بشکریہ:مہر خبررساں ایجنسی
صیہونیوں کے لئے ٹرمپ کے جتن اور جنوبی لبنان کی جنگی صورت حال کا جائزہ عرب دنیا کے اخبارات کی توجہ کا مرکز بنا۔
امریکہ کے نئے صدر نے جس طرح اپنے پہلے دور اقتدار میں ملک کا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر کے صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ خدمت کی تھی، اب دوبارہ برسر اقتدار آنے پر وہ پھر سے صیہونیت نوازی کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔
اس حوالے سے روزنامہ رائ الیوم نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ صہیونیوں نے امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے لیے ٹرمپ کی پہلی مہم کے لیے 40 ملین ڈالر خرچ کیے اور اس بقر ان کی حریف ہیرس کے خلاف مزید 100 ملین ڈالر مقبوضہ علاقے کی توسیع کے لیے خرچ کئے ہیں۔ اس طرح ٹرمپ نے تل ابیب کو مصر کے صحرائے سینا اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر قبضہ دلوا کر مقبوضہ علاقوں کی توسیع کا عہد کیا ہے، وہ صیہونی حکومت کے قبضے کو سعودی عرب کی سرحدوں تک پھیلانے پر مصر ہیں۔ لہذا اب بھی اگر کوئی دو ریاستی حل کے بارے میں سوچ رہا ہے تو وہ اس جھوٹے سراب اور احمقوں کی جنت سے نکل جائے کیونکہ ایسا کوئی منصوبہ صیہونی کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
روزنامہ القدس العربی نے لکھا کہ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ نیتن یاہو کی طرف سے غزہ کی پٹی میں جنگ کو طول دینے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی ایک وجہ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں واپسی کی امید تھی کیونکہ وہ صیہونی حکومت کی آنکھیں بند کر کے حمایت کرتا ہے۔ اور اپنے دور صدارت میں امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے علاوہ، انہوں نے مقبوضہ شام کی گولان کی پہاڑیوں میں صیہونی حکومت کی بستیوں کو تسلیم کیا اور عرب ممالک اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو تیز کر دیا۔
لبنانی روزنامہ الاخبار نے "دشمن وسیع تر تنازعات کے خوف سے لبنان میں سیاسی حل کی تلاش میں ہے" کی سرخی کے ساتھ اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ گزشتہ دنوں سے صیہونی افواج سرحد میں کوئی پیش قدمی نہیں کر سکی ہیں، دریں اثناء مزاحمتی فورسز نے مقبوضہ علاقوں یا لبنان کے سرحدی علاقوں میں ان فوجیوں پر تباہ کن میزائل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کارروائیوں کے تسلسل اور مزاحمتی فورسز کی میدانی برتری نے صیہونی کمانڈروں کو زمینی جارحیت کے خاتمے پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کیونکہ صہیونی فوجی مزید اپنی پوزیشن پر نہیں رہ سکتے۔ انہیں یا تو پیش قدمی کرنی ہوگی یا پھر ہمیشہ کی طرح دم دبا کر بھاگنا ہوگا۔ اسی لئے اسرائیلی فوج کابینہ کی رائے کا انتظار کر رہی ہے۔
اسی دوران صیہونی حکومت کے چینل 13 نے اس بات پر زور دیا کہ فوج جلد ہی اپنے آپریشن کے خاتمے کا اعلان کرے گی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صہیونی حکام کی طرف سے حزب اللہ کی تباہی کے بارے میں جو کہانیاں سنائی جاتی ہیں وہ ان دنوں سننے کو نہیں ملتی، بلکہ الٹا حزب اللہ کے ہاتھوں ان کی درگت بنائے جانے کی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں۔
شام کے اخبار الثورۃ نے لکھا ہے کہ امریکہ کی بنیاد ہی دہشت گردی اور ریڈ انڈینز کے قتل عام پر رکھی گئی ہے۔ یہ دنیا بھر میں ایک کرپٹ پولیس کا کردار ادا کرتا ہے جو قتل و غارت پھیلانے، ملکوں پر قبضہ کرنے اور بین الاقوامی بحران پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون اس ملک کا صدر بنتا ہے، امریکی پالیسیاں انتشار پھیلانے اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے لئے بین الاقوامی ساہوکاروں کے ہاتھوں سے چلتی ہیں۔
اس ملک نے اپنے شوم مقاصد کے لیے ویت نام، عراق، افغانستان، شام، فلسطین، لیبیا میں لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا ہے۔
شام کے روزنامہ الوطن نے لکھا کہ صیہونی رجیم کے متعدد فوجی کمانڈروں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے نتن یاہو کے فتح حاصل کرنے کے نعرے کا مذاق اڑایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کا حصول ممکن نہیں۔ صیہونی حکومت نے ہمیشہ قلیل مدتی جنگوں میں داخل ہونے کی کوشش کی ہے لیکن اب وہ ایک سال اور کئی ماہ کی جنگوں میں پھنس چکی ہے۔
تل ابیب حکام جانتے ہیں کہ یہ حکومت طویل جنگوں کی سکت نہیں رکھتی کیونکہ اس نے ریزرو فورسز پر بھاری اخراجات عائد کیے ہیں اور فوج کے پاس اتنی تازہ توانائی نہیں ہے کہ وہ ان جنگوں کو جاری رکھ سکے۔ صیہونی حکومت کو فوجی خدمات کا پہلا بحران مصر اور شام کی اس رجیم کے خلاف 1967 سے 1970 تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران پیش آیا۔
روزنامہ المراقب العراقی نے لکھا کہ مشرق وسطیٰ کے نئے نقشے کے نفاذ اور دریائے نیل سے فرات تک صیہونی حکومت کے قیام کے اعلان کے لیے خطے میں مزاحمت کے محور کو ختم کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ محور جو صیہونی حکومت اور امریکہ کے منصوبوں کے خلاف واحد رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ اس حکومت کی فوج مزاحمتی فورسز کو شکست دینے کی خام خیالی میں مبتلاء تھی کیونکہ صیہونی فوج کو مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جنگ کے آغاز میں تل ابیب حکام نے کہا تھا کہ مزاحمتی فورسز ایک سے دو ماہ سے زیادہ نہیں چل سکتیں لیکن یہ خیال جلد ہی ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا جس نے مغربی ممالک کو تھکا دیا ہے۔
یمنی اخبار المسیرہ نے لکھا ہے کہ امریکہ خود کو عالمی رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ اس نے کشمیر، قبرص، مقبوضہ شامی گولان، لبنان، یمن اور فلسطین سمیت بین الاقوامی بحرانوں کو حل کرنے کا کوئی راستہ تلاش نہیں کیا۔
امریکی صدور صیہونی حکومت کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں اور فلسطینی اپنی آزاد ریاست کے قیام کی امید کھو چکے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہموں میں خطے میں جنگوں کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ صیہونی حکومت کو بچانے کے لیے ان کے عزم کو دیکھتے ہوئے یہ جنگیں کیسے ختم ہوتی ہیں۔