QR codeQR code

آغا سید عبدالحسین کشمیری :

مسلمان ایک دوسرے کے نظریہ کو سمجھیں اور اسکا احترام کریں

تنا (TNA) برصغیر بیورو

اسلام ٹائمز , 22 Oct 2013 گھنٹہ 11:48

مجمع جہانی اہل بیت (ع) اور مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کشمیر کے نمائندے کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایک طرف امام خامنہ ای اکیلے ہیں جو مسلمانوں کو یکجا اور متحد کرنے کے لئے اپنے تمام تر امکانات عالم اسلام کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا ہے، استکباری قوتیں ہیں اور مسلمانوں کی نام نہاد شخصیتیں ہیں جو مسلمانوں کے لئے باعث ننگ و عار ہیں اور ان سے اسلام کو صرف نقصان پہنچتا آ رہا ہے۔


تقریب نیوز (تنا): آغا سید عبدالحسین موسوی مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام سے تعلق رکھتے ہیں، کشمیر میں مکتب اہل بیت رسول اللہ (تشیع ) کے پہلے بانی مروج میر سید محمد شمس الدین موسوی اراکی (عراقی) کی اولاد میں سے ہیں، دینی طالبعلم ہونے کے باوجود آپ نے صحافت کو اپنا مستقل مشغلہ بنایا ہے اس وقت بین الاقوامی صحافی کے طور پر جانے جاتے ہیں، کشمیر میں ’’العالم‘‘ عربی نیوز چینل کے بیورو چیف ہونے کے علاوہ اسلامی اتحاد و یکجہتی کے عالمی ادارے ’’مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی‘‘ کے خبر رساں ادارے ’’تقریب نیوز‘‘ جو کہ پانچ زبانوں میں خدمات انجام دے رہا کے تین زبانوں (عربی، انگریزی اور فارسی) کے ایڈیٹر اور اردو ویب سائیٹ کے چیف ایڈیٹر اور برصغیر کیلئے تقریب نیوز کے بیورو چیف ہیں، آغا سید عبدالحسین کشمیری ’’نیوز نور ڈاٹ کام‘‘ نامی اردو خبررساں ادارہ کے سربراہ اور چیف ایڈیٹر بھی ہیں، اس کے علاوہ آپ اسلامی جمہوری ایران کے دو بین الاقوامی مذہبی اداروں ’’مجمع جہانی اہل بیت (ع)‘‘ اور ’’مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی‘‘ کے رکن اور کشمیر میں نمائندہ بھی ہیں، بھارت اور جموں و کشمیر میں اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے حوالے سے آپ بہت ہی فعال ہیں، اسلام ٹائمز نے آغا سید عبدالحسین کشمیری سے اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کیلئے پیش خدمت ہے۔

آپ نے بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں اتحاد و اتفاق و تقریب بین المسلمین کے حوالے سے دن رات کاوشیں کی ہیں کس حد تک آپکو اس جدوجہد میں کامیابی نصیب ہوئی۔؟

