اسلامی مسالک کے درمیان قربت اور یکجہتی کی اسلامی ثقافت کو فروغ دینے اور امت اسلامی کے دشمنوں کی سازشوں سے عوام کو باخبر کرنے کے حوالے سے درس اسلام کے عنوان سے عالمی مجلس برای تقریب مذاہب اسلامی کی نمایندگی برای کشمیر نے ٹی پر محفل مذاکرہ کا سلسلہ 22 جون2012 سے شروع کیا ہے جسکی تیسری محفل کی آخری نشست کی گفتگو قارئین کے نذر ہے۔
عبدالحسین:آج نیمۂ شعبان ہے (یہ پروگرام 15 شعبان کو جے کے چینل سے نشر ہوا)ولادت ہے امام زمان (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی اور آپ منجی عالم بشریت ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ان کے ظہور سے ہی دنیا میں عدل و انصاف قائم ہوگا ۔ اگرچہ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند ہیں اور سنی کہتے ہیں کہ نہیں اولاد فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں سے ہونگے ضرور مگر ابھی انکا تولد نہیں ہوا ہے۔ غرض دونوں کا مشترک ایک ہی عقیدہ ہے کہ منجی عالم بشریت کو ظہور کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھرنا ہے۔ میں تینوں حضرات سے یہی جاننا چاہوں گا کہ مختصر الفاظ میں کہ آپ کے ظہور سے پہلے اسلامی معاشرے کو دنیا بھر میں عدل و انصاف قائم کرنے اور ظلم کا خاتمہ کرنے کیلئے ہمیں عملی طور کیا کرنا چاہئے۔ پہلے جناب میر واعظ صاحب؟
میرواعظ مولانا سید عبدالطیف بخاری صاحب: انسان سماج میں رہتا ہے کوئی تنہا زندگی نہیں گزارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت گویاہی دی ہے تاکہ دوسروں کے ساتھ بات کر سکے۔ قوت سماعت دی ہے تاکہ دوسروں کی بات سن سکے ، قوت بصارت دی ہے تاکہ دوسروں کو دیکھ سکے۔ تو جو انسان کی ساری زندگی ہے یہ سماج سے ہی وابستہ ہے ۔ کسی اخلاق کا کسی نیکی کا کوئی تصور سماج سے باہر نہیں ہے۔ تو انسان فطرتاً سماج میں ہی رہتا ہے تو جو سماج کے جتنے بھی تعلقات ہیں تو اسلام اسی لئے آیا ہے کہ تمام جو تعلقات ہیں وہ عدل کی بنیاد پر قائم ہوں، محبت کی بنیاد پر قائم ہو، شفقت کی بنیاد پر قائم ہو ۔ تو ہمیں اپنے سماج میں جو اخلاقی قدریں ہیں اُن کو فروغ دینا چاہئے ، ان کو بڑھانے کے لئے ہمیں کام کرنا چاہئے ، چونکہ اسلام کو زیادہ سے زیادہ ہمیں کردار سے جوڑنا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے جو ہمارے علماء ہیں وہ کردار کی بات تو کرتے ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ اگر نماز کی بات کرنی ہے تو اس کا تعلق بھی کردار سے ہے، اخلاق سے ہے، روزے کا تعلق ہے تو کردار سے تعلق ہے، زکوٰۃ ، حج سب اعمال کا تعلق کردار کے ساتھ ہے لیکن ہم تو صرف اعمال کی فضیلت لوگوں کو بتاتے ہیں ، تو کردار کے ساتھ کیا واسطہ ہے ، سماجی زندگی پر کیا اثرات پڑتے ہیں ایک فرد کے کردار سے اور سماجی تعلقات کس طرح بہتر ہوسکتے ہیں ، صحیح بنیادوں پر کس طرح قائم ہوسکتے ہیں ۔ تو اس کی طرف علماء کو توجہ دینے کی ضرورت ہے،کردار سازی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اتحاد کی اہمیت لو گوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ اس وقت سب سے زیادہ اہم کام ہے جو ہمیں کرنا چاہئے۔
عبدالحسین: تو سید حسین صاحب آپ بتائیے کہ مصلح کل کے ظہور کے لئے ہم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟
حجت الاسلام والمسلمین سید محمد حسین موسوی:اس کے لئے تمام مسلمانوں کے علماء کو پہلے اکھٹے ہوکر ایک جھٹ ہوکر ، آپسی اختلاف کو چھوڑ کر اصلاحی باتوں کو آگے بڑھانا ہے۔ جو متفاست ہیں جس طرح خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو مشن ہے ایک بات کہہ کر تمام اقوام کو متحد کیا " تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّہ"‘( اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں)ہم ایک خدا کی عبادت کرینگے ، ایک ہی فرمان تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا۔ آنحضرت نے اسوقت ایک ہی بات فرمائی تھی کہ خدا کو مانو۔ بس۔ لیکن اس وقت ہمارا خدا ایک ہے، نبی بھی ایک ہے، قرآن بھی ایک ہے اور باقی واجبات بھی سب ایک ہے۔ یہ تو سب ایک ہے۔ اب ہمیں آگے بڑھنا ہے ، آپس میں علماؤں کو اتفاق کرنا ہے، اور پھر عوام کے پاس جانا ہے ۔ لیکن وہ علماء یہ کام کرسکتے ہیں جو پہلے اپنے نفس کی اصلاح کریں۔پھر" قُوا أَنْفُسَكُمْ "۔ پھر اپنا گھر سدھارنا ہے "وَ أَهْليكُمْ ناراً " پھر آگے چلنا سیاست مدن کے لئے ، اس عالم کو صرف اپنے من کی بات نہیں کرنی ہے، اس کو قیامت میں جواب دینا ہے۔ اس کو ایسا دین سکھانا ہے، ایسا کردار سکھانا ہے، جسے خدا بھی راضی ہوجائے اور رسول بھی راضی ہوجائے۔
