QR codeQR code

مولانا شفقت شیرازی :

ملت تشیع پاکستان کو وحدت کی لڑی میں پرونا چاہتے ہیں

تنا (TNA) برصغیر بیورو

اسلام ٹائمز , 2 Oct 2013 گھنٹہ 12:11

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ قوم میں ایک مایوسی جو کافی عرصہ سے پائی جاتی تھی، مجلس وحدت مسلمین نے گذشتہ تین سالوں میں اس مایوسی کو ختم کیا۔ دشمن کی یہ پوری سازش تھی کہ ملت تشیع کو دیوار کے ساتھ لگادیا جائے اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ مجلس وحدت مسلمین نے گذشتہ تین سالوں سے اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومنین کے حوالے سے اپنی بھرپور کوشش کی اور جس کے نتیجہ میں خاطر خواہ کامیابیاں بھی ملیں۔ اب تمام ذاکرین عظام، علمائے کرام، ماتمی سنگتیں و دیگر تنظیموں کے لوگ و عوام سب مل کر بیٹھتے ہیں اور اتحاد و وحدت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔


تقریب نیوز (تنا): مولانا سید شفقت شیرازی مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنماء ہیں، زمانہ طالب علمی میں آئی ایس او پاکستان سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد تحصیل علم کے لئے شام چلے گئے، جہاں علم دین سے فیض یاب ہوئے۔ آج کل پاکستان میں ہیں اور مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں، اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومنین کے داعی ہیں۔ نوجوانوں کو فعال اور ذمہ دارانہ کردار میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ اتحاد امت کے لئے خصوصی طور پر سرگرم ہیں اور ملت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد دیکھنا چاہتے ہیں، آپ نے کافی عرصہ شام میں گزارا، جس پر ہم نے ان سے شام کی صورتحال اور پاکستان میں مجلس وحدت مسلمین کی سرگرمیوں کے حوالے سے گفتگو کی۔ جو ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔

اس وقت شام میں جاری جنگ کو کس نہج پر دیکھ رہے ہیں اور وہاں پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا شکست کھانا، کیا کہیں گے۔؟

اگر حقیقت دیکھی جائے تو نظر آئے گا کہ اس خطے میں دو بلاکوں کی جنگ ہے، جن میں سے ایک بلاک کہ جس کا سرپرست امریکہ ہے اور جس کا ہدف اسرائیل کو بچانا ہے، اسرائیل کا اس خطے میں دفاع کرنا ہے اور اس کو خطے کا سپر پاور بنانا ہے۔ اس خطے میں اسرائیل اور اس کے اشاروں پر چلنے والے اس امریکہ کے اتحادی ہیں۔ اس امریکی اتحادی گروپ کا مشن یہ ہے کہ اس خطے کی سرحدوں کو توڑا جائے اور اس خطے کا امن مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے۔ اس خطے کے تمام ممالک کو قوم، مذہب کی بنیاد پر توڑا جائے اور ایسی سرحدیں بنائی جائیں کہ جن کے ذریعے کبھی بھی اس خطے میں امن نہ ہو اور اس مقصد کے لیے شام کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ یعنی کردوں، عراقیوں اور شیعوں کو الگ کیا جائے گا، جبکہ اسکے مخالف اتحادی گروہ وہ ہے جو امریکہ و اسرائیل کی بالادستی کو قبول نہیں کرتا اور وہ اپنے حق کی طرف اور ظلم کے خاتمے کی طرف، اس قوم کی عزت و وقار کے لیے میدان عمل میں ہے۔ اس خطے میں پہلے بھی اسرائیل کے خلاف جنگیں ہوچکی ہیں۔ 2006ء میں اسرائیل کے خلاف حزب اللہ لبنان کی جنگ، مقاومت کی ایک بہت بڑی جنگ تھی جو اسرائیل نے مسلط کی تھی، جس جنگ میں اسرائیل و امریکہ اور اس کے ہمنوا یعنی عرب ممالک بری طرح سے ناکام ہوئے تھے۔

اس کے بعد غزہ پر حملہ کیا گیا اور وہاں پر بھی قائد مقاومت نے اس کا بھرپور جواب دیا۔ وہاں پر بھی اسرائیل و امریکہ کو کافی دھچکا لگا اور اب آکر اسرائیل و امریکہ نے مقاومت کے دل پر حملہ کیا، یعنی شام پر حملہ کیا، کیونکہ شام کا مقام حزب اللہ لبنان کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر شام ٹوٹ گیا تو پھر مقاومت کا یہ پورا خطہ ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے اسرائیل و امریکہ نے شام کو ہدف قرار دیا ہے۔ خطے کے دیگر سپر پاورز ممالک یعنی روس اور چائنہ نے جب یہ دیکھا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس پورے خطے کو ختم کرنا چاہتا ہے تو وہ ممالک بھی امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ پس ان ممالک نے پھر قانون کی راہ اختیار کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ تنہا ہوتا چلا گیا۔ امریکہ کو اپنے قریبی ممالک چھوڑ گئے۔ یعنی قرارداد کے بعد شام کے حامی ممالک میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور امریکہ مسلسل تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔

بالآخر امریکہ کے اپنے عوام نے شام پر حملہ کی مخالفت کر دی۔ جس کی وجہ سے اوباما حکومت اور اسرائیل کے اہداف پورے نہ ہوسکے۔ روس نے ایک فارمولا پیش کیا کہ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ شام کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں تو ہم شام کی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں اور یہ ہتھیار ہم ضائع کروا دیتے ہیں اور بین الاقوامی طور پر شام پر پابندی لگوا دیتے ہیں۔ یہ دونوں ممالک نے قبول تو کرلی لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی کہ صرف اور صرف بڑے خطرے سے بچانے کے لیے امریکہ نے اسے قبول کیا، یعنی اگر امریکہ کو یہ یقین ہوتا کہ شام میں جنگ جیت کر شام کی حکومت تبدیل کرسکتا ہے تو یہ معاہدہ امریکہ شاید کبھی بھی نہ کرتا۔

شام کی موجودہ صورتحال کیسی ہے۔؟

ابھی مذاکرات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بہت سارے ممالک چاہتے ہیں کہ شام کے معاملات مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائیں۔ میرے خیال میں آج تک شام کی حکومت نے کسی کی شرط کو قبول نہیں کیا۔ پاکستان میں جو القاعدہ اور طالبان کا نام لیا جاتا ہے، یہ تنظیمیں بنائی ہی اس لیے گئی ہیں کہ اس خطے کے امن کو تباہ کیا جائے اور اس خطے میں موجود فوجی طاقت کو کمزور کیا جائے۔

کچھ دن پہلے کی خبر ہے کہ تیونس سے شام میں بھیجی گئی سینکڑوں ایسی خواتین ہیں جو اب جہاد النکاح کے لیے گئیں اور اب حاملہ ہوکر واپس اپنے ملک لوٹی ہیں، یہ بیان تیونس کے وزیر داخلہ کا ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

کافی عرصہ ہو چکا ہے کہ جہاد النکاح شام کے اندر متعارف ہے، یہ صرف پاکستانی میڈیا میں متعارف اب ہوا ہے۔ یہ صرف شریعت محمد مصطفٰی (ص) کے مقابلے میں ایک نئی شریعت لانے والی بات ہے، یعنی اسلام حقیقی کی مخالفت ہے۔ ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک عورت کسی ایک شخص کے نکاح میں ہو اور وہی عورت ایک ہی دن میں دس مردوں کے ساتھ ہم بستری کرے، یہ صرف شریعت کے ساتھ ایک کھیل ہے۔ صرف اور صرف اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ کسی بھی طریقے سے اسلام کی حدوں کو پامال کرنا ہے، ان لوگوں کا ہدف ہی یہی ہے کہ کسی طریقے سے اسلام کے چہرے کو مسخ کیا جائے۔ اگر وہ لوگ بغیر کسی نام کے زنا کرتے تو ان کے لیے آسان ہوتا لیکن اسلام کے نام پر جس انداز سے انہوں نے یہ کام کیا۔ ان لوگوں کے پاس مختلف ممالک کے علمائے کرام کے فتاویٰ موجود ہیں، جن میں سعودی عرب کے مفتیوں کے فتویٰ ان کے پاس موجود ہیں۔

شام کے کسی وزیر کا بیان پڑھا، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جنگ ایسے موڑ میں داخل ہوگئی ہے جس میں نہ باغی جیت سکتے ہیں اور نہ ہی حکومتی فورسز کیلئے ممکن ہے۔ کیا واقعاً ایسی صورتحال بن چکی ہے، یا اس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔؟

اگر یورپ و امریکہ اور اسرائیل اسی انداز سے اسلحہ دیتے رہیں گے تو پھر یہ جنگ یوں ہی رہے گی۔ جب تک بیرونی امداد ختم نہیں ہوگی تو تب شام میں جنگ بندی نہیں ہوسکتی۔ سعودی عرب دہشت گردوں کو تنخواہیں دے رہا ہے، اسی طرح دیگر ممالک ان دہشت گردوں کو اسلحہ دے رہے ہیں، تو جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، تب تک شام میں جنگ بندی بہت مشکل ہے۔

پاکستان حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مستقبل کو کیسا دیکھ رہے ہیں۔؟

اصولی بات تو یہ ہے کہ پچاس ہزار افراد کا قاتل گروہ اور اس کے بعد طالبان ان لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جن کے ہاتھ پہلے ہی کئی ہزار پاکستانیوں کے خون میں رنگے جا چکے ہیں، میں یہ پوچھوں گا کہ کس کو حق حاصل ہے کہ ان کا خون بہا معاف کیا جائے۔ میرے خیال میں یہی تو حکومت کی کمزوری ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ توبہ کا دروازہ کھولتے اور حکومت کہتی کہ آج کے بعد جو بھی ہتھیار پھینک دے گا اور اپنے آپ کو عدالت میں پیش کر دے گا، ہم اس کو امید دلاتے ہیں کہ اسے معاف کیا جائے گا، یعنی یہ اصل راستہ ہے۔ یہاں پر حکومت کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ جو پاکستانی طالبان کے ہاتھوں مر رہے ہیں، وہ کیا اس ملک کے باشندے نہیں، اس موقع پر کہاں جاتی ہے آرمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عزت و آبرو۔ طالبان نے پاکستان کے سکیورٹی اداروں پر حملے کئے، جی ایچ کیو پر قبضہ کیا اور اس کے علاوہ دیگر واقعات ہیں، جب طالبان نے پاکستان کے اہم اداروں پر حملے کئے اور قانون کی دھجیاں اڑائیں تو کیا اس کے باوجود بھی ان کی تمام شرائط قبول کی جائیں اور انہیں کھلی معافی دی جائے۔ ہاں اگر کوئی جائز مطالبہ ہے تو مان لیا جاسکتا ہے بصورت دیگر اگر انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کرنی ہے تو پھر ان کے ساتھ عدالت میں ہی نمٹا جانا چاہیے اور آہنی ہاتھوں کے ساتھ۔

ایم ڈبلیو ایم کا گذشتہ تین سالہ سفر، کیا کھویا، کیا پایا۔؟

ملت تشیع پاکستان میں ایک مایوسی جو کافی عرصہ سے پائی جاتی تھی، ایم ڈبلیو ایم نے گذشتہ تین سالوں میں اس مایوسی کو ختم کیا۔ دشمن کی یہ پوری سازش تھی کہ ملت تشیع کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے اور اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایم ڈبلیو ایم نے گذشتہ تین سالوں سے اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المومنین کے حوالے سے اپنی بھرپور کوشش کی اور جس کے نتیجہ میں خاطر خواہ کامیابیاں بھی ملیں۔ اب تمام ذاکرین عظام، علمائے کرام، ماتمی سنگتیں و دیگر تنظیموں کے لوگ و عوام سب مل کر بیٹھتے ہیں اور اتحاد و وحدت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ کچھ اختلافات سب میں ہوتے ہیں لیکن اختلافات کو بھلا مشترکات پر ہمیں اکٹھا ہونا چاہیے۔

اس وقت مجلس وحدت مسلمین کا یہ ایمان ہے کہ پاکستان کے اندر جو قوت بھی مضبوط ہے، ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم سب کو یہ کہتے ہیں کہ سب کا احترام کرتے ہوئے ہمیں ایک دوسرے کے قریب رہنا چاہیے۔ ہمیں مشترکہ مسائل کے حل کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارا اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے بھی کافی کام ہوا ہے، جس میں سنی اتحاد کونسل کیساتھ تعلقات ہوں، جماعت اسلامی یا دیگر تنظیمیں ہوں، ان کے علاوہ دیگر مذہبی یا سیاسی شخصیات ہوں، پاکستان کے ہر شہری کے ساتھ ہم اتحاد چاہتے ہیں۔ اس کام کے لیے مختلف جگہوں پر ہمارے اجلاس ہو رہے ہیں۔ ہم نے ہر حوالے سے روابط قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ مجلس وحدت مسلمین نے ملکی مسائل کے حوالے سے بھی بھرپور جدوجہد کی ہے اور مسلسل کر بھی رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے گذشتہ برسوں میں دیکھا ہوگا کہ دفاع وطن کنونشن ہو یا ریلیوں کا انعقاد ہو۔ ہم پاکستان کی بقاء، پاکستان کے دفاع، پاکستان کی حفاظت اور پاکستان کی سالمیت کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم ایک مذہبی اور سیاسی قوت ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری سے بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مومنین کی خواہش ہے کہ ہمارے تمام بزرگان کم از کم مشترکات پر تو اکٹھے ہوجائیں، اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کا کیا کردار ہے۔؟

ہماری طرف سے اس معاملے پر بھرپور کوشش ہو رہی ہے اور مسلسل کر بھی رہے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل میں اگر ہم تمام اکٹھے بیٹھ سکتے ہیں تو پھر شیعہ یکجہتی کونسل کیوں نہیں بنا سکتے اور اس میں سارے کیوں نہیں مل بیٹھ سکتے۔ اہل تشیع کی بھی اس قسم کی ایک کونسل ہونی چاہیے، جس میں ہم تمام مل بیٹھ کر پاکستان کے مسائل حل کرسکیں، چونکہ ہمیں قتل کرنے والا یہ کبھی نہیں دیکھتا کہ یہ کس پارٹی کا ہے، کس گروہ کا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین تمام مومنین کو اپنی طاقت کا حصہ سمجھتی ہے اور اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم نے عملی طور پر اقدامات بھی کیے ہیں۔ ہم نے اسی سلسلے میں اسلام آباد میں آل شیعہ پارٹیز کانفرنس بھی بلائی تھی، لیکن اس میں چند افراد نہیں آسکے۔ اس کے باوجود بھی ہماری کوشش جاری و ساری رہے گی۔ ایم ڈبلیو ایم شیعہ کی کسی بھی پارٹی، گروہ یا افراد کو اپنی طاقت سمجھتی ہے اور اسکو اپنے ساتھ ملا کر چلنا چاہتی ہے۔ مولانا ناصر عباس جعفری نے کئی بار یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کے اندر فاجر و فاسد شیعہ بھی ہمارا بھائی ہے اور اسے بھی ہم نے اپنے گلے اور سینے سے لگانا ہے۔ پس ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں اور ہم ہر طرح کے اقدامات کرنے کو بھی تیار ہیں۔


خبر کا کوڈ: 142229

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/interview/142229/ملت-تشیع-پاکستان-کو-وحدت-کی-لڑی-میں-پرونا-چاہتے-ہیں

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com