مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے رہنما کا انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ اگر خواص حقیقی وحدت اختیار نہیں کریں گے تو ملت کے نقصان کے وہ سب ذمہ دار ہیں۔ ملت نے قیادتوں کے حکم پر ہر دفعہ دل و جان سے لبیک کہا، چاہے گولی چل رہی تھی، چاہے سخت ترین حالات تھے۔ وہ مفتی جعفر اعلی اللہ مقامہ کے زمانے میں وہ شیعہ کنونشن اسلام آباد ہو، یا قرآن و سنت کانفرنس ہو یا اس کے بعد کے جو اجتماعات تھے، یا آج مجلس وحدت مسلمین کے اجتماعات ہو رہے ہیں۔ ملت نے ہمیشہ وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ عوام سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں نکلے ہیں۔ لہذا عمائدین کو بھی چاہیے کہ تھوڑا درد دل رکھیں۔ اب صرف ملت تشیع کا دفاع مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک پاکستان کے دفاع کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ یہ خونخوار درندے وطن کے بھی اتنے ہی دشمن ہیں، جتنے شیعہ سنی کے دشمن ہیں۔
تقریب نیوز (تنا): امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے سابق مرکزی صدر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شبیر حسین بخاری کا تعلق مظفر آباد آزاد کشمیر پاکستان سے ہے۔ آپ اس وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری شعبہ امور تنظیم سازی کی حیثیت سے ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ مولانا شبیر بخاری کا شمار بانی آئی ایس او پاکستان شہید ڈاکٹر سید محمد علی نقوی (رہ) کے خاص رفقاء میں ہوتا ہے۔ آپ نے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کے آثار کی جمع آوری کے حوالے سے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ برسی شہید قائد کے موقع پر اسلام ٹائمز نے مولانا سید شبیر حسین بخاری سے خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
بارہ کہو خودکش حملہ جس میں ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی، سکیورٹی کے بہتر اقدامات ہونے کے باعث کئی قیمتی جانیں بچ گئیں، اس واقعہ کے حوالہ سے بتائیں۔؟
دشمن سخت صورتحال دیکھتے ہوئے پوری تیاری کے ساتھ حملہ آور ہوئے تھے۔ خداوند قدوس نے اپنی عنایات اور اہل بیت (ع) کے لطف و کرم کے صدقے میں ہم نقصانات سے بچ گئے۔ لیکن یہ واقعہ ہمیں بہت سے پیغامات دیتا ہے جو ہمارے لئے قابل استفادہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارا دشمن قسم کھایا ہوا، خونخوار و درندہ ہے۔ جس کے لئے خون بہانا، قتل کرنا معمولی سی بات ہے۔ لہذا ہم اپنے دشمن کے بارے میں واضح ہوں اور وہ دشمن صرف شیعہ کا دشمن نہیں ہے۔ ان کا رخ کسی بھی انسانی گروہ کی طرف ہوسکتا ہے۔ وہ نہ صرف شیعہ سنی کا دشمن ہے بلکہ فوج، بچوں، عورتوں کسی میں وہ فرق نہیں کرتے۔ ان کی زبان پر خون کا مزہ چڑھ گیا ہے، اسے یہ ترک نہیں کرسکتے۔
لہذا ہمیں بھی اس حوالے سے ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی۔ اس سلسلہ میں قوانین کے اندر رہتے ہوئے، حکومتی اداروں سے تعاون لیتے ہوئے، اپنی داخلی وحدت و جوانوں کی تربیت کے ذریعہ ممکنہ حملوں سے بچنے کی تیاری کرنا ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ خونخوار دشمن کی نظروں میں سنی شیعہ، ایم ڈبلیو ایم یا کسی دوسرے گروہ کا فرق نہیں ہے۔ اگر انہوں نے یہ اسٹریٹجی بنائی ہے کہ انہوں نے اہل بیت (ع) کے ماننے والوں کو ٹارگٹ کرنا ہے تو ہمیں بھی اہل بیت کے ماننے والے بن کر وحدت کا دامن تھامنا ہوگا۔ ایک عرصہ تک ہم سوچتے تھے کہ نمائشی وحدت ہو، دشمن کے لئے صرف ہم شو کر دیں۔
