباہ کن اسلحے کی موجودگی کی)۔ لیکن اس کا جمع ہونا ،آج عالمی سیاست کو درپیش اہم مسئلہ ہے، یہ ہمارے اپنے مستقبل کے بارے میں ہمارے خیالات کے لیے خواہ کتنا ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔

اورویل لکھتے ہیں کہ جوہری سپر پاور ایسی ریاستیں ہیں جو ناقابل تسخیر ہیں اور اس لیے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ’سرد جنگ‘ کی مستقل حالت میں ہیں۔ ہاں، بالکل ایسا ہی لگتا ہے، کیونکہ سرد جنگ کو گرم جنگ کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو شک ہے کہ امریکی یا روسی خارجہ پالیسی کا برتاؤ ان کے متعلقہ پڑوسیوں کے لیے مکمل طور پر تسلی بخش ہے۔ یہ خا ص طور پر امریکیوں کے معاملے میں ہے کہ، جن کے لیے دوسروں پر کنٹرول ان کی اپنی خوشحالی کا ایک اہم حصہ ہے، جیسا کہ سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سپانسرز سمجھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ہم نے کئی مثالیں دیکھی ہیں کہ امریکہ اپنے یورپی یا ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ بہت سخت سلوک کرتا ہے۔ روس اور مغرب کے درمیان تنازع میں جرمنی اپنی اقتصادی مراعات کھو چکا ہے۔ فرانس کو امریکہ کے جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے کم تر حیثیت کا مالک بنا دیا گیا ہے، حالانکہ اس کے پاس اپنے کچھ جوہری ہتھیار ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا کے ایشیائی ممالک کا ذکر ہی کیا ، جن کی خارجہ پالیسی کا تعین اکثر واشنگٹن کےبراہ راست دباؤ میں ہوتاہے۔ مندرجہ بالا ممالک میں سے کوئی بھی اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔

سرد جنگ، اصطلاح کے اورویلین معنوں میں، اس طرح جوہری دور میں عالمی سیاست کی سب سے اہم خصوصیت بنی ہوئی ہے۔ اور یہ بالکل بھی حیران کن نہیں ہے کہ امریکہ کا طرز عمل ان اصولوں کے مطابق ہے جو اس نے گزشتہ دہائیوں میں سیکھے ہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم ان لوگوں کے انجام کی ذمہ داری کا فقدان ہے جن کے ہاتھوں سے امریکہ اپنی پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ محض اس لیے کہ امریکا اپنی سلامتی کو ان ممالک کی بقا سے نہیں جوڑتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دشمن کے ممکنہ ردعمل کو پوری طرح نہیں سمجھ سکتا۔ چونکہ پراکسی یا پٹھو ریاست کےباشندے امریکہ کے سرکاری نمائندے یا شہری نہیں ہیں، اس لیے واشنگٹن کو لگتا ہے کہ وہ ان کے اعمال کے لیے باضابطہ طور پر ذمہ دار نہیں ہے۔ کچھ مبصرین نے نشاندہی کی ہے کہ شام میں کچھ بنیاد پرست تحریکوں کو بیرون ملک سے حمایت ملتی ہے – مثال کے طور پر ترکی سے – لیکن اس کا روس کے اسپانسرز کے ساتھ تعلقات پر بہت کم اثر پڑا ہے۔

چین نے ایک بار جنوب مشرقی ایشیا میں بنیاد پرست مارکسی تحریکوں کو فعال طور پر استعمال کیا اور انہیں مختلف قسم کی مدد فراہم کی۔ تاہم، اس سے اس کے تعلقات ان ممالک کے ساتھ نہیں بدلے جہاں ایسے گروپ ایک طر ح کی حالت جنگ میں سرگرم تھے۔ اسی طرح USSR نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف سرگرم مختلف باغی تحریکوں کی بھی حمایت کی۔ لیکن واشنگٹن نے اسے ایک بڑے تنازعے کی وجہ کے طور پر نہیں دیکھا۔ کسی بھی عام ریاست کے نقطہ نظر سے، صرف دوسری ریاست کی طرف سے اس کی قومی سرزمین پر براہ راست جارحیت ہی جنگ کی وجہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ کو یقین نہیں ہے کہ یوکرین میں اس کے اقدامات روس کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بن سکتے ہیں۔

لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ اب ایسی منطق کس حد تک کام کر سکتی ہے کہ یہ تنازعہ روسی ریاست کے دارالحکومت کے بالکل قریب میں ہو رہا ہے، کہیں دور جیسا کہ افغانستان ہے ، وہاں نہیں ہورہا۔ خاص طور پر چونکہ گزشتہ تیس سالوں میں نیٹو کی توسیع کی پالیسی نے امریکہ کے لیے بہت سے مواقع پیدا کیے ہیں جو اس کے لیے ایک طرح سے چیلنجز بھی ہیں۔ آخر کار، یورپ میں، خاص طور پر مشرقی یورپ میں، بلاک کے اراکین کو واشنگٹن اور ماسکو میں امریکی پراکسیوں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھا جاتا ہے، جن کی اپنی دشمنیوں میں شمولیت کا روس اور امریکہ کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کے مفروضے پر مبنی منظر نامے میں ممکنہ خطرات اوبہت زیادہ ہیں۔

نہ ہی ہمیں بڑی طاقتوں کی خارجہ پالیسی کی پوزیشنوں اور ان کے داخلی استحکام کے درمیان ربط کو نظر انداز کرنا چاہیےس جسے پوری طر ح سے نہیں سمجھا گیا ہے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں زیادہ تر امریکی گھبراہٹ کا تعلق عالمی سیاسی اور اقتصادی نظام کے مجموعی کار کردگی سے اس کے مسلسل مستفید ہوتے رہنے کی ضرورت سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ کے لیے اپنی سوچ کے جمود کی وجہ سے نہ صرف اس معاملے میں تبدیلی کو قبول کرنا مشکل ہے بلکہ یہ اس وقت تک خطرناک ثابت ہو سکتا ہے جب تک امریکی اسٹیبلشمنٹ اندرون ملک حالات کو قابو میں رکھنے کے دیگر موثر طریقے تلاش نہیں کرتی۔ امریکی سوچ کا یہ انداز اس لیے بھی ہے کہ چونکہ 1970 کی دہائی کے وسط سے مغرب کی طرف سے پیدا کردہ سماجی و اقتصادی نظام کا عمومی بحران دور نہیں ہو رہا ہے بلکہ زور پکڑ رہا ہے۔ ہاں یہ درست ہو سکتاہے کہ ، عام طور پر، جوہری ہتھیاروں کے بھاری ذخیرے کے ساتھ دو یا تین بڑی فوجی طاقتوں کی موجودگی روایتی معنوں میں عام جنگ کے امکانات کو کم کر دیتی ہے۔ لیکن تصادم اور امن کے بارے میں کلاسیکی سوچ رکھنے والوں کے ذریعہ وعدہ شدہ ’امن جو امن نہیں ہے‘ اب بھی ایک توازنی عمل کی حالت میں ہے ایک ایسا توازن جوکسی ایسی چیز کے کنارے پر ہے، جو تمام نظریاتی مفروضوں کو بے معنی بنا دے گی۔


خبر کا کوڈ: 651329

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/article/651329/جوہری-ہتھیاروں-کی-جنگ

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com