ہمیں اسلام کے تمام نئے و خرافاتی ایڈیشنز کو ختم کرنیکی ضرورت ہے
تنا (TNA) برصغیر بیورو
ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے میر واعظ وسطی کشمیر و جموں و کشمیر انجمن مظہرالحق کے سربراہ کا خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ صالح اور نیک قیادت بہت ضروری ہے ایک قوم و ملت کو آگے لے جانے کے لئے قیادت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا، جس طرح ملت میں اتحاد کی ضرورت ہے اس سے پہلے ملت کو صالح قیادت کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری ملت انتشار قیادت کی شکار ہے۔
شیئرینگ :
تقریب نیوز (تنا): ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے میر واعظ وسطی کشمیر مولانا سید عبدالطیف بخاری کا تعلق جموں و کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام کے علاقے بیروہ سے ہے، آپ مولانا سید علی شاہ کے فرزند ہیں جنہیں انکی تعلیمی خدمات کی بناء پر لوگ سر سید ثانی کے نام سے یاد کیا کرتے ہیں، مولانا سید عبدالطیف بخاری مظہر الحق ہائی اسکول کے منیجنگ ڈائریکٹر ہیں جو اسکول 1934ء سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے اور اس اسکول کے پروندے جموں و کشمیر کے مختلف شعبہ جات میں اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں، میر واعظ مولانا سید عبدالطیف بخاری جموں و کشمیر انجمن مظہرالحق کہ جس کا قیام 1955ء میں عمل میں لایا گیا کے سربراہ بھی ہیں، جس کے ذیل میں ایک مقامی شریعت بورڈ بھی فعال ہے، تقریباً 35 سال سے جامع مسجد بیروہ میں آپ امام جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، میر واعظ وسطی کشمیر سید عبدالطیف بخاری ملی اتحاد فورم کے سرپرست بھی ہیں جس کا قیام آپ نے جموں و کشمیر میں اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے پیش نظر عمل میں لایا، ملی اتحاد فورم کے زیر اہتمام جموں و کشمیر میں کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد ہوتا رہتا ہے، میر واعظ کی کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ ملت مسلمہ میں اتحاد قائم ہو جائے اور اسلامی احکامات کے تحفظ کے لئے جدوجہد کی جائے، اسلام ٹائمز نے میر واعظ سنٹرل کشمیر سید عبدالطیف بخاری سے ایک نشست کے دوران ان سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
جموں و کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے آپ کا رول قابل ستائش ہے، ہم آپ کی زبانی آپ کی فعالیت کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
میرے والد صاحب سید علی شاہ اتحاد و اتفاق بین المسلمین پر سخت زور دیتے تھے انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی امر کے لئے وقف کر رکھی تھی وہ کبھی بھی مسمانوں کے درمیان انتشار و دوری کے قائل نہیں تھے، مجھے بھی بچپن سے ہی اس پر کام کرنے کا موقعہ نصیب ہوا اور میرا ماننا ہے کہ ملت اسلامیہ میں اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ترین اور اول ترین ضرورت ہے کیونکہ استعماری طاقتیں مسلمانوں کے خلاف کمر بستہ ہیں اور وہ مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلا رہے ہیں، میں کسی ایک اسلامی ملک کی بات نہیں کرتا اس وقت دنیا میں تقریباً 1.60 بلین مسلمان رہ رہے ہیں یہ تمام مسلمان آپسی تضاد کا شکار ہیں اور استعماری طاقتیں ہمیں شیعہ و سنی، حنفی و شافعی، مالکی و حنبلی کے نام پر لڑوا رہے ہیں اور مختلف سازشوں کے نتیجے میں ہمیں ایک دوسرے کے خلاف اکسایا جاتا ہے اور قتل و غارت گری عام کی جاتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہر ذی شعور مسلمان کا یہ رول بنتا ہے کہ وہ آگے آئے اور اتحاد و اتفاق و اخوت اور بھائی چارگی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں، اگر مسلمانوں میں اتحاد ہو گا تو سامراجی قوتیں ہر حال میں ناکام ہو جائیں گی۔