لیکن دشمن کے پے درپے حملوں نے ہمیں متوجہ کر دیا ہے کہ ہمیں حقیقی وحدت کی ضرورت ہے۔ دلوں کی وحدت کی ضرورت ہے، دھوکہ دہی والی وحدت کی اہمیت نہیں ہے۔ حقیقی وحدت کے ذریعہ ملت کے عمائدین دشمن کے خلاف ملکی سطح پر اسٹریٹجی بنائیں۔ اگر خواص یہ کام نہیں کریں گے تو ملت کے نقصان کے وہ سب ذمہ دار ہیں۔ ملت نے قیادتوں کے حکم پر ہر دفعہ دل و جان سے لبیک کہا، چاہے گولی چل رہی تھی، چاہے سخت ترین حالات تھے۔ وہ مفتی جعفر اعلی اللہ مقامہ کے زمانے میں وہ شیعہ کنونشن اسلام آباد ہو، یا قرآن و سنت کانفرنس ہو یا اس کے بعد کے جو اجتماعات تھے، یا آج مجلس وحدت مسلمین کے اجتماعات ہو رہے ہیں۔ ملت نے ہمیشہ وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ عوام سر پر کفن باندھ کر میدان عمل میں نکلے ہیں۔ لہذا عمائدین کو بھی چاہیے کہ تھوڑا درد دل رکھیں۔ اب صرف ملت تشیع کا دفاع مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک پاکستان کے دفاع کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ یہ خونخوار درندے وطن کے بھی اتنے ہی دشمن ہیں جتنے شیعہ سنی کے دشمن ہیں۔
پاکستان میں جیلوں کا ٹوٹنا اور دہشتگردوں کا آزاد ہونا، کیا اس کا تعلق کسی عالمی استعماری سازش سے ہے۔؟
دشمن ملک میں امن نہیں چاہتا، وہ اس ملک کے حالات کو ایسے مرحلے پر لے جانا چاہتے ہیں کہ جہاں لوگ ہاتھ کھڑے کر دیں اور دہشت گرد جو چاہیں اس ملک کے ساتھ کریں۔ اس میں زیادہ کردار ان ملکی اداروں کا ہے جنہوں نے ان افراد کو ملکی وسائل سے تیار کیا، چونکہ اس وقت ہمارے ادارں نے طاغوت زمان اور شیطان بزرگ کے کہنے پر اپنے اہداف سیٹ کئے اور افغانستان کے اندر مقدس جہاد کیا، جس کے نتیجہ میں ہمارا ملک تباہ و برباد ہوگیا۔ اداروں میں بیٹھے لوگ دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں۔ وحدت کے ذریعہ ہمیں ان اداروں کو جھنجھوڑنا چاہیے۔ ملی وحدت کے ساتھ ان کے پاس جائیں، ان کی اسٹریٹجی میں تبدیلی پیدا کریں۔ آج جب وہ دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی بنا رہے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس میں اپنا پھرپور کردار ادا کریں۔
یوم انہدام جنت بقیع کے ایام ہیں، گذشتہ دنوں بھی انہی ایام سے ملتی جلتی تاریخ اسرائیل و آل سعود کے گماشتوں نے رقم کی اور محسنہ اسلام بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے مزار پر حملے کی ناپاک جسارت کی، ابن تیمیہ کے ان پیروکاروں کی گھناؤنی کارروائیاں کب رکیں گی۔؟
یہ وہابی فکر ہے، بظاہر لگتا ہے کہ یہ قرآن کی فکر کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ توحید کا عملی نفاذ چاہتے ہیں۔ جو ان کو توحید سے مانع چیزیں لگتی ہیں ان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اصحاب بزرگان کی قبروں کی جو انہوں نے بے حرمتی ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ یہ مسلمانوں کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت قاطع ان مقامات مقدسہ کو مقدس سمجھتی ہے۔ لیکن ملت مسلمہ ان کی سازشوں کو نہیں سمجھ سکی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تکفیری صرف اہل بیت (ع) سے دشمنی رکھتے ہیں۔ آج ثابت ہوگیا ہے کہ تکفیری اسلام کی ہر ہر مقدس چیز سے دشمنی رکھتے ہیں۔ یہ مقدسات کو مسلمانوں کے درمیان سے ختم کرکے آثار اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حزب اللہ تن تنہا اس وقت عالمی استعماری طاقتوں کے ساتھ برسرپیکار ہے، کیا حزب اللہ کی فکر و طرز پر پاکستان میں بھی کوئی گروہ وجود میں آسکتا ہے۔؟
