QR codeQR code

انجینئر نوید قمر :

شام سمیت کسی بھی اسلامی ملک پر امریکی حملے کو برداشت نہیں کرینگے

تنا (TNA) برصغیر بیورو

اسلام ٹائمز , 2 Sep 2013 گھنٹہ 14:25

امیر جماعة الدعوة کراچی کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ کسی بھی اسلامی ملک میں کوئی بھی حکومت ہو، اس کا تعلق کسی بھی فرقے کے ساتھ ہو، امریکا کا مسلمان علاقوں میں داخل ہونا، فوجیں داخل کرنا یہ کسی بھی صورت میں ہمیں برداشت نہیں ہے۔


تقریب نیوز (تنا): 1991ء سے جماعة الدعوة پاکستان سے وابستہ انجینئر نوید قمر اس وقت جماة الدعوة کراچی کے امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے سول انجینئرنگ کر چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جامعہ کراچی سے اسلامک اسٹیڈیز میں ماسٹرز بھی کر چکے ہیں۔ لاہور میں انجینئرنگ کی تعلیم کے دوران ہی آپ نے امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ سعید صاحب کی شخصیت سے متاثر ہوکر جو کہ یو ای ٹی لاہور میں اسلامیات کے پروفیسر تھے، جماعة الدعوة میں شمولیت اختیار کی تھی۔ آپ سوا چار سال سے زائد عرصے تک جماعة الدعوة شعبہ طلباء کے مسئول بھی رہ چکے ہیں، صوبہ پنجاب کے مسئول رابطہ تنظیم کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں، اس کے بعد صوبہ سرحد کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر آئی، فیصل آباد کے مسئول رہے، ساڑھے چار سال مرکزی سطح پر نشر و اشاعت کے حوالے سے ذمہ داریاں سرانجام دیں اور اس کے بعد سے اب تک پچھلے نو سالوں سے جماعة الدعوة کراچی کے امیر کی حیثیت سے فعالیت دکھا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے حالیہ بھارتی جارحیت، دفاع پاکستان کارواں، کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ، بڑھتی ہوئی فرقہ واریت میں غیر ملکی ہاتھ، مرسی حکومت کا خاتمہ، شام پر ممکنہ امریکی حملہ جیسے موضوعات سے متعلق جماعة الدعوة کراچی کے مرکز میں انجینئر نوید قمر کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی۔ اس موقع پر آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ 

حالیہ بھارتی جارحیت اور لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشیدگی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ پس پردہ عوامل و عزائم کیا ہیں؟ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔ اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے افغانستان پر مسلط امریکی جنگ کو سمجھنا ہوگا۔ اس امریکی جنگ کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر کی غیر ملکی ایجنسیز کا بیس کیمپ بنا، افغانستان پر حملے کیلئے پاکستان کے اڈے استعمال ہوئے، پاکستانی سرزمین استعمال ہوئی۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا اور سب سے زیادہ فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ افغانستان میں بھارت کے دو درجن سے زائد قونصل خانے کام کر رہے ہیں، اس لئے نہیں کہ بھارت افغانستان کے درمیان تجارت بڑھ رہی ہے، اربوں ڈالرز بھارت وہاں خرچ کرچکا ہے، افغانستان میں بھارت نے ٹریننگ کیمپس بنائے، پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کیلئے بلوچستان کے لوگوں کو وہاں تربیت دی۔ اب جبکہ امریکا کو افغانستان میں ناکامی سے دوچار ہوکر خطے سے نکلنا پڑ رہا ہے تو یہ بھارت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ کیونکہ پروگرام یہ تھا کہ اس علاقے کی منی سپر پاور بھارت کو بنایا جائے گا اور امریکا افغانستان میں مستقل اڈے بنا کر چین، روس کو کنٹرول کریگا۔ پاکستان کی حیثیت بھوٹان، نیپال جیسی بنا دی جائے گی، کراچی کو الگ کر دیا جائے گا، آزاد بلوچستان کا قیام عمل میں لایا جائے گا مگر یہ سارے منصوبے ناکام ہوگئے ہیں۔