مسلکی منافرت کا کام اسلام دشمن طاقتوں کا رہا ہے چاہے وہ خود اسلام کا لباس اوڈ کر کیوں نہ ہوں، 90 فیصد سے زائد مسلمانوں کے درمیان مشترکات موجود ہیں اور 10 فیصد سے کم اختلاف جو ہیں وہ بھی علمی اور اجتہادی ہیں، یہاں جموں و کشمیر کی اگر بات کریں تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جو اس وقت شیعہ نسل کشی جاری ہے یہ حالات اواخر دسویں صدی ہجری سے لے کر تیرہویں صدی کے اواخر تک کشمیر پر حاکم رہے ہیں جو کہ تاراج شیعہ کے نام سے معروف ہے اور تقریبا ہر چالیس سال کے وقفہ کے بعد شیعہ کشی کے دلدوز واقعات رونما ہوتے تھے لیکن آہستہ آہستہ کشمیر کے سنی شیعہ علما اس بات کا احساس کر گئے کہ شیعہ سنی فسادات کے پیچھے کسی بھی مسلک کا ہاتھ نہیں بلکہ یہ سب سیاسی ہتھکنڈے ہیں اس طرح شیعوں کے مقتدر عالم دین و مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید مہدی موسوی (متوفی 1309ھ) اور اہل سنت کی جانب سے میرواعظ مولانا غلام رسول صاحب نے قابل ستائش اقدام کئے، ان کی کاوشوں سے اس تضاد اور آپسی منافرت و خونین واقعات میں ٹھہراو پیدا ہوا اور آج ہم مشاہد کرتے ہیں کہ جب کبھی بھی یہاں مسلکی منافرت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے سنی شیعہ علماء سبھی آپسی دوریاں نظر انداز کرکے اس کے خلاف یکصدا ہوجاتے ہیں، اس اعتبار سے کشمیر میں اسلامی یکجہتی کی فضا زیادہ مساعد ہے ہندوستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہے البتہ کوشش جاری رکھنی ہے۔

میں دیوبند شریف گیا اور جو کچھ سنا تھا اسکے برعکس پایا، کیرلا گیا وہاں کے سنی علماء نے بہت شکریہ کیا کہ بے بنیاد غلط فہمیاں ہیں جن کو اسی آپسی آمدورفت کے ذریعہ دور کیا جاتا ہے اور ہندوستان بھر میں بھی انتہائی خوش آئند ماحول دیکھنے کو ملا ہے، بہت کم کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے، یہاں اب زمین ہموار ہے، کچھ اچھے اور نمایاں آثار یہاں دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کچھ عناصر اب بھی موجود ہیں جو حالات کو خراب کرنے کے درپر ہیں اور وہ قرآنی ثقافت یعنی تقریب بین المذاہب کو کم رنگ یا غیر موثر بنانے کے لئے سرگرم ہیں جن سے بچنے اور آگاہ رہنے کی اشد ضرورت ہے۔

اتحاد و اتفاق کے اس رجحان کے ہوتے ہوئے کیوں خلفشاری اور انتشار کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔؟

انقلاب اسلامی ایران کے بعد جب حقیقی اسلام کی تصویر سامنے آنے لگی تو اسلام دشمن عناصر اس دن سے ہی کمر بستہ ہوگئے کہ اس عظیم مقصد اور بلند کارنامے کو پھیلنے سے روکا جائے اس طرح اس کی شبیہ بگاڑنے کی سازشیں رچی گئی اور دنیا کے سامنے اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کرنے کی کوشش زور و شور سے شروع ہوئی تاکہ غیر مسلمان اسلام کی جانب راغب و مائل نہ ہوجائے، جہاں جہاں انہیں اسلامی رنگ کا عنصر مضبوط دکھائی دیا وہاں ترجیحی بنیادوں پر اس کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی، عالم اسلام میں جنگ و جدل اور خون ریزی اسکی ایک مثال ہے، پاکستان، عراق اور افغانستان، شام اور کشمیر ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں، کشمیر کی اکثریت بھی چونکہ مسلمانوں کی ہے اسی لئے دشمن کے نشانہ پر ہے کہ یہاں مسلمان یکجہتی کے ساتھ ابھر کر سامنے نہ آئیں اس کے لئے طرح طرح کی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔

ہندوستان زیر انتظام کشمیر میں کیا صورتحال ہے اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے۔؟