عبدالحسین: مولانا قانونگو صاحب آپ امام زمان(عج) کے ظہور کے نسبت کیا کہنا چاہیں گے ؟
مولانا قانونگو: میں پہلے آپ کے سوال کو تھوڑا تصحیح کرونگا ۔ امام کے ظہور کے لئے نہیں ، بلکہ امام صاحب الزمان کے ظہور تک ہم پر کیا ذمہ داری ہے؟۔
یہ خلافت کو قلع قمع کرنے کے لئے جناب امام مھدی (عج) رضی اللہ تعالی عنہ اور علیہ السلام کو اس میں مبلغہ آمز نہیں ہے کہ ہمارا بھی ایمان یہی ہے کہ اہلبیت طاہرین (ع) ، ائمۃ المعصومین (ع) اور جن چیزوں کی وہ تجدید فرمائینگے ، خرافات کی قلع قمع اور ان کی تجدید یہ پہلے ہی نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن و احادیث کے ذریعے سے فرمایا۔ اب نفسانی خواہشات پر ، دنیا کے محبت کی وجہ سے ،حلال اور حرام میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے ، حق اور باطل میں تمیز نہ کرنے کی وجہ سے یہ ایک ساتھ میں مل جل گیا ہے۔ اور علمائے حق پر یہی ذمہ داری ہے وہ ظہور تک اس حق اور باطل میں تمیز کو سمجھانے کے لئے سامنے آئیں۔ کیوں تب تک ہر عالم اگر چہ وہ حقیقتاً امام مھدی (عج) نہیں ہے مگر وقت کا وہ انشاء اللہ ہر وقت میں وہ امام مھدی (عج) کی نیابت میں ہے۔ کیونکہ علامہ اقبال فرما رہے ہیں:
اگر پندی ز درویشی بگیری_____ہزار امت بمیرد تو نہ میری
بتولی باش و پنہاں شو ازیں عصر_____کہ در آغوش شبیری بگیری
اگر تو بھی فاطمۃ الزہرا (سلام اللہ علیہا) کی طرح زندگی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تیرے گود میں وقت کا حسین عطا فرمائے گا۔ اور عالم دین ہر وقت نیابت میں ہے امام مھدی (عج) کے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میری نیابت میں ہیں علماء ۔ جب عالم دین حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیابت میں ہے۔ کیا آنے والے امام مھدی (عج) کے تب تک وہ اسکے نیابت میں نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہور تک ہمیں وہ کام کرنے ہیں امر بالمعروف جو خطبہ دیا ہے قادسیہ پر حضرت امام حسین علیہ السلام نے کہ اللہ تعالیٰ نے کہ کیوں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع یہ جملہ فرمایا ‘کنت خیر امۃ تعملون بالمعروف و تنھون عن المنکر’ مجھے لڑائی نہیں ہے یزید کے ساتھ بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ خبردار"من رأى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم الله، ناكثاً لعهد الله، عاملاً بعباد الله بالإثم والعدوان ولم يغيِّر عليه بقول أو فعل كان على الله أن يدخله مُدْخله" لہٰذا حسین علیہ السلام نے ذاتی مسائل پر لڑا نہیں کی بلکہ ایک نصب العین مجروح ہوتے ہوئے دیکھا۔ اور ہر وقت حسین کا کردار ہر عالم کو نبھانا ہے۔ امام مھدی علیہ السلام جانبین کی طرف احادیث میں موجود ہے کہ امام مھدی (عج) آنے والے ہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کی اقتداء میں نماز ادا کرینگے۔ حضرت عیسی علیہ السلام فرمائيں گے اگرچہ میں نبی ہوں مگر میری شریعت اس وقت معطل ہے ، شریعت اس وقت موجود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ ان کے جانشین ہیں اور آپ ان کے فرزندان میں سے ہیں لہٰذا امامت کرنے کا حق آپ کا ہے
عبدالحسین:بہت بہت شکریہ تو اس پر ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ الحمد للہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ جہاں پر بھی اختلاف کی باتیں شیعوں کو سنیوں کے خلاف بتایا جارہا ہے اور سنیوں کو شیعوں کے خلاف یہ سامراجی چالیں ہوسکتی ہیں کہ مسلمان دست بہ گریباں ہوں اور جہاں تک امام زمان حضرت مھدی (عج) کے ظہور کا سوال ہے اس میں علماء کو سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ زہد اور تقویٰ کے لباس میں عوام کو اس انصاف اور اصلاح کی عملی تربیت کر یں جس سے ظہور کے مقدمات فراہم ہو سکیں ۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