سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ شام پر امریکی حملے کا اعلان عالم اسلام پر حملے کے مترادف ہے، شام میں بھی عراق کی تاریخ دوہرائی جا رہی ہے، شام پر امریکی حملے کی حمایت کرنے والے عرب ممالک شرمناک کردار ادا کر رہے ہیں، مسلم ممالک کو امریکی جارحیت روکنے کیلئے متحد ہونا ہوگا، شام پر امریکی حملہ اس کی موت ثابت ہوگا۔
تقریب نیوز (تنا): صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں، آپ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں، صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعدازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب پر فائز ہیں۔ اپنے والد کی نسشت پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکے ہیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، امریکی سازشوں کے خلاف عوامی بیداری کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل پر ہمیشہ غم زدہ رہتے ہیں، پوری امت کو ایک لڑی میں دیکھنا چاہتے ہیں، شیعہ سنی کی تفریق سے ہٹ کر امت کو مسلمان بن کر رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثر ہونے کی وجہ سے شدت پسندوں سے نالاں ہیں۔ پنجاب حکومت کی دہشت گرد نواز پالیسیوں پر ہمیشہ کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ گذشتہ روز لاہور میں اسلام ٹائمز نے ان کیساتھ ایک نسشت کی، جس کا احوال قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
کیا حالیہ اے پی سی سے مطمئن ہیں۔؟
اے پی سی میں شریک جماعتوں کی اکثریت طالبان نواز تھی۔ ملک کے اکثریتی، پرامن اور محب وطن مکتبہ فکر کو نظرانداز کیا گیا، بریلوی اور شیعہ مکاتب فکر کی اس کانفرنس میں نمائندگی نہیں تھی حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی کا شکار یہ دونوں مکاتب فکر ہی ہیں۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ان دونوں مکاتب فکر کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ ریاست مخالف دہشت گردوں سے غیر مشروط مذاکرات کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ نواز حکومت کی جانب سے بلائی جانے والی یہ کانفرنس محض فوٹو سیشن تھا۔ اس میں نیشنل سکیورٹی پالیسی کے خدوخال واضح نہیں کئے گئے۔ دہشت گردوں کو غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش کی گئی ہے جو حکومت کی کمزوری کی واضح دلیل ہے۔ اس اے پی سی میں دہشت گردی کا شکار مکاتب فکر کو نہ بلانا غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا، اس کے علاوہ پاک فوج کے بہت سے جوان شہید ہوچکے ہیں، دہشت گردی کے دیگر واقعات میں ہزاروں شہری جاں بحق ہوئے، انکے لواحقین کو بھی پوچھا تک نہیں گیا۔ تو یہ کانفرنس محض ایک دکھاوا تھی، اس کے نتائج مثبت دکھائی نہیں دے رہے۔
آپ کی نظر میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں کس کا ہاتھ ہے۔؟
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تمام واقعات میں امریکہ، بھارت اور اسرائیل ملوث ہیں۔ بعض مذہبی جنونی اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، یہ جہاد کے نام پر فساد برپا کر رہے ہیں۔ بے گناہ انسانوں کا خون بہانا اسلام کی خدمت نہیں، اسلام تو ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور اسلام میں قتل گناہ کبیرہ ہے، لیکن یہ کیسے مسلمان ہیں جو ایک ہی دھماکے میں سینکڑوں افراد کو موت کی وادی میں دھکیل دیتے ہیں، اصل میں یہ مسلمان ہیں ہی نہیں، نہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہیں، کیونکہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں، لیکن یہ عجیب مسلمان ہیں جو اپنے سوا کسی دوسرے کا وجود تسلیم نہیں کرتے، اصل میں یہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں، جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد زمین پر فساد برپا کرنا ہے۔ اس حوالے سے ہماری حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اور ہمارے سکیورٹی اداروں کو چاہئے کہ وہ امریکی، بھارتی اور اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کریں، حکومت عالمی سطح پر ان واقعات کے ثبوت پیش کرئے اور عالمی حمایت حاصل کرکے ان تینوں ملکوں کو دہشت گرد ڈکلیئر کروائے اور ان کا سوشل بائیکاٹ کروائے۔ اگر ہمارے سکیورٹی ادارے ان کی ثبوت تلاش نہیں کرسکتے تو انکے اہلکاروں اور افسروں کو رضاکارانہ طور پر اپنے عہدوں سے مستعفی ہو کر باصلاحیت اور اہل لوگوں کو آگے آنے دینا چاہیے۔
فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے علماء کے ساتھ ساتھ عوام کو کیا کرنا چاہئے۔؟