بالکل آسکتا ہے، اس کے لئے ہمیں اپنے آپ کو منظم کرنا ہوگا۔ ہمیں مینجمنٹ اور مدیریت کے نئے ماڈل اپنانا ہوں گے۔ اپنے اداروں کی تشکیلات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ گہری سطح کی سوچ کے حامل افراد کی تربیت کرنی ہوگی۔ اپنے افراد پر اعتماد کرتے ہوئے قیادت و سیادت اہم اقدامات اٹھائے تو ہم بھی ملک پاکستان کے اندر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ قومیں اتحاد سے ابھرتی ہیں۔ یہ قوموں کے خواص ہوتے ہیں جو مخلص افراد سے کام نہیں لیتے اور پھر قومیں اس کا خمیازہ بھگتی ہیں۔ ملت تشیع پاکستان بانجھ نہیں ہے، یہ ایسے افراد رکھتی ہے جو حزب اللہ کی طرح ملک کی ترقی اور دفاع میں کردار ادا کرسکتے ہیں، بشرطیکہ ملت کے خواص اپنا کردار ادا کریں۔
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی آج اگر حیات ہوتے تو قومی معاملات کو کس انداز سے لیکر آگے چلتے، تاکہ قوم کو کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکے۔؟
جب شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے قیادت سنبھالی تو ایجنسیوں نے سازش کرکے قوم کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اتنی گہری تقسیم تھی کہ شہید سے سوال کیا جاتا تھا کہ کیا آپ یاعلی (ع) مدد کے قائل ہیں، شہید کو اخلاقی پستی کے ساتھ پکارا جاتا، لیکن شہید نے صبر و استقامت کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور کام کیا۔ اڑھائی سال کی محنت کے بعد شہید نے کہا کہ آج میں نے منوا لیا ہے کہ میں یاعلی (ع) مدد کا قائل ہوں۔ شہید نے اتحاد بین المومنین کے لئے ہر قربانی دی۔ سفید کاغذ پر دستخط کر دیئے کہ جو شرائط آپ کہیں اتحاد تشیع کے لئے مجھے منظور ہیں۔
آپ نے 1988ء میں عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس منعقد کروائی، جسمیں ملک کے طول و عرض سے مومنین شریک تھے۔ جب شہید اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ایک منتشر قوم کو طاقتور قوم کے طور پر ہمیں ورثے میں دے کر گئے۔ شہید نے اتحاد بین المسلمین کے لئے بھی انتھک کوششیں کیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لمحات میرے لئے انتہائی لذت آور ہوتے ہیں جب اہل سنت اور اہل تشیع ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ آج اگر شہید زندہ ہوتے تو اہل سنت ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے اور دہشت گردوں کے خلاف پورا ملک اٹھ کھڑا ہوتا۔ شہید حکومت اسلامی کا ماڈل پیش کرتے۔ آپ نے مفتی جعفر کے دور میں شیعہ اسلامیات کا مطالبہ کیا۔ شہید چاہتے تھے کہ اس ملک میں اسلام کا نفاذ ہو۔ اسلام آباد کے فیصلے اسلام آباد میں ہوں۔ اس ملک سے امریکی اثر و رسوخ کو ختم کیا جائے۔ شہید ایک جامع منصوبہ بندی کے قائل تھے، جسے ملکی سطح پر پروان چڑھا کر ملک میں اسلام کے نفاذ کو عملی شکل دی جاتی۔