ہم اسی لئے بار بار اتحاد کے حوالے سے کانفرنسز و سیمینارز کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ ملت میں بھائی چارہ اور تقریب قائم کی جا سکے اور مسلمان اپنے مشترکہ مسائل میں آگے بڑھیں اور دشمن کو بےنقاب کیا جاسکے، ہم نے اس سلسلے میں گروپ ڈسکشن کا اہتمام بھی کیا اور پروگرامز منعقد کئے، ہمیں دوریاں مٹانی ہونگی اور جو نفرتوں کی دیواریں ہمارے درمیان کھڑی کی گئی ہیں انہیں منہدم کرنے کی ضرورت ہے، عبور کرنے کی ضرورت ہے، غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے یہ سب آپسی روابط سے ہی ممکن ہو سکتا ہے، یہاں کشمیر میں لوگوں کو ایک غلط فہمی یہ کرائی گئی تھی کہ میر شمس الدین اراکی اور ولی کامل مخدوم صاحب کے درمیان آپسی تضاد و لڑائی ہوئی تھی ہم نے شیعہ و سنی علماء کے ساتھ جگہ جگہ جا کر اور دونوں مقدس زیارت گاہوں پر جا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میر شمس الدین اراکی کا دور الگ تھا اور جناب مخدوم صاحب کا زمانہ اور تھا، ان دونوں کا دور ایک دوسرے سے الگ تھا تو تضاد کا تصور کہاں سے پیدا ہوتا ہے، ہم نے ساتھ نماز پڑھ کر کہنا چاہا کہ یہ جو غلط افواہیں اور غلط بیانی ہو چکی ہے اس کی رد و اصلاح ضروری ہے اور ہم تمام آپس میں ایک ہیں۔
اتحاد کے حوالے سے لوگوں کا رجحان اور زمینی صورتحال کے بارے میں جاننا چاہیں گے کیا یہاں اتحاد کے حوالے سے زمین ہموار ہے۔؟
جموں و کشمیر میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے صورتحال خوش آئند اور ہموار ہے لیکن بعض ایجنسیاں یہاں فعال ہیں جو اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں، ہماری اتحاد کوششوں سے یہ ایجنسیاں بھوکھلا گئی ہیں اسی لئے وہ طرح طرح کی سازشیں اور شیطانی منصوبے عمل میں لاتے ہیں جس کہ وہ سے یہاں کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے، لوگوں کا رجحان مثبت ہے زمین ہموار ہے، صرف ذی حس افراد کو کام کرنے کی ضرورت ہے اور کام ہو بھی رہا ہے، ہم نے جس پلیٹ فارم پر لوگوں کو اور خاص کر علماء کرام کو مدعو کیا وہ آئے اور انہوں نے مکمل تعاون فراہم کیا، سید عبدالحسین موسوی بھی ہمارے کہنے پر پیش پیش رہے اور مفتی اعظم مفتی بشیر الدین صاحب بھی آگے آگے ہوتے ہیں اس کے علاوہ بھی جو جموں و کشمیر کے جید، مخلص اور بےباک علماء کرام ہیں ہم اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے انکی خدمات بھی حاصل کر رہے ہیں تاکہ اتحاد و آپسی اخوت کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، رجحان مثبت ہے، انشاءاللہ ہم یہاں اپنے اس قرآنی مقصد میں کامیابی ہو جائیں گے اور دشمن کو ہر حال میں شکست سے ہمکنار کریں گے۔
کشمیر کو تاریخی لحاظ سے اپنا ایک خاص مقام حاصل ہے کیوں یہاں بھی اتحاد دشمن عناصر موجود ہیں یا پنپ رہے ہیں۔؟
جھوٹ کے پاؤں کہاں؟ جھوٹ ہمیشہ خفیہ طریقے سے چلایا جاتا ہے اور یہ زیادہ دیر چلنے والی چیز نہیں ہوتی ہے، جھوٹے شخص کے پاس یہ ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ سامنے آ کر مقابلہ کرے اور بات کرے، شرپسند عناصر جو بھی کارروائیاں کرتے ہیں وہ خفیہ طریقے سے کرتے ہیں اور کھل کر سامنے نہیں آتے ہیں وہ معمولی چیزوں کا ایشو بنا کر لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کا دشمن بناتے ہیں، لڑواتے ہیں اور قتل و غارت تک بات پہنچتی ہے، لیکن ان عناصر کی پشت پر بڑے ہاتھ ہوتے ہیں جو انہیں ہر قسم کی مدد و معاونت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں، کشمیر کو تاریخی اہمیت و منزلت حاصل ہے اور ایک خاص مقام اس سرزمین کو حاصل ہے یہ سرزمین امن و آشتی اور بھائی چارگی کا گہوارہ رہا ہے، یہاں صرف مسلمانوں میں آپیس اخوت و برابری نہیں پائی جاتی ہے بلکہ یہاں پنڈت، ہندو اور سکھ بھی رہتے ہیں، مسلمانوں نے کبھی انہیں شکایت کا موقعہ نہیں دیا انکے حقوق کبھی پائمال نہیں کئے گئے، انکے ساتھ بھی مساوات سے کام لیا گیا ہے، جو اسلام کی تعلیمات ہے، ایران و عراق سے جو صوفیان کرام یہاں تشریف لائے انہوں نے ہمیشہ آپیس اخوت و بھائی چارگی کا درس دیا ہے، ہمیشہ محبت کا پیغام دیا ہے، لیکن ایسے شیطانی عناصر ہر جگہ ہوتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں وہی یہاں کی مقدس فضا کو کبھی خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر ہم متحد ہو جائیں تو انہیں شکست سے دوچار ہونا ہی ہے۔