لہٰذا اب جبکہ پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم خاک میں مل گئے ہیں تو اپنے غصے کا اظہار کبھی اپنے پانچ فوجیوں کی ہلاکت کا الزام لگا کر لائن آف کنٹرول پر حالات کشیدہ کرکے اتار رہا ہے جبکہ ہماری اطلاع کے مطابق بھارتی فوجیوں کی ہلاکت آپس میں کراس فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی تھی جسے بھارتی میڈیا نے پاکستان کے سر پر تھوپنے کی سازش کی، حالانکہ میں نے لائن آف کنٹرول کا سارا علاقہ دیکھا ہوا ہے، بھارت نہیں بلکہ پاکستانی عوام لائن آف کنٹرول سے ملحقہ علاقوں میں بھارتی فوجی دہشتگردی کا مسلسل شکار ہے اور وہاں شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے، اس کے ساتھ ساتھ بھارت کبھی ڈیمز کے منہ کھول کر سیلابی پانی چھوڑ کرکے آبی جارحیت کی صورت میں افغانستان میں اپنے منصوبے کی ناکامی کا غصہ پاکستان پر اتار رہا ہے۔ بھارت نے بڑے بڑے ڈیمز بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے پاکستانی زمین خشک سالی کا شکار ہو کر بنجر ہوتی چلی جا رہی ہے، اور جب کسان ٹیوب ویل لگا کر جنریٹر پر انہیں چلا کر فصل کی کاشت کیلئے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے تو اس سے فصل مہنگی ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب جب پاکستانی کسانوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تو وہ ڈیمز کے منہ کھول دیتا ہے جس سے پاکستانی علاقے زیر آب آجا تے ہیں اور ان کی تمام فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں جس سے پاکستانی معیشت پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ اس وقت بھی آدھے پنجاب سمیت سندھ کا بہت بڑا حصہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ تمام چاولوں کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، کپاس کی فصل کا علاقہ یعنی جنوبی پنجاب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ انفرااسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے، گوداموں میں پانی جانے سے سارا مال تباہی کا شکار ہو گیا ہے۔ علاقے کی منی سپر پاور بننے کی خواہش رکھنے والا بھارت اس وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، پاکستانی حکومت کو اس حوالے سے سخت عملی اقدامات کرنا چاہئیے۔

بھارتی آبی جارحیت اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے خلاف جماعة الدعوة کی جانب سے دفاع پاکستان کارواں نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے، کیا مقاصد ہیں؟ 

اس وقت پاکستان دباﺅ کا شکار ہے، حکومت کچھ بول نہیں پا رہی ہے لہٰذا ہم اس دفاع پاکستان کارواں نکال کر ملک و قوم کا حوصلہ بڑھانا چاہتے ہیں، ہمت دینا چاہتے ہیں تاکہ حکمران بھی حوصلہ پکڑیں۔ عوام و حکومت کو حوصلہ دینے کیلئے یہ کارواں نکال رہے ہیں۔ 

پاکستان کے خلاف حالیہ بھارتی جارحیت کے موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے کراچی میں فوج بلانے کے مطالبے کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ 

کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ فوج کا کام عوام سے لڑنا نہیں بلکہ ملک و قوم کا دفاع کرنا ہے۔ ہماری افواج کو دفاع پر توجہ دینی چاہئیے اور دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہئیے۔ باقی شہروں میں جو مسائل ہیں ان کیلئے پولیس موجود ہے، بہت سارے محکمے اور تحقیقاتی ادارے موجود ہیں، یہ ان کا کام ہے وہ کریں۔ یہ مناسب نہیں یہ جو افواج ہم نے ملک و قوم کے دفاع کیلئے بنائی ہیں ان کو عوام کے سامنے لا کر کھڑا کر دیں تاکہ وہی صورتحال پیدا ہو جائے کہ جو اس وقت عرب ممالک میں نظر آرہی ہے۔ ہمیں اس قسم کی چیزوں سے بچنا چاہئیے۔ 

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہیں؟ 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں امریکا، اسرائیل اور بھارت حالات خراب کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ دیکھیں پاکستان میں فرقہ واریت ہے، یہ ایک حقیقت ہے اس حوالے سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ ہمارے یہاں مسالک کی بنیاد پر بھی بہت شدت پائی جاتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ لسانیت و برادریوں کی بنیاد پر بھی بہت زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔ اس شدت کی وجہ سے کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پاکستان دشمن غیر ملکی ایجنسیاں اس واقعہ کی بنیاد پر چار پانچ واقعات اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے کرواکر اس چنگاری کو آگ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی میں غیر ملکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا، بلیک واٹر کا بہت بڑا نیٹ ورک پاکستان میں موجود تھا، بہت سے دیگر امریکی گرفتار کئے، بھارتی را کے ایجنٹ پکڑے جاتے ہیں، یہ کوئی جذباتی باتیں اور الزامات نہیں ہیں بلکہ کھلی حقیقت ہیں کہ پاکستان دشمن ممالک کے خفیہ نیٹ ورک امریکا کے افغانستان میں آنے کے بعد بہت تیزی سے پاکستان کے اندر کام کر رہے ہیں اور وہ ان حالات کا پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 