فرقہ واریت ملک کے لئے ناسور بن چکی ہے۔ پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں فرقہ وارانہ فسادات پھیلا کر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریات کا مقابلہ طاقت یا بندوق کی بجائے نظریات سے کیا جائے، معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کیا جائے۔ مختلف مکاتب فکر کے مابین فروعی اختلاف ہمیشہ سے رہا ہے، لیکن اس اختلاف کو خونیں کھیل میں بدلنا عالمی قوتوں کا منصوبہ ہے۔ اس حوالے سے تمام مکاتب فکر کے سنجیدہ علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سازش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ عوام کو چاہئے کہ وہ مذہبی جنونیوں اور فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث گروہ کا سوشل بائیکاٹ کریں اور انہیں معاشرے میں نفرت کی علامت بنا دیں، کیونکہ ان کی تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے اسلام دنیا میں بدنام ہو رہا ہے، پاکستان بدنام ہو رہا ہے اور دین محمدی کے خلاف یہ سازش ہے کہ اسے ایک جنونی دین کے طور پر معاشرے میں پورٹریٹ کیا جائے، تاکہ اسلام کی پھیلتی ہوئی روشنی کو روکا جا سکے۔
مغرب میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس حوالے سے کلیسا والے پریشان ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اسلام کی اس روشنی کو کنٹرول کیا جائے، اس کے لئے وہ اسلام میں شدت پسندوں کو داخل کرکے انہیں مسلمانیت کا لبادہ پہنا کر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور اپنے لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ اسلام تو قتل و غارت کا دین ہے، اس میں امن و سکون نام کی کوئی چیز نہیں، لیکن یہ سازش ہے اور اس سازش کا مقابلہ علماء اور عوام مل کر کریں گے تو انشاء اللہ دشمنان اسلام کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا، اس حوالے سے علماء جمعہ کے خطبات میں خصوصی طور پر برداشت اور رواداری کا درس دیں۔ عوام میں یہ بات زیادہ سے زیادہ پھیلائیں کہ مسلمانوں کے مکاتب فکر میں کوئی بھی کافر نہیں بلکہ یہ شجر اسلام کی شاخیں ہیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھو اور مل جل کر رہنے سے ہی ہماری بقا ہے ورنہ یہود و ہنود ہمارے خلاف متحد ہوچکے ہیں، اگر ہمارے خاتمہ کے لئے ہمارے دشمن متحد ہوسکتے ہیں تو اپنی بقا اور دفاع کے لئے ہم کیوں متحد نہیں ہوسکتے۔
کراچی آپریشن کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، آیا یہ درست فیصلہ ہے۔؟
کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا، کیونکہ کراچی پچھلے کئی عشروں سے قانون شکن عناصر، مجرموں، قاتلوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور ڈرگ مافیا کے نرغے میں ہے اور کراچی اس وقت عالمی سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کراچی میں امن اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ ہماری معاشی شہ رگ ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں کراچی میں بدامنی پھیلا کر ہمیں معاشی طور پر کمزور کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اس مقصد کے لئے کراچی کے اندر سے ہی لوگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کے تدارک کے لئے ٹارگٹٹڈ آپریشن انتہائی ضروری ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں۔
اس حوالے سے حکومت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ تمام تر مصلحتوں کو پس پشت ڈال کر بلا امتیاز آپریشن جاری رکھنا چاہئے، اس حوالے سے کسی بھی سیاسی یا لسانی جماعت کا دباؤ خاطر میں نہیں لایا جانا چاہئے، جو لوگ شور مچا رہے ہیں اور آپریشن کو اپنے خلاف کارروائی اور سیاسی انتقام قرار دے کر واویلا کر رہے ہیں، اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ چور کی داڑھی میں تنکا ہے اور وہ اسی لئے شور مچا رہے ہیں، کیونکہ وہ چور ہیں، حکومت کو امن عزیز رکھتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے، اس آپریشن میں کراچی کے عوام اور پورے ملک کے تمام شہری حکومت کیساتھ ہیں۔ جہاں تک ایک لسانی جماعت کے شور شرابے کی بات ہے تو اس کا سربراہ اتنا بزدل ہے کہ ملک میں آنے کی جرات نہیں کر رہا تو وہ مزید کچھ نہیں کرسکیں گے۔ بلاامتیاز کارروائی جاری رکھی جائے اور میڈیا کو اس حوالے سے ضرور آگاہ رکھا جائے، تاکہ جس ملزم کو حراست میں لیا گیا ہے اس کے خلاف یہ چارجز ہیں اور اس کے یہ ثبوت ہیں، ملزموں کی گرفتاری اور ان کے اعترافات بھی میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائے جائیں۔ مثلاً کوئی ٹارگٹ کلر گرفتار ہوتا ہے اور دوران تفتیش اعتراف کرتا ہے اور اس کے اعتراف کی ویڈیو میڈیا پر چلائی جائے، تاکہ ان کی قیادت کو حکومت اور آپریشن کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع نہ ملا، عوام جب حقائق سے باخبر ہو جائیں گے تو ان کا ساتھ نہیں دیں گے، یوں یہ لوگ تنہا ہو جائیں گے کیونکہ ہمارے عوام بھی امن چاہتے ہیں۔ وہ دہشت گردی اور بدامنی کے خلاف ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ سنی اتحاد کونسل کا اتحاد احسن اقدام ہے، مستقبل کا کیا پلان ہے۔؟
مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ صرف دہشت گردی کے خلاف ون پوائنٹ ایجنڈے پر ایک ساتھ چلنے کا فیصلہ ہوا ہے، کیونکہ مجلس وحدت مسلمین بھی ہماری طرح دہشت گردی کا شکار ہے اور ہم دونوں ایک ہی فرقہ پرست اور دہشت گرد گروہ کا نشانہ ہیں۔ سنی اتحاد کونسل دہشت گردی کی مخالف ہر جماعت کیساتھ چلنے کیلئے تیار ہے، ہم چاہتے ہیں کہ امن دوست جماعتوں کو فرقہ پرستوں، انتہاپسندوں اور بیرونی ایجنٹوں کے خلاف متحد کیا جائے۔ اس حوالے سے سنی اتحاد کونسل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کیلئے بھی مصروف عمل ہے۔ اسی مقصد کے تحت مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ روابط بڑھا رہے ہیں۔ مستقبل میں بھی دہشت گردی کی کھل کر مخالفت کرنے والی جماعتوں کو بھی ساتھ ملایا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر جو اس دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے ،اس کا سماجی بائیکاٹ کر دیں۔ ہمارے اس بائیکاٹ سے وہ اپنی موت خود مر جائیں گے۔ یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ دہشت گردوں کے سرپرست حکومتی صفوں میں موجود ہیں۔
کہا جاتا ہے پنجاب حکومت خود کالعدم جماعت کی سرپرستی کر رہی ہے۔؟
جی بالکل، پنجاب حکومت فرقہ پرست گروہ کی سرپرست ہے اور مسلسل ان دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کرتی چلی آ رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس بات کا ٹھیکہ وزیر قانون رانا نثاءاللہ کو دے رکھا ہے۔ رانا ثناء اللہ کے کالعدم سپاہ صحابہ سے روابط ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنا گھر بھی سپاہ صحابہ کے مدرسے کے لئے ڈونیٹ کر دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور شواہد کیا ہوں گے کہ فیصل آباد میں سمن آباد میں رانا ثناء اللہ کے گھر پر کالعدم جماعت کے مدرسے کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کا پنجابی طالبان کے خلاف کارروائی نہ کرنا، اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ پنجاب حکومت دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ یہ عمل انتہائی خطرناک ہے۔ پنجاب کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانے والوں اور نفرتوں کو فروغ دینے والوں کی سرپرستی سے باز آ جانا چاہئے۔ وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے جامعہ نعیمہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں پنجابی طالبان سے کہتا ہوں کہ پنجاب میں دھماکے نہ کریں، اس بیان سے بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔
نواز لیگ نے اقتدار میں آنے سے پہلے بہت سے دعوے کئے، انکی تکمیل میں کس حد تک کامیاب رہی ہے۔؟
نواز لیگ حکومت کے پہلے سو دن کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، کسی ایک بھی انتخابی وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ مسلم لیگی حکومت نے قوم کو مزید دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا تحفہ دیا ہے اور اب تک عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ نواز لیگ کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کی بجائے تکلیف دے رہی ہے۔ غربت کی بجائے غریبوں کو ختم کیا جا رہا ہے، کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے اور چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے دعوے بھی کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں اور مسلم لیگ نون کو ووٹ دینے والے موجودہ صورت حال پر پچھتا رہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو اپنے کردار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وگرنہ کل تک جو نعرے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف لگتے تھے آج نواز لیگ کے خلاف لگنا شروع ہوجائیں گے۔ زرداری کے لئے لوگوں کے دلوں سے نکلنے والی بددعاؤں کا رخ نواز شریف کی طرف ہو جائے گا۔
امریکہ کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا شام کو نشانہ بنانے کے درپے ہے، کیا کہیں گے۔؟