عالمی سطح پر مسلمانوں کی حالت شرمناک و قابل افسوس ہے، کیوں مسلم حکمران اسلام مخالف مہم کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔؟
جب ہم عالمی سطح پر دیکھتے ہیں تو مسلمانوں کو قومیت و وطنیت کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے، دراصل ہماری بنیاد کلمہ لا الہ الا اللہ پر ہے لیکن ہمارے اوپر وطنی قومیت حاوی ہو چکی ہے، مسلم حکمران وطنی قومیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور وہ ملی فوائد کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں اور امت کے مسائل کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں، دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب اسی کے نتیجے میں ہو رہا ہے، پاکستان، عراق اور افغانستان میں جو واقعات پیش آتے ہیں اس کے درپردہ یہی قومیت و شیطنت کا مسئلہ عیاں ہے، راہ حل یہی ہے کہ مسلمانوں کو کلمہ لا الہ الا اللہ پر متفق ہونا چاہیئے اور تقسیم در تقسیم کا شکار مسلمانوں کو نہیں ہونا چاہیئے۔
امریکہ، اسرائیل اور انکے ایجنٹوں کی بھینٹ چڑھنے سے بچنے کے لئے مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیئے۔؟
دیکھئے میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ہمارے ذمہ جو مسائل ہیں اور انہیں حل کرنے میں سنجیدہ ہیں اور اسلام کے تئیں مخلص ہیں اور دین محمدی (ص) کی ترویج و تبلیغ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویئے میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے اس وقت ہمارے حکمران سامراجی قوتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور ٹکرانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور بہت ذرائع مع پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں، جب مولوی بک جاتے ہیں تو وہ فرقہ وارانہ فسادات اور آپسی منافرت پھیلانے میں مصروف ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ جب تک مسلمان متحد نہیں ہوتے ہیں اور مسلمان اپنے اپنے طریقہ کار کو بدل نہیں دیتے ہیں تب تک مسلمانوں کے حالات نہیں بدلیں گے اور مسلمانوں کو اپنے بنیادی نکتے کلمہ لا الہ الا اللہ پر متحد و متفق ہونا چاہیئے، فروعی اختلافات و مسائل میں نہیں الجھنا چاہیئے اور جو مسائل و شبہات ہمارے درمیان ہیں انہیں مل بیٹھ کر دور کیا جا سکتا ہے، علمی اختلافات عام لوگوں تک نہیں پہنچنے چاہیئں، ان علمی اختلافات کو ہمیں عام لوگوں پر نہیں ڈالنا چاہیئے۔ جو یہ نفرتیں شیعہ و سنی کے خلاف پھیلائی جا رہی ہیں اس کے پیچھے سامراجی قوتوں کے ڈالرز بھی کارفرما ہیں اور علماء سوء کی غلطیاں بھی، ہمارے بعض حکمران بھی مغربی سازشوں میں برابر کے شریک ہیں، بعض اسلامی ممالک میں ابھی بھی شہنشائیت کا نظام ہے، ظلم و بربریت و تسلط و بالادستی کی حکومت ہے وہ حکمران استعماری قوتوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے لئے سم قاتل ثابت ہو رہے ہیں۔
تعلیم کا ہونا اتحاد بین المسلمین میں کیا درجہ رکھتی ہے۔؟
تعلیم کو سماجی بدلاؤ کا ذریعہ مانا جاتا ہے، تعلیم کے ذریعے سے سماج میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، بدقسمتی سے جتنا پیسہ ہمیں لڑوانے اور دور کرنے پر خرچ کیا جا رہا ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم ایک بہت بڑا کام انجام دے سکیں، اپنے محدود وسائل کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں تعلیمی، اتحادی، برابری اور ترقی و تعمیری میدان میں کام کرنا چاہیئے، ہم نے اس سلسلے میں اپنے علاقے میں کسی حد تک کام کیا ہے اور آپسی منافرت مٹانے کی کوشش کی، جامع مسجد بیروہ میں شیعہ و سنی سب مل کر نماز یومیہ اور نماز جمعہ ادا کرتے ہیں ہم یہاں ملکر یوم القدس مناتے ہیں اور ہر ایک خوشی و غم میں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، ہمارے یہاں آپس میں کسی قسم کی دوریاں نہیں ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ جامع مسجد بیروہ کی طرح ہی جموں و کشمیر کے تمام مساجد میں مسلمانوں کو نماز ایک ساتھ ادا کرنی چاہیئے، یعنی کم سے کم ہمیں نماز میں ایک ساتھ جمع ہونا چاہیئے اور نماز پر متفق ہونا چاہیئے۔