مصر میں مرسی حکومت کے خاتمہ کے حوالے سے کیا کہنا چاہئیں گے؟ 

دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آئے اور جو اسلام کے فروغ کی بات کرے، دشمنان اسلام دنیا میں ایسی کسی بھی حکومت کا قیام نہیں چاہتے، افغانستان میں امارت اسلامی کا قیام عمل میں آیا، ملا عمر نے کہا کہ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کی شریعت نافذ کرینگے مگر وہاں اسامہ کا بہانہ بناکر چڑھائی کر دی۔ الجزائر پر چڑھائی کی گئی اسی طرح مصر میں بھی ایسا ہوا ہے۔ جب مصر میں مرسی حکومت نے فلسطینیوں کو راستہ دیا، حماس کو راستہ دیا۔ جب فلسطینیوں کیلئے تھوڑا راستہ کھولا گیا تو اسے برداشت نہیں کیا گیا۔ مرسی حکومت کے ان اقدامات کو امریکا و اسرائیل نے برداشت نہیں کیا اور صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ دیکھیں امریکا کو اس سے غرض نہیں ہے کہ کہیں جمہوریت ہے یا ڈکٹیٹر شپ، اسے صرف اس بات سے غرض ہے کہ اس کے مقاصد کیسے پورے ہونگے۔ اگر اس کے مقاصد و مفادات ڈکٹیٹر شپ سے پورے ہوتے ہیں تو وہ جنرلوں کو بھی قبول کرتا ہے پاکستان میں جنرل مشرف کی مثال سامنے ہے۔ امریکا کہتا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت ہونی چاہئیے مگر ہاتھ مشرف کے سر پر رکھا ہوا تھا۔ امریکا کسی بھی جگہ اسلامی تحریکوں اور جماعتوں کو آگے آتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا۔

شام پر ممکنہ امریکی حملے کے حوالے سے جماعة الدعوة کا کیا موقف ہے؟ کیا امریکا شام پر حملہ کریگا؟ 

میں یقین سے کہتا ہوں کہ امریکا شام پر حملہ نہیں کریگا۔ دیکھیں امریکا بھی بہت شاطر ہے، وہ بھی یہ دیکھتا ہے کہاں کہاں پر اس نے اپنا اسلحہ بیچنا ہے۔ پہلے ایران عراق جنگ میں بھی امریکا نے یہی کیا، وہ ہمیشہ یہ چاہے گا کہ اس کی اسلحہ فیکٹریاں چلتی رہیں۔ جس طرح دنیا میں ہر ملک کا اپنا اپنا مفاد ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے مفادات کے حوالے سے سوچنا چاہئیے۔ مسلمانوں کو یہ نہیں دیکھنا چاہئیے کہ امریکا، روس اور دیگر ممالک کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم کب تک ان طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ امت مسلمہ کا مفاد کس چیز میں ہے اور اسی حوالے سے ہمیں اپنی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیے۔

امریکا کی جانب سے مسلمان ممالک پر حملے کی ہم کبھی بھی حمایت نہیں کرینگے، ہم اسلامی ممالک پر امریکی حملے کی مخالفت کرتے ہیں۔ کسی بھی اسلامی ملک میں کوئی بھی حکومت ہو، اس کا تعلق کسی بھی فرقے کے ساتھ ہو، امریکا کا مسلمان علاقوں میں داخل ہونا، فوجیں داخل کرنا یہ کسی بھی صورت میں ہمیں برداشت نہیں ہے۔ ہمارے اپنے جو بھی مسائل ہیں لیکن امریکا کو بیچ میں نہیں آنے دینا چاہئیے کیونکہ جب امریکا بیچ میں آتا ہے تو پھر یہ کسی کے ساتھ نہیں ہوتے، یہ سب کو مارتے ہیں، قتل کرتے ہیں، یہ کسی فرقے کے دوست نہیں ہوتے۔ لہٰذا امریکی یا کسی بھی غیر ملک کا حملہ چاہئے وہ افغانستان پر ہو یا شام پر ہم کسی بھی اسلامی ملک پر امریکی حملے کو برداشت نہیں کرینگے۔ 

عالم اسلام کے آپس کے مسائل کے حل کیلئے کیا تجویز پیش کرینگے؟ 

جو ہمارے آپس کے مسائل ہیں انہیں مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئیے اور ایسی موثر شخصیات جن کی بات سنی جاتی ہے، ایسے موثر علماء کرام ان کو میدان میں آنا چاہئیے، صرف گھروں میں بیٹھ کر بیانات نہیں دینے چاہئیں۔ یہ موثر شخصیات و علماء کرام میدان میں اتر کر عملاَ ایسی کوششیں کریں جس سے ہمارے آپس کے مسائل حل ہوں، لڑائیوں کا خاتمہ ہو۔ ظلم چاہئیے فوجوں کی شکل میں ہو یا حکومتوں کی شکل میں، مظالم کا سلسلہ مسلمانوں کے اوپر بند ہونا چاہئیے۔ اس سلسلے میں موثر شخصیات و علماء کرام کو میدان میں آنا چاہئیے۔ اسلامی تحریکوں کو بھی اس سلسلے میں افہام و تفہیم کا راستہ نکالنے کی کیلئے کوششیں کرنا چاہئیے۔


خبر کا کوڈ: 139596

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/interview/139596/شام-سمیت-کسی-بھی-اسلامی-ملک-پر-امریکی-حملے-کو-برداشت-نہیں-کرینگے

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com