شام پر امریکی حملے کا اعلان عالم اسلام پر حملے کے مترادف ہے۔ شام میں بھی عراق کی تاریخ دوہرائی جا رہی ہے۔ شام پر امریکی حملے کی حمایت کرنے والے عرب ممالک شرمناک کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک کو امریکی جارحیت روکنے کیلئے متحد ہونا ہوگا۔ شام پر امریکی حملہ اس کی موت ثابت ہوگا۔ امریکہ باری باری تمام مسلم ممالک کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا الزام اسی طرح جھوٹا اور بے بنیاد ہے جس طرح عراق پر حملے کیلئے خطرناک ہتھیاروں کا پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ شام میں جاری خانہ جنگی اور نام نہاد بغاوت میں بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہے اور شام پر حملے کا منصوبہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی ہی کڑی ہے۔ اس حوالے سے مسلم امہ کے باہمی اتحاد سے ہی سازشوں کا توڑ ممکن ہے۔ مسلم حکمرانوں کو اس حوالے سے بیداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور امریکی چالوں کو سمجھنا ہوگا، جو ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے۔ امریکہ کی لگائی ہوئی یہ آگ ایک دن سعودی عرب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی تو اس حوالے سے انہیں بھی غور کرنا ہوگا، کیونکہ امریکہ کبھی بھی مسلمانوں کا خیر خواہ نہیں ہوسکتا۔
مشرق وسطٰی کی حالیہ صورتحال میں سعودی عرب کو کہاں دیکھتے ہیں۔؟
سعودی عرب کا کردار انتہائی شرمناک ہے، سعودی عرب کو امریکہ کی بجائے امت مسلمہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ سعودی عرب نے شام پر امریکی حملے کی حمایت کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔ سعودی حکمران امریکہ کی ایجنٹی کی بجائے اسلام کے مفادات کا خیال کریں۔ سعودی عرب کو اپنی پالیسیاں بناتے وقت فرقہ وارانہ سوچ کو مدنظر نہیں رکھنا چاہئے۔ سعودی عرب کی مسلم امہ میں ایک روحانی حیثیت ہے، جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ سعودی عرب مسلم امہ کے مفادات کے بارے میں ہی سوچے، نہ کہ امریکہ کا کاسہ لیس بن کر مسلم امہ کی بربادی کا سامان کرتا پھرے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر حکومت دباؤ کا شکار ہے، آپ کیا کہتے ہیں، یہ منصوبہ مکمل ہو پائے گا۔؟
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ملکی معیشت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس کو ہر صورت میں مکمل کیا جانا چاہئے۔ اس منصوبے کا آغاز کرکے پیپلز پارٹی کی حکومت نے جرات مندانہ اقدام کیا اور اسے مکمل کرکے نواز لیگ کی حکومت کریڈٹ لے۔ پاکستان اس وقت بدترین توانائی بحران کا شکار ہے، اس حالت میں اسے بیرونی دباؤ بالکل خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ ہمارے توانائی بحران کے خاتمے میں یہ منصوبہ بہت اہم کردار ادا کرے گا، اس منصوبے کی تکمیل ناگزیر ہے۔ اگر حکومت نے امریکی دباؤ میں آکر اس منصوبے کو ختم کرنے کی کوشش کی تو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے اور ہوسکتا ہے اسے اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں، کیونکہ توانائی بحران کی بدولت ہماری صنعتیں تباہ ہوچکی ہیں، ہماری معیشت کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے اور تو اور ہمارے روز مرہ کے معاملات بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہیں، تو اس منصوبے پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں۔
اتحاد بین المسلمین کے فروغ کیلئے کیا تجویز دیں گے۔؟
اتحاد بین المسلمین وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اسلام دشمن قوتوں نے فرقہ واریت کو ہتھیار بنا لیا ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمانوں کی قوت کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں علماء اور دینی رہنماء اتحاد بین المسلمین کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور باہمی بات چیت اور ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھانا چاہئے۔ شدت پسندوں کی ہر محاذ پر حوصلہ شکنی کی جائے، جس گروہ یا جماعت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں، انہیں نکال باہر کیا جائے۔ علماء خصوصی طور پر امن و امان اور برداشت کے کلچر کے فروغ کیلئے کردار ادا کریں۔ اسلام کے دشمن اگر اسلام کے خلاف متحد ہوسکتے ہیں تو پھر ہم اسلام کے مکاتب فکر کیوں متحد نہیں ہوسکتے۔ اگر ہم اب متحد نہ ہوئے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ لہذا اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