صالح قیادت کا ہونا، ایسی قیادت جو تمام مسلمانوں کو اتحاد کی جانب مائل کر سکتی ہے۔؟
صالح اور نیک قیادت بہت ضروری ہے ایک قوم و ملت کو آگے لے جانے کے لئے قیادت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا، جس طرح ملت میں اتحاد کی ضرورت ہے اس سے پہلے ملت کو صالح قیادت کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری ملت انتشار قیادت کی شکار ہے، ہمارے پاس ایک نہیں ہر چوراہے پر اور ہر ایک موڑ پر لیڈر موجود ہے، اور ہر خود ساختہ لیڈر ملت کو نئی نئی راہیں دکھاتا ہے کوئی ملت کو کہیں لے جاتا ہے تو کوئی کہیں، کوئی اس طرح تو کوئی اُس طرح، تمام مسلمانوں کو اس بارے میں بھی سوچنا چاہیئے کہ عالمی سطح کی ایک نیک و صالح قیادت ان کو میسر ہوجانی چاہیئے تھی، جس کی رہنمائی میں ہم آگے بڑھ سکتے اور اپنے مشترکہ معاملات کے لئے کوشش کرتے۔
اسلامی تعلیمات پر عمل پیروی سے کتنا ممکن ہے کہ ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ سکیں۔؟
اسلام میں اتنی طاقت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے ذریعے دنیا کو فتح کرسکتے ہیں، اسلام ناب کی عمل آوری میں ہی مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل موجود و ممکن ہے لیکن افسوس ہے کہ ہم دنیا کی تاریخ میں ہزارہا سال تعلیمی و تحقیقی و اجتہادی اور ترقی کے میدان میں پچھڑ چکے ہیں اس معاملہ میں مغربی ممالک ہم سے سبقت لے گئے اور ہمیں اپنا درویزہ گر بنا دیا، ہمارے نبی اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے یعنی دینے ولا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے، پہلے ہم دینے والوں میں سے تھے اب ہم لینے والے ہو گئے ہیں، اگر ہمیں ٹیکنالوجی، تعلیم و ترقی کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمیں مغرب سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور ایک بات یہ ہے کہ آج دنیا میں جتنے بھی وسائل و ریسورسز ہیں تقریباً 50 فی صد مسلمانوں کے پاس ہیں اور اگر ہمارے پاس کوئی صلاحیت اور ٹیلنٹ ہوتا بھی ہے وہ بھی امریکہ کے کام آتا ہے، یعنی ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو امریکہ اپنی جانب مائل کرتا ہے اور وہ نوجوان وہاں اپنا کام شروع کرتے ہیں، اور ہم ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں، ایک پروگرام وہ چلاتے ہیں ٹیلنٹ ہنٹ کا، اس کے ذریعے جہاں بھی کوئی با صلاحیت و جینئیس فرد ہوتا ہے اسکو وہ اٹھا کر لے جاتے ہیں، اگرچہ دنیا میں دوسرے نمبر پر مسلمانوں کی آبادی ہے اور بہت سارے وسائل ہمارے پاس ہیں، صلاحیت ہمارے پاس ہے، قدرتی ذرائع ہمارے پاس ہیں اسلئے ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیئے۔
ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں صرف بند کمروں تک اسلام محدود نہیں کرنا چاہیئے، ہمیں مغرب میں رہ رہے عام شہریوں تک اسلام کی تعلیمات پہنچانی ہونگی، اسلامی تعلیمات سے ہی ہم انہیں فتح کرسکتے ہیں اور انکے دل جیت سکتے ہیں، اسلام مغلوب ہونے کے لئے نہیں بلکہ غالب ہونے کے لئے آیا ہے، ہمیں اسلام کے تمام نئے و خرافاتی ایڈیشنز کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، بنیادی، اصلی اور خالص دین محمدی (ص) کی تبلیغ و ترویج کے لئے میدان کا رخ کرنا ہو گا، ہمیں قرآن کو بطور دستور تسلیم کرکے پیش کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں دنیا بھر میں خالص دین کو پہنچانے کی اشد ضرورت ہے، فروعی مسائل کو گھر میں قید کرکے بنیادی و اصولی احکامات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
آج پاکستان کے مختلف شہروں میں شیعہ مسلمانوں نے مظاہرے کرکے، پارا چنار کے عوام پر تکفیری دہشت گردوں کے تازہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور فوج سے اس حملے کے عوامل ...