الحمداللہ کوئی بھی کشمیر کا ادارہ یا تنظیم نہیں جس کے منشور میں آپ اتحاد و آپسی بھائی چارگی و برابری کی آئينی شق یا نعرہ نہ پائيں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی ایک شعار اور نعرے کو تقویت بخشی جائے، ہم سب کا نعرہ اتحاد و اتفاق بین المسلمین ہونا چاہئے جو کہ الحمدللہ ہر طرف دیکھنے کو ملتا ہے، البتہ سیاسی رسہ کشی کے تناظر میں کشمیر میں پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ سیاسی جھکاو کو بھی مذہبی ترازو میں تولا جارہا ہے جو کہ ایک المیہ ہے، میری نظر میں پاکستان اور ہندوستان کی طرف یہاں کے لوگوں کا جھکاؤ کوئی اہم ایشو نہیں ہے بلکہ معیار صرف یہ ہے کہ آیا ہم مسلمانوں میں اسلامی شعار اور اسلامی شعور کی ترویج کا جذبہ رکھتے ہیں کہ نہیں، یہی ایک نکتہ ہے کہ میں تمام مسلمانوں کے رابطے میں ہوں اور ان کے درمیان کام کرنے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہوں، تمام علماء کرام کو اجتماعی طور کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عالم اسلام میں بدلاؤ اور بیداری کی جانب رغبت و رجحان کی صورتحال کیا ہے۔؟

مختلف ممالک میں میرے روابط ہیں اور تقریب مذاہب اسلامی کی وجہ سے عالم اسلام کی اہم شخصیات سے آشنا ہوا ہوں اور عالمی سطح پر اسلامی بیداری کے نسبت ایک اچھا خاصہ رجحان پایا جاتا ہے تمام مسلمان اتحاد و اتفاق کی اہمیت جان چکے ہیں ہر ایک کا ماننا ہے کہ اس دور میں مسلمانوں کو کچھ کرگذرنا چاہئے، وقت کی پکار یہی ہے کہ مسلمان مسلمان کا معاون و مددگار بن جائے، اس احساس کے بعد ضرروی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو برداشت کریں ایک دوسرے کے نظریہ کو سمجھیں اور اسکا احترام کریں، اور خدمت خلق کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں، اس جذبہ کے ساتھ امید ہے کہ ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہونگے اور الحمداللہ عوامی رجحان ہمیں ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے، ایک طرف امام خامنہ ای اکیلے ہیں جو مسلمانوں کو یکجا اور متحد کرنے کے لئے اپنی تمام تر امکانات عالم اسلام کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا ہے، استکباری قوتیں ہیں اور مسلمانوں کی نام نہاد شخصیتیں ہیں جو مسلمانوں کے لئے باعث ننگ و عار ہیں اور ان سے اسلام کو صرف نقصان پہنچتا آرہا ہے، ان عناصر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اتنی جلدی کامیابی حاصل نہیں ہوگی، البتہ عوامی جوش و جذبہ کو دیکھ کر ناامیدی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جتنا علمی رجحان عوام میں پیدا ہوگا تقریب اور اتحاد میں بھی اتنی قدرت پیدا ہوگی۔

کیوں صہیونیت مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔؟

نبی اکرم (ص) کے زمانے سے لیکر آج تک مشرکوں اور کافروں نے اسلام کی بیچ کنی کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے، چاہے پیغمبر (ص) کے زمانے میں یا اہل بیت اطہار (ع) کے زمانے میں یا پھر آج کے زمانے میں ہر دور میں اسلام دشمن طاقتوں نے اسلام کو کمزور اور مسخ کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں میں نفرت کا بیچ بوتے رہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہیں از جملہ یہ کہ اسلام دشمن قوتیں پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ نہیں دیکھنا چاہتی، حق و عدل و انصاف پر مبنی حکومت ان کو گوارہ نہیں، اگر اسلامی نظام دنیا میں رائج ہوگیا تو انکی کیپٹلزم، سیکولرزم اور لبرلزم وغیرہ کی دکانیں بند ہوجائیں گی، اسی وجہ سے وہ مسلمانوں میں دنیاوی و دنیوی مسائل کھڑے کردیتے ہیں اور مسلمانوں کو ان ہی فرسودہ مسائل میں الجھا دیتی ہے، جب تک نہ مسلمان کو اپنے دین کی صحیح پہچان ہوگی تب تک وہ اسلام دشمن طاقتوں کا نشانہ بنتے رہیں گے اور مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے۔

شام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ کی رائے جاننا چاہیں گے۔؟

عالم اسلام کے لئے شام ایک ایسا درسگاہ بن چکا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو دشمن و دوست کی پہچان کرنا آسان ہوگیا ہے، اگر عرب دنیا میں دیکھا جائے تو شام واحد عرب ملک ہے جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اسرائیل کے خلاف تحریک مقاومت کی حمایت کرتا آرہا ہے اور اس کے علاوہ حماس کے لئے بیس کیمپ رہا ہے، جبکہ شام کے مقابلے میں دیگر عرب ممالک میں کوئی بھی اسرائیل جیسے اسلام دشمن و غاصب ملک کے خلاف زبان نہیں کھول رہا ہے یہی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جسے مغرب و مغربی حمایت یافتہ ممالک پسند نہیں کرتے، مغرب شیطانی کھوپڑی اسرائیل کیلئے کھلی چوٹ چاہتا ہے بشار الاسد حکومت اسرائیل کے پر کاٹتا رہتا ہے اسلئے اس حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، ایسا نہیں کہ شام کی عوام حکومت مخالف ہے اگر چہ حکومت میں اصلاحات کا مطالبہ اور جائز مطالبہ کرتے ہیں، اگر شام کی عوام کو صدر بشارالاسد بحیثیت ملک کے سربراہ قبول نہیں ہے تو اس کو ہٹانے کا فیصلہ بھی صرف وہاں کی عوام کو کرنا ہے نہ کہ کرایہ کے جنگجوؤں کو، نہ کی امریکہ و امریکی حلیف جماعتوں کو، دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ دنیا کی اکلوتی اسلامی عوامی حکومت (جمہوری اسلامی ایران) کے بعد اکیلا مسلمان ملک یعنی شام اسرائیل کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے غاصب اور فلسطینی عوام کا قاتل و ظالم کہتا ہے اسطرح ایران اور شام میں ہم سنخیت پیدا ہوتی ہے اگر کوئی غیر مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائيل کی مخالفت میں آواز بلند کرتا ہے تو ایران اسکی پیٹ تھپتھپاتا ہے اس حوالے سے تو شام اولی درجے پر فائز ہے، جب تک عالم اسلام کے تمام ممالک آپسی مشترکات کی بنیاد پر متحد نہیں ہونگے تب تک یہ استعمار ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک کا حال لیبا، مصر، بحرین، پاکستان اور شام جیسا کرتے رہیں گے۔

کیوں امریکہ شام پر حملہ کرنا چاہتا تھا کیا مکروہ مقاصد تھے امریکہ کے۔؟

میرے خیال میں امریکہ کا شام پر فوجی کارروائی کرنے کا بنیادی مقصد ایران کو کمزور کرنا تھا، تمام دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ کس طرح ایران واحد ملک ہے جو امریکہ و دیگر استعماری ممالک کی ہر چال و سازش کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے، امام خامنہ ای جو امریکہ کے مقابل میں سینہ سپر کھڑے ہیں اور دشمن کے ہر وار کو بے اثر کر رہے ہیں، ان کو کمزور کرنے کی طرف ایک قدم ہے، دوسرا یہ کہ جو اسلامی انقلاب سرزمین ایران پر وقوع پذیر ہوا اس کو دوسرے اسلامی ممالک تک پہنچنے نہ دیا جائے، مسلمانوں کو گمراہی و اندھیرے و اختلافات میں دیکھنا بھی استعمار کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ نے پہلے افغانستان پر حملہ کیا پھر عراق، لیبیا اور اب شام پر مسلط ہونا چاہتا تھا، امریکہ اسلامی بیداری کو روکنے اور اپنی ناجائز اولاد کے تحفظ اور اسکے دشمن کم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 143665

خبر کا ایڈریس :
https://www.taghribnews.com/ur/interview/143665/مسلمان-ایک-دوسرے-کے-نظریہ-کو-سمجھیں-اور-اسکا-احترام-کریں

تقريب خبررسان ايجنسی (TNA)
  https://www.taghribnews